خلیل اللہ کی تعریف حضرت خلیل اللہ علیہ السلام اپنے رب کی صفتیں بیان فرماتے ہیں کہ میں تو ان اوصاف والے رب کاہی عابد ہوں ۔ اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہیں کرونگا ۔ پہلا وصف یہ کہ وہ میرا خالق ہے اسی نے اندازہ مقرر کیا ہے اور وہی مخلوقات کی اس کی طرف رہبری کرتا ہے ۔ دوسرا وصف یہ کہ وہ ہادی حقیقی ہے جسے چاہتا ہے اپنی راہ مستقیم پر چلاتا ہے جسے چاہتا ہے اسے غلط راہ پر لگا دیتا ہے ۔ تیسر وصف میرے رب کا یہ ہے کہ وہ رازق ہے آسمان وزمین کے تمام اسباب اسی نے مہیا کئے ہیں ۔ بادلوں کا اٹھانا پھیلانا ان سے بارش کا برسانا اس سے زمین کو زندہ کرنا پھر پیداوار اگانا اسی کا کام ہے ۔ وہی میٹھا اور پیاس بجھانے والا پانی ہمیں دیتا ہے اور اپنی مخلوق کو بھی غرض کھلانے پلانے والا ہی ہے ۔ ساتھ ہی بیمار تندرستی بھی اسی کے ہاتھ ہے لیکن خلیل اللہ علیہ السلام کا کمال ادب دیکھئے کہ بیماری کی نسبت تو اپنی طرف کی اور شفا کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے ۔ گو بیماری بھی اس قضا وقدر ہے اور اسی کی بنائی ہوئی چیز ہے ۔ یہی لطافت سورۃ فاتحہ کی دعا میں بھی ہے کہ انعام وہدایت کی اسناد تو اللہ عالم کی طرف کی ہے اور غضب کے فاعل کو حزف کردیا ہے اور ضلالت بندے کی طرف منسوب کردی ہے ۔ سورہ جن میں جنات کا قول بھی ملاحظہ ہوجہاں انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ زمین والی مخلوق کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے ساتھ ان کے رب نے بھلائی کا ارادہ کیا ہے؟ یہاں بھی بھلائی کی نسبت رب کی طرف کی گئی اور برائی کے ارادے میں نسبت ظاہر نہیں کی گئی ۔ اسی طرح کی آیت ہے کہ جب میں بیمار پڑتا ہوں تو میری شفا پر بجز اس اللہ کے اور کوئی قادر نہیں ۔ دوا میں تاثیر پیدا کرنا بھی اسی کے بس کی چیز ہے ۔ موت وحیات پر قادر بھی وہی ہے ۔ ابتدا اسی کے ساتھ ہے اسی نے پہلی پیدائش کی ہے ۔ وہی دوبارہ لوٹائے گا ۔ دنیا اور آخرت میں گناہوں کی بخشش پر بھی وہی قادر ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، غفور ورحیم وہی ہے ۔
7 8 1یعنی دین اور دنیا کے مصالح اور منافع کی طرف۔
[٥٤] ان چار آیات میں حضرت ابراہیم نے اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ذکر کیا۔ جن کا تعلق حضرت ابراہیم کی ذات سے ہی نہیں بلکہ ہر انسان سے تعلق ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی یہی وہ صفات ہیں جن کی بنا پر ہر انسان کو صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرنا چاہئے۔ پہلی صفت یہ ہے کہ اسی نے مجھے پیدا کیا اور وجود بخشا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت ایسی ہے جس کا کسی بھی دور کے مشرکوں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ یعنی جب میری تخلیق میں کسی دوسری ہستی کا کچھ حصہ نہیں۔ تو میری عبادت میں کوئی دوسرا کیسے حصہ دار بن سکتا ہے ؟ دوسری صفت یہ ہے کہ اللہ نے مجھے پیدا کرکے تنہا نہیں چھوڑ دیا۔ بلکہ ہر ہر مقام پر میری رہنمائی بھی کرتا ہے۔ اس سے مراد فطری رہنمائی بھی ہے جو ہر جاندار کو مہیا ہوتی ہے۔ مثلاً جب پیدا ہوتا ہے تو اپنی خوراک حاصل کرنے کے لئے ماں کی چھاتیوں کی طرف لپکتا ہے۔ پھر اللہ نے ہی اسے دودھ پینے کا طریقہ بھی بتلا دیا۔ غرض موقع و محل کے لحاظ سے اللہ ہر ہر مقام پر ہر جاندار کی رہنمائی اور دست گیری کرتا ہے اور انسانوں کی اخروی فلاح کے لئے وحی کے ذریعے رہنمائی فرماتا ہے اور اس ہمہ گیر قسم کی رہنمائی میں کسی دوسری ہستی کا کچھ بھی تعلق نہیں ہے۔ لہذا میری عبادت میں اللہ کے علاوہ دوسرا کوئی کیسے شریک بن سکتا ہے۔
الَّذِيْ خَلَقَنِيْ فَهُوَ يَهْدِيْنِ : ” يَهْدِيْنِ “ اصل میں ” یَھْدِیْنِيْ “ ہے، آیات کے آخری حروف کی موافقت کے لیے یاء حذف کردی گئی ہے، نون کا کسرہ اس کی دلیل ہے۔ آئندہ آیات کے اندر ” يَسْقِيْنِ “ ، ” يَشْفِيْنِ “ اور ” يُحْيِيْنِ “ میں بھی یاء محذوف ہے۔ یہاں سے ابراہیم (علیہ السلام) نے رب العالمین کی وہ صفات بیان کی ہیں جن کی وجہ سے وہ عبادت کا حق دار ہے، یعنی ” رب العالمین “ وہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہی مجھے راستہ دکھاتا ہے۔ یہاں ” الَّذِيْ خَلَقَنِيْ “ (وہ جس نے مجھے پیدا کیا) کے بعد ” فَهُوَ يَهْدِيْنِ “ (پھر وہی مجھے راستہ دکھاتا ہے) حصر کے ساتھ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پیدا کرنے کا دعویٰ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے متعلق موجود ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق کہا جائے کہ اسی نے مجھے پیدا کیا ہے، جبکہ ہدایت کا دعویٰ بہت سی ہستیوں کے متعلق ہے، اس لیے فرمایا کہ پھر وہی مجھے ہدایت دیتا ہے، اور کوئی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تم مانتے ہو کہ اس نے پیدا کیا تو مانو کہ ہدایت بھی وہی دیتا ہے۔ ” الَّذِيْ خَلَقَنِيْ “ (جس نے مجھے پیدا کیا) ماضی کے ساتھ ہے، کیونکہ پیدا تو وہ کرچکا، جبکہ ” فَهُوَ يَهْدِيْنِ “ (پھر وہ مجھے راستہ دکھاتا ہے) مضارع ہے، کیونکہ ہدایت کی ضرورت ہر ہر لمحے میں ہے اور وہ ہر لمحے مجھے ہدایت دیتا ہے۔ پیدائش کے بعد سب سے زیادہ اہم ہدایت ہے، اس لیے ان دونوں کا ذکر سب سے پہلے فرمایا۔
الَّذِيْ خَلَقَنِيْ فَہُوَيَہْدِيْنِ ٧٨ۙ- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :57 یہ اولین وجہ ہے جس کی بنا پر اللہ اور صرف ایک اللہ ہی عبادت کا مستحق ہے ۔ مخاطب بھی اس حقیقت کو جانتے اور مانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کا خالق ہے ، اور انہیں یہ بھی تسلیم تھا کہ ان کے پیدا کرنے میں کسی دوسرے کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ حتّیٰ کہ اپنے معبودوں کے بارے میں بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم سمیت تمام مشرکین کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ وہ خود اللہ تعالیٰ کے مخلوق ہیں ۔ بجز دہریوں کے اور کسی کو بھی دنیا میں اللہ کے خلق کائنات ہونے سے انکار نہیں رہا ۔ اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پہلی دلیل یہ تھی کہ میں صرف اس کی عبادت کو صحیح و بر حق سمجھتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا ہے ۔ دوسری کوئی ہستی میری عبادت کی کیسے مستحق ہو سکتی ہے جبکہ میرے پیدا کرنے میں اس کا کوئی حصہ نہیں ۔ مخلوق کو اپنے خالق کی بندگی تو کرنی ہی چاہیے ، لیکن غیر خالق کی بندگی وہ کیوں کرے ؟