Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حکم سے کیا مراد ہے؟ حکم سے مراد علم عقل الوہیت کتاب اور نبوت ہے ۔ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ مجھے یہ چیزیں عطا فرما کر دنیا اور آخرت میں نیک لوگوں میں شامل رکھ ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آخری وقت میں دعا مانگی تھی کہ اے اللہ اعلیٰ رفیقوں میں ملادے تین بار یہی دعا کی ۔ ایک حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا بھی مروی ہے ۔ ( اللہم احینا مسلمین وامتنا مسلمین والحقنابالصالحین غیر خزایا ولامبدلین ) ۔ یعنی اے اللہ ہمیں اسلام پر زندہ رکھ اور مسلمانی کی حالت میں ہی موت دے اور نیکوں میں ملادے ۔ در آنحالیکہ نہ رسوائی ہو نہ تبدیلی ۔ پھر اور دعا کرتے ہیں کہ میرے بعد بھی میرا ذکر خیر لوگوں میں جاری رہے ۔ لوگ نیک باتوں میں میری اقتدا کرتے رہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کا ذکر پچھلی نسلوں میں باقی رکھا ۔ ہر ایک آپ پر سلام بھیجتا ہے اللہ کسی نیک بندے کی نیکی اکارت نہیں کرتا ۔ ایک جہان ہے جن کی زبانیں آپ کی تعریف وتوصیف سے تر ہیں ۔ دنیا میں بھی اللہ نے انہیں اونچائی اور بھلائی دی ۔ عموما ہر مذہب وملت کے لوگوں خلیل اللہ علیہ السلام سے محبت رکھتے ہیں ۔ اور دعا کرتے ہیں کہ میرا ذکر جمیل جہاں میں باقی رہے وہاں آخرت میں بھی جنتی بنایا جاؤں ۔ اور اے اللہ میرے گمراہ باپ کو معاف فرما ۔ لیکن اپنے کافر باپ کے لئے یہ استغفار کرنا ایک وعدے پر تھا جب آپ پر اس کا دشمن اللہ ہونا کھل گیا کہ وہ کفر پر ہی مرا تو آپ کے دل سے اس کی عزت ومحبت جاتی رہی اور استغفار کرنا بھی ترک کردیا ۔ ابرہیم علیہ السلام بڑے صاف دل اور بردبار تھے ۔ ہمیں بھی جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی روش پر چلنے کا حکم ملا ہے وہیں یہ بھی فرمادیا گیا ہے کہ اس بات میں انکی پیروی نہ کرنا پھر دعا کرتے ہیں کہ مجھے قیامت کے دن کی رسوائی سے بچالینا ۔ جب کہ تمام اگلی پچھلی مخلوق زندہ ہو کر ایک میدان میں کھڑی ہوگی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے والد سے ملاقات ہوگی ۔ آپ دیکھیں گے کہ اس کا منہ ذلت سے اور گرد وغبار سے آلودہ ہو رہا ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ اس وقت آپ جناب باری تعالیٰ میں عرض کریں گے کہ پروردگار تیرا مجھ سے قول ہے کہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہ کرے گا ۔ اللہ فرمائے گا سن لے جنت تو کافر پر قطعاحرام ہے اور روایت میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ کو اس حالت میں دیکھ کر فرمائیں گے کہ دیکھ میں تجھے نہیں کہہ رہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کر باپ جواب دے گا کہ اچھا اب نہ کرونگا آپ اللہ تعالیٰ کی جناب میں عرض کریں گے کہ پروردگار تو نے مجھے سے وعدہ کیا ہے کہ اس دن مجھے رسوا نہ فرمائے گا ۔ اب اس سے بڑھ کر اور رسوائی کیا ہوگی کہ میرا باپ اس طرح رحمت سے دور ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے خلیل علیہ السلام میں نے جنت کو کافروں پر حرام کردیا ہے پھر فرمائے گا ابراہیم دیکھ تیرے پیروں تلے کیا ہے؟ آپ دیکھیں گے کہ ایک بد صورت بچھو کیچڑ و پانی میں لتھڑا کھڑا ہے جس کے پاؤں پکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا حقیقتا یہ ان کے والد ہونگے جو اس صورت میں کردئیے گئے اور اپنی مقررہ جگہ پہنچادئے گئے اس دن انسان اگر اپنا فدیہ مال سے ادا کرنا چاہے گو دنیابھر کے خزانے دے دے لیکن بےسود ہے ، نہ اس دن اولاد فائدہ دے گی ۔ تمام اہل زمین کو اپنے بدلے میں دینا چاہے پھر بھی لاحاصل ۔ اس دن نفع دینے والی چیز ایمان اخلاص اور شرک اور اہل شرک سے بیزاری ہے ۔ جس کا دل صالح ہو یعنی شرک وکفر کے میل کچیل سے صاف ہو ، اللہ کو سچا جانتا ہو قیامت کو یقینی مانتا ہو دوبارہ کے جی اٹھنے پر ایمان رکھتا ہو اللہ کی توحید کا قائل اور عامل ہو ۔ نفاق وغیرہ سے دل مریض نہ ہو ۔ بلکہ ایمان واخلاص اور نیک عقیدے سے دل صحیح اور تندرست ہو ۔ بدعتوں سے نفرت رکھتا ہو اور سنت سے اطمینان اور الفت رکھتا ہو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

831حکم یا حکمت سے مراد علم و فہم، قوت فیصلہ، یا نبوت و رسالت یا اللہ کے حدود و احکام کی معرفت ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٩] اللہ تعالیٰ کی مندرجہ بالا صفات بیان کرنے کے بعد حضرت ابراہیم اللہ تعالیٰ کے حضور دست بدعا ہوجاتے ہیں۔ پہلی دعا یہ ہے کہ یا اللہ مجھے صحیح قوت فیصلہ اور دینی بصیرت عطا فرما اور میرے علم میں اضافہ کر اور مجھے نیک لوگوں کی سوسائٹی عطا فرما۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں ایک نیک بخت اور نیک سیرت انسان اگر کسی بری سوسائٹی میں پھنس جائے تو اسے جتنی تکلیف اور ذہنی کوفت ہے، اسے سب جانتے ہیں۔ لہذا ہر شخص کو کوشش کرنی چاہئے اور اس کے لئے دعا بھی کرتے رہنا چاہئے کہ اسے نیک لوگوں کی صحبت حاصل ہو۔ اور آخرت میں اللہ تعالیٰ یقیناً نیک لوگوں کو نیک لوگوں سے ہی ملا دے گا۔ تاہم اس نعمت کے لئے بدست بدعا رہنا چاہئے۔ حضرت ابراہیم نے بھی ایسی دعا کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اپنی وفات کے ساتھ یہ دعا فرمائی تھی۔ اللہم فی الرفیق الاعلی

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

رَبِّ هَبْ لِيْ حُكْمًا : اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کی صفات بیان کرنے کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کی بارگاہ میں چند دعائیں کی ہیں۔ اس میں دعا کا ادب ملحوظ رکھا گیا ہے اور اس کا سلیقہ سکھایا گیا ہے کہ دعا سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف جس قدر ہو سکے کرو، پھر اپنی عرض داشت پیش کرو۔ سورة فاتحہ میں بھی یہی سبق سکھایا گیا ہے۔ - 3 حُکْم کا معنی فیصلہ ہے، یعنی پروردگار فیصلے کے لیے جو چیزیں درکار ہیں وہ سب مجھے عطا کر، یعنی اپنے دین کا پورا علم جس سے صحیح فیصلہ ہوتا ہے، پھر ہر معاملے کا صحیح فہم، پھر وہ اقتدار جس کے ساتھ فیصلہ نافذ ہوتا ہے۔ - وَّاَلْـحِقْنِيْ بالصّٰلِحِيْنَ : یعنی دنیا میں بھی صالح دوستوں اور ساتھیوں کی رفاقت عطا فرما اور آخرت میں بھی انھی کے ساتھ ملا دے۔ یوسف (علیہ السلام) نے بھی یہ دعا کی : (تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بالصّٰلِحِيْنَ ) [ یوسف : ١٠١ ] ” مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔ “ اور ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی آخری وقت دعا کی تھی : ( اَللّٰھُمَّ فِي الرَّفِیْقِ الْأَعْلٰی ) ”(اے اللہ ) مجھے سب سے بلند رفیقوں میں شامل فرما دے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا تین دفعہ کی۔- [ بخاري، فضائل أصحاب النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، باب : ٣٦٦٩، ٤٤٣٧ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رَبِّ ہَبْ لِيْ حُكْمًا وَّاَلْـحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ۝ ٨٣ۙ- وهب - الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی:- وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ- [إبراهيم 39] ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] - ( و ہ ب ) وھبتہ - ( ف ) ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔ - حکمت ( نبوۃ)- قال اللہ تعالی: وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم 12] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «الصمت حکم وقلیل فاعله» أي : حكمة، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران 164] ، وقال تعالی: وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] ، قيل : تفسیر القرآن، ويعني ما نبّه عليه القرآن من ذلک : إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة 1] ، أي : ما يريده يجعله حكمة، وذلک حثّ للعباد علی الرضی بما يقضيه . قال ابن عباس رضي اللہ عنه في قوله : مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] ، هي علم القرآن، ناسخه، مُحْكَمه ومتشابهه .- قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم 12] اور ہم نے ان کو لڑکپن میں ہی دانائی عطا فرمائی تھی ۔ اور آنحضرت نے فرمایا کہ خاموشی بھی حکمت ہے ۔ لیکن بہت تھوڑے لوگ اسے اختیار کر ٹے ہیں ۔ یہاں ( آیت اور حدیث میں ) حکم کے معنی حکمت کہ میں قرآن میں ہے : ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران 164] اور ان ( لوگوں ) کو کتاب اور دانائی سکھایا کرے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو ۔ میں حکمت سے مراد تفسیر قرآن ہے یعنی جس پر کہ قرآن نے آیت إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة 1] میں تنبیہ کی ہے کہ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے حکمت بنادیتا ہے تو اس میں ترغیب ہے کہ لوگوں کو اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] میں حکمت سے ناسخ منسوخ محکم اور متشابہات کا علم مراد ہے ۔- لحق - لَحِقْتُهُ ولَحِقْتُ به : أدركته . قال تعالی: بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ [ الجمعة 3] - ( ل ح ق )- لحقتہ ولحقت بہ کے معنی کیس کو پالینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ۔ ( اور شہید ہو کر ) ان میں شامل نہ ہو سکے ۔ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ [ الجمعة 3] اور ان میں سے دوسرے لوگوں کی طرف بھی ( ان کو بھیجا ہے جو ابھی ان مسلمان سے نہیں ملے ۔- صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٣) اے میرے پروردگار مجھے جامعیت بین العلم والعمل میں زیادہ کمال عطا فرما اور مجھے جنت میں میرے بڑوں میں سے جو رسول گزرے ہیں ان کے ساتھ شامل فرما۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :60 حکم سے مراد نبوت یہاں درست نہیں ہے ، کیونکہ جس وقت کی یہ دعا ہے اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نبوت عطا ہو چکی تھی ۔ اور اگر بالفرض یہ دعا اس سے پہلے کی بھی ہو تو نبوت کسی کی طلب پر اسے عطا نہیں کی جاتی بلکہ وہ ایک وہبی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ خود ہی جسے چاہتا ہے دیتا ہے ۔ اس لیے یہاں حکم سے مراد علم ، حکمت ، فہم صحیح اور قوت فیصلہ ہی لینا درست ہے ، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا قریب قریب اسی معنی میں ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ دعا منقول ہے کہ :اَرِنَا الْاَ شْیَآءَ کَمَاھِیَ یعنی ہم کو اس قابل بنا کہ ہم ہر چیز کو اسی نظر سے دیکھیں جیسی کہ وہ فی الواقع ہے اور ہر معاملہ میں وہی رائے قائم کریں جیسی کہ اس کی حقیقت کے لحاظ سے قائم کی جانی چاہیے ۔ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :61 یعنی دنیا میں مجھے صالح سوسائٹی دے اور آخرت میں میرا حشر صالحوں کے ساتھ کر ۔ جہاں تک آخرت کا تعلق ہے ، صالح لوگوں کے ساتھ کسی کا حشر ہونا اور اس کا نجات پانا گویا ہم معنی ہیں ، اس لیے یہ تو ہر اس انسان کی دعا ہونی ہی چاہیے جو حیات بعد الموت اور جزا و سزا پر یقین رکھتا ہو ۔ لیکن دنیا میں بھی ایک پاکیزہ روح کی دلی تمنا یہی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایک بد اخلاق فاسق و فاجر معاشرے میں زندگی بسر کرنے کی مصیبت سے نجات دے اور اس کو نیک لوگوں کے ساتھ ملائے ۔ معاشرے کا بگاڑ جہاں چاروں طرف محیط ہو وہاں ایک آدمی کے لیے صرف یہی چیز ہمہ وقت اذیت کی موجب نہیں ہوتی کہ وہ اپنے گردو پیش گندگی ہی گندگی پھیلی ہوئی دیکھتا ہے ، بلکہ اس کے لیے خود پاکیزہ رہنا اور اپنے آپ کو گندگی کی چھینٹوں سے بچا کر رکھنا بھی مشکل ہوتا ہے ۔ اس لیے ایک صالح آدمی اس وقت تک بے چین ہی رہتا ہے جب تک یا تو اس کا اپنا معاشرہ پاکیزہ نہ ہو جائے ، یا پھر اس سے نکل کر وہ کوئی دوسری ایسی سوسائیٹی نہ پا لے جو حق و صداقت کے اصولوں پر چلنے والی ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani