[٢٧] ہدہد نے ملکہ سبا کے متعلق یہ یقینی خبر دی تھی کہ اس کا عرش عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا عرش عظیم تو صرف اللہ کا ہے۔ اس کے عرش کے مقابلہ میں کسی کا تخت عظیم نہیں ہوسکتا۔ نہ ہی اللہ کے مقابلہ میں آفتاب یا دوسری اشیاء کو الٰہ کہا جاسکتا ہے۔ یا کسی ایسی چیز کو سجدہ کیا جاسکتا ہے۔- اس مقام پر سجدہ کرنا واجب ہے۔ جس سے مقصود یہ ہے کہ ایک مومن اپنے آپ کو ان آفتاب پرستوں سے جدا کرے جو سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور اپنے عمل سے یہ ظاہر کرے کہ وہ آفتاب کو نہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کو ہی اپنا معبودو مسجود تسلیم کرتا ہے۔
اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۔۔ : یہ توحید کی تیسری دلیل ہے کہ وہ عرش عظیم کا رب ہے۔ مالک تو وہ کائنات کی ہر چیز کا ہے، لیکن یہاں صرف عرش عظیم کا ذکر کیا۔ ایک تو اس لیے کہ عرش الٰہی کائنات کی سب سے بڑی چیز اور سب سے برتر ہے۔ دوسرا یہ واضح کرنے کے لیے کہ ملکہ سبا کا تخت شاہی بھی گو بہت بڑا ہے، مگر اسے عرش عظیم سے کوئی نسبت نہیں، جس پر اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق مستوی ہے۔ یہاں ہد ہد کا کلام ختم ہوا۔ بعض مفسرین نے ان دو آیات کو اللہ تعالیٰ کا کلام قرار دیا ہے، جو اللہ تعالیٰ نے ہد ہد کے کلام کے بعد توحید کی تعلیم کے لیے فرمایا ہے۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا : ( إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ نَھٰی عَنْ قَتْلِ أَرْبَعٍ مِنَ الدَّوَابِّ : النَّمْلَۃُ وَالنَّحْلَۃُ وَالْھُدْھُدُ وَالصُّرَدُ ) [ أبوداوٗد، الأدب، باب في قتل الذر : ٥٢٦٧ ] ” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چار جانوروں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے، چیونٹی، شہد کی مکھی، ہد ہد اور صُرَد (لٹورا) کو۔ “
اَللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ ٢ ٦۞- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- عرش - العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100]- ( ع رش ) العرش - اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ - عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔
سورة النمل حاشیہ نمبر : 35 اس مقام پر سجدہ واجب ہے ، یہ قرآن کے ان مقامات میں سے ہے جہاں سجدہ تلاوت واجب ہونے پر فقہاء کا اتفاق ہے ، یہاں سجدہ کرنے سے مقصود یہ ہے کہ ایک مومن اپنے آپ کو آفتاب پرستوں سے جدا کرے اور اپنے عمل سے اس بات کا اقرار و اظہار کرے کہ وہ آفتاب کو نہیں بلکہ صرف اللہ تعالی ہی کو اپنا مسجود و معبود مانتا ہے ۔
یہ سجدے کی آیت ہے، جو کوئی شخص عربی میں یہ آیت پڑھے یا سنے اُس پر سجدۂ تلاوت واجب ہے۔