اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ وَقَوْمِهٖ مَا تَعْبُدُوْنَ : یہ سوال کہ تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو، پوچھنے کے لیے نہیں تھا، کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) جانتے تھے کہ وہ بت پوجتے ہیں، بلکہ بت پرستی پر غور و فکر کی دعوت دینے کے لیے تھا، کیونکہ اپنا موقف خود بیان کرتے وقت اس کی کمزوریاں انسان کے سامنے اس سے کہیں زیادہ آتی ہیں کہ کوئی دوسرا اسے بیان کرے۔
اِذْ قَالَ لِاَبِيْہِ وَقَوْمِہٖ مَا تَعْبُدُوْنَ ٧٠- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔
(٧٠) جب کہ انہوں نے اپنے باپ آزر اور اپنی قوم سے جو کہ بت پرست تھے فرمایا کہ تم کس بیہودہ چیز کی عبادت کیا کرتے ہو۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :51 حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس سوال کا مدعا یہ معلوم کرنا نہ تھا کہ وہ کن چیزوں کی عبادت کرتے ہیں ، کیونکہ ان بتوں کو تو وہ خود بھی دیکھ رہے تھے جن کی پرستش وہاں ہوتی تھی ۔ ان کا مدعا دراصل ان لوگوں کو اس طرف متوجہ کرنا تھا کہ ان معبودوں کی حقیقت کیا ہے جن کے آگے وہ سجدہ ریز ہوتے ہیں ۔ اسی سوال کو سورہ انبیاء میں بایں الفاظ نقل کیا گیا ہے ۔ یہ کیسی مورتیں ہیں جن کے تم گرویدہ ہو رہے ہو ؟