9 1درخت سے ندا کا آنا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے باعث تعجب تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موسٰی تعجب نہ کر میں ہی اللہ ہوں۔
[٩] اس منظر نے پھر اس آواز نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تو پھر آواز آئی : موسیٰ میں اللہ ہوں، زبردست ہوں اور حکمت والا ہوں اور یہاں سبحان اللہ کہنے سے مقصود یہ تھا کہ اللہ رب العالمین ایسا نہیں جو اس درخت میں یا آگ میں موجود ہو یا ان میں حلول کر آیا ہو۔ بس اس مقام پر اللہ نے اپنی تجلی ڈالی تھی۔ جیسے سورج کے سامنے شیشہ رکھنے سے شیشے میں سے بھی روشنی اور اس کی شعاعیں اور سورج سب کچھ نظر آنے لگتے ہیں۔ لیکن یہ کہا جاسکتا ہے اتنا بڑا سورج چھوٹے سے آئینہ میں سما گیا ہے یا اس جگہ موجود ہے۔- جہمیہ اور معتزلہ جو اللہ تعالیٰ کی صفات کی بزعم خود تنزیہہ بیان کرتے اور اپنے آپ کو اہل التوحید کہتے تھے نیز بعض متصوفین اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کی آواز نہیں سنی بلکہ اس درخت میں اللہ تعالیٰ نے بات کرنے کی قوت پیدا کردی تھی اور یہ آواز اسی درخت کی آواز تھی اور اسی درخت سے نکل رہی تھی۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا درخت بیچارے کی یہ مال ہے کہ وہ کہا میں اللہ ہوں، زبردست اور حکمتوں والا اور درخت یہ دعویٰ کرسکتا ہے تو پھر حسین بن منصور بن حلاج کا کیا قصور تھا جس نے اناالحق کا دعویٰ کیا تھا ؟ نیز جنید بغدادی اور دیگر علمائے حق نے اس کے قتل کا کیوں فتویٰ دیا تھا ؟- دراصل یہ اللہ تعالیٰ کے اپنے بندے سے ہمکلام ہونے کی ایک مسلمہ خاص شکل ہے مجھے سورة شوریٰ کی آیت نمبر ٥١ میں اومن واری حجاب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور 2[ [ وراء کا لفظ آگے، پیچھے، اوپر، نیچے غرضیکہ سب سمتوں کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے حجاب میں رہ کر درخت کی طرف سے کلام کی تھی اور اللہ کا حجاب نور ہے جیسا کہ احادیث میں وارد ہے کہ حجاب النور تو یا اس روشنی کے پار سے اللہ تعالیٰ نے خود موسیٰ (علیہ السلام) سے باتیں کی تھیں اسی لئے موسیٰ (علیہ السلام) کو کلیم اللہ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ قرآن میں اللہ نے واضح طوف پر فرمایا ہے وکلم اژ موسیٰ تکلیما جب کہ معتزلہ اللہ کے کلام کرنے کے منکر ہیں اور متصوفین عقیدہ حلول کو درست سمجھتے ہیں۔
يٰمُوْسٰٓي اِنَّهٗٓ اَنَا اللّٰهُ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ : دیکھیے سورة طٰہٰ (١٤) یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے اپنی دو صفات بیان فرمائیں، ایک ” عزیز “ اور دوسری ” حکیم “۔ کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو جو عظیم ذمہ داری دی جانے والی تھی اس کے لیے انھیں یہ اطمینان دلانا ضروری تھا کہ فرعون کو دعوت دیتے وقت اس کی شان و شوکت یا قوت و عظمت سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ انھیں بھیجنے والا اللہ ہے جو سب پر غالب ہے اور جو کمال حکمت والا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کے گھر پرورش دلانے، پھر دس سال بکریاں چروانے اور اندھیری رات میں صحرا میں راستہ بھلا کر اچانک نبوت اور معجزے عطا کرکے فرعون کی طرف بھیجنے میں اس کی بیشمار حکمتیں ہیں۔
يٰمُوْسٰٓي اِنَّہٗٓ اَنَا اللہُ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ٩ۙ- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزۃ - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )
(٩۔ ١٠) ارشاد ہوا اے موسیٰ (علیہ السلام) بات یہ ہے کہ میں اللہ ہوں اور جو میرے اوپر ایمان نہ لائے اس کو سزا دینے میں زبردست ہوں اور اپنے حکم اور فیصلہ میں حکمت والا ہوں۔- میں نے اس چیز کا حکم دیا ہے کہ میرے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کی جائے اور تم ہاتھ میں سے اپنا عصا زمین پر ڈال دو ، چناچہ انہوں نے ڈال دیا، سو جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو اس طرح حرکت کرتے دیکھا جیسے سانپ ہو تو وہ اس سے مڑ کر بھاگے اور اس کے ڈر کی وجہ سے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔- ارشاد خداوندی ہوا اے موسیٰ (علیہ السلام) ڈور نہیں اور ہمارے حضور میں پیغمبر نہیں ڈرا کرتے۔
آیت ٩ (یٰمُوْسٰٓی اِنَّہٗٓ اَنَا اللّٰہُ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) ” - میں اللہ ہوں اور میں ہی آپ ( علیہ السلام) سے اس وقت خطاب کر رہا ہوں۔