8 9 1قلب سلیم یا بےعیب دل سے مراد وہ دل ہے جو شرک سے پاک ہو۔ یعنی کلب مومن۔ اس لئے کافر اور منافق کا دل مریض ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں، بدعت سے خالی اور سنت پر مطمئن دل، بعض کے نزدیک دنیا کے مال متاع کی محبت سے پاک دل اور بعض کے نزدیک، جہالت کی تاریکیوں اور اخلاقی ذلالتوں سے پاک دل۔ یہ سارے مفہوم بھی صحیح ہوسکتے ہیں۔ اس لئے کہ قلب مومن مذکورہ تمام برائیوں سے پاک ہوتا ہے۔
[٦٤] آیت نمبر ٨٨، ٨٩ حضرت ابراہیم کی دعا کا حصہ بھی ہوسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی۔ پہلی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اس دن مجھے رسوا نہ کرنا جس دن نہ مال کام آئے گا اور نہ اولاد۔ یعنی میرے باپ کی دولت اس دن اس کے کسی کام نہ آئے گی اور نہ ہی میں کام آسکوں گا۔ کام آنے والی چیز تو صرف اللہ کی اطاعت ہوگی۔ جو شخص فرمانبردار دل لے کر حاضر ہوا وہی کامیاب ہوگا اور دوسری صورت میں قیامت کی یہ صفات اللہ تعالیٰ سے ارشاد ہوئی ہیں۔
اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ : سلامتی والے دل سے مراد ایسا دل ہے جو کفر و شرک سے پاک ہو۔ بعض نے بدعت و جہالت اور اخلاق رذیلہ سے پاک ہونا بھی مراد لیا ہے۔ مال اور اولاد بھی کام آئیں گے تو اس کے جس کا دل کفر و شرک سے خالی ہوگا۔
اِلَّا مَنْ اَتَى اللہَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ ٨٩ۭ- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔
قول باری ہے : (الا من اتی اللہ بقلب سلیم) بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لئے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو۔ ایک قول کے مطابق آپ نے سلامتی قلب کی دعا اس لئے مانگی تھی کہ جب دل سلامت ہوتا ہے تو تمام اعضاء وجوارح بگاڑ سے بچ جاتے ہیں کیونکہ اعضا میں بگاڑ اور فساد اس وقت پیدا ہوتا ہے جب دل میں بگاڑ کا ارادہ جنم لیتا ہے۔ اگر اس کے ساتھ جہالت بھی شامل ہوجائے تو دل دو طرفہ طور پر سلامتی سے محروم ہوجاتا ہے۔- حضرت نعمان بن بشیر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (الی لا علم مضغۃ اذا صلحت صلح البدن کلہ واذا فسدت فسد المجسد کلہ الاوھی القلب۔ مجھے گوشت کے ایک ایسے لوتھڑے کا علم ہے کہ اگر وہ درست رہے تو سارا جسم انسانی درست رہتا ہے۔ اور اگر اس میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو سارا جسم بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔ سن لو وہ گوشت کا لوتھڑا دل ہے) ۔
آیت ٨٩ (اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ ) ” - سلیم کے معنی ہیں : سلامتی والا۔ قلب سلیم یا فطرت سلیمہ سے ایسا دل ‘ ایسی فطرت یا ایسی روح مراد ہے جو ہر قسم کی آلودگی سے پاک یعنی اپنی اصلی حالت پر ہو۔ قیامت کے دن جو شخص ایسے پاکیزہ دل کے ساتھ اللہ کے حضور حاضر ہوگا اسے اس دن کی ہولناکیوں سے بچالیا جائے گا۔
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :65 ان دو فقروں کے متعلق یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا حصہ ہیں یا انہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے قول پر اضافہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے ۔ اگر پہلی بات مانی جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ کے لیے یہ دعا کرتے وقت خود بھی ان حقائق کا احساس رکھتے تھے ۔ اور دوسری بات تسلیم کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کی دعا پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ قیامت کے دن آدمی کے کام اگر کوئی چیز آ سکتی ہے تو وہ مال اور اولاد نہیں بلکہ صرف قلب سلیم ہے ، ایسا دل جو کفر و شرک و نافرمانی اور فسق و فجور سے پاک ہو ۔ مال اور اولاد بھی قلب سلیم ہی کے ساتھ نافع ہو سکتے ہیں ، اس کے بغیر نہیں ۔ مال صرف اس صورت میں وہاں مفید ہو گا جبکہ آدمی نے دنیا میں ایمان و اخلاص کے ساتھ اسے اللہ کی راہ میں صرف کیا ہو ، ورنہ کروڑ پتی اور ارب پتی آدمی بھی وہاں کنگال ہو گا ۔ اولاد بھی صرف اسی حالت میں وہاں کام آ سکے گی جبکہ آدمی نے دنیا میں اسے اپنی حد تک ایمان اور حسن عمل کی تعلیم دی ہو ، ورنہ بیٹا اگر نبی بھی ہو تو وہ باپ سزا پانے سے نہیں بچ سکتا جس کا اپنا خاتمہ کفر و معصیت پر ہوا ہو اور اولاد کی نیکی میں جس کا اپنا کوئی حصہ نہ ہو ۔