Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

251یعنی آسمان سے بارش برساتا اور زمین سے اس کی مخفی چیزیں نباتات، معدنیات اور دیگر زمینی خزانے ظاہر فرماتا اور نکالتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٦] آیت نمبر ٢٥ اور ٢٦ کو بعض مفسرین نے ہدہد کے جواب کا ہی تتمہ قرار دیا ہے اور بعض نے اسے ہدہد کے کلام پر اللہ تعالیٰ کی طرف مناسب اضاف قرار دیا ہے۔ اس آیت میں یعلم ما تخفون وما تعلنون سے دوسرا قول ہی راحج معلوم ہوتا ہے۔- خب معنی پوشیدہ اور مخفی خزانہ ( مفردات القرآن) اور اس سے مراد ایسا پوشیدہ اور مخفی خزانہ ہے جس کا پہلے سے کسی کو علم نہ ہو اور خبا بمعنی کسی چیز کو چھپا رکھنا اور خابا بمعنی کسی سے چیستان، پہیلی یا معمہ پوچھنا اور خب الارض بمعنی زمین کی نباتات جو ابھی ظہور میں نہ آوی ہو۔ قوت روئیدگی اور خب السماء بمعنی بارش اور آکرج حب السماء خب الارض بمعنی آسمان کی بارش نے سمین پر روئیدگی پیدا کی اور پودوں کو اگایا۔ اسی طرح زمین میں سے اگر کہیں سے تیل یا جلنے والی گیسیں یا معدنیات وغیرہ نکل آئیں تو یہ سب چیزیں خب الارض میں شمار ہوں گی۔- اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ سجدہ کرنے کے لائق تو وہ ذات ہے جو زمین و آسمان سے ان کی پوشیدہ چیزوں اور مخفی قوتوں کو روئے کار لاکر ان کی روزی کا سامان مہیا کرتا ہے۔ نہ کہ سورج اور اس جیسی دوسری بےجان یا مخلوق و محتاج اشیاء نیز سجدہ کے لائق وہ ذات ہے جس کا علم اتنا وسیع ہو جو صرف زمین و آسمان ہی کی پوشیدہ قوتوں اور اشیاء کو جانتا ہے بلکہ وہ تمہارے بھی سب ظاہری اور پوشیدہ اعمال سے پوری طرح واقف ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلَّا يَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ يُخْرِجُ الْخَبْءَ ۔۔ : ” الْخَبْءَ “ مصدر بمعنی اسم مفعول ” اَلْمَخْبُوْءُ “ ہے، چھپی ہوئی چیز، یعنی یہ لوگ اس اللہ کو سجدہ کیوں نہیں کرتے جو آسمانوں اور زمین میں چھپی ہوئی چیز نکالتا ہے۔ اس آیت کا دوسرا ترجمہ وہی ہے جو اوپر کیا گیا ہے کہ تاکہ وہ اللہ کو سجدہ نہ کریں جو آسمانوں اور زمین میں چھپی چیزوں کو نکالتا ہے۔ ہُد ہُد نے اس بنیادی حقیقت کے ثبوت کے لیے تین عظیم الشان دلیلیں پیش کیں کہ معبود برحق صرف اللہ وحدہ لا شریک لہ ہے، اس کے سوا کسی کو سجدہ جائز نہیں۔ پہلی یہ کہ وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کی مخفی اور پوشیدہ چیزوں کو نکالتا ہے۔ آسمانوں کی پوشیدہ چیزوں کے عموم میں سورج، چاند، ستارے، سیارے، بارش، ہوا اور بجلی وغیرہ سب ہی داخل ہیں اور زمین کی پوشیدہ چیزوں میں تمام نباتات، پودے، درخت، دریا، چشمے، زیر زمین پانی، تیل، گیس اور بیشمار معدنیات سب آجاتے ہیں۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ ہد ہد کی خوراک عام طور پر وہ کیڑے ہوتے ہیں جو درختوں کی چھال یا زمین کے نیچے چھپے ہوتے ہیں۔ اس بظاہر معمولی سے پرندے نے اللہ تعالیٰ کی توحید کی دلیل اپنی سمجھ اور تجربے کے مطابق دی کہ عبادت اور سجدے کے لائق وہ اللہ ہے جو ہر مخلوق کو اس کی چھپی ہوئی روزی تک رسائی دیتا ہے۔ سورج جسے اپنی گردش ہی سے فرصت نہیں، نہ اس نے کوئی چیز پیدا کی کہ وہ اسے چھپانے یا ظاہر کرنے کا علم یا اختیار رکھتا ہو، وہ عبادت یا سجدے کے لائق کیسے ہوگیا ؟ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” ہد ہد کی روزی ہے ریت سے کیڑے نکال نکال کر کھانا، نہ دانہ کھائے نہ میوہ، اس کو اللہ کی اسی قدرت سے کام ہے۔ “- وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ : یہ اکیلے اللہ کو سجدہ کرنے کی دوسری دلیل ہے، یعنی سجدے کے لائق وہ ذات ہے جس کا علم اتنا وسیع ہے کہ نہ صرف آسمان و زمین ہی کی پوشیدہ قوتوں اور چیزوں کو جانتا ہے بلکہ وہ سب کچھ بھی جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو یا پوشیدہ رکھتے ہو۔ سورج یا کسی اور مخلوق کو کسی کے ظاہر یا پوشیدہ حالات کی کیا خبر کہ وہ سجدے کے لائق ہو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَّا يَسْجُدُوْا لِلہِ الَّذِيْ يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ۝ ٢٥- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - خبء - يُخْرِجُ الْخَبْءَ [ النمل 25] ، يقال ذلک لكلّ مدّخر مستور، ومنه قيل : جارية مُخْبَأَة، والخُبأة : الجارية التي تظهر مرّة، وتخبأ أخری، والخِبَاءُ : سمة في موضع خفيّ.- ( خ ب ء ) الخب ( ف ) کسی چیز کے پوشیدہ اور مخفی ذخیرہ کو خباء کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ يُخْرِجُ الْخَبْءَ [ النمل 25] جو چھپے ہوئے خزانے نکالتا ہے ۔ اسی سے جاریۃ خباۃ ( طلعۃ ) کا محاورہ ہے یعنی وہ لڑکی جو کبھی پردہ میں چلی جاتی ہو اور کبھی باہر نکل آتی ہو ۔ الخباء ۔ وہ نشان جو ( اونٹنی کے ) کیس خفیہ مقام پر لگایا ہو - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- علن - العَلَانِيَةُ : ضدّ السّرّ ، وأكثر ما يقال ذلک في المعاني دون الأعيان، يقال : عَلَنَ كذا، وأَعْلَنْتُهُ أنا . قال تعالی: أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح 9] ، أي : سرّا وعلانية . وقال :- ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص 69] . وعِلْوَانُ الکتابِ يصحّ أن يكون من : عَلَنَ اعتبارا بظهور المعنی الذي فيه لا بظهور ذاته .- ( ع ل ن ) العلانیہ - ظاہر اور آشکار ایہ سر کی ضد ہے اور عام طور پر اس کا استعمال معانی یعنی کیس بات ظاہر ہونے پر ہوتا ہے اور اجسام کے متعلق بہت کم آتا ہے علن کذا کے معنی میں فلاں بات ظاہر اور آشکار ہوگئی اور اعلنتہ انا میں نے اسے آشکار کردیا قرآن میں ہے : ۔ أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح 9] میں انہیں بر ملا اور پوشیدہ ہر طرح سمجھا تا رہا ۔ ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص 69] جو کچھ ان کے سینوں میں مخفی ہے اور جو یہ ظاہر کرتے ہیں علوان الکتاب جس کے معنی کتاب کے عنوان اور سر نامہ کے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ علن سے مشتق ہو اور عنوان سے چونکہ کتاب کے مشمو لات ظاہر ہوتے ہیں اس لئے اسے علوان کہہ دیا گیا ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٥۔ ٢٦) اور میں نے ان سے کہا کہ اس اللہ کو کیوں سجدہ نہیں کرتے جو آسمان و زمین کی پوشیدہ چیزوں کو باہر لاتا ہے جن میں سے بارش اور نباتات بھی ہیں۔- یا یہ کہ یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا قول ہو کہ ہدہد سے سن کر انہوں نے ایسا فرمایا ہو اور تم لوگ جو کچھ نیکی و برائی دل میں چھپا کر رکھتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو وہ سب کو جانتا ہے اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر :33 یعنی جو ہر آن ان چیزوں کو ظہور میں لا رہا ہے جو پیدائش سے پہلے نہ معلوم کہاں کہاں پوشیدہ تھیں زمین کے پیٹ سے ہر آن بے شمار نباتات نکال رہا ہے اور طرح طرح کے معدنیات خارج کر رہا ہے ، عالم بالا کی فضاؤں سے وہ وہ چیزیں سامنے لارہا ہے جن کے ظہور میں آنے سے پہلے انسان کا وہم و گمان بھی ان تک نہ پہنچ سکتا تھا ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر :34 یعنی اس کا علم ہر چیز پر حاوی ہے ، اس کے لیے ظاہر اور مخفی سب یکساں ہیں ، اس پر سب کچھ عیاں ہے ۔ اللہ تعالی کی ان دو صفات کو بطور نمونہ بیان کرنے سے مقصود دراصل یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ اگر وہ لوگ شیطان کے دھوکے میں نہ آتے تو یہ سیدھا راستہ انہیں صاف نظر آسکتا تھا کہ آفتاب نامی ایک دہکتا ہوا کرہ جو پیچارہ خود اپنے وجود کا ہوش بھی نہیں رکھتا ، کسی عبادت کا مستحق نہیں ہے ، بکہ صرف وہ ہستی اس کا استحقاق رکھتی ہے جو علیم و خبیر ہے اور جس کی قدرت ہر لحظہ نئے نئے کرشمے ظہور میں لارہی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani