Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

841یعنی جو لوگ میرے بعد قیامت تک آئیں گے، وہ میرا ذکر اچھے لفظوں میں کرتے رہیں، اس سے معلوم ہوا کہ نیکیوں کی جزا اللہ تعالیٰ دنیا میں ذکر جمیل اور ثنائے حسن کی صورت میں بھی عطا فرماتا ہے۔ جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر خیر ہر مذہب کے لوگ کرتے ہیں، کسی کو بھی ان کی عظمت و تکریم سے انکار نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٠] یعنی اس دنیا میں، میں ایسے اچھے کام کرسکوں کہ بعد میں آنے والے لوگ میرا ذکر اچھے الفاظ میں کیا کریں۔ حضرت ابراہیم کی یہ دعا حرف بحرف قبول ہوگئی۔ دنیا کے اکثر اہل مذاہب آپ کو اپنا دینی پیشوا ضرور تسلیم کرتے ہیں۔ اگرچہ حضرت ابراہیم کی تعلیم سے بہت سی باتوں میں منحرف ہوچکے ہیں۔ اسلام نے از سر نو دین ابراہیمی کو زندہ کیا۔ اور ہر نماز میں دورد کو واجب قرار دے کر آپ کا ذکر خیر بھی جاری کیا۔ مگر افسوس ہے کہ دوسرے مذاہب کی طرح مسلمان بھی خالص دین ابراہیمی سے ہٹ چکے ہیں۔ اور اپنے دین میں شرکت کی آمیزش کرلی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاجْعَلْ لِّيْ لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْاٰخِرِيْنَ ۔۔ : ” لِسَانَ “ سے مراد تعریف ہے، کیونکہ وہ زبان سے ہوتی ہے۔ ” لِسَانَ صِدْقٍ “ سے مراد اچھی تعریف اور نیک شہرت ہے، یعنی قیامت تک آنے والی نسلوں میں مجھے سچی ناموری عطا فرما کہ وہ اچھے الفاظ میں میرا ذکر کرتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی، یہودی، عیسائی اور مسلمان سب انھیں اپنا پیشوا مانتے ہیں اور ان کا ذکر خیر کرتے ہیں۔ مسلمان تو نماز میں ” کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ “ اور ” کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ “ بھی کہتے ہیں۔ [ دیکھیے بخاري : ٣٣٧٠ ] امام مالک (رض) نے اس آیت سے استدلال فرمایا کہ آدمی کی اس خواہش میں کوئی حرج نہیں کہ اس کی نیک شہرت ہو۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ اس کا فائدہ آخرت میں یہ ہے کہ ممکن ہے کہ نیک اعمال میں اس کی شہرت سن کر کوئی شخص وہ اعمال کرنے لگے جس کا اجر اسے بھی ملے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَعُمِلَ بِھَا بَعْدَہُ کُتِبَ لَہُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِھَا وَلَا یَنْقَصُ مِنْ أُجُوْرِھِمْ شَيْءٌ ) [ مسلم، العلم، باب من سن سنۃ حسنۃ۔۔ : ١٥؍١٠١٧، قبل ح : ٢٦٧٤، عن جریر بن عبداللہ (رض) ] ” جو شخص اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کرے، پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا جائے، تو اس کے لیے ان لوگوں جیسا اجر لکھا جائے گا جو اس پر عمل کریں گے اور ان کے اجروں سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔ “ بعض مفسرین نے اس سے یہ بھی مراد لیا ہے کہ آخر زمانے میں میری نسل سے نبی ہو، جیسا کہ فرمایا : (رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ ) [ البقرۃ : ١٢٩ ] ” اے ہمارے رب اور ان میں انھی میں سے ایک رسول بھیج۔ “ مگر اس دعا کے الفاظ سے یہ مفہوم نہیں نکلتا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل - قیامت تک انسانوں میں ذکر خیر رکھنے کی دعا :- وَاجْعَلْ لِّيْ لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْاٰخِرِيْنَ اس آیتہ مبارکہ میں " لسان " سے مراد ذکر ہے اور " لی " کا لام نفع کے لئے ہے آیتہ کے معنی یہ ہوئے کہ اے خدایا مجھے ایسے پسندیدہ طریقے اور عمدہ نشانیاں عطا فرما جس کی دوسرے لوگ قیامت تک پیروی کریں، اور مجھے ذکر خیر اور عمدہ صفت سے یاد کیا کریں (ابن کثیر و روح المعانی) اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی دعا قبول فرمائی۔ یہود و نصاری اور مشرکین مکہ تک ملتہ ابراہیمی سے محبت و الفت رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو اس کی طرف منسوب کرتے ہیں، اگرچہ ان کا طریقہ ملت ابراہیمی کے خلاف کفر و شرک ہے مگر وہ دعویٰ یہی کرتے ہیں کہ ہم ملت ابراہیمی پر ہیں اور امت محمدیہ تو بجا طور پر بھی ملت ابراہیم پر ہونے کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتی ہے۔- حب جاہ مذموم مگر چند شرائط کے ساتھ جائز ہے :- حب جاہ یعنی لوگوں سے اپنی عزت کرنے اور محدح کرنے کی خواہش شرعاً مذموم ہے قرآن کریم نے دار آخرت کی نعمتوں کو حب جاہ کے ترک پر موقوف قرار دیا ہے (قال تعالیٰ تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِيْنَ لَا يُرِيْدُوْنَ عُلُوًّا فِي الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا) اس جگہ آیت (وَاجْعَلْ لِّيْ لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْاٰخِرِيْنَ ) میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ دعا کہ آنے والی نسلوں میں میری تعریف و ثنا ہوا کرے بظاہر حب جاہ میں داخل معلوم ہوتی ہے لیکن آیت کے الفاظ میں غور کیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ اس دعا کا اصل مقصد حب جاہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا ہے کہ ایسے نیک اعمال کی توفیق بخشیں جو میری آخرت کا سامان بنیں اور اس کو دیکھ کر دوسرے لوگوں کو بھی اعمال صالحہ کی رغبت ہو اور میرے بعد بھی لوگ اعمال صالحہ میں میری پیروی کرتے رہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس سے کوئی وجاہت کا فائدہ حاصل کرنا مقصود ہی نہیں، جس کو حب جاہ کہا جاسکے۔ قرآن و حدیث میں جہاں طلب جاہ کو ممنوع اور مذموم قرار دیا ہے اس کی مراد ہی دنیوی وجاہت اور اس سے دنیوی منافع حاصل کرنا ہے۔- امام ترمذی و نسائی نے حضرت کعب بن مالک کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دو بھوکے بھیڑیئے جو بکریوں کے گلے میں چھوڑ دیئے جاویں وہ بکریوں کے ریوڑ کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا دو خصلتیں انسان کے دین کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ ایک مال کی محبت دوسرے اپنی عزت و جاہ کی طلب (رواہ الطبرانی عن ابی سعید الخدری والبزار عن ابی ہریرہ) اور حضرت ابن عباس سے بسند ضعیف دیلمی نے یہ روایت نقل کی ہے کہ جاہ وثناء کی محبت انسان کو اندھا بہرا کردیتی ہے۔ ان تمام روایات سے مراد وہ حب جاہ اور طلب ثناء ہے جو دنیوی مقاصد کے لئے مطلوب ہو یا جس کی خاطر دین میں مداہنت یا کسی گناہ کا ارتکاب کرنا پڑے اور جب یہ صورت نہ ہو تو طلب جاہ مذموم نہیں۔ حدیث میں خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ دعا منقول ہے۔ (اللھم اجعلنی فی عینی صغیرا وفی اعین الناس کبیرا یعنی یا اللہ مجھے خود اپنی نگاہ میں تو چھوٹا اور حقیر بنا دیجئے اور لوگوں کی نظر میں بڑا بنا دیجئے۔ یہاں بھی لوگوں کی نظر میں بڑا بنانے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ نیک اعمال میں میری پیروی کریں۔ اسی لئے امام مالک نے فرمایا کہ جو شخص واقع میں صالح اور نیک ہو، لوگوں کی نظر میں نیک بننے کے لئے ریاکاری نہ کرے اس کے لئے لوگوں کی طرف سے مدح و ثنا کی محبت مذموم نہیں۔- ابن عربی نے فرمایا کہ آیت مذکورہ سے ثابت ہوا کہ جس نیک عمل سے لوگوں میں تعریف ہوتی ہو اس نیک عمل کی طلب و خواہش جائز ہے اور امام غزالی نے فرمایا کہ دنیا میں عزت و جاہ کی محبت تین شرطوں کے ساتھ جائز ہے۔ اول یہ ہے کہ اس سے مقصود اپنے آپ کو بڑا اور اس کے بالمقابل دوسرے کو چھوٹا یا حقیہ قرار دینا نہ ہو بلکہ آخرت کے فائدہ کے لئے ہو کہ لوگ میرے معتقد ہو کر نیک اعمال میں میرا اتباع کریں۔ دوسرے یہ کہ جھوٹی ثناء خوانی مقصود نہ ہو کہ جو صفت اپنے اندر نہیں ہے لوگوں سے اس کی خواہش رکھے کہ وہ اس صفت میں اس کی تعریف کریں۔ تیسرے یہ کہ اس کے حاصل کرنے کے لئے کسی گناہ یا دین کے معاملے میں مداہنت اختیار نہ کرنی پڑے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاجْعَلْ لِّيْ لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْاٰخِرِيْنَ۝ ٨٤ۙ- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- لسن - اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ- [ الروم 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر .- ( ل س ن ) اللسان - ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔- صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

سچی ناموری کی دعا - قول باری ہے : (فاجعل لی لسان صدق فی الاخرین۔ اور بعد کے آنے والوں میں مجھے سچی ناموری عطا فرما) یعنی عمدہ تعریف۔ چناچہ یہود بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نبوت کا اقرار کرتے ہیں اور اسی طرح نصاریٰ اور دنیا کی اکثر قومیں بھی۔ ایک قول کے مطابق آیت کا مفہوم ہے۔” میری اولاد میں سے ایسے افراد پیدا کر جو حق کے علمبردار بن کر تمام دنیا کو اس کی دعوت دیں۔ “ اس میں واضح اشارہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس اور آپ پر ایمان لانے والوں کی طرف ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٤ تا ٨٦) اور میرا ذکر حسن میرے بعد آنے والوں میں جاری رکھ اور مجھے جنت کے مستحقین میں سے کر اور میرے باپ کو ہدایت عطا فرما وہ گمراہ کافر لوگوں میں سے ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٤ (وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ ) ” - یعنی بعد میں آنے والی نسلیں میرا ذکر اچھے انداز میں کریں اور میرا نام عزت سے لیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :62 یعنی بعد کی نسلیں مجھے خیر کے ساتھ یاد کریں ۔ میں دنیا سے وہ کام کر کے نہ جاؤں کہ نسل انسانی میرے بعد میرا شمار ان ظالموں میں کرے جو خود بگڑے ہوئے تھے اور دنیا کو بگاڑ کر چلے گئے ، بلکہ مجھ سے وہ کارنامے انجام پائیں جن کی بدولت رہتی دنیا تک میری زندگی خلق خدا کے لیے روشنی کا مینار بنی رہے ور مجھے انسانیت کے محسنوں میں شمار کیا جائے ۔ یہ محض شہرت و ناموری کی دعا نہیں ہے بلکہ سچی شہرت اور حقیقی ناموری کی دعا ہے جو لازماً ٹھوس خدمات اور بیش قیمت کارناموں ہی کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے ۔ کسی شخص کو اس چیز کا حاصل ہونا اپنے اندر دو فائدے رکھتا ہے ۔ دنیا میں اس کا فائدہ یہ ہے کہ انسانی نسلوں کو بری مثالوں کے مقابلے میں ایک نیک مثال ملتی ہے جس سے وہ بھلائی کا سبق حاصل کرتی ہیں اور ہر سعید روح کو راہ راست پر چلنے میں اس سے مدد ملتی ہے ۔ اور آخرت میں اس کا فائدہ یہ ہے کہ ایک آدمی کی چھوڑی ہوئی نیک مثال سے قیامت تک جتنے لوگوں کو بھی ہدایت نصیب ہوئی ہو ان کا ثواب اس شخص کو بھی ملے گا اور قیامت کے روز اس کے اپنے اعمال کے ساتھ کروڑوں بندگان خدا کی یہ گواہی بھی اس کے حق میں موجود ہو گی کہ وہ دنیا میں بھلائی کے چشمے رواں کر کے آیا ہے جن سے نسل پر نسل سیراب ہوتی رہی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani