يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ : جس دن آدمی کو اللہ کے عذاب سے کوئی مال نہیں بچا سکے گا، خواہ زمین بھرنے کے برابر سونا ہو (آل عمران : ٩١) اور صرف بیٹے ہی نہیں، زمین کے تمام لوگ بطور فدیہ پیش کیے جائیں تو وہ بھی کام نہ آئیں گے۔ (معارج : ١١ تا ١٤) ۔
يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ ، اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ ، یعنی قیامت کے اس دن میں جس میں نہ کوئی مال کسی کو فائدہ دے گا نہ اس کی نرینہ اولاد بجز اس شخص کے جو اللہ کے پاس قلب سلیم لے کر پہنچے۔ اس آیت کی تفسیر بعض حضرات نے استثناء کو استثنائے منقطع قرار دے کر یہ کی ہے کہ اس روز کسی کو نہ اس کا مال کام آوے گا نہ اولاد، ہاں کام آئے گا تو صرف اپنا قلب سلیم جس میں شرک و کفر نہ ہو اور اس جملے کی مثال ایسی ہوگی جیسے کوئی شخص زید کے متعلق کسی سے پوچھے کہ کیا زید کے پاس مال اور اولاد بھی ہے وہ اس کے جواب میں کہے اس کا مال و اولاد تو اس کا قلب سلیم ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مال و اولاد تو کچھ نہیں مگر ان سب کے بدلے اس کے پاس اپنا قلب سلیم موجود ہے۔ خلاصہ مضمون آیت کا اس تفسیر پر یہ ہوتا ہے کہ مال یا اولاد تو اس روز کچھ کام نہ آئیں گے، کام صرف اپنا ایمان اور عمل صالح آئے گا جس کو قلب سلیم سے تعبیر کردیا گیا ہے اور مشہور تفسیر اکثر مفسرین کے نزدیک یہ ہے کہ استثناء متصل ہے اور معنے یہ ہیں کہ مال اور اولاد قیامت کے روز کسی شخص کے کام نہ آئیں گے بجز اس شخص کے جس کا قلب سلیم ہے یعنی وہ مومن ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ سب چیزیں قیامت میں بھی مفید و نافع ہو سکتی ہیں مگر صرف مومن کے لئے نفع بخش ہوں گی کافر کو کچھ نفع نہ دیں گی۔ یہاں ایک بات یہ قابل نظر ہے کہ اس جگہ قرآن کریم نے وّلَا بَنُوْنَ فرمایا جس کے معنے نرینہ اولاد کے ہیں عام اولاد کا ذکر غالباً اس لئے نہیں کیا کہ آڑے وقت میں کام آنے کی توقع دنیا میں بھی نرینہ اولاد یعنی لڑکوں ہی سے ہو سکتی ہے لڑکیوں سے کسی مصیبت کے وقت امداد ملنے کا تو یہاں بھی احتمال شاذ و نادر ہی ہوتا ہے اس لئے قیامت میں بالتخصیص لڑکوں کے غیر نافع ہونے کا ذکر کیا گیا جن سے دنیا میں توقع نفع کی رکھی جاتی تھی۔ - دوسری بات یہ ہے کہ قلب سلیم کے لفظی معنے تندرست دل کے ہیں۔ ابن عباس نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ قلب ہے جو کلمہ توحید کی گواہی دے اور شرک سے پاک ہو، یہی مضمون مجاہد حسن بصری سعید بن مسیب سے بعنوان مختلف منقول ہے۔ سعید بن مسیب نے فرمایا کہ تندرست دل صرف مومن کا ہوسکتا ہے۔ کافر کا دل بیمار ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے فِىْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ- مال و اولاد اور خاندانی تعلقات آخرت میں بھی بشرط ایمان نفع پہنچا سکتے ہیں :- آیت مذکورہ کی مشہور تفسیر کے مطابق معلوم ہوا کہ انسان کا مال قیامت کے روز بھی اس کے کام آسکتا ہے بشرطیکہ وہ مسلمان ہو۔ اس کی صورت یہ ہے کہ جس شخص نے دنیا میں اپنا مال اللہ کی راہ اور نیک کاموں میں خرچ کیا تھا یا کوئی صدقہ جاریہ کر کے چھوڑا تھا۔ اگر اس کا خاتمہ ایمان پر ہوا محشر میں مومنین کی فہرست میں داخل ہوا تو یہاں کا خرچ کیا ہوا مال اور صدقہ جاریہ کا ثواب اس کو میدان حشر اور میزان حساب میں بھی کام آوے گا اور اگر یہ شخص مسلمان نہیں تھا یا خدانخواستہ مرنے سے پہلے ایمان سے نکل گیا تو اب دنیا میں کیا ہوا کوئی نیک عمل اس کے کام نہ آوے گا اور اولاد کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اگر یہ شخص مسلمان ہے تو آخرت میں بھی اس کو اولاد کا فائدہ پہنچ سکتا ہے اس طرح سے کہ اس کے بعد اس کی اولاد اس کے لئے دعائے مغفرت کرے یا ایصال ثواب کرے، اور اس طرح بھی کہ اس نے اولاد کو نیک بنانے کی کوشش کی تھی اس لئے ان کے نیک عمل کا ثواب اس کو بھی خود بخود ملتا رہا اور اس کے نامہ اعمال میں درج ہوتا رہا اور اس طرح بھی کہ اولاد محشر میں اس کی شفاعت کر کے بخشوا لے جیسا کہ بعض روایات حدیث میں ایسی شفاعت کرنا اور اس کا قبول ہونا ثابت ہے خصوصاً نابالغ اولاد کا۔ اسی طرح اولاد کو ماں باپ سے بھی آخرت میں بشرط ایمان یہ نفع پہنچے گا کہ اگر یہ مسلمان ہوئے مگر ان کے اعمال صالحہ ماں باپ کے درجے کو نہیں پہنچے تو اللہ تعالیٰ ان کے باپ دادا کی رعایت کر کے ان کو بھی اسی مقام بلند میں پہنچا دیں گے جو ان کے باپ دادا کا مقام ہے، قرآن کریم میں اس کی تصریح اس طرح مذکور ہے وَ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ یعنی ہم ملا دیں گے اپنے نیک بندوں کے ساتھ ان کی ذریت کو بھی۔ اس آیت کی مذکور الصدر مشہور تفسیر سے معلوم ہوا کہ قرآن حدیث میں جہاں کہیں یہ مذکور ہے کہ قیامت میں خاندانی تعلق کچھ کام نہ آوے گا اس کی مراد یہ ہے کہ غیر مومن کو کام نہ آوے گا یہاں تک کہ پیغمبر کی اولاد اور بیوی بھی اگر مومن نہیں تو ان کی پیغمبری سے ان کو قیامت میں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا جیسا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے اور لوط (علیہ السلام) کی بیوی اور ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا معاملہ ہے۔ آیات قرآن فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ اور يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْهِ وَاُمِّهٖ وَاَبِيْهِ ) اور لّا يَجْزِيْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ ) ان سب آیات کا یہی مفوم ہوسکتا ہے۔ واللہ اعلم
يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ ٨٨ۙ- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،- والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں - اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - ( ابْنُ )- أصله : بنو، لقولهم في الجمع :- أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر - أولاک بنو خير وشرّ كليهما - وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] - وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ .- الابن ۔- یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔
آیت ٨٨ ( یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ ) ” - جس دن اللہ کی پکڑ سے نہ دولت بچا سکے گی اور نہ اولاد۔