آگ لینے گئے رسالت مل گئی اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ یاد دلارہا ہے کہ اللہ نے انہیں کس طرح بزرگ بنایا اور ان سے کلام کیا اور انہیں زبردست معجزے عطا فرمائے اور فرعون اور فرعونیوں کے پاس اپنا رسول بنا کر بھیجا لیکن کفارنے آپ کا انکار کیا اپنے کفر وتکبر سے نہ ہٹے آپ کی اتباع اور پیروی نہ کی ۔ فرماتا ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام اپنی اہل کو لے کر چلے اور راستہ بھول گئے رات آگئی اور وہ بھی سخت اندھیرے والی ۔ تو آپ نے دیکھا کہ ایک جانب سے آگ کا شعلہ سا دکھائی دیتا ہے آپ نے اپنی اہل سے فرمایا کہ تم تو یہیں ٹھہرو ۔ میں اس روشنی کے پاس جاتا ہوں کیا عجب کہ وہاں سے جو ہو اس سے راستہ معلوم ہوجائے یا میں وہاں کچھ آگ لے آؤں کہ تم اسے ذرا سینک تاپ کرلو ۔ ایسا ہی ہوا کہ آپ وہاں سے ایک بڑی خبر لائے اور بہت بڑا نور حاصل کیا فرماتا ہے کہ جب وہاں پہنچے اس منظر کو دیکھ کر حیر ان رہ گئے دیکھتے ہیں کہ سرسبز درخت ہے اس پر آگ لپٹی رہی شعلے تیز ہورہے ہیں اور درخت کی سرسبزی اور بڑھ رہی ہے ۔ اونچی نگاہ کی تو دیکھا کہ وہ نور آسمان تک پہنچا ہوا ہے ۔ فی الوقع وہ آگ نہ تھی بلکہ نور تھا اور نور بھی وحدہ لاشریک کا ۔ حضرت موسیٰ متعجب تھے اور کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تھی ۔ کہ یکایک ایک آواز آتی ہے کہ اس نور میں جو کچھ ہے وہ پاکی والا اور بزرگی والا ہے اور اس کے پاس جو فرشتے ہیں وہ بھی مقدس ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سوتا نہیں اور نہ اسے سونا لائق ہے وہ ترازو کو پست کرتا ہے اور اونچی کرتا ہے رات کے کام اس کی طرف دن سے پہلے اور دن کے کام رات سے پہلے چڑھ جاتے ہیں ۔ اسکا حجاب نور یا آگ ہے اگر وہ بٹ جائیں تو اس کے چہرے کی تجلی ہر چیز کو جلادیں جس پر اسکی نگاہ پہنچ رہی ہے یعنی کل کائنات کو ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ راوی حدیث نے یہ حدیث بیان فرما کر یہی آیت تلاوت کی ۔ یہ الفاظ ابن ابی حاتم کے ہیں اور اس کی اصل صحیح مسلم میں ہے ۔ پاک ہے وہ اللہ جو تمام جہانوں کا پالنہار ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے مخلوق میں سے کوئی بھی اس کے مشابہ نہیں ۔ اس کی مصنوعات میں سے کوئی چیز کسی کے احاطے میں نہیں ۔ وہ بلند وبالا ہے ساری مخلوق سے الگ ہے زمین وآسمان اسے گھیر نہیں سکتے وہ احد وصمد سے وہ مخلوق کی مشابہت سے پاک ہے پھر خبر دی کہ خود اللہ تعالیٰ ان سے خطاب فرما رہا ہے وہی اسی وقت سرگوشیاں کررہا ہے جو سب پر غالب ہے سب اس کے ماتحت اور زیر حکم ہیں ۔ وہ اپنے اقوال وافعال میں حکمت والا ہے اس کے بعد جناب باری عزوجل نے حکم دیا کہ اے موسیٰ اپنی لکڑی کو زمین پر ڈال دو تاکہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکو کہ اللہ تعالیٰ فاعل مختار ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے ارشاد سنتے ہی لکڑی کو زمین پر گرایا ۔ اسی وقت وہ ایک پھن اٹھائے پھنکارتا ہوا سانپ بن گئی اور بہت بڑے جسم کا سانپ بڑی ڈراؤنی صورت اس موٹاپے پر تیز تیز چلنے والا ۔ ایسا جیتا جاگتا چلتا پھرتا زبردست اژدہا دیکھ کر حضرت موسیٰ خوف زدہ ہوگئے جان کا لفظ قرآن کریم میں ہے یہ ایک قسم کے سانپ ہیں جو بہت تیزی سے حرکت کرنے والے اور کنڈی لگانے والے ہوتے ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں میں رہنے والے ایسے سانپوں کے قتل سے ممانعت فرمائی ہے ۔ الغرض جناب موسیٰ اسے دیکھ کر ڈرے اور دہشت کے مارے ٹھہر نہ سکے اور منہ موڑ کر پیٹھ پھر کر وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے ایسے دہشت زدہ تھے کہ مڑ کر بھی نہ دیکھا ۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آواز دی کہ موسیٰ ڈرو نہیں ۔ میں تو تمہیں اپنا برگزیدہ رسول اور ذی عزت پیغمبر بنانا چاہتا ہوں ۔ اس کے بعد استثناء منقطع ہے اس آیت میں انسان کے لیے بہت بڑی بشارت ہے کہ جس نے بھی کوئی برائی کا کام کیا ہو پھر وہ اس پر نادم ہو جائے اس کام کو چھوڑ دے توبہ کرلے اللہ تعالیٰ کی طرف جھک جائے تو اللہ تعالیٰ اسکی توبہ قبول فرمالیتا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَاِنِّىْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى 82 ) 20-طه:82 ) جو بھی توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور راہ راست پر چلے میں اس کے گناہوں کو بخشنے والا ہوں اور فرمان ہے آیت ( وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ١١٠ ) 4- النسآء:110 ) جو شخص کسی برائی کا مرتکب ہوجائے یا کوئی گناہ کر بیٹھے پھر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے تو وہ یقینا اللہ تعالیٰ کو غفور ورحیم پائے گا ۔ اس مضمون کی آیتیں کلام الھی میں اور بھی بہت ساری ہیں ۔ لکڑی کے سانپ بن جانے کے معجزے کے ساتھ ہی کلیم اللہ کو اور معجزہ دیا جاتا ہے کہ آپ جب بھی اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال کر نکالیں گے تو وہ چاند کی طرح چمکتا ہو کر نکلے گا یہ دو معجزے ان نو معجزوں میں سے ہے کہ جن سے میں تیری وقتا فوقتا تائید کرتا رہونگا ۔ تاکہ فاسق فرعون اور اس کی فاسق قوم کے دلوں میں تیری نبوت کا ثبوت جگہ پکڑجائے یہ نو معجزے وہ تھے جن کا ذکر آیت ( وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ فَسْــــَٔـلْ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِذْ جَاۗءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰي مَسْحُوْرًا ١٠١ ) 17- الإسراء:101 ) میں ہے جس کی پوری تفسیر بھی اس آیت کے تحت میں گزر چکی ہے جب یہ واضح ظاہر صاف اور کھلے معجزے فرعونیوں کو دکھائے گئے تو وہ اپنی ضد میں آکر کہنے لگے یہ تو جادو ہے لو ہم اپنے جادوگروں کو بلالیتے ہیں مقابلہ کرلو اس مقابلہ میں اللہ نے حق کو غالب کیا اور سب لوگ زیر ہوگئے مگر پھر بھی نہ مانے ۔ گو دلوں میں اس کی حقانیت جم چکی تھی ۔ لیکن ظاہر مقابلہ سے ہٹے ۔ صرف ظلم اور تکبر کی بنا پر حق کو جھٹلاتے رہے اب تو دیکھ لے کہ ان مفسدوں کا انجام کس طرح حیرتناک اور کیسا کچھ عبرت ناک ہوا ؟ ایک ہی مرتبہ ایک ہی ساتھ سارے کے سارے دریا برد کردئے گئے ۔ پس اے آخری نبی الزمان کے جھٹلانے والو تم اس نبی کو جھٹلاکر مطمئن نہ بیٹھو ۔ کیونکہ یہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی اشرف وافضل ہیں ان کی دلیلیں اور معجزے بھی ان کی دلیلوں اور معجزوں سے بڑے ہیں خود آپ کا وجود آپ کے عادات واخلاق اور اگلی کتابوں کی اور اگلے نبیوں کی آپ کی نسبت بشارتیں اور ان سے اللہ کا عہد پیمان یہ سب چیزیں آپ میں ہیں پس تمہیں نہ مان کر نڈر اور بےخوف نہ رہنا چاہئے ۔
7 1یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر واپس آرہے تھے، رات کو اندھیرے میں راستے کا علم نہیں تھا اور سردی سے بچاؤ کے لئے آگ کی ضرورت تھی۔
[٧] یہ موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی کے اس دور کا واقعہ ہے جب آپ حضرت شعیب (علیہ السلام) سے رخصت ہو کر واپس مصر اپنے وطن جارہے تھے۔ بیوی ساتھ تھی اور وہ حاملہ تھی ایک بچہ اور ایک خادم بھی ساتھ تھے۔ جب طور سینا کے قریب پہنچے تو راستہ بھول گئے۔ سردیوں کا موسم۔ رات کا گہرا اندھیرا اور کڑاکے سردی پڑ رہی تھی۔ اس حال میں راستہ بھی بھول گئے تو سخت پریشان ہوئے۔ دور کہیں آگ نظر آئی تو خیال کیا کہ وہاں ضرور کچھ لوگ ہوں گے۔ ان کے ہاں جاتا ہوں ان سے راستہ پوچھوں گا۔ اپنے بیوں بچوں سے کہنے لگے : تم یہیں ٹھہرو۔ میں وہاں جاکر راستہ پوچھ آتا ہوں اور اگر کسی نے راستہ نہ بھی بتلایا تو کم از کم کچھ آگ کے انگارے ہی لیتا آؤ گا۔ تاکہ تم لوگ آگ سینک کر کچھ گرمی حاصل کرسکو۔
اِذْ قَالَ مُوْسٰي لِاَهْلِهٖٓ اِنِّىْٓ اٰنَسْتُ نَارًا : ” تَصْطَلُوْنَ “ ” صَلِيَ یَصْلٰی “ (ع) سے باب افتعال ہے۔ اصل میں ” تَصْتَلِیُوْنَ “ تھا، تاء کو طاء سے بدل دیا اور یاء حذف ہوگئی۔ ” شِھَابٌ“ شعلہ یا انگارا۔ ” قَبَسٍ “ (کسی آگ سے) سلگایا ہوا۔ ان آیات کی تفسیر سورة اعراف میں اور سورة طٰہٰ کی ابتدا میں گزر چکی ہے، یہاں صرف اس مقام سے متعلق چند باتیں ذکر ہوں گی۔ ” اِذْ “ سے پہلے ” اُذْکُرْ “ محذوف ہے، یعنی اس وقت کو یاد کر جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا۔ اس کی طرح تجھے بھی کسی پیشگی علم یا توقع کے بغیر وحی عطا کی گئی ہے۔ (دیکھیے قصص : ٨٦) اور اس کے بعد ذکر کردہ انبیاء اور ان کی اقوام کے قصوں میں تیرے اور تیری قوم کے لیے بہت سا علم و حکمت کا سامان موجود ہے۔
خلاصہ تفسیر - (اس وقت کا قصہ ذکر کیجئے) جبکہ (مدین سے آتے ہوئے کوہ طور کے قریب رات کو سردی کے وقت پہنچے اور مصر کی راہ بھی بھول گئے تھے تو) موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے (طور کی طرف) آگ دیکھی ہے میں ابھی (جا کر) وہاں سے (یا تو راستہ کی) کوئی خبر لاتا ہیں یا تمہارے پاس (وہاں سے) آگ کا شعلہ کسی لکڑی وغیرہ میں لگا ہوا لاتا ہوں تاکہ تم سینک لو سو جب اس (آگ) کے پاس پہنچے تو ان کو (منجانب اللہ) آواز دی گئی کہ وہ جو اس آگ کے اندر ہیں (یعنی فرشتے) ان پر بھی برکت ہو اور جو اس (آگ) کے پاس ہے (یعنی موسی) اس پر بھی (برکت ہو، یہ دعا بطور تحیتہ وسلام کے ہے جیسے ملاقاتی آپس میں سلام کرتے ہیں۔ چونکہ موسیٰ (علیہ السلام) جانتے نہ تھے کہ یہ نور انوار الہیہ سے ہے اس لئے خود سلام نہیں کرسکے تو منجانب اللہ ان کے انس کے لئے سلام ارشاد ہوا اور فرشتوں کو ملا لینا شاید اس لئے ہو کہ جس طرح فرشتوں کو سلام حق تعالیٰ کے قرب خاص کی علامت ہوتی ہے یہ سلام بھی موسیٰ (علیہ السلام) کو قرب خاص کی بشارت ہوگیا) اور (اس امر کے بتلانے کے لئے کہ یہ نور جو بشکل نار ہے خود حق تعالیٰ کی ذات نہیں ارشاد فرما دیا کہ) اللہ رب العالمین (رنگ جہات، مقدار اور حد بندی وغیرہ سے) پاک ہے (اور اس نور میں یہ چیزیں پائی جاتی ہیں، پس یہ نور ذات خداوندی نہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) اگر اس مسئلہ سے خالی الذہن ہوں تو اس کی تعلیم ہے اور اگر دلائل عقلیہ اور فطرت صحیحہ کی بناء پر ان کو پہلے سے معلوم ہو تو زیادہ سمجھانا ہے اس کے بعد ارشاد ہوا کہ اے موسیٰ بات یہ ہے کہ میں (جو کہ بےکیف کلام کر رہا ہوں) اللہ ہوں زبردست حکمت والا اور (اے موسی) تم اپنا عصا (زمین پر) ڈال دو (چنانچہ انہوں نے ڈال دیا تو وہ اژدھا بن کر لہرانے لگا) سو جب انہوں نے اس کو اس طرح حرکت کرتے دیکھا جیسے سانپ ہو تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر بھی تو نہ دیکھا (ارشاد ہوا کہ) اے موسیٰ ڈرو نہیں (کیونکہ ہم نے تم کو پیغمبری دی ہے) اور ہمارے حضور میں (یعنی پیغمبری کا اعزاز عطا ہونے کے وقت) پیغمبر (ایسی چیزوں سے جو کہ خود اس کی پیغمبری کی دلیل یعنی معجزات ہوں) نہیں ڈرا کرتے (یعنی تم کو بھی ڈرنا نہ چاہئے) ہاں مگر جس سے کوئی قصور (لغزش سرزد) ہوجاوے (اور وہ اس لغزش کو یاد کر کے ڈرے تو مضائقہ نہیں لیکن اس کی نسبت بھی یہ قاعدہ ہے کہ اگر قصور ہوجاوے اور) پھر برائی (ہو جانے) کے بعد برائی کی جگہ نیک کام کرے (توبہ کرے) تو میں (اس کو بھی معاف کردیتا ہوں کیونکہ میں) مغفرت والا رحمت والا ہوں ( یہ اس لئے فرما دیا کہ عصاء کے معجزہ سے مطمئن ہوجانے کے بعد کبھی اپنا قصہ قبطی کو قتل کرنے کا یاد کر کے پریشان ہوں اس لئے اس سے بھی مطمئن فرما دیا تاکہ وحشت جاتی رہے) اور (اے موسیٰ اس معجزہ عصا کے سوا ایک معجزہ اور بھی عطا ہوتا ہے وہ یہ کہ) تم اپنا ہاتھ گریبان کے اندر لے جاؤ (اور پھر نکالو تو) وہ بلا کسی عیب (یعنی بغیر کسی مرض برص وغیرہ) کے (نہایت) روشن ہو کر نکلے گا ( اور یہ دونوں معجزے ان) نو معجزوں میں (سے ہیں جن کے ساتھ تم کو) فرعون اور اس کی قوم کی طرف (بھیجا جاتا ہے کیونکہ) وہ بڑے حد سے نکل جانے والے لوگ ہیں غرض جب ان لوگوں کے پاس ہمارے (دیئے ہوئے) معجزے پہنچے (جو) نہایت واضح تھے (یعنی ابتدائے دعوت میں دو معجزے دکھلائے گئے پھر وقتاً فوقتاً باقی دکھلائے جاتے رہے) تو وہ لوگ (ان سب کو دیکھ کر بھی) بولے یہ صریح جادو ہے اور (غضب تو یہ تھا کہ ظلم اور تکبر کی راہ سے ان (معجزات) کے (بالکل) منکر ہوگئے حالانکہ (اندر سے) ان کے دلوں نے ان کا یقین کرلیا تھا سو دیکھئے کیسا (برا) انجام ہوا ان مفسدوں کا (دنیا میں غرق ہوئے اور آخرت میں جلنے کی سزا پائی۔ )- معارف و مسائل - اِذْ قَالَ مُوْسٰي لِاَهْلِهٖٓ اِنِّىْٓ اٰنَسْتُ نَارًا ۭ سَاٰتِيْكُمْ مِّنْهَا بِخَــبَرٍ اَوْ اٰتِيْكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ ۔- انسان کو اپنی ضروریات کے لئے اسباب طبعیہ کو اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں :- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس جگہ دو ضرورتیں پیش آئیں ایک راستہ پوچھنا جو آپ بھول گئے تھے دوسرا آگ سے گرمی حاصل کرنا کہ سردی کی رات تھی اس کے لئے آپ نے کوہ طور کی طرف جانے کی سعی و کوشش کی لیکن اس کے ساتھ ہی اس مقصد میں کامیابی پر یقین اور دعویٰ کرنے کے بجائے ایسے الفاظ اختیار فرمائے جس میں اپنی بندگی اور حق تعالیٰ سے امید ظاہر ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ ضروریات کے حصول کے لئے جدوجہد توکل کے منافی نہیں۔ لیکن بھروسہ اپنی کوشش کے بجائے اللہ پر ہونا چاہئے اور آگ آپ کو دکھلائے جانے میں بھی شاید یہی حکمت ہو کہ اس سے آپ کے دونوں مقصود پورے ہو سکتے تھے، راستہ کا مل جانا اور آگ سے گرمی حاصل کرنا۔ (کما فی الروح)- اس جگہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے امْكُـثُوْٓا اور تَصْطَلُوْنَ جمع کے صیغے بولے حالانکہ آپ کے ساتھ صرف آپ کی بیوی یعنی حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بیٹی تھیں ان کے لئے لفظ جمع استعمال فرمانا بطور اکرام کے ہوا جیسے معزز لوگوں میں کسی ایک فرد سے بھی خطاب ہوتا ہے تو صیغہ جمع کا استعمال کیا جاتا ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اپنی ازواج مطہرات کے لئے صیغہ جمع استعمال فرمانا روایات حدیث میں وارد ہوا ہے۔- تخصیص کے ساتھ بیوی کا ذکر عام مجالس میں نہ کرنا بلکہ کنایہ سے کام لینا بہتر ہے :- آیت مذکورہ میں قال مُوْسٰي لِاَهْلِهٖٓ فرمایا گیا ہے لفظ اھل عام ہے جس میں بیوی اور گھر کے دوسرے افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس مقام میں اگرچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ تنہا اہلیہ محترمہ ہی تھیں، کوئی دوسرا نہ تھا مگر تعبیر میں یہ عام لفظ استعمال کرنے سے اس طرف اشارہ پایا گیا کہ مجالس میں اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا ذکر کرے تو عام لفظوں سے کرنا بہتر ہے جیسے ہمارے عرف میں کہا جاتا ہے میرے گھر والوں نے یہ کہا ہے۔
اِذْ قَالَ مُوْسٰي لِاَہْلِہٖٓ اِنِّىْٓ اٰنَسْتُ نَارًا ٠ۭ سَاٰتِيْكُمْ مِّنْہَا بِخَــبَرٍ اَوْ اٰتِيْكُمْ بِشِہَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ ٧- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی:- وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل :- فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - خبر - الخُبْرُ : العلم بالأشياء المعلومة من جهة الخَبَر، وخَبَرْتُهُ خُبْراً وخِبْرَة، وأَخْبَرْتُ : أعلمت بما حصل لي من الخبر، وقیل الخِبْرَة المعرفة ببواطن الأمر، والخَبَار والخَبْرَاء : الأرض اللّيِّنة «2» ، وقد يقال ذلک لما فيها من الشّجر، والمخابرة : مزارعة الخبار بشیء معلوم، والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر «3» : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، وقیل أي : عالم ببواطن أمورکم، وقیل : خبیر بمعنی مخبر، کقوله : فَيُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ [ المائدة 105] ، وقال تعالی: وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] ، قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبارِكُمْ [ التوبة 94] ، أي : من أحوالکم التي نخبر عنها .- ( خ ب ر ) الخبر - ۔ جو باتیں بذریعہ خبر کے معلوم ہوسکیں ان کے جاننے کا نام ، ، خبر ، ، ہے کہا جاتا ہے ۔ خبرتہ خبرۃ واخبرت ۔ جو خبر مجھے حاصل ہوئی تھی اس کی میں نے اطلاع دی ۔ بعض نے کہا ہے کہ خبرۃ کا لفظ کسی معاملہ کی باطنی حقیقت کو جاننے پر بولا جاتا ہے ۔ الخبارو الخبرآء نرم زمین ۔ اور کبھی درختوں والی زمین پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ المخابرۃ ۔ بٹائی پر کاشت کرنا ۔ اسی سے کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے :۔ اور بعض نے کہا ہے کہ وہ تمہارے باطن امور سے واقف ہے ۔ اور بعض نے خبیر بمعنی مخیر کہا ہے ۔ جیسا کہ آیت ۔ فَيُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ [ المائدة 105] پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ سب تمہیں بتائیگا سے مفہوم ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] اور تمہارے حالات جانچ لیں ۔ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبارِكُمْ [ التوبة 94] خدا نے ہم کو تمہارے سب حالات بتادئے ہیں ۔ یعنی تمہارے احوال سے ہمیں آگاہ کردیا گیا ہے ۔- شهب - الشِّهَابُ : الشّعلة السّاطعة من النار الموقدة، ومن العارض في الجوّ ، نحو : فَأَتْبَعَهُ شِهابٌ ثاقِبٌ [ الصافات 10] ، شِهابٌ مُبِينٌ [ الحجر 18] ، شِهاباً رَصَداً [ الجن 9] .- والشُّهْبَةُ : البیاض المختلط بالسّواد تشبيها بالشّهاب المختلط بالدّخان، ومنه قيل : كتيبة شَهْبَاءُ : اعتبارا بسواد القوم وبیاض الحدید .- ( ش ھ ب ) الشھاب - کے معنی بکند شعلہ کے ہیں خوارہ وہ جلتی ہوئی آگ کا ہو یا فضا میں کسی عارضہ کی وجہ سے پیدا ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : فَأَتْبَعَهُ شِهابٌ ثاقِبٌ [ الصافات 10] تو جلتا ہوا انگارہ اس کے پیچھے لگتا ہے ۔ شِهابٌ مُبِينٌ [ الحجر 18] روشنی کرنیوالا انگارہ ۔ شِهاباً رَصَداً [ الجن 9] انگارہ تیار ۔ الشھبتہ سفیدی جس میں کچھ سیاہی ملی ہوئی ہو ۔ جیسا کہ انگارہ کی روشنی کے ساتھ دھواں ملا ہوتا ہے اسی سے کتیبتہ شھباء کاز محاورہ ہے جس کے معنی مسلح لشکر کے ہیں کیونکہ اس میں ہتھیاروں کی چمک سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیاہی اور سفیدی ملی ہوئی ہیں ۔- قبس - القَبَسُ : المتناول من الشّعلة، قال : أَوْ آتِيكُمْ بِشِهابٍ قَبَسٍ [ النمل 7] ، والْقَبَسُ والِاقْتِبَاسُ : طلب ذلك، ثم يستعار لطلب العلم والهداية . قال : انْظُرُونا نَقْتَبِسْ مِنْ نُورِكُمْ- [ الحدید 13] . وأَقْبَسْتُهُ نارا أو علما : أعطیته، والْقَبِيسُ : فحل سریع الإلقاح تشبيها بالنار في السّرعة .- ( ق ب س )- القبس آگ ( کا شعلہ یا اس کی چنگاری جو شعلہ سے لی جائے قرآن میں ہے ۔ أَوْ آتِيكُمْ بِشِهابٍ قَبَسٍ [ النمل 7] یا سلگتا ہوا انگارہ تمہارے پاس لاتا ہوں ۔ اور القبس ( مصدر ) والا تتباس کے معنی بڑی آگ سے کچھ آگ لینے کے ہیں ۔ مجازا علم ہدایت کی طلب پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ انْظُرُونا نَقْتَبِسْ مِنْ نُورِكُمْ [ الحدید 13] ہماری طرف نظر شفقت کیجئے کہ ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کرلیں ۔ اقبستہ نارا اوعلما میں نے اسے آگ دی یا علم سکھایا ۔ القبیس وہ سانڈھ جو تیزی کے ساتھ مادہ کو ماملہ کردے گویا سرعت میں وہ شعلہ کی طرح ہے ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔
(٧) اس وقت کا واقعہ بیان کیجیے جب کہ موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے واپسی پر راستہ بھول گئے تھے تو اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے راستہ کے بائیں جانب آگ دیکھی تم یہیں ٹھہرے رہو میں ابھی جا کر آگ کے پاس سے یا تو راستہ کی کوئی خبر لاتا ہوں یا تمہارے پاس آگ کا شعلہ کسی لکڑی وغیرہ میں لگا ہوا لاتا ہوں تاکہ تم سینک لو کیونکہ اس وقت سردی کی شدت تھی۔
(سَاٰتِیْکُمْ مِّنْہَا بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِیْکُمْ بِشِہَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّکُمْ تَصْطَلُوْنَ ) ” - عبارت کے انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رات کا وقت تھا ‘ سردی کا موسم تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک ایسے علاقے سے گزر رہے تھے جس سے انہیں کچھ واقفیت نہ تھی۔
سورة النمل حاشیہ نمبر :8 یہ اس وقت کا قصہ ہے جب حضرت موسی علیہ السلام مدین میں آٹھ دس سال گزارنے کے عبد اپنے اہل و عیال کو ساتھ لیکر کوئی ٹھکانا تلاش کرنے جارہے تھے ، مدین کا علاقہ خلیج عقبہ کے کنارے عرب اور جزیرہ نمائے سینا کے سواحل پر واقع تھا ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم الشعرء ، حاشیہ 115 ) وہاں سے چل کر حضرت موسی جزیرہ نمائے سینا کے جنوبی حصے میں اس مقام پر پہنچے جو اب کوہ سینا اور جبل موسی کہلاتا ہے اور نزول قرآن کے زمانہ میں طور کے نام سے مشہور تھا ، اسی کے دامن میں وہ واقعہ پیش آیا جس کا یہاں ذکر ہورہا ہے ۔ یہاں جو قصہ بیان کیا جارہا ہے اس کی تفصیلات اس سے پہلے سورہ طہ ( رکوع 1 ) میں گزر چکی ہیں اور آگے سورہ قصص ( رکوع 4 ) میں آرہی ہیں ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر :9 فحوائے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رات کا وقت اور جاڑے کا موسم تھا ، اور حضرت موسی ایک اجنبی علاقے سے گزر رہے تھے جس سے انہیں کچھ زیادہ واقفیت نہ تھی ، اس لیے انہوں نے اپنے گھر والوں سے فرمایا کہ میں جاکر معلوم کرتا ہوں یہ کون سی بستی ہے جہاں آگ جل رہی ہے ، آگے کدھر راستے جاتے ہیں اور کون کون سی بستیاں قریب ہیں ۔ تاہم اگر وہ بھی ہماری ہی طرح کوئی چلتے پھرتے مسافر ہوئے جن سے کوئی معلومات حاصل نہ ہوسکیں تو کم از کم میں کچھ انگارے ہی لے آؤں گا کہ تم لوگ آگ جلا کر چکھ گرمی حاصل کرسکو ۔ یہ مقام جہاں حضرت موسی نے جھاڑی میں آگ لگی ہوئی دیکھی تھی کوہ طور کے دامن میں سطح سمندر سے تقریبا 5 ہزار فیٹ کی بلندی پر واقع ہے ، یہاں رومی سلطنت کے پہلے عیسائی بادشاہ قسطنطین نے 365 کے لگ بھگ زمانے میں ٹھیک اس مقام پر ایک کنیسہ تعمیر کرادیا تھا جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا ، اس کے دو سو برس بعد قیصر جسٹینین نے یہاں ایک دیر ( ) تعمیر کرایا جس کے اندر قسطنطین کے بنائے ہوئے کنیسہ کو بھی شامل کرلیا ، یہ دیر اور کنیسہ دونوں آج تک موجود ہیں اور یونانی کلیسا ( ) کے راہبوں کا ان پر قبضہ ہے ، میں نے جنوری 1960ء میں اس مقام کی زیارت کی ہے ، مقابل کے صفحہ پر اس مقام کی کچھ تصاویر ملاحظہ ہوں ۔
2: یہاں یہ واقعہ محض ایک اشارے کے طور پر آیا ہے، مفصل واقعہ اگلی سورت یعنی سورۂ قصص میں آنے والا ہے۔