ابراہیم علیہ السلام علامت توحیدی پرستی تمام موحدوں کے باپ اللہ کے بندے اور رسول اور خلیل حضرت ابراہیم علیہ افضل التحیۃ والتسلیم کا واقعہ بیان ہو رہا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ اپنی امت کو یہ واقعہ سنادیں ۔ تاکہ وہ اخلاص توکل اور اللہ واحد کی عبادت اور شرک اور مشرکین سے بیزاری میں آپ کی اقتدا کریں ۔ آپ اول دن سے اللہ کی توحید پر قائم تھے اور آخر دن تک اسی توحید پر جمے رہے ۔ اپنی قوم سے اور اپنے باپ سے فرمایا کہ یہ بت پرستی کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو پرانے وقت سے ان بتوں کی مجاوری اور عبادت کرتے چلے آتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انکی اس غلطی کو ان پر وضح کرکے ان کی غلط روش بےنقاب کرنے کے لئے ایک بات اور بھی بیان فرمائی کہ تم جو ان سے دعائیں کرتے ہو اور دور نزدیک سے انہیں پکارتے ہو تو کیا یہ تمہاری پکار سنتے ہیں؟ یا جس نفع کے حاصل کرنے کے لئے تم انہیں بلاتے ہو وہ نفع تمہیں وہ پہنچاسکتے ہیں؟ یا اگر تم انکی عبادت چھوڑ دو تو کیا وہ تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ اس کا جواب جو قوم کی جانب سے ملا وہ صاف ظاہر ہے کہ انکے معبود ان کاموں میں سے کسی کام کو نہیں کرسکتے ۔ انہوں نے صاف کہا کہ ہم تو اپنے بڑوں کی وجہ سے بت پرستی پر جمے ہوئے ہیں ۔ اس کے جواب میں حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے ان سے اور ان کے معبودان باطلہ سے اپنی برات اور بیزاری کا اعلان کردیا ۔ صاف فرمادیا کہ تم اور تمہارے معبود سے میں بیزار ہوں ، جن کی تم اور تمہارے باپ دادا پرستش کرتے رہے ۔ ان سب سے میں بیزار ہوں وہ سب میرے دشمن ہیں میں صرف سچے رب العلمین کا پرستار ہوں ۔ میں موحد مخلص ہوں ۔ جاؤ تم سے اور تمہارے معبودوں سے جو ہوسکے کر لو ۔ حضرت نوح نبی علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے یہی فرمایا تھا تم اور تمہارے سارے معبود مل کر اگر میرا کچھ بگاڑ سکتے ہوں تو کمی نہ کرو ۔ حضرت ہود علیہ السلام نے بھی فرمایا تھا میں تم سے اور تمہارے اللہ کے سوا باقی معبودوں سے بیزار ہوں تم سب اگر مجھے نقصان پہنچا سکتے ہو تو جاؤ پہنچالو ۔ میرا بھروسہ اپنے رب کی ذات پر ہے تمام جاندار اسکے ماتحت ہیں وہ سیدھی راہ والا ہے اسی طرح خلیل الرحمن علیہ صلوات الرحمن نے فرمایا کہ میں تمہارے معبودوں سے بالکل نہیں ڈرتا ۔ ڈر تو تمہیں میرے رب سے رکھنا چاہئے ۔ جو سچا ہے آپ نے اعلان کردیا تھا کہ جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ مجھ میں تم میں عداوت ہے ۔ میں اے باپ تجھ سے اور تیری قوم سے اور تیرے معبودوں سے بری ہوں ۔ صرف اپنے رب سے میری آرزو ہے کہ وہ مجھے راہ راست دکھلائے اسی کو یعنی لا الہ الا اللہ کو انہوں نے کلمہ بنالیا ۔
[٤٨] حضرت ابراہیم کا قصہ قریش مکہ سے گہری مناسب رکھتا ہے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم کا پیروکار ہونے کا دعویٰ رکھتے تھے۔ حضرت ابراہیم وہ ہستی ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی شرک کے خلاف جہاد میں گزاری اور اس راہ میں آنے والی ہر مصیبت کو بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ جبکہ قریش مکہ اپنے اس اتباع ابراہیمی کے دعویٰ کے باوجود سر سے پاؤں تک شرک میں ڈوبے ہوئے تھے۔ انھیں یہ اعتراف بھی تھا کہ حضرت ابراہیم خالصتؤہ توحید پرست اور شرک سے سخت بیزار تھے اور یہ بھی اعتراف تھا کہ عرب میں شرکیہ رسوم حضرت ابراہیم کی وفات کے صدیوں بعد رائج ہوئیں۔- حضرت ابراہیم کی قوم بھی سر تا پا شرک میں مبتلا تھی۔ دوسروں کا کیا ذکر آپکا باپ آزر نمرود کے دربار میں شاہی مہنت تھا۔ وہ خو بت تراش بھی تھا اور بت فروش بھی۔ اس کا ذریعہ معاشی بھی بت گری اور بت فروشی تھا۔ اور جاہ و منصب بھی اسے اسی وجہ سے حاصل ہوا۔ ایسے باپ کے گھر اور ایسے ماحول میں حضرت ابراہیم پیدا ہو وے۔ نبوت عطا ہوئی تو سب سے پہلے اپنے باپ کو ہی سمجھانا شروع کیا اور پھر اس کے بعد دوسرے لوگوں کو اپنے آپ اور اپنی قوم سے ان کا پہلا سوال ہی یہ تھا کہ ان پتھر کے بتوں اور مورتیوں میں کیا خصوصیت ہے تو جو تم ان کی پوجا کرتے ہو۔ آخر تم ان کو کیا سمجھ کر ان کی پوجا کرتے ہو اور ان کی نذریں نیازیں دیتے ہو ؟
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِيْمَ : سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شدت غم کا ذکر فرمایا، جو آپ کو اپنی قوم کے ایمان نہ لانے پر لاحق ہوئی تھی۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کا بیان فرمایا، تاکہ آپ کو تسلی ہو اور آپ کو یاد رہے کہ نہ آپ پہلے رسول ہیں اور نہ ہی آپ کی قوم جھٹلانے میں پہلی ہے، بلکہ موسیٰ (علیہ السلام) کے عظیم الشان معجزے لے کر آنے کے باوجود قبطیوں کے بہت ہی کم لوگ ان پر ایمان لائے۔ اس کے بعد ابو الانبیاء ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا جو خلیل اللہ کے بلند منصب پر فائز تھے، تاکہ آپ کے سامنے وہ شخصیت بھی رہے جس کا غم بھی بےانتہا تھا، کیونکہ وہ اپنے باپ اور اپنی قوم کو آگ میں جاتے ہوئے دیکھتا تھا، مگر انھیں اس سے بچا نہ سکتا تھا۔ اس نے انھیں ہر طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی، حتیٰ کہ دلیل کے ساتھ انھیں بالکل لاجواب کردیا، مگر انھوں نے نہیں مانا، بلکہ آباء کی تقلید ہی پر جمے رہے۔ فرمایا : ” اور ان (مشرکین مکہ) کے سامنے ابراہیم (علیہ السلام) کی عظیم خبر بھی پڑھ۔ “
خلاصہ تفسیر - اور آپ ان لوگوں کے سامنے ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیجئے (تاکہ ان کو شرک کی مذمت کے دلائل معلوم ہوں، خصوص ابراہیم (علیہ السلام) سے منقول ہو کر، کیونکہ یہ مشرکین عرب اپنے کو ملت ابراہیمیہ پر بتلاتے ہیں اور وہ قصہ اس وقت ہوا تھا، جبکہ انہوں نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے (جو کہ بت پرست تھی) فرمایا کہ تم کس (واہیات) چیز کی عبادت کیا کرتے ہو، انہوں نے کہا ہم بتوں کی عبادت کیا کرتے ہیں اور ہم انہی (کی عبادت) پر جمے بیٹھے رہتے ہیں، ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ تمہاری سنتے ہیں جب تم ان کو (اپنی عرض حاجت کے وقت) پکارا کرتے ہو یا (تم جو ان کی عبادت کرتے ہو تو کیا) یہ تم کو کچھ نفع پہنچاتے ہیں یا (اگر تم ان کی عبادت ترک کردو تو کیا) یہ تم کو کچھ ضرر پہنچا سکتے ہیں (یعنی استحقاق الوہیت کے لئے علم اور قدرت کاملہ تو ضروری ہے ان لوگوں نے کہا نہیں (یہ بات تو نہیں ہے کہ یہ کچھ سنتے ہوں یا نفع و ضرر پہنچا سکتے ہوں اور ان کی عبادت کرنے کی یہ وجہ نہیں، بلکہ ہم نے اپنے بڑوں کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے (اس لئے ہم بھی وہی کرتے ہیں) ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بھلا تم نے ان (کی حالت) کو (غور سے) دیکھا بھی جن کی تم عبادت کیا کرتے ہو تم بھی اور تمہارے پرانے بڑے بھی کہ یہ (معبودین) میرے (یعنی تمہارے لئے) باعث ضرر ہیں (یعنی اگر ان کی عبادت کی جاوے خواہ نعوذ باللہ میں کروں یا تم کرو تو بجز ضرر کے اور کوئی نتیجہ نہیں) مگر ہاں رب العالمین (ایسا ہے کہ وہ اپنے عابدین کا دوست ہے اور اس کی عبادت سرتا سر نافع ہے) جس نے مجھ کو (اور اسی طرح سب کو) پیدا کیا، پھر وہی مجھ کو (میری مصلحتوں تک) رہنمائی کرتا ہے (یعنی عقل و فہم دیتا ہے جس سے نفع و ضرر کو سمجھتا ہوں) اور جو مجھ کو کھلاتا پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہوجاتا ہوں (جس کے بعد شفاء ہوجاتی ہے) تو وہی مجھ کو شفا دیتا ہے اور جو مجھ کو (وقت پر) موت دے گا پھر (قیامت کے روز) مجھ کو زندہ کرے گا اور جس سے مجھ کو یہ امید ہے کہ میری غلط کاری کو قیامت کے روز معاف کر دے گا ( یہ تمام تر صفات اس لئے سنائیں کہ قوم کو خدا تعالیٰ کی عبادت کی رغبت ہو پھر صفات کمال بیان فرماتے فرماتے غلبہ حضور سے حق تعالیٰ سے مناجات کرنے لگے کہ) اے میرے پروردگار مجھ کو حکمت (یعنی جامعیت بین العلم والعمل میں زیادہ کمال) عطا فرما (کیونکہ نفس حکمت تو وقت دعا کے بھی حاصل ہے اور (مراتب قرب میں) مجھ کو (اعلی درجہ کے) نیک لوگوں کے ساتھ شامل فرما (مراد انبیاء عالیشان ہیں) اور میرا ذکر آئندہ آنے والوں میں جاری رکھ (تاکہ میرے طریقہ پر چلیں جس میں مجھ کو زیادہ ثواب ملے) اور مجھ کو جنت النعیم کے مستحقین میں سے کر اور میرے باپ (کو توفیق ایمان کی دے کر اس) کی مغفرت فرما کہ وہ گمراہ لوگوں میں ہے اور جس روز سب زندہ ہو کر اٹھیں گے اس روز مجھ کو رسوا نہ کرنا۔ آگے اس دن کے بعض واقعات ہائلہ کا بھی ذکر فرما دیا تاکہ قوم سنے اور ڈرے یعنی وہ ایسا دن ہوگا) جس دن میں کہ (نجات کے لئے) نہ مال کام آوے گا نہ اولاد مگر ہاں (اس کو نجات ہوگی) جو اللہ کے پاس (کفر و شرک سے) پاک دل لے کر آوے گا اور (اس روز) خدا ترسوں (یعنی ایمان والوں) کے لئے جنت نزدیک کردی جاوے گی (کہ اس کو دیکھیں اور یہ معلوم کر کے کہ ہم اس میں جاویں گے خوش ہوں) اور ان گمراہوں (یعنی کافروں) کے لئے دوزخ سامنے ظاہر کی جاوے گی (کہ اس کو دیکھ کر غمزدہ ہوں کہ ہم اس میں جاویں گے) اور (اس روز) ان (گمراہوں) سے کہا جاوے گا کہ وہ معبود کہاں گئے جن کی تم خدا کے سوا عبادت کیا کرتے تھے کیا (اس وقت) وہ تمہارا ساتھ دے سکتے ہیں یا اپنا ہی بچاؤ کرسکتے ہیں پھر (یہ کہہ کر) وہ (عابدین) اور گمراہ لوگ اور ابلیس کا لشکر سب کے سب دوزخ میں اوندھے منہ ڈال دیئے جاویں گے (بس وہ بت اور شیاطین نہ اپنے کو بچا سکے نہ اپنے عابدین کو) وہ کافر اس دوزخ میں گفتگو کرتے ہوئے (ان معبودین سے) کہیں گے کہ بخدا بیشک ہم صریح گمراہی میں تھے جبکہ تم کو (عبادت میں) رب العالمین کے برابر کرتے تھے اور ہم کو تو بس ان بڑے مجرموں نے (جو کہ بانی ضلالت تھے) گمراہ کیا سو (اب) نہ کوئی ہمارا سفارشی ہے (کہ چھڑا لے) اور نہ کوئی مخلص دوست (کہ خالی دلسوزی ہی کرلے) سو کیا اچھا ہوتا کہ ہم کو (دنیا میں) پھر واپس جانا ملتا کہ ہم مسلمان ہوجاتے (یہاں تک ابراہیم (علیہ السلام) کی تقریر ہوگئی آگے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ) بیشک اس واقعہ (مناظرہ ابراہیمیہ و نیز واقعہ قیامت) میں (بھی طالبان حق اور انجام اندیشوں کے لئے) ایک عبرت ہے (کہ مضامین مناظرہ میں غور کر کے توحید کا اعتقاد کریں اور واقعات قیامت سے ڈریں اور ایمان لاویں) اور (باوجود اس کے) ان (مشرکین مکہ) میں اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے بیشک آپ کا رب بڑا زبردست رحمت والا ہے (کہ عذاب دے سکتا ہے مگر مہلت دے رکھی ہے۔ )
وَاتْلُ عَلَيْہِمْ نَبَاَ اِبْرٰہِيْمَ ٦٩ۘ- تلو - تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] - ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے
(٦٩) اور آپ اپنی قوم یعنی قریش کے سامنے حضرت ابرہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیجیے۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :50 یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات طیبہ کے اس دور کا قصہ بیان ہوا ہے جبکہ نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد شرک و توحید کے مسئلے پر آپ کی اپنے خاندان اور اپنی قوم سے کشمکش شروع ہوئی تھی ۔ اس دور کی تاریخ کے مختلف گوشے قرآن مجید میں حسب ذیل مقامات پر بیان ہوئے ہیں : البقرہ رکوع 35 ۔ الانعام رکوع 9 ۔ مریم رکوع 3 ۔ الانبیاء رکوع 5 ۔ الصّٰفّٰت رکوع 3 ۔ الممتحنہ رکوع 1 ) ۔ سیرت ابراہیمی کے اس دور کی تاریخ خاص طور پر جس وجہ سے قرآن مجید بار بار سامنے لاتا ہے وہ یہ ہے کہ عرب کے لوگ بالعموم اور قریش بالخصوص اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا پیرو سمجھتے اور کہتے تھے اور یہ دعویٰ رکھتے تھے کہ ملت ابراہیمی ہی ان کا مذہب ہے ۔ مشرکین عرب کے علاوہ نصاریٰ اور یہود کا بھی یہ دعویٰ تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے دین کے پیشوا ہیں ۔ اس پر قرآن مجید جگہ جگہ ان لوگوں کو متنبہ کرتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام جو دین لے کر آئے تھے وہ یہی خالص اسلام تھا جسے نبی عربی محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اور جس سے آج تم لوگ برسر پیکار ہو ۔ وہ مشرک نہ تھے بلکہ ان کی ساری لڑائی شرک ہی کے خلاف تھی اور اسی لڑائی کی بدولت انہیں اپنے باپ ، خاندان ، قوم ، وطن سب کو چھوڑ کر شام و فلسطین اور حجاز میں غریب الوطنی کی زندگی بسر کرنی پڑی تھی ۔ اسی طرح وہ یہودی و نصرانی بھی نہ تھے بلکہ یہودیت و نصرانیت تو ان کے صدیوں بعد وجود میں آئیں ۔ اس تاریخی استدلال کا کوئی جواب نہ مشرکین کے پاس تھا نہ یہود و نصاریٰ کے پاس ، کیونکہ مشرکین کو بھی یہ تسلیم تھا کہ عرب میں بتوں کی پرستش حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کئی صدی بعد شروع ہوئی تھی ، اور یہود و نصاریٰ بھی اس سے انکار نہ کر سکتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ یہودیت اور عیسائیت کی پیدائش سے بہت پہلے تھا ۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ جن مخصوص عقائد اور اعمال پر یہ لوگ اپنے دین کا مدار رکھتے ہیں وہ اس دین قدیم کے اجزاء نہیں ہیں جو ابتدا سے چلا آ رہا تھا ، اور صحیح دین وہی ہے جو ان آمیزشوں سے پاک ہو کر خالص خدا پرستی پر مبنی ہو ۔ اسی بنیاد پر قرآن کہتا ہے : مَا کَانَ اِبْرَاھِیْمُ یَھُوْدِیاً وَّ لَا نَصْرَانِیاً وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفاً مُّسْلِماً وَّ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ہ اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰھِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَھٰذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیْنَ اٰمِنُوْا مَعَہٗ ۔ ( آل عمران ۔ آیات 67 ۔ 68 ) ۔ ابراہیم نہ یہودی تھا نہ عیسائی بلکہ وہ تو ایک مسلم یکسو تھا ۔ اور وہ مشرکوں میں سے بھی نہ تھا ۔ درحقیقت ابراہیم علیہ السلام سے نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق ان ہی لوگوں کو پہنچتا ہے جنہوں نے اس کے طریقے کی پیروی کی ( اور اب یہ حق ) اس نبی اور اس کے ساتھ ایمان لانے والوں کو ( پہنچتا ہے ) ۔