Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

841یہاں امید، یقین کے معنی میں ہے۔ کیونکہ کسی بڑی شخصیت سے امید، یقین کے مترادف ہی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ تو کائنات کی سب سے بڑی ہستی ہے، اس سے وابستہ امید، یقینی کیوں نہیں ہوگی اسی لئے مفسرین کہتے ہیں کہ قرآن میں جہاں بھی اللہ کے لئے عَسَیٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ یقین ہی کے مفہوم میں ہے۔ خطیئتی، خطیئۃ واحد کا صیغہ ہے لیکن خطایا جمع کے معنی میں ہے انبیاء (علیہم السلام) اگرچہ معصوم ہوتے ہیں اس لیے ان سے کسی بڑے گناہ کا صدور ممکن نہیں پھر بھی اپنے بعض افعال کو کوتاہی پر محمول کرتے ہوئے بارگاہ الہی میں عفو وطلب ہوں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٨] قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جب عدالت قائم فرمائے گا تو اس وقت بھی اس کی عدالت، حاکمیت اور فیصلوں میں کسی دوسری ہستی کا کوئی عمل دخل نہ ہوگا۔ جس طرح مذکورہ بالا امور میں کسی دوسرے کا کچھ عمل دخل نہیں ہے۔ اور چونکہ میں نے اللہ کی عبادت میں دوسرے کسی کو اس کا شریک نہیں سمجھا لہذا مجھے توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دن میری چھوٹی موٹی خطاؤں اور لغزشوں کو معاف فرما دے گا۔ اس سے یہ نتیجہ بھی سامنے آتا ہے کہ جس کسی نے اللہ کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک بنایا ہوگا اس کی مغفرت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْٓ اَطْمَــعُ اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ خَطِيْۗـــــَٔــتِيْ يَوْمَ الدِّيْنِ : یعنی قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ عدالت قائم فرمائے گا تو وہاں کسی کی عدالت، حاکمیت یا سلطنت نہیں ہوگی، نہ اس کے فیصلوں میں کسی کا کوئی دخل ہوگا، نہ اس کے سوا کوئی کسی کے گناہ معاف کرسکے گا، جیسا کہ فرمایا : (وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ) [ آل عمران : ١٣٥ ]” اور اللہ کے سوا اور کون گناہ بخشتا ہے ؟ “ چونکہ میں اس کا موحد بندہ ہوں، میں نے اس کے ساتھ شرک نہیں کیا، اس لیے میں اس سے امید رکھتا ہوں کہ اس دن وہ میری خطائیں معاف فرمائے گا۔ اس میں ابراہیم (علیہ السلام) کی تواضع اور ان کا انکسار بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کی بےپروائی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی امید کا اظہار کیا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ صفات اس لیے بیان فرمائیں کہ مشرکین کو مطمئن کرسکیں کہ عبادت صرف اس ” رب العالمین “ کا حق ہے جو ان صفات کا مالک ہے۔ دوسرے معبود جو نہ پیدا کرسکیں، نہ رہنمائی کرسکیں، نہ کھانے کو دے سکیں، نہ پینے کو، نہ شفا کے مالک ہوں، نہ موت و حیات کے، نہ قیامت برپا کرسکتے ہوں، نہ عدالت قائم کرسکتے ہوں، وہ عبادت کے حق دار کیسے ہوسکتے ہیں ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْٓ اَطْمَــعُ اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ خَطِيْۗــــــَٔــتِيْ يَوْمَ الدِّيْنِ۝ ٨ ٢ۭ- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - خطأ - الخَطَأ : العدول عن الجهة، وذلک أضرب :- أحدها : أن ترید غير ما تحسن إرادته فتفعله،- وهذا هو الخطأ التامّ المأخوذ به الإنسان، يقال : خَطِئَ يَخْطَأُ ، خِطْأً ، وخِطْأَةً ، قال تعالی: إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] ، وقال : وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] .- والثاني : أن يريد ما يحسن فعله،- ولکن يقع منه خلاف ما يريد فيقال : أَخْطَأَ إِخْطَاءً فهو مُخْطِئٌ ، وهذا قد أصاب في الإرادة وأخطأ في الفعل، وهذا المعنيّ بقوله عليه السلام : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» «3» وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» «4» ، وقوله عزّ وجلّ : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ النساء 92] .- والثّالث : أن يريد ما لا يحسن فعله - ويتّفق منه خلافه، فهذا مخطئ في الإرادة ومصیب في الفعل، فهو مذموم بقصده وغیر محمود علی فعله، - والخَطِيئَةُ والسّيّئة يتقاربان،- لکن الخطيئة أكثر ما تقال فيما لا يكون مقصودا إليه في نفسه، بل يكون القصد سببا - لتولّد ذلک الفعل منه - ( خ ط ء ) الخطاء - والخطاء ۃ کے معنی صحیح جہت سے عدول کرنے کے ہیں - اس کی مختلف صورتیں ہیں - ۔ ( 1 ) کوئی ایسا کام بالا رادہ کرے جس کا ارادہ بھی مناسب نہ ہو ۔- یہ خطا تام ہے جس پر مواخزہ ہوگا ا س معنی میں فعل خطئی یخطاء خطاء وخطاء بولا جا تا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت جرم ہے ۔ وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] اور بلا شبہ ہم خطا کار تھے - ۔ ( 2 ) ارادہ تو اچھا کام کرنے کا ہو لیکن غلطی سے برا کام سرزد ہوجائے ۔- کہا جاتا ہے : ۔ اس میں اس کا ارادہ وہ تو درست ہوتا ہے مگر اس کا فعل غلط ہوتا ہے اسی قسم کی خطا کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» میری امت سے خطا سے خطا اور نسیان اٹھائے گئے ہیں ۔ نیز فرمایا : وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» جس نے اجتہاد کیا ۔ لیکن اس سے غلطی ہوگئی اسے پھر بھی اجر ملے گا قرآن میں ہے : ۔ اور جو غلطی سے مومن کو مار ڈالے تو ایک تو غلام کو ازاد کردے - ۔ ( 3 ) غیر مستحن فعل کا ارادہ کرے لیکن اتفاق سے مستحن فعل سرزد ہوجائے ۔- اس صورت میں اس کا فعل تو درست ہے مگر ارادہ غلط ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل بھی قابل ستائس نہیں ہوگا ۔- الخطیتۃ - یہ قریب قریب سیئۃ کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ [ البقرة 81] اور اسکے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیر لیں گے ۔ لیکن زیادہ تر خطئۃ کا استعمال اس فعل کے متعلق ہوتا ہے جو بزات خود مقصود نہ ہو بلکہ کسی دوسری چیز کا ارادہ اس کے صدر کا سبب بن جائے - دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٢ (وَالَّذِیْٓ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لِیْ خَطِٓیْءَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ ) ” - ابھی تک حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے والد اور اپنی قوم کے لوگوں سے مخاطب تھے۔ اب براہ راست اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہے ہیں :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :59 یہ تیسری وجہ ہے جس کی بنا پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت درست نہیں ہو سکتی ۔ انسان کا معاملہ اپنے خدا کے ساتھ صرف اس دنیا اور اس کی زندگی تک محدود نہیں ہے کہ وجود کی سرحد میں قدم رکھنے سے شروع ہو کر موت کی آخری ہچکی پر وہ ختم ہو جائے ، بلکہ اس کے بعد اس کا انجام بھی سراسر خدا ہی کے ہاتھ میں ہے ، وہی خدا جو اس کو وجود میں لایا ہے ، آخر کار اسے اس دنیا سے واپس بلا لیتا ہے اور کوئی طاقت دنیا میں ایسی نہیں ہے جو انسان کی اس واپسی کو روک سکے ۔ آج تک کسی دوا یا طبیب یا دیوی دیوتا کی مداخلت اس ہاتھ کو پکڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے جو انسان کو یہاں سے نکال لے جاتا ہے ، حتیٰ کہ وہ بہت سے انسان بھی جنہیں معبود بنا کر انسانوں نے پوج ڈالا ہے ، خود اپنی موت کو نہیں ٹال سکے ہیں ۔ صرف خدا ہی اس امر کا فیصلہ کرنے والا ہے کہ کس شخص کو کب اس جہان سے واپس طلب کرنا ہے ، اور جس وقت جس کی طلبی بھی اس کے ہاں سے آ جاتی ہے اسے چارو ناچار جانا ہی پڑتا ہے ۔ پھر وہی خدا ہے جو اکیلا اس امر کا فیصلہ کرے گا کہ کب ان تمام انسانوں کو جو دنیا میں پیدا ہوئے تھے دوبارہ وجود میں لائے اور ان سے ان کی حیات دنیا کا محاسبہ کرے ۔ اس وقت بھی کسی کی یہ طاقت نہ ہو گی کہ بعث بعد الموت سے کسی کو بچا سکے یا خود بچ سکے ۔ ہر ایک کو اس کے حکم پر اٹھنا ہی ہو گا اور اس کی عدالت میں حاضر ہونا پڑے گا ۔ پھر وہی اکیلا خدا اس عدالت کا قاضی و حاکم ہو گا ۔ کوئی دوسرا اس کے اختیارات میں ذرہ برابر بھی شریک نہ ہو گا ۔ سزا دینا یا معاف کرنا بالکل اس کے اپنے ہی ہاتھ میں ہو گا ۔ کسی کی یہ طاقت نہ ہو گی کہ جسے وہ سزا دینا چاہے اس کو بخشوا لے جائے ، یا جسے وہ بخشنا چاہے اس سزا دلوا سکے ۔ دنیا میں جن کو بخشوا لینے کا مختار سمجھا جاتا ہے وہ خود اپنی بخشش کے لیے بھی اسی کے فضل و کرم کی آس لگائے بیٹھے ہوں گے ۔ ان حقائق کی موجودگی میں جو شخص خدا کے سوا کسی کی بندگی کرتا ہے وہ اپنی بد انجامی کا خود سامان کرتا ہے ۔ دنیا سے لے کر آخرت تک آدمی کی ساری قسمت تو ہو خدا کے اختیار میں ، اور اسی قسمت کے بناؤ کی خاطر آدمی رجوع کرے ان کی طرف جن کے اختیار میں کچھ نہیں ہے اس سے بڑھ کر شامت اعمال اور کیا ہو سکتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani