7 1 1یعنی رات دن ان کی عبادت کرتے ہیں۔
[٤٩] لوگوں نے جواب میں کہا کہ تم نے ان سے متعلق نہایت حقارت کے لہمہ میں یہ سوال کیا ہے۔ حالانکہ ہمارے نزدیک یہ انتہائی قابل احترام چیزیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم عجز و نیاز سے سر جھکائے ان کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں۔- پہلے یہ بتلایا جاچکا ہے کہ حضرت ابراہیم کی قوم حقیقتاً ستارہ پرست تھی۔ اور وہ سیاروں کے انسانی زندگی پر اثرات کے شدت سے قائل تھے۔ انہوں نے ہر سیارہ کی روح کی ایک تصویر اپنے ذہن میں طے کر رکھی تھی پھر اسی تصویر کے مطابق ان کے مجسمے یا بت بنائے جاتے تھے۔ مثلاً کوئی سورج دیوتا کا مجسمہ تھا تو کوئی چاند دیوی کا۔ اور ان کا عقیدہ یہ تھا کہ جس سیارہ کا وہ مجسمہ ہو اس سیارہ کی روح کا اس سے خاص تعلق ہوتا ہے۔ اور اگر ان بتوں کی پوجا پاٹ کریں گے تو سیاروں کے غضب اور ان کے مضر اثرات سے محفوظ رہیں گے۔ اور یہ سب کچھ ان کا وہم و قیاس ہی تھا۔ جس کے لئے کوئی دلیل ان کے پاس نہیں تھی۔
قَالُوْا نَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عٰكِفِيْنَ :” اَصْنَامًا “ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے۔ دن بھر کام کرنے کو ” ظَلَّ یَظَلُّ “ اور رات بھر کام کرنے کو ” بَاتَ یَبِیْتُ “ کہتے ہیں۔ ” ظَلَّ یَظَلُّ “ کسی وقت کسی کام میں مصروف ہونے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ ” عٰكِفِيْنَ “ اعتکاف کہتے ہیں کسی جگہ جم کر بیٹھے رہنا یعنی مجاوری۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے سوال کے جواب میں اتنا کہنا ہی کافی تھا کہ ” اَصْنَامًا “ (بتوں کی) مگر انھوں نے فخر کے لیے کہا کہ ہم عظیم بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔ ” لَھَا “ کو ” عٰكِفِيْنَ “ سے پہلے لانے سے تخصیص پیدا ہو رہی ہے، یعنی ہم انھی کے مجاور بنے رہتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کسی قبر پرست کو سمجھانے کے لیے کہا جائے کہ تم کس چیز کی پوجا کر رہے ہو ؟ (یعنی جس کا کوئی فائدہ نہیں) تو وہ آگے سے فخر کے ساتھ کہے کہ ہم تو فلاں دربار ہی کے مجاور ہیں۔
قَالُوْا نَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَہَا عٰكِفِيْنَ ٧١- صنم - الصَّنَمُ : جُثَّةٌ متّخذة من فضّة، أو نحاس، أو خشب، کانوا يعبدونها متقرّبين به إلى اللہ تعالی، وجمعه : أَصْنَامٌ. قال اللہ تعالی: أَتَتَّخِذُ أَصْناماً آلِهَةً [ الأنعام 74] ، لَأَكِيدَنَّ أَصْنامَكُمْ- [ الأنبیاء 57] ، قال بعض الحکماء : كلّ ما عبد من دون الله، بل کلّ ما يشغل عن اللہ تعالیٰ يقال له : صَنَمٌ ، وعلی هذا الوجه قال إبراهيم صلوات اللہ عليه : اجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم 35] ، فمعلوم أنّ إبراهيم مع تحقّقه بمعرفة اللہ تعالی، واطّلاعه علی حکمته لم يكن ممّن يخاف أن يعود إلى عبادة تلک الجثث التي کانوا يعبدونها، فكأنّه قال : اجنبني عن الاشتغال بما يصرفني عنك .- ( ص ن م ) الصنم - کے معنی بت کے ہیں جو کہ چاندی پیتل یا لکڑی وغیرہ کا بنا ہوا ہو ۔ عرب لوگ ان چیزوں کے مجم سے بناکر ( ان کی پوچا کرتے اور انہیں تقرب الہیٰ کا ذریعہ سمجھتے تھے صنم کی جمع اصنام آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : أَتَتَّخِذُ أَصْناماً آلِهَةً [ الأنعام 74] کہ تم بتوں کو کیوں معبود بناتے ہو۔ لَأَكِيدَنَّ أَصْنامَكُمْ [ الأنبیاء 57] میں تمہارے بتوں سے ایک چال چلو نگا ۔ بعض حکماء نے کہا ہے کہ ہر وہ چیز جسے خدا کے سوا پوجا جائے بلکہ ہر وہ چیز جو انسان کو خدا تعالیٰ سے بیگانہ بنادے اور اس کی توجہ کو کسی دوسری جانب منعطف کردے صنم کہلاتی ہے چناچہ ابراہیم اعلیہ السلام نے دعا مانگی تھی کہ : اجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم 35] بازرکھنا کہ ہم اصنام کی پرستش اختیار کریں ۔ تو اس سے بھی واپسی چیزوں کی پرستش مراد ہے کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو معرفت الہی کے تحقق ر اور اسکی حکمت پر مطلع ہونے کے بعد یہ اندیشہ نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ اور ان کی اولاد بت پرستی شروع کردے گی ۔- ظلل - الظِّلُّ : ضدُّ الضَّحِّ ، وهو أعمُّ من الفیء، فإنه يقال : ظِلُّ اللّيلِ ، وظِلُّ الجنّةِ ، ويقال لكلّ موضع لم تصل إليه الشّمس : ظِلٌّ ، ولا يقال الفیءُ إلّا لما زال عنه الشمس، ويعبّر بِالظِّلِّ عن العزّة والمنعة، وعن الرّفاهة، قال تعالی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] ، أي :- في عزّة ومناع،- ( ظ ل ل ) الظل - ۔ سایہ یہ الضح ( دهوپ ) کی ضد ہے اور فیی سے زیادہ عام ہے کیونکہ ( مجازا الظل کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دہوپ نہ پہنچنے اسے ظل کہہ دیا جاتا ہے مگر فییء صرف اس سے سایہ کو کہتے ہیں جوز وال آفتاب سے ظاہر ہو ہے اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خش حالی کو ظل سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] کے معنی یہ ہیں کہ پرہیز گار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے ۔ - عكف - العُكُوفُ : الإقبال علی الشیء وملازمته علی سبیل التّعظیم له، والاعْتِكَافُ في الشّرع : هو الاحتباس في المسجد علی سبیل القربة ويقال : عَكَفْتُهُ علی كذا، أي : حبسته عليه، لذلکقال : سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج 25] ، وَالْعاكِفِينَ [ البقرة 125] ، فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء 71] ، يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف 138] ، ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه 97] ، وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة 187] ، وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح 25] ، أي : محبوسا ممنوعا .- ( ع ک ف ) العکوف - کے معنی ہیں تعظیما کسی چیز پر متوجہ ہونا اور اس سئ وابستہ رہنا ۔ اور اصطلاح شریعت میا الاغتکاف کے معنی ہیں عبادت کی نیت سے مسجد میں رہنا اور اس سے باہر نہ نکلنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة 187] جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو ۔ سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج 25] خواہ وہ دہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے ۔ وَالْعاكِفِينَ [ البقرة 125] اور اعتکاف کرنے والوں ۔ فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء 71] اور اس کی پوجا پر قائم رہیں۔ عکفتہ علٰی کذا کسی چیز پر روک رکھنا يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف 138] یہ اپنے بتوں کی عبادت کے لئے بیٹھے رہتے تھے ۔ ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه 97] جس معبود کی پوجا پر تو قائم اور معتکف تھا ۔ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح 25] اور قربانی کے جانوروں کو بھی روک دئے گئے ہیں ۔
(٧١) انھوں نے کہا ہم ان بتوں کی جو کہ معبود ہیں عبادت کیا کرتے ہیں اور ہم ان کی عبادت پر جمے بیٹھے رہتے ہیں۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :52 یہ جواب بھی محض یہ خبر دینے کے لیے نہ تھا کہ ہم بتوں کی پوجا کرتے ہیں ، کیونکہ سائل و مسئول دونوں کے سامنے یہ امر واقعہ عیاں تھا ۔ اس جواب کی اصل روح اپنے عقیدے پر ان کا ثبات اور اطمینان تھا ۔ گویا دراصل وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہاں ، ہم بھی جانتے ہیں کہ یہ لکڑی اور پتھر کے بت ہیں جن کی ہم پوجا کر رہے ہیں ، مگر ہمارا دین و ایمان یہی ہے کہ ہم ان کی پرستش اور خدمت میں لگے رہیں ۔