Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

281یعنی ایک جانب ہٹ کر چھپ جا اور دیکھ کہ وہ آپس میں کیا گفتگو کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٨] سلیمان (علیہ السلام) نے ہدہد کا جواب یا اس کی معذرت سن کر فرمایا : میں تمہیں ایک خط لکھ کردیتا ہوں۔ یہ خط لے جاکر دربار میں ملے اور اس کے درباریوں کے سامنے پھینک دو ۔ پھر انتظار کی خاطر ایک طرف ہٹ جاؤ۔ پھر دیکھنا کہ اس خط کا ان پر ردعمل کیا ہوتا ہے۔ اور واپس آکر مجھے اس رد عمل کے مطابق اطلاع بھی دو ۔ اس سے جہاں یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ اس یقینی خبر کو ہم تک پہنچانے میں کہاں تک سچے ہو۔ وہاں ان لوگوں کے ردعمل سے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ وہ لوگ کس ژہنیت کے مالک ہیں۔- بعض عقل پرست نے اس ہدہد کی پیغام رسانی کے قصہ کو بھی عقل کے مطابق بنانے کی کوشش فرمائی ہے۔ جن لوگوں نے طیر سے طیارے مراد لیا، ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ ہدہد اس طیارے کا پائلٹ تھا۔ اور جن لوگوں نے طیر کے معنی طیارہ لینا حماقت سمجھا وہ کہتے ہیں کہ ہدہد کسی فوجی افسر کا نام تھا۔ اور یہ دستور ہر جگہ پایا جاتا ہے کہ لوگ بعض انسانوں کے نام درختوں یا پرندوں کے نام رکھ لیتے ہیں۔ اس توجیہ میں یہاں تک تو بات کسی حد تک قابل تسلیم ہے۔ اب مشکل یہ پیش آتی ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) ہدہد سے کہتے ہیں کہ میرا یہ خط لے جا اور ان کے آگے پھینک دے یا ڈال دے۔ فالفژ الیہم یہ کام پرندہ تو کرسکتا ہے۔ لیکن کوئی انسان سفیر کی حیثیت سے جاکر اگر ایسا کام کرے تو یہ انتہائی بدتمیزی کی بات ہوگی اور کچھ عجب نہیں کہ وہ اس بدتمیزی کی پاداش میں قید میں ڈال دیا جائے یا قتل ہی کر ڈالا جائے۔- دوسری مشکل یہ پیش آتی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہدہد کو یہ ہدایت کرتے ہیں کہ یہ خط ان کے آگے پھینک دے۔ پھر ان سے پرے ہٹ کر دیکھ کہ اس خط کا ان پر رد عمل کیا ہوتا ہے ؟ اب تو یہ ظاہر ہے کہ کوئی بھی حکومت کسی غیر ملکی سفیر کے سامنے اپنے اندرونی معاملات کے مشورے نہیں کرسکتی۔ البتہ کسی پرندہ کی صورت میں یہ بات ممکن ہے۔ ہمارے خیال میں ان لوگوں کی یہ تاویلات خود ان کی اپنی ذات کو بھی مطمئن نہیں کرسکتیں۔ چہ جائیکہ دوسرے ان سے مطمون ہوں۔ کیونکہ قرآن کے الفاظ پکار پکار کر ایسے لوگوں کی تاویلات کی تردید کر رہے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِذْهَبْ بِّكِتٰبِيْ ھٰذَا ۔۔ : سلیمان (علیہ السلام) نے فوراً ہی خبر کی تحقیق کا آغاز کردیا، چناچہ خط لکھا اور ہد ہد کو حکم دیا کہ میرا یہ خط لے جا اور اسے ان کی طرف پھینک، پھر ان سے لوٹ کر دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں، یعنی ایک طرف رہ کر ان کی باتیں سنتا اور ان پر سوچ بچار کرتا رہ، پھر آ کر مجھ سے بیان کر۔ یہاں بات کا کچھ حصہ محذوف ہے جو خود بخود سمجھ میں آ رہا ہے کہ ہد ہد وہ خط لے کر گیا اور اسے ملکہ سبا کے پاس لے جا کر پھینک دیا۔ ملکہ اس خط کی آمد کا طریقہ اور اس کا مضمون پڑھ کر حیران رہ گئی۔- 3 اس سے معلوم ہوا کہ سلیمان (علیہ السلام) ہد ہد سے عام معلومات کی بہم رسانی کے علاوہ خط رسانی کا کام بھی لیتے تھے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تحریر اور خط بھی عام معاملات میں حجت شرعیہ ہے :- اِذْهَبْ بِّكِتٰبِيْ ھٰذَا، حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ سبا کے نام خط بھیجنے کو اس پر اتمام حجت کے لئے کافی سمجھا اور اس پر عمل فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ عام معاملات میں تحریر و خط قابل اعتبار ثبوت ہے۔ فقہاء (رح) نے صرف ان مواقع میں خط کو کافی نہیں سمجھا جہاں شہادت شرعیہ کی ضرورت ہے کیونکہ خط اور ٹیلیفون وغیرہ کے ذریعہ شہادت نہیں لی جاسکتی۔ شہادت کا مدار شاہد کا عدالت کے سامنے آ کر بیان دینے پر رکھا گیا جس میں بڑی حکمتیں مضمر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل بھی دنیا کی کسی عدالت میں خط اور ٹیلیفون پر شہادت لینے کو کافی نہیں سمجھا جاتا۔- مشرکین کو خط لکھنا اور ان کے پاس بھیجنا جائز ہے :- دوسرا مسئلہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اس خط سے یہ ثابت ہوا کہ تبلیغ دین اور دعوت اسلام کے لئے مشرکین اور کفار کو خطوط لکھنا جائز ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی مختلف کفار کو خطوط بھیجنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔- انسانی اخلاق کی رعایت ہر مجلس میں چاہئے اگرچہ وہ مجلس کفار ہی کی ہو :- فَاَلْقِهْ اِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ ، حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ہدہد سے نامہ بری کا کام لیا تو اس کو یہ ادب مجلس بھی سکھایا کہ خط ملکہ سبا کو پہنچا کر وہیں سر پر سوار نہ رہے بلکہ وہاں سے ذرا ہٹ جائے جو عام شاہی مجلسوں کا طریقہ ہے۔ اس میں آداب معاشرت اور انسانی اخلاق کا عام مخلوقات کے ساتھ مطلوب ہونا معلوم ہوا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذْہَبْ بِّكِتٰبِيْ ھٰذَا فَاَلْقِہْ اِلَيْہِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْہُمْ فَانْظُرْ مَاذَا يَرْجِعُوْنَ۝ ٢٨- ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٨) میرا یہ خط لے جا اور ان کے پاس ڈال دینا پھر ذرا وہاں سے ہٹ جانا کہ وہ دیکھ نہ سکیں پھر دیکھنا کہ میرے خط کے بارے میں وہ آپس میں کیا گفتگو اور سوال و جواب کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ (اِذْہَبْ بِّکِتٰبِیْ ہٰذَا فَاَلْقِہْ اِلَیْہِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْہُمْ فَانْظُرْ مَاذَا یَرْجِعُوْنَ ) ” - چنانچہ وہ ہدہد حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا خط لے گیا اور جا کر ملکہ کے آس پاس یا شاید اس کی خواب گاہ میں پھینک دیا۔ ملکہ نے یہ غیر معمولی خط پڑھا تو فوری طور پر قوم کے بڑے بڑے سرداروں کو مشورے کے لیے دربار میں طلب کرلیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 36 یہاں پہنچ کر ہدہد کا کردار ختم ہوتا ہے ، عقلیت کے مدعی حضرات نے جس بنا پر اسے پرندہ ماننے سے انکار کیا ہے وہ یہ ہے کہ انہیں ایک پرندے کے اس قوت مشاہدہ ، قوت تمیز اور قوت بیان سے بہرہ ور ہونا بعید از امکان معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ملک پر گزرے اور یہ جان لے کہ یہ قوم سبا کا ملک ہے ، اس ملک کا نظام حکومت یہ ہے ، اس کی فرمانروا فلاں عورت ہے ، اس کا مذہب آفتاب پرستی ہے ، اس کو خدائے واحد کا پرستار ہونا چاہیے تھا ، مگر یہ گمراہی میں مبتلا ہے ، اور اپنے یہ سارے مشاہدات وہ آکر اس وضاحت کے ساتھ حضرت سلیمان سے بیان کردے ، انہی وجوہ سے کھلے کھلے ملاحدہ قرآن پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ کلیلہ و منہ کی سی باتیں کرتا ہے ، اور قرآن کی عقلی تفسیریں کرنے والے اس کے الفاظ کو ان کے صریح معنی سے پھیر کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ حضرت ہدہد تو سرے سے کوئی پرندے تھے ہی نہیں ، لیکن ان دونوں قسم کے حضرات کے پاس آخر وہ کیا ساٹنٹفک معلومات ہیں جن کی بنا پر وہ قطعیت کے ساتھ کہہ سکتے ہوں کہ حیوانات اور ان کی مختلف انواع اور پھر ان کے مختلف افراد کی قوتیں اور استعدادیں کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں ۔ جن چیزوں کو وہ معلومات سمجھتے ہیں وہ درحقیقت اس نہایت ناکافی مشاہدے سے اخذ کردہ نتائج ہیں جو محض سرسری طور پر حیوانات کی زندگی اور ان کے برتاؤ کا کیا گیا ہے ، انسان کو آج تک کسی یقینی ذریعہ سے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ مختلف قسم کے حیوانات کیا جانتے ہیں ، کیا کچھ دیکتے اور سنتے ہیں ، کیا محسوس کرتے ہیں ، کیا سوچتے اور سمجھتے ہیںِ اور ان میں سے ہر ایک کا ذہن کس طرح کام کرتا ہے ، پھر بھی جو تھوڑا بہت مشاہدہ مختلف انواع حیوانی زندگی کا کیا گیا ہے اس سے ان کی نہایت حیرت انگیز استعدادوں کا پتہ چلا ہے ، اب اگر اللہ تعالی جو ان حیوانات کا خالق ہے ہم کو یہ بتاتا ہے کہ اس نے اپنے ایک نبی کو جانوروں کی منطق سمجھنے اور ان سے کلام کرنے کی قابلیت عطا کی تھی ، اور اس نبی کے پاس سھائے جانے اور تربیت پانے سے ایک ہدہد اس قابل ہوگیا تھا کہ دوسرے ملکوں سے یہ کچھ مشاہدے کر کے آتا اور پیغمبر کو ان کی خبر دیتا تھا ، تو بجائے اس کے کہ ہم اللہ تعالی کے اس بیان کی روشنی میں حیوانات کے متعلق اپنے آج تک کے تھوڑے سے علم اور بہت سے قیاسات پر نظر ثانی کریں ، یہ کیا عقلمندی ہے کہ ہم اپنے اس ناکافی علم کو معیار قرار دے کر اللہ تعالی کے اس بیان کی تکذیب یا اس کی معنوی تحریف کرنے لگیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani