[٦] یعنی یہ قرآن ایسی ہستی کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ جو تمام لوگوں کے احوال سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس کی نظروں میں سب انسان بحیثیت انسان ایک جیسے ہیں۔ جو ہر ایک کے حقوق و فرائض اپنے اسی وسیع علم کی بنا پر مقرر کرتی ہے۔ پھر وہ حکیم بھی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ہر حکم میں کچھ نہ کچھ حکمتیں مضمر ہوتی ہیں اور اس کے احکام بندوں ہی کی مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں۔
وَاِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ ۔۔ : ” مِنْ لَّدُنْ “ (کے پاس سے) کے لفظ سے قرآن مجید کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شدّتِ اتصال بیان کرنا مقصود ہے کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ تجھے اپنے پاس سے عطا کر رہا ہے۔ یہ کسی مخلوق کا کلام نہیں کہ جس کا علم ناقص ہو، یا جو معاملات کی حکمت سے نا آشنا ہو، بلکہ یہ ایک کمال حکمت والے ہر چیز کا علم رکھنے والے نے اپنے پاس سے تجھے عطا کیا ہے، جس کا ہر کام اور ہر حکم حکمت سے بھرا ہوا ہے اور جسے ماضی، حال اور مستقبل کا پورا علم ہے، اس لیے نہ اس کی کوئی خبر غلط ہوتی ہے اور نہ اس کی تدبیر میں کوئی غلطی ہوتی ہے۔ - حَكِيْمٍ عَلِیْمٍ : دونوں صفات کا گزشتہ آیات سے بھی تعلق ہے اور آئندہ انبیاء کے قصوں کے ساتھ بھی کہ ان انبیاء کی بعثت، ان پر گزرنے والے واقعات اور آپ کی طرف ان کی صحیح ترین صورت میں وحی اللہ تعالیٰ کی ان دو صفات کا اظہار ہے۔ یہ دونوں الفاظ مبالغہ کے لیے آتے ہیں۔ ان کو نکرہ لانے سے مزید مبالغہ پیدا ہوگیا ہے، یعنی ایک انوکھے کمال حکمت و علم رکھنے والے کے پاس سے۔
وَاِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ عَلِيْمٍ ٦- ( لقی) تلقی - السّماحة منه والنّدى خلقا«2» ويقال : لَقِيتُه بکذا : إذا استقبلته به، قال تعالی: وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان 75] ، وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان 11] . وتَلَقَّاهُ كذا، أي : لقيه . قال : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء 103] ، وقال : وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل 6]- وتلقی السماحۃ منہ والندیٰ خلقا سخاوت اور بخشش کرنا اس کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے ۔ لقیت بکذا ۔ میں فلاں چیز کے ساتھ اس کے سامنے پہنچا۔ قرآن میں ہے : وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان 75] اور وہاں ان کا استقبال دعاوسلام کے ساتھ کیا جائے گا ۔ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان 11] اور تازگی اور شادمانی سے ہمکنار فرمائے گا ۔ تلقاہ کے معنی کسی چیز کو پالینے یا اس کے سامنے آنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء 103] اور فرشتے ان کو لینے آئیں گے ۔ وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل 6] اور تم کو قرآن عطا کیا جاتا ہے ۔- لدن - لَدُنْ أخصّ من «عند» ، لأنه يدلّ علی ابتداء نهاية . نحو : أقمت عنده من لدن طلوع الشمس إلى غروبها، فيوضع لدن موضع نهاية الفعل .- قال تعالی: فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف 76]- ( ل دن ) لدن - ۔ یہ عند سے اخص ہے کیونکہ یہ کسی فعل کی انتہاء کے آغاز پر دلالت کرتا ہے ۔ جیسے قمت عند ہ من لدن طلوع الشمس الیٰ غروبھا آغاز طلوع شمس سے غروب آفتاب اس کے پاس ٹھہرا رہا ۔ قرآن میں ہے : فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف 76] تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا کہ آپ کو مجھے ساتھ نہ رکھنے کے بارے میں میری طرف سے عذر حاصل ہوگا ۔- حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟
(٦) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ پر یہ قرآن حکیم بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) یقین کے ساتھ ایک بڑی حکمت والے علم والے کی جانب سے نازل کیا جارہا ہے۔
سورة النمل حاشیہ نمبر :7 یعنی یہ کوئی ہوائی باتیں نہیں ہیں جو اس قرآن کی جارہی ہیں اور نہ یہ کسی انسان کے قیاس و رائے پر مبنی ہیں ، بلکہ انہیں ایک حکیم و علیم ذات القا کررہی ہے جو حکمت و دانائی اور علم و دانش میں کامل ہے ، جسے اپنی خلق کے مصالح اور ان کے ماضی و حال اور مستقبل کا پورا علم ہے ، اور جس کی حکمت بندوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے بہترین تدابیر اختیار کرتی ہے ۔