8 1دور سے جہاں آگ کے شعلے لپکتے نظر آئے، وہاں پہنچے یعنی کوہ طور پر، تو دیکھا کہ سرسبز درخت سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے ہیں۔ یہ حقیقت میں آگ نہیں تھی، اللہ کا نور تھا، جس کی تجلی آگ کی طرح محسوس ہوتی تھی مَنْ فَی النَّار میں مَنْ سے مراد اللہ تبارک و تعالیٰ اور نار سے مراد اس کا نور ہے اور وَمَنْ حَوْلَھَا (اس کے ارد گرد) سے مراد موسیٰ اور فرشتے، حدیث میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے حجاب (پردے) کو نور (روشنی) اور ایک روایت میں نار (آگ) سے تعبیر کیا گیا ہے اور فرمایا ہے، کہ اگر اپنی ذات کو بےنقاب کر دے تو اس کا جلال تمام مخلوقات کو جلا کر رکھ دے (صحیح مسلم)
[٨] وہاں پہنچ کر عجیب سا منظر دیکھا۔ آگ نے ایک درخت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے مگر درخت ویسے کا ویسا سرسبز ہے اور لہلہا رہا ہے۔ آس پاس کوئی آدمی بھی نہیں ہے۔ آگ سے دھواں بھی نہیں اٹھ رہا۔ اور پورا خطہ زمین روشنی سے جگمگا رہا ہے۔ اس حیرانی کے عالم میں کھڑے تھے کہ اس روشنی سے یا درخت میں سے ندا آئی، موسیٰ اپنے جوتے اتار لو۔ اس وقت تم طویٰ کی مقدس وادی میں پہنچ گئے ہو اور تم یہاں بھولے سے نہیں آگئے بلکہ ٹھیک ہمارے اندازے کے مطابق یہاں پہنچے ہو۔ اس آگ میں اور اس کے ارد گرد جو کوئی بھی ہے سب مبارک ہے۔ یہ آگ، یہ درخت، تم، خود اور آس پاس فرشتے سب مبارک اور برکت ہے۔ اور اللہ کی ذات، جو تمام جہانوں کی پروردگار ہے۔ ہر قسم کے جہات اور تشبیہات سے منزہ اور پاک ہے۔
فَلَمَّا جَاۗءَهَا نُوْدِيَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِي النَّارِ ۔۔ : موسیٰ (علیہ السلام) جب اس آگ کے پاس آئے تو انھیں آواز دی گئی کہ بابرکت ہے وہ جو آگ میں ہے اور جو اس کے ارد گرد ہے۔ یہاں سوال ہے کہ ” مَنْ فِي النَّارِ “ (وہ جو آگ میں ہے) سے مراد کون ہے ؟ اور ” مَنْ حَولَھَا “ (جو اس آگ کے اردگرد ہے) سے مراد کون ہے ؟ بعض مفسرین نے ” مَنْ فِی النَّارِ “ سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) لیے ہیں اور کہا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) آگ کے قریب تھے، اس لیے ان کو ” مَنْ حَولَھَا “ کہہ دیا گیا اور ” مَنْ فِي النَّارِ “ سے مراد فرشتے ہیں۔ بعض نے ان الفاظ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے موسیٰ (علیہ السلام) اور فرشتوں کے لیے سلام کے قائم مقام قرار دیا ہے، جس طرح فرشتوں نے سارہ[ کو ” رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرَکَاتُهٗ “ کہا تھا۔ صاحب ” مواہب الرحمان “ فرماتے ہیں، یہ تکلف سے خالی نہیں۔ زمخشری اور ان کے ہم خیال حضرات نے ”ۢ بُوْرِكَ مَنْ فِي النَّارِ “ کا معنی ” بُوْرِکَ فِيْ مَکَان النَّارِ “ کیا ہے، یعنی آگ کی جگہ بابرکت ہے اور اس کے اردگرد کی جگہ، یعنی سارا ملک شام بابرکت ہے۔ مگر ” مَن “ ذوی العقول کے لیے آتا ہے، اس سے مکان مراد لینا بعید بات ہے۔ سب سے ظاہر بات وہ ہے جو عبد الرزاق نے اپنی صحیح سند کے ساتھ قتادہ سے نقل کی ہے، انھوں نے فرمایا : ” نُوْرُ اللّٰہِ بُوْرِکَ “ یعنی اللہ کا نور بابرکت ہے۔ عبد الرزاق ہی نے حسن کا قول نقل کیا ہے کہ ” مَنْ فِي النَّارِ “ سے مراد نور ہے اور ” مَنْ حَولَھَا “ سے مراد فرشتے ہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ بابرکت ہے وہ ذات پاک جو اس آگ میں ہے اور وہ فرشتے بھی جو اس کے ارد گرد ہیں۔ اس معنی کی تائید اگلی آیت میں مذکور الفاظ ” يٰمُوْسٰٓي اِنَّهٗٓ اَنَا اللّٰهُ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ “ سے بھی ہوتی ہے۔ یہ آگ جو موسیٰ (علیہ السلام) کو نظر آئی اللہ تعالیٰ کی ذات کا نور نہیں تھی بلکہ نور یا نار کا وہ پردہ تھا جو اللہ تعالیٰ کے چہرے کا حجاب ہے۔ یہ تفسیر عبداللہ بن مسعود (رض) کے بیٹے ابوعبیدہ نے اللہ تعالیٰ کے نور کے پردوں والی حدیث بیان کرتے ہوئے زیر تفسیر آیت کی تلاوت کرکے فرمائی ہے۔ - صحیح مسلم میں ابو عبیدہ نے ابو موسیٰ اشعری (رض) سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم میں کھڑے ہو کر پانچ باتیں بیان فرمائیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَا یَنَامُ وَلَا یَنْبَغِيْ لَہُ أَنْ یَّنَامَ ، یَخْفِضُ الْقِسْطَ وَیَرْفَعُہُ ، یُرْفَعُ إِلَیْہِ عَمَلُ اللَّیْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّھَارِ ، وَ عَمَلُ النَّھَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّیْلِ ، حِجَابُہُ النُّوْرُ وَفِيْ رِوَایَۃِ أَبِيْ بَکْرٍ النَّارُ لَوْ کَشَفَہُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْھِہِ مَا انْتَھٰی إِلَیْہِ بَصَرُہُ مِنْ خَلْقِہِ ) [ مسلم، الإیمان، باب في قولہ (علیہ السلام) إن اللہ لا ینام ۔۔ : ١٧٩ ] ” اللہ عز و جل سوتا نہیں، نہ ہی سونا اس کے لائق ہے۔ وہ ترازو کو نیچا کرتا ہے اور اسے اونچا کرتا ہے، رات کا عمل اس کی طرف دن کے عمل سے پہلے اوپر لے جایا جاتا ہے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے اس کی طرف اوپر لے جایا جاتا ہے، اس کا حجاب نور ہے۔ “ ابوبکر کی روایت میں (نور کی جگہ) نار ہے۔ ” اگر وہ اسے ہٹا دے تو اس کے چہرے کی شعائیں اس کی مخلوق میں سے ان سب چیزوں کو جلا دیں جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے۔ “ مسند احمد میں ہے کہ ابوعبیدہ نے یہ حدیث بیان کر کے یہ آیت پڑھی : (فَلَمَّا جَاۗءَهَا نُوْدِيَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا ۭ وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ) [ مسند أحمد : ٤؍٤٠٠، ٤٠١، ح : ١٩٦٠٦ ] اور ابن ابی حاتم نے بھی اپنی تفسیر میں سورة نمل کی اس آیت کے تحت یہ حدیث بیان فرمائی ہے، جس کے آخر میں ابوعبیدہ نے اس آیت کی تلاوت کی ہے۔ ابن ابی حاتم کے محقق نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ [ الصحیح المسبور ]- یونانی فلسفے سے متاثر بہت سے مفسرین نے اللہ تعالیٰ کے متعلق قرآن و حدیث میں بیان کی گئی بہت سی باتوں کا انکار کردیا، یا ان کی تاویل کی، مثلاً قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے۔ وہ جب چاہے جہاں چاہے نور یا نار کے پردے میں محجوب رہ کر نزول فرماتا ہے، وہ رات کے پچھلے پہر آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے۔ قیامت کے دن زمین پر نزول فرمائے گا، اس دن اس کے عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ وہ جب چاہے، جو چاہے، جس سے چاہے کلام کرسکتا ہے اور کرتا ہے۔ ہمارے ان مفسرین نے ان سب باتوں کو اللہ تعالیٰ کی شان کے منافی قرار دے کر ان کا انکار کردیا، یا ان کی ایسی تاویل کی جو انکار سے بھی بدتر ہے۔ ان حضرات نے یہ نہ سوچا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے بڑھ کر اللہ کی شان نہ سمجھ سکتے ہیں، نہ بیان کرسکتے ہیں۔ اس مقام پر ” مَنْ فِی النَّار “ سے اللہ تعالیٰ کی ذات کے بجائے موسیٰ (علیہ السلام) یا کوئی اور مراد لینے کے پیچھے بھی یہی مشکل کار فرما ہے۔ - وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : یہ اس بات کی تردید ہے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کے آگ کے حجاب میں نزول کو یا بذات خود کلام کرنے کو اپنے نزول یا کلام کرنے کی طرح سمجھے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے فرمایا : (لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ) [ الشورٰی : ١١ ] ” اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ “ یعنی یہ بھی مانو کہ اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور یہ بھی مانو کہ وہ سمیع بھی ہے بصیر بھی، مگر اس کا سمع و بصر تمہاری مثل نہیں۔ - 3 بعض حضرات نے اس جگہ کی تعیین کا تکلف کیا ہے، جہاں موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ معاملہ پیش آیا تھا اور انھوں نے عیسائی بادشاہ قسطنطین کے ٣٦٥ ء میں اس مقام پر ایک کنیسہ تعمیر کرنے کو بطور دلیل پیش کیا ہے، بلکہ لوگوں کی روایات کو بنیاد بنا کر ایک درخت کو بھی وہ درخت قرار دے دیا ہے جس میں موسیٰ (علیہ السلام) کو آگ نظر آئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی معتبر دلیل نہیں کہ ہم اس جگہ کی تعیین کرسکیں۔ ہدایت کے لیے وہی کافی ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے بیان فرما دیا ہے، اگر اس کی ضرورت ہوتی تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی تعیین فرما دیتے۔
فَلَمَّا جَاۗءَهَا نُوْدِيَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا ۭ وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ، يٰمُوْسٰٓي اِنَّهٗٓ اَنَا اللّٰهُ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ۔- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے آگ دیکھنے اور آگ کے اندر سے ایک ندا سننے کی تحقیق :- قرآن کریم میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ واقعہ بہت سی سورتوں میں مختلف عنوانات کے ساتھ آیا ہے۔ سورة نمل کی مذکورہ آیات میں اس سلسلے کے دو جملے غور طلب ہیں۔ اول (بُوْرِكَ مَنْ فِي النَّارِ ) دوسرا (اِنَّهٗٓ اَنَا اللّٰهُ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ) اور سورة طہ میں جس کی تفسیر پہلے گزر چکی ہے اس واقعہ سے متعلق یہ الفاظ آئے ہیں (اِذْ رَاٰ نَارًا الی قولہ تعالیٰ نُوْدِيَ يٰمُوْسٰى، اِنِّىْٓ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۚ اِنَّكَ بالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى، وَاَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوْحٰى، اِنَّنِيْٓ اَنَا اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدْنِيْ ) ان آیات میں بھی دو جملے خاص طور پر سے غور طلب ہیں (اِنِّىْٓ اَنَا رَبُّكَ ) اور (اِنَّنِيْٓ اَنَا اللّٰهُ الخ) اور سورة قصص میں اس واقعہ کے یہ الفاظ ہیں (نُوْدِيَ مِنْ شَاطِی الْوَادِ الْاَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ اَنْ يّٰمُـوْسٰٓي اِنِّىْٓ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ) ان تینوں مواقع میں عنوان تعبیر اگرچہ مختلف ہے مگر مضمون تقریباً ایک ہی ہے وہ یہ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس رات میں کئی وجہ سے آگ کی ضرورت تھی حق تعالیٰ نے ان کو کوہ طور کے ایک درخت پر آگ دکھلائی۔ اس آگ یا درخت سے یہ آواز سنی گئی۔ اِنِّىْٓ اَنَا رَبُّكَ ، اِنَّهٗٓ اَنَا اللّٰهُ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ، اِنَّنِيْٓ اَنَا اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا، اِنِّىْٓ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ، یہ ہوسکتا ہے کہ یہ نداء بار بار ہوئی ہو کبھی ایک لفظ سے کبھی دوسرے لفظ سے اور آواز سننے کی جو کیفیت تفسیر بحر محیط میں ابو حیان نے اور روح المعانی میں آلوسی نے نقل کی ہے وہ یہ ہے کہ یہ آواز اس طرح سنی کہ ہر جانب سے یکساں آ رہی تھی جس کی کوئی جہت متعین نہیں ہو سکتی تھی اور سننا بھی ایک عجیب انداز سے ہوا کہ صرف کان نہیں بلکہ ہاتھ پاؤں وغیرہ تمام اعضائے بدن اس کو سن رہے تھے جو ایک معجزہ کی حیثیت رکھتی ہے۔- یہ ایک غیبی آواز تھی جو بلاکیف و بلاسمت سنی جا رہی تھی لیکن مبدا اس کا وہ آگ یا درخت تھا جس سے آگ کی شکل ان کو دکھائی گئی۔ ایسے ہی مواقع عام طور پر لوگوں کے لئے مغالطے اور بت پرستی کا سبب بن جاتے ہیں اس لئے ہر عنوان میں مضمون توحید کی طرف ہدایت اور تنبیہ ساتھ ساتھ کی گئی ہے زیر بحث آیت میں لفظ سُبْحٰنَ اللّٰهِ اسی تنبیہ کے لئے بڑھایا گیا۔ سورة طہ میں لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا اور سورة قصص میں اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ اسی مضمون کی تاکید کے لئے لایا گیا ہے۔ اس تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ یہ آگ کی شکل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس لئے دکھلائی گئی تھی کہ وہ اس وقت آگ اور روشنی کے حاجتمند تھے ورنہ اس کلام ربانی اور ذات ربانی کا آگ سے یا شجرہ طور سے کوئی تعلق نہ تھا۔ آگ اللہ تعالیٰ کی عام مخلوقات کی طرح ایک مخلوق تھی اسی لئے زیر بحث آیات میں جو یہ ارشاد ہے اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا، یعنی مبارک ہے وہ جو آگ کے اندر ہے اور وہ جو اس کے آس پاس ہے۔ اس کی تفسیر میں ائمہ تفسیر کے مختلف اقوال ہیں جس کی تفصیل تفسیر روح المعانی میں ہے۔ ایک قول حضرت ابن عباس مجاہد، عکرمہ سے منقول ہے کہ مَنْ فِي النَّارِ سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہوں کیونکہ آگ کوئی حقیقی آگ تو تھی نہیں جس بقعہ مبارکہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پہنچ گئے تھے وہ دور سے پورا آگ معلوم ہوتا تھا اس لئے موسیٰ (علیہ السلام) اس آگ کے اندر ہوئے اور مَنْ حَوْلَهَا سے مراد فرشتے ہیں جو آس پاس وہاں موجود تھے اور بعض حضرات نے اس کے برعکس یہ فرمایا کہ مَنْ فِي النَّارِ سے فرشتے اور مَنْ حَوْلَهَا سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مراد ہیں۔ تفسیر بیان القرآن کے خلاصہ تفسیر مذکور میں اسی کو اختیار کیا گیا ہے۔ آیات مذکورہ کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔- حضرت ابن عباس اور حسن بصری کی ایک روایت اور اس کی تحقیق :- یہاں ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ وغیرہ نے حضرت ابن عباس حضرت حسن بصری اور سعید بن جبیر سے مَنْ فِي النَّارِ کی تفسیر میں یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ مَنْ فِي النَّارِ سے خود ذات حق سبحانہ و تعالیٰ مراد ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ آگ ایک مخلوق ہے اور کسی مخلوق میں خالق کا حلول نہیں ہو سکتا۔ اس لئے اس روایت کا یہ مفہوم تو ہو نہیں سکتا کہ ذات حق سبحانہ و تعالیٰ نے آگ کے اندر حلول فرمایا تھا جیسا کہ بہت سے بت پرست مشرکین بتوں کے وجود میں ذات حق کے حلول کے قائل ہیں اور یہ توحید کے قطعاً خلاف ہے بلکہ مراد ظہور ہے جیسا آئینہ میں جس چیز کو دیکھا جاتا ہے وہ آئینہ میں حلول کئے ہوئے نہیں ہوتی اس سے الگ اور خارج ہوتی ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ ظہور جس کو تجلی بھی کہا جاتا ہے خود ذات حق سبحانہ و تعالیٰ کی تجلی نہیں تھی ورنہ اگر ذات حق تعالیٰ کا مشاہدہ موسیٰ (علیہ السلام) نے کرلیا ہوتا تو بعد میں ان کے اس سوال کی کوئی وجہ نہیں رہتی رَبِّ اَرِنِيْٓ اَنْظُرْ اِلَيْكَ (یعنی اے میرے پروردگار مجھے اپنی ذات پاک دکھا کہ میں دیکھ سکوں) اور اس کے جواب میں حق تعالیٰ کی طرف سے لَنْ تَرٰىنِيْ کا ارشاد بھی پھر کوئی معنے نہ رکھتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابن عباس کے اس قول میں حق تعالیٰ جل شانہ کا ظہور مراد ہے یعنی تجلی جو آگ کی صورت میں ہوئی یہ جس طرح حلول نہیں تھا اسی طرح تجلی ذات بھی نہیں تھی بلکہ لَنْ تَرٰىنِيْ الآیتہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس عالم دنیا میں تجلی ذاتی کا کوئی شخص مشاہدہ نہیں کرسکتا۔ پھر اس ظہور و تجلی کا کیا مفہوم ہوگا اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تجلی مثالی تھی جو حضرات صوفیہ کرام میں معروف ہے اس کی حقیقت کا سمجھنا تو انسان کے لئے مشکل ہے۔ بقدر ضرورت تقریب الی الفہم کے لئے احقر نے اپنی کتاب احکام القرآن بزبان عربی سورة قصص میں اس کی کچھ تفصیل لکھی ہے اہل علم اس میں دیکھ سکتے ہیں عوام کی ضرورت کی چیز نہیں۔
فَلَمَّا جَاۗءَہَا نُوْدِيَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَہَا ٠ۭ وَسُبْحٰنَ اللہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ٨- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- ندا - النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ- [ الجمعة 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ- [ آل عمران 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر :- 435-- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ- «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ- [ العلق 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال :- فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف .- ( ن د ی ) الندآ ء - کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔- برك - أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء .- قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96]- ( ب رک ) البرک - اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات - ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - حول - أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] - ( ح ول ) الحوال - ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔- سبحان - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] .- العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔
(٨) چناچہ جب موسیٰ (علیہ السلام) اس آگ کے پاس پہنچے تو ان کو اللہ کی طرف سے آواز دی گئی ہے کہ جو اس آگ میں یعنی فرشتے ہیں ان پر بھی برکت ہے اور جو اس آگ کے پاس ہے (یعنی موسیٰ علیہ السلام) اس پر بھی برکت ہو۔- یا یہ مطلب ہے کہ وہ ذات بہت ہی بابرکت ہے کہ جس کے نور سے یہ نور ہے یا یہ کہ جو تلاش میں ہیں یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور جو ان کے گرد فرشتے ہیں ان سب پر برکت ہو اور اللہ رب العزت کی ذات پاک ہے۔
سورة النمل حاشیہ نمبر :10 سورہ قصص میں ہے کہ ندا ایک درخت سے آرہی تھی فِي الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ ، اس سے جو صورت معاملہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ وادی کے کنارے سے ایک خطے میں آگ سی لگی ہوئی تھی مگر نہ کچھ جل رپا تجا نہ کوئی دھواں اٹھ رہا تھا اور اس آگ کے اندر ایک ہرا بھرا درخت کھڑا تھا جس پر سے یکایک یہ ندا آنی شروع ہوئی ۔ یہ ایک عجیب معاملہ ہے جو انبیاء علیہم السلام کے ساتھ پیش آتا رہا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلی مرتبہ نبوت سے سرفراز کیے گئے تو غار حرا کی تنہائی میں یکا یک ایک فرشتہ آیا اور اس نے اللہ کا پیغام پہنچانا شروع کردیا ، حضرت موسی کے ساتھ بھی یہی صورت پیش آئی کہ ایک شخص سفر کرتا ہوا ایک جگہ ٹھہرا ہے ، دور سے آگ دیکھ کر راستہ پوچھنے یا انگارا چننے کی غرض سے آتا ہے اور یکلخت اللہ رب العالمین کی ہر قیاس و گمان سے بالا ذات اس سے مخاطب ہوجاتی ہے ۔ ان مواقع پر درحقیقت ایک ایسی غیر معمولی کیفیت خارج میں بھی اور انبیاء علیہم السلام کے نفس میں بھی موجود ہوتی ہے جس کی بنا پر انہیں اس امر کا یقین حاصل ہوجاتا ہے کہ یہ کسی جن یا شیطان یا خود ان کے اپنے ذہن کا کوئی کرشمہ نہیں ہے ، انہ ان کے حواش کوئی دھوکا کھا رہے ہیں ، بلکہ فی الواقع یہ خداوند عالم یا اس کا فرشتہ ہی ہے جو ان سے ہمکلام ہے ، ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو النجم ، حاشیہ 10 ) سورة النمل حاشیہ نمبر :11 اس موقع پر سبحان اللہ ارشاد ارشاد فرمانے سے دراصل حضرت موسی کو اس بات پر متنبہ کرنا مقصود تھا کہ یہ معاملہ کمال درجہ تنزیہ کے ساتھ پیش آرہا ہے ، یعنی ایسا نہیں ہے کہ اللہ رب العالمین اس درخت پر بیٹھا ہو ، یا اس میں حلول کر آیا ہو ، یا اس کا نور مطلق تمہاری بینائی کے حدود میں سما گیا ہو ، یا کوئی زبان کسی منہ میں حرکت کر کے یہاں کلام کر رہی ہو ، بلکہ ان تمام محدود دیتوں سے پاک اور منزہ ہوتے ہوئے وہ بذات خود تم سے مخاطب ہے ۔
3: یہ حقیقت میں آگ نہیں تھی، بلکہ ایک نور تھا، اور اس میں فرشتے تھے، اُن کو بھی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے برکت کی دعا دی گئی، اور اِس کے آس پاس موسیٰ علیہ السلام تھے، اُن کو بھی۔