Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

101اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر عالم الغیب نہیں ہوتے، ورنہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے ہاتھ کی لاٹھی سے نہ ڈرتے دوسرا، طبعی خوف پیغمبر کو بھی لا حق ہوسکتا ہے کیونکہ وہ بھی بالآخر انسان ہی ہوتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠] اس آیت سے کئی امور پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً حضرت موسیٰ کی لاٹھی کے سانپ بن جانے کا معجزہ، آپ کو سب سے پہلے اور اسی مقام پر عطا ہوا تھا۔ یہ لاٹھی زمین پر پڑتے ہی اژدہا کی شکل کا بڑا سانپ بن گیا جس میں پھرتی پتلے سانپ کی تھی۔ دوسرے یہ کہ چونکہ یہ پہلا موقع تھا اس لئے موسیٰ (علیہ السلام) خود بھی اس سانپ سے ڈر گئے تھے۔ تیسرے یہ کہ اس وقت ہی آپ کو معلوم ہوا کہ منصب رسالت آپ کے سپرد کیا جارہا اس سے پہلے آپ کو قطعی طور پر علم نہ تھا کہ آپ کو نبوت عطا ہوگی اور نبوت یا رسالت عطا ہونے کے وقت بھی طبیعت گرانبار ہوجاتی ہے اور کچھ نامعلوم سا خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی غار حرا میں ایسا خوف لاحق ہوا تھا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول میرے حضور ڈرا نہیں کرتے

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَلْقِ عَصَاكَ ۭ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ ۔۔ : ” جَاۗنٌّ“ اصل میں چھوٹے سفیدسانپ کو کہتے ہیں۔ سورة اعراف (١٠٧) اور شعراء (٣٢) میں اس کے لیے ” ثُعْبَانٌ“ کا لفظ آیا ہے، جس کا معنی بڑا سانپ (اژدہا) ہے۔ اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ وہ شروع میں ” جَانٌّ“ تھا، پھر ” ثُعْبَانٌ“ بن گیا۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” اول سٹک سی بن گئی تھی پتلی، جب فرعون کے آگے ڈالی تو ناگ ہوگئی بڑھ کر۔ “ (موضح) یا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سانپ حجم میں اژدہا تھا، مگر تیزی میں چھوٹے سانپ جیسا تھا۔ - يٰمُوْسٰي لَا تَخَفْ ۔۔ : موسیٰ (علیہ السلام) کے خوف زدہ ہو کر پیٹھ پھیر کر لوٹنے سے ظاہر ہے کہ انھیں اس سے پہلے نہ اپنے نبی بنائے جانے کا علم تھا، نہ یہ معجزات عطا کیے جانے کا۔ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی پہلی وحی پر سخت خوف زدہ ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا : ” اے موسیٰ ڈرو نہیں، رسول میرے پاس ڈرا نہیں کرتے۔ “ بعض حضرات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیدائش سے بھی پہلے عالم الغیب باور کروانے پر اصرار کرتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَلْقِ عَصَاكَ۝ ٠ۭ فَلَمَّا رَاٰہَا تَہْتَزُّ كَاَنَّہَا جَاۗنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّلَمْ يُعَقِّبْ۝ ٠ۭ يٰمُوْسٰي لَا تَخَفْ۝ ٠ۣ اِنِّىْ لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُوْنَ۝ ١ ٠ۤۖ- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - عصا - العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] . - ( ع ص ی ) العصا - ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ - هزز - الْهَزُّ : التّحريك الشّديد، يقال : هَزَزْتُ الرّمح فَاهْتَزَّ وهَزَزْتُ فلانا للعطاء . قال تعالی: وَهُزِّي - إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ [ مریم 25] ، فَلَمَّا رَآها تَهْتَزُّ [ النمل 10] ، واهْتَزَّ النّبات : إذا تحرّك لنضارته، قال تعالی: فَإِذا أَنْزَلْنا عَلَيْهَا الْماءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ [ الحج 5] واهْتَزَّ الكوكب في انقضاضه، وسیف هَزْهَازٌ ، وماء هُزَهِزٌ ورجل هُزَهِزٌ: خفیف .- ( ھ ز ز ) الھز - کے معنی کسی چیز کو زور سے ملانے کے ہیں جیسے ھززت الرمح میں نے نیزہ زور سے ہلا یا اھتز افتعال اس کا مط اور ہے اسی طرح ھززت فلانا للعطآء کے معنی ہیں میں نے فلاں کو بخشش کے لئے حرکت دی یعنی وہ خوشی سے جھومنے لگا قرآن میں ہے : ۔ وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ [ مریم 25] اور کھجور کے تنے کو پکڑا کر اپنی طرف ہلاؤ ۔ فَلَمَّا رَآها تَهْتَزُّ [ النمل 10] جب اسے دیکھا تو اس طرح اہل رہی تھی گویا سانپ ہے اھتزت النبات نباتات ( سبزے کا لہلہا نا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِذا أَنْزَلْنا عَلَيْهَا الْماءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ [ الحج 5] پھر جب ہم اس پر بارش بر ساتے ہیں تو وہ شاداب ہوجاتی ہے اور ابھر نے لگتی ہے ۔ اھتز الکواکب فی انقضا ضہ ستارے کا تیزی کے ساتھ ٹوٹنا اور سیف ھز ھا ز کے معنی لچکدار تلوار کے ہیں اور شفاف پانی کو ماء ھز ھز کہا جاتا ہے اسی طرح ھز ھز کے معنی سبک اور ہلکے پھلکے آدمی کے بھی آتے ہیں ۔- جان - وقوله تعالی: وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر 27] فنوع من الجنّ ، وقوله تعالی: كَأَنَّها جَانٌّ [ النمل 10] ، قيل : ضرب من الحيّات .- اور آیت کریمہ ؛۔ وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر 27] اور جان کو اس سے بھی پہلے بےہوئیں کی آگ سے پیدا کیا تھا ۔ میں جان سے بھی جنوں کی ایک قسم مراد ہے ۔ لیکن آیت کریمۃ ؛ كَأَنَّها جَانٌّ [ النمل 10] میں جان سے ایک قسم سانپ مراد ہے ۔- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - دبر ( پيٹھ)- دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل «3» ، وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ- دُبُرَهُ [ الأنفال 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ، أي :- قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ- «1» ( وأَدْبَار النّجوم) «2» ، فإدبار مصدر مجعول ظرفا،- ( د ب ر ) دبر ۔- بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔ - تَّعْقيبُ- والتَّعْقيبُ : أن يأتي بشیء بعد آخر، يقال : عَقَّبَ الفرسُ في عدوه . قال : لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] ، أي : ملائكة يتعاقبون عليه حافظین له . وقوله : لا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ [ الرعد 41] ، أي : لا أحد يتعقّبه ويبحث عن فعله، من قولهم : عَقَّبَ الحاکم علی حکم من قبله : إذا تتبّعه . قال الشاعر : 325-- وما بعد حکم اللہ تعقیب ويجوز أن يكون ذلک نهيا للنّاس أن يخوضوا في البحث عن حكمه وحکمته إذا خفیت عليهم، ويكون ذلک من نحو النّهي عن الخوض في سرّ القدر . وقوله تعالی: وَلَّى مُدْبِراً وَلَمْ يُعَقِّبْ [ النمل 10] ، أي : لم يلتفت وراء ه . والاعتقاب : أن يتعاقب شيء بعد آخر کا عتقاب اللّيل والنهار، ومنه : العُقْبَة أن يتعاقب اثنان علی رکوب ظهر، وعُقْبَة الطائر : صعوده وانحداره، وأَعقبه كذا : إذا أورثه ذلك، قال : فَأَعْقَبَهُمْ نِفاقاً [ التوبة 77] ،- التعقیب ایک چیز کے بعد دوسری لانا ۔ عقب الفرس فی عدوہ گھوڑے نے ایک دوڑ کے بعد دوسری دوڑ لگائی قرآن میں ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] اس کے آگے اور پیچھے خدا کے چوکیدار ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ [ الرعد 41] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے فیصلے کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا اور نہ اس پر بحث کرسکتا ہے ۔ یہ عقب الحاکم علٰی حکم من قبلیہ کے محاورہ سے ماخوذ ہے بعنی حاکم نے اپنے بیشر وحاکم کے خلاف فیصلہ دیا شاعر نے کہا ہے ۔ ( 317 ) وما یعد حکم اللہ تعقیب اللہ کے فیصلہ کے بعد کسی اور کا فیصلہ نہیں آسکتا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت مذکورہ میں لوگوں کو اللہ کے حکم اور اس کی مخفی حکمتو میں خوض کرنے سے منع فرمایا گیا ہو ۔ جیسا کہ قضا وقدر کے اسرار میں غور وخوض کیا گیا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلَّى مُدْبِراً وَلَمْ يُعَقِّبْ [ النمل 10] میں لم یعقب کے معنی ہیں اس نے مڑکر پیچھے کو نہ دیکھا الاعتقاب کے معنی ایک چیز کے دوری کے بعد آنے کے ہیں جیسے شب دروز کہ یہ دونوں یکے بعد دیگرے آتے ہیں اسی سے العقبۃ ہے یعنی دو مسافروں کا یکے بعد دیگرے ایک سواری پر سوار ہونا عقبۃ الطائر پرند کا کبھی اوپر چڑھنا اور کبھی نیچے اترنا اعقبۃ کذا کسی چیز کا وارث بنا دینا ایک چیز کی جگہ دوسری چیز کو اس کا جانشین بنانا قرآن میں ہے : ۔ فَأَعْقَبَهُمْ نِفاقاً [ التوبة 77] تو خدا نے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا ۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - لدی - لَدَى يقارب لدن . قال تعالی: وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] .- ( ل د ی ) لدی یہ تقریبا لدن کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(فَلَمَّا رَاٰہَا تَہْتَزُّ کَاَنَّہَا جَآنٌّ وَّلّٰی مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْ ط) ” - یعنی آپ ( علیہ السلام) پر شدید خوف طاری ہوگیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر :12 سورہ اعراف اور سورہ شعراء میں اس کے لیے ثعبان ( اژدھے ) کا لفظ استعمال کیا گ یا ہے اور یہاں اسے جان کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے جو چھوٹے سانپ کے لے بولا جاتا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ جسامت میں وہ اژدہا تھا ، مگر اس کی حرکت کی تیزی ایک چھوٹے سانپ جیسی تھی ، اسی مفہوم کو سورہ طہ میں حیۃ تسعی ( دوڑتے ہوئے سانپ ) کے الفاظ میں ادا کیا گیا ہے ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر :13 یعنی میرے حضور اس امر کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ رسول کو کوئی گزند پہنچے رسالت کے منصب عظیم پر مقرر کرنے کے لیے جب میں کسی کو اپنی پیشی میں بلاتا ہوں تو اس کی حفاظت کا خود ذمہ دار ہوتا ہوں ، اس لیے خواہ کیسا ہی کوئی غیر معمولی معاملہ پیش آئے رسول کو بے خوف اور مطمئن رہنا چاہیے کہ اس کے لیے وہ کسی طرح ضرر رساں نہ ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani