7 5 1افرائیتم کے معنی ہیں فھل أبصٓرتم وتفکرتم کیا تم نے غور و فکر کیا ؟
قَالَ اَفَرَءَيْتُمْ مَّا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ ۔۔ : ” َاٰبَاۗؤُكُمُ الْاَقْدَمُوْنَ “ کے الفاظ سے ابراہیم (علیہ السلام) یہ باور کروا رہے ہیں کہ کسی دین کے حق ہونے کے لیے بس یہ دلیل کافی نہیں کہ وہ قدیم آبا و اجداد کے وقت سے چلا آ رہا ہے۔ دنیا کے کسی بھی کام میں پہلے لوگوں کی غلطی ثابت ہوجائے تو اسے فوراً چھوڑ دیتے ہو، تو کیا دین ہی اتنا بےحیثیت ہے کہ غلط جان کر بھی نسلوں کی نسلیں آنکھیں بند کرکے اس پر چلتی جائیں اور مکھی پر مکھی مارتی جائیں ؟
قَالَ اَفَرَءَيْتُمْ مَّا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ ٧٥ۙ- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔
(٧٥۔ ٧٦) حضرت ابرہیم (علیہ السلام) نے فرمایا بھلا تم نے کبھی ان کی حالت پر غور بھی کیا جن کی تم اور تمہارے آباؤ اجداد بھی عبادت کرتے ہیں میں ان تمام لوگوں سے برأت ظاہر کرتا ہوں۔