7 6 1اس لئے کہ تم سب اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرنے والے ہو۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جن کی تم اور تمہارے باپ دادا عبادت کرتے رہے ہیں، وہ سب معبود میرے دشمن ہیں یعنی ان سے بیزار ہوں۔ 7 7 2یعنی وہ دشمن نہیں، بلکہ وہ تو دنیا و آخرت میں میرا ولی اور دوست ہے۔
[٥٢] حضرت ابراہیم نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ بت تمہارے دشمن ہیں بلکہ یوں فرمایا کہ یہ میرے دشمن ہیں۔ تاکہ قوم کے لوگ چڑ نہ جائیں اور ضد بازی پر نہ اتر آئیں۔ اور ان کے دشمن ہونے کا ذکر سورة مریم کی آیت نمبر ٨٢ میں موجود ہے کہ جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مشرکوں کو اور ان کے معبودوں کو آمنے سامنے لا حاضر کرے گا تو یہی معبود خواہ وہ جاندار ہوں یا بےجان، اپنے عبادت کرنے والوں کے دشمن بن جائیں گے اور کہیں گے کہ احمقو تمہیں ہم کب نے کب کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر ہماری عبادت کیا کرو۔ یہ تو آخرت میں دشمنی ہوئی اور آج یہ میرے دشمن ہیں۔ لہذا یہ میرا جو کچھ بگاڑ سکتے ہیں میں حاضر ہوں، میں دیکھوں گا کہ میرا یہ کیا نقصان کرسکتے ہیں اور ان کے دشمن ہونے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ میں بھی ان کا دشمن ہوں۔ یعنی جہاں تک مجھ سے بن پڑا میں بھی ان سے دو دو ہاتھ کروں گا۔ چناچہ حضرت ابراہیم نے ان معبودوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کئے بھی تھے۔ جس کا ذکر سورة انبیاء کی آیت نمبر ٥٧، ٥٨ میں گزر چلا ہے۔- [٥٣] یعنی میں اللہ رب العالمین کے سوا کسی کو بھی معبود تسلیم نہیں کرتا۔ کیونکہ وہی ساری کائنات کا خالق ہے، مالک ہے، ان کی تربیت کرنے والا اور ان پر کنٹرول اور ان کی نگہداشت کرنے والا ہے اور مخلوق اور مملوک کے لئے یہی سزاوار ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کے علاوہ کسی دوسرے کی غلامی نہ کرے۔
فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّيْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ : ” عَدُوٌّ“ ” فَعُوْلٌ“ کے وزن پر ہے، واحد، جمع، مذکر اور مؤنث سب کے لیے یکساں استعمال ہوتا ہے، اس لیے ” فَاِنَّھُم “ میں جمع کی خبر ہونے کے باوجود واحد آیا ہے۔ یعنی تم اور تمہارے قدیم ترین آبا و اجداد جن چیزوں کی عبادت کرتے رہے ہیں وہ سب چیزیں میری دشمن ہیں۔ ہاں، اگر ان میں سے کوئی ” رب العالمین “ کی بھی عبادت کرتا رہا ہے، تو صرف ” رب العالمین “ میرا دوست ہے۔- 3 یہاں ایک سوال ہے کہ بتوں کے دشمن تو ابراہیم (علیہ السلام) تھے، بتوں نے ان سے کیا دشمنی کرنا تھی ؟ تو یہاں یہ کہنے کے بجائے کہ میں ان کا دشمن ہوں، یہ کیوں فرمایا کہ وہ میرے دشمن ہیں ؟ اس کے دو جواب ہیں، ایک یہ کہ ابراہیم (علیہ السلام) انھیں بتانا یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا تم جن کی عبادت کرتے ہو، جتنی مرضی ان سے محبت کرلو یا ان کی عبادت کرلو، قیامت کے دن وہ تمہارے دشمن بن جائیں گے، ایک اللہ عز و جل کی ذات پاک ہے کہ وہ اپنی عبادت کرنے والوں کی دوست رہے گی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَاۗءً وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِهِمْ كٰفِرِيْنَ ) [ الأحقاف : ٥، ٦ ]” اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو اللہ کے سوا انھیں پکارتا ہے جو قیامت کے دن تک اس کی دعا قبول نہیں کریں گے اور وہ ان کے پکارنے سے بیخبر ہیں۔ اور جب سب لوگ اکٹھے کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت سے منکر ہوں گے۔ “ سورة بقرہ (١٦٥، ١٦٦) اور سورة مریم (٨١، ٨٢) میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے۔ مگر ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ کہنے کے بجائے کہ ” تمہارے معبود تمہارے دشمن ہوں گے “ یہ فرمایا کہ تمہارے یہ معبود (اگر میں ان کی عبادت کروں گا تو) میرے دشمن ہوں گے۔ اس میں انھوں نے دعوت میں حکمت اور دانائی کو محفوظ رکھا ہے کہ مخاطب سوچے کہ جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنی فکر ہے کہ بتوں کی عبادت کی صورت میں انھیں ان کی دشمنی کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوگا، اسی طرح مجھے بھی اپنی فکر کرنی چاہیے۔- دوسرا جواب یہ ہے کہ ” عَدُوٌّ“ (دشمن) اسی کو نہیں کہتے جسے آپ سے دشمنی ہو، اسے بھی دشمن کہا جاتا ہے جس سے آپ کو دشمنی ہو۔ جس سے اپنی شدید دشمنی کا اظہار کرنا ہو اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ میرا دشمن ہے اور جس سے شدید محبت کا اظہار کرنا ہو اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ میرا دوست ہے۔ مرزا غالب نے کہا ہے - یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں - عدو کے ہو لیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو - گویا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی شدید عداوت کے اظہار کے لیے انھیں اپنا دشمن اور ” رب العالمین “ کو اپنا دوست قرار دیا ہے۔- 3 ابراہیم (علیہ السلام) نے ان الفاظ میں بتوں سے اپنی دشمنی کا جو اظہار کیا ہے دوسری جگہ اس کا اظہار ان الفاظ میں ہوا ہے : (وَتَاللّٰهِ لَاَكِيْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِيْنَ ) [ الأنبیاء : ٥٧ ] ” اور اللہ کی قسم میں ضرور ہی تمہارے بتوں کی خفیہ تدبیر کروں گا، اس کے بعد کہ تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے۔ “ پھر ابراہیم (علیہ السلام) نے اس دشمنی کا عملی مظاہرہ بھی بتوں کو توڑ کر فرمایا۔ ان الفاظ میں اس بات کا بھی اظہار ہے کہ میں تمہارے بتوں سے ہرگز نہیں ڈرتا، وہ میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، میرا ان کے ساتھ اور تمہارے ساتھ تعلق دشمنی کا ہے۔ (دیکھیے ممتحنہ : ٤۔ انعام : ٨٠، ٨١) اللہ تعالیٰ کے دوسرے جلیل القدر پیغمبروں نے بھی کفار اور ان کے معبودوں کے متعلق صاف اعلان کیا کہ وہ ان کے خلاف جو کرسکتے ہیں انھیں ان کی کوئی پروا ہے نہ ان سے کوئی خوف۔ نوح (علیہ السلام) کے متعلق دیکھیے سورة یونس (٧١) اور ہود (علیہ السلام) کے متعلق دیکھیے سورة ہود (٥٥، ٥٦) ۔
فَاِنَّہُمْ عَدُوٌّ لِّيْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ ٧٧ۙ- عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] .- العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔
(٧٧۔ ٧٨) البتہ ان میں سے وہ جو رب العالمین کی عبادت کرتا ہے کہ جس نے مجھ کو نطفہ سے پیدا کیا اور پھر اسی نے مجھے دین پر ثابت قدمی عطا فرمائی۔
آیت ٧٧ (فَاِنَّہُمْ عَدُوٌّ لِّیْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ ) ” - حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے گویا علی الاعلان کہہ دیا کہ تمہارے اور تمہارے آباء و اَجداد کے ان معبودوں سے میری دشمنی ہے۔ میرا معبود اور مدد گار صرف وہ اللہ ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ میرا تکیہ اورّ توکل بس اسی کی ذات پر ہے۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :55 یعنی میں جب غور کرتا ہوں تو مجھے یہ نظر آتا ہے کہ اگر میں ان کی پرستش کروں گا تو میری دنیا و آخرت دونوں برباد ہو جائیں گی ۔ میں ان کی عبادت کو محض بے نفع اور بے ضرر ہی نہیں سمجھتا بلکہ الٹا نقصان وہ سمجھتا ہوں ، اس لیے میرے نزدیک تو ان کو پوجنا دشمن کو پوجنا ہے ۔ اس کے علاوہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قول میں اس مضمون کی طرف بھی اشارہ ہے جو سورہ مریم میں ارشاد ہوا کہ وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اٰلِھَۃً لِّیَکُوْنُوْا لَھُمْ عِزًّا ہ کَلَّا سَیَکْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِہَمْ وَیَکُوْنُوْنَ عَلَیْھِمْ ضِدًّا ۔ ( آیت 81 ۔ 82 ) انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا لیے ہیں تاکہ وہ ان کے لیے ذریعہ قوت ہوں ۔ ہرگز نہیں ۔ عنقریب وہ وقت آئے گا جبکہ وہ ان کی عبادت کا انکار کر دیں گے اور الٹے ان کے مخالف ہوں گے ۔ یعنی قیامت کے روز وہ ان کے خلاف گواہی دیں گے اور صاف کہہ دیں گے کہ نہ ہم نے ان سے کبھی کہا کہ ہماری عبادت کرو ، نہ ہمیں خبر کہ یہ ہماری عبادت کرتے تھے ۔ یہاں حکمت تبلیغ کا بھی ایک نکتہ قابل توجہ ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ تمہارے دشمن ہیں ، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ وہ میرے دشمن ہیں ۔ اگر وہ کہتے کہ یہ تمہارے دشمن ہیں تو مخاطب کے لیے ضد میں مبتلا ہو جانے کا زیادہ موقع تھا ۔ وہ اس بحث میں پڑ جاتا کہ بتاؤ ، وہ ہمارے دشمن کیسے ہو گئے ۔ بخلاف اس کے جب انہوں نے کہا کہ وہ میرے دشمن ہیں تو اس سے مخاطب کے لیے یہ سوچنے کا موقع پیدا ہو گیا کہ وہ بھی اسی طرح اپنے بھلے اور برے کی فکر کرے جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے کی ہے ۔ اس طریقہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے گویا ہر انسان کے اس فطری جذبے سے اپیل کی جس کی بنا پر وہ خود اپنا خیر خواہ ہوتا ہے اور جان بوجھ کر کبھی اپنا برا نہیں چاہتا ۔ انہوں نے اسے بتایا کہ میں تو ان کی عبادت میں سراسر نقصان دیکھتا ہوں ، اور دیدہ و دانستہ میں اپنی بد خواہی نہیں کر سکتا ، لہٰذا دیکھ لو کہ میں خود ان کی بندگی و پرستش سے قطعی اجتناب کرتا ہوں ۔ اس کے بعد مخاطب فطرۃً یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ اس کی اپنی بھلائی کس چیز میں ہے ، کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ نادانستہ اپنی بد خواہی کر رہا ہو ۔ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :56 یعنی تمام ان معبودوں میں سے ، جن کی دنیا میں بندگی و پرستش کی جاتی ہے ، صرف ایک اللہ رب العالمین ہے جس کی بندگی میں مجھے اپنی بھلائی نظر آتی ہے ، اور جس کی عبادت میرے نزدیک ایک دشمن کی نہیں بلکہ اپنے اصل مربی کی عبادت ہے ۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام چند فقروں میں وہ وجوہ بیان کرتے ہیں جن کی بنا پر صرف اللہ رب العالمین ہی عبادت کا مستحق ہے ، اور اس طرح اپنے مخاطبوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمہارے پاس تو معبودان غیر اللہ کی عبادت کے لیے کوئی معقول وجہ بجز تقلید آبائی کے نہیں ہے جسے تم بیان کر سکو ، مگر میرے پاس صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کے لیے نہایت معقول وجوہ موجود ہیں جن سے تم بھی انکار نہیں کر سکتے ۔