قَالَتْ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا اِنِّىْٓ اُلْقِيَ اِلَيَّ كِتٰبٌ كَرِيْمٌ ۔۔ : چناچہ اس نے اپنی سلطنت کے سرداروں اور مشیروں کو جمع کیا اور انھیں مخاطب کرکے کہا : ” اے سردارو میری طرف ایک بہت عزت والا خط پھینکا گیا ہے۔ “ ملکہ نے اس خط کو بہت عزت والا اس لیے کہا کہ ایک تو وہ عجیب و غریب اور غیر معمولی طریقے سے آیا تھا، کسی سفارتی وفد کے بجائے ایک پرندے نے اسے لا پھینکا تھا۔ دوسرے وہ سلیمان جیسے باشکوہ بادشاہ کی طرف سے تھا جو شام و فلسطین اور اردگرد کے علاقوں کے فرماں روا تھے۔ تیسرے اس کی ابتدا بتوں یا دیوتاؤں کے نام کے بجائے اللہ رحمٰن ورحیم کے نام سے تھی، پھر اتنا مختصر اور جامع کہ لکھنے والے کی پوری مراد چند لفظوں میں مکمل ادا ہو رہی تھی اور اس نے نہایت بارعب اور پُر ہیبت لہجے میں صاف صاف حکم دیا تھا کہ سرکشی چھوڑ کر اطاعت کرو اور تابع فرمان یا مسلمان بن کر اس کے سامنے حاضر ہوجاؤ۔ - 3 اس خط سے خط لکھنے کے کئی آداب معلوم ہو رہے ہیں، ایک یہ کہ خط لکھنے والے کو خط کے شروع میں اپنا تعارف کرانا ضروری ہے کہ یہ خط کس کی طرف سے ہے۔ دوسرا یہ کہ خط کی ابتدا ” بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “ سے ہونی چاہیے۔ تیسرا یہ کہ خط مختصر، جامع اور واضح ہونا چاہیے۔ قرآن میں مذکور الفاظ کے مطابق خط لکھنے والے کا نام ” بِسْمِ اللّٰهِ “ سے پہلے ہے، مگر مفسرین فرماتے ہیں کہ ملکہ چونکہ اپنے الفاظ میں خط کا تذکرہ کر رہی تھی، اس لیے اس نے ” مِنْ سُلَيْمٰنَ “ کا ذکر پہلے کردیا، ورنہ ” بِسْمِ اللّٰهِ “ اس سے پہلے ہے، جیسا کہ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خطوط سے واضح ہے کہ ان میں ابتدا اس طرح ہوتی ہے : ( بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ اِلٰی ھِرَقْلَ عَظِیْمِ الرُّوْمِ ۔۔ ) [ بخاري،- بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي : ٧ ]- ” وَاْتُوْنِيْ مُسْلِمِيْنَ “ کے دو معنی ہیں، ایک یہ کہ ” میرے پاس تابع فرمان بن کر آجاؤ۔ “ یہ شاہی جلال کا آئینہ دار ہے، دوسرا یہ کہ مسلمان ہو کر میرے پاس آجاؤ، یہ پیغمبرانہ شان کا اظہار ہے۔ سلیمان (علیہ السلام) میں دونوں صفات موجود تھیں، اس لیے مطلب یہ ہوگا کہ مسلمان بن کر میرے پاس حاضر ہوجاؤ، اگر اسلام قبول نہیں تو تابع فرمان تمہیں ہر حال میں ہونا پڑے گا۔ فرمایا : (حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ ) [ التوبۃ : ٢٩ ] ” یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ دیں اور وہ حقیر ہوں۔ “
خلاصہ تفسیر - (سلیمان (علیہ السلام) نے ہدہد سے یہ گفتگو کر کے بلقیس کے نام ایک خط لکھا جس کا مضمون آگے قرآن میں مذکور ہے اور ہدہد کے حوالہ کیا وہ اس کو چونچ میں لے کر چلا اور اکیلے یا مجلس میں بلقیس کے پاس ڈال دیا) بلقیس نے (پڑھ کر اپنے سرداروں کو مشورہ کے لئے جمع کیا اور) کہا کہ اے اہل دربار میرے پاس ایک خط (جس کا مضمون نہایت) باوقعت (اور عظیم الشان ہے) ڈالا گیا ہے (باوقعت اس لئے کہا کہ حاکمانہ مضمون ہے جس میں باوجود انتہائی اختصار کے اعلی درجہ کی بلاغت ہے اور) وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور اس میں یہ (مضمون) ہے (اول) بسم اللہ الرحمن الرحیم ( اور اس کے بعد یہ کہ) تم لوگ (یعنی بلقیس اور سب ارکان بادشاہت جن کے ساتھ عوام بھی وابستہ ہیں) میرے مقابلہ میں تکبر مت کرو اور میرے پاس تابعدار ہو کر چلے آؤ۔ (مقصود تمام کو دعوت دینا ہے اور یہ لوگ سلیمان (علیہ السلام) کا یا تو پہلے حال سن چکے ہوں گے گو سلیمان (علیہ السلام) ان لوگوں کو نہ جانتے ہوں، اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بڑے چھوٹوں کو نہیں جانتے اور چھوٹے بڑوں کو جانا کرتے ہیں اور یا خط آنے کے بعد تحقیق کرلیا ہوگا اور خط کے مضمون کی اطلاع دینے کے بعد) بلقیس نے (یہ) کہا کہ اے اہل دربار تم مجھ کو میرے اس معاملہ میں رائے دو (کہ مجھ کو سلیمان کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہئے) اور میں (کبھی) کسی بات کا قطعی فیصلہ نہیں کرتی جب تک کہ تم میرے پاس موجود نہ ہو (اور اس میں شریک و مشیر نہ ہو) وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم (اپنی ذات سے ہر طرح سے حاضر ہیں، اگر مقابلہ اور لڑنا مصلحت سمجھا جاوے تو ہم) بڑے طاقتور اور بڑے لڑنے والے ہیں (اور آگے) اختیار تم کو ہے سو تم ہی (مصلحت) دیکھ لو جو کچھ (تجویز کر کے) حکم دینا ہو۔ بلقیس کہنے لگی کہ (میرے نزدیک لڑنا تو مصلحت نہیں کیونکہ سلیمان بادشاہ ہیں اور) بادشاہوں (کا قاعدہ ہے کہ وہ جب کسی بستی میں (مخالفانہ طور پر) داخل ہوتے ہیں تو اس کو تہہ وبالا کردیتے ہیں اور اس کے رہنے والوں میں جو عزت دار ہیں ان کو (ان کا زور گھٹانے کے لئے) ذلیل (و خوار) کیا کرتے ہیں اور (ان سے لڑائی کی جاوے تو ممکن ہے کہ ان ہی کو غلبہ ہو تو پھر) یہ لوگ بھی ایسا ہی کریں گے (تو بےضرورت پریشانی میں پڑنا خلاف مصلحت ہے لہٰذا جنگ کو تو ابھی ملتوی کیا جاوے) اور (سردست یوں مناسب ہے کہ) میں ان لوگوں کے پاس کچھ ہدیہ (کسی آدمی کے ہاتھ بھیجتی ہوں) پھر دیکھوں گی کہ وہ بھیجے ہوئے (وہاں سے) کیا (جواب) لے کر آتے ہیں (اس وقت دوبارہ غور کیا جاوے گا۔ چناچہ ہدیوں اور تحفوں کا سامان درست ہوا اور قاصد اس کو لے کر روانہ ہوا) جب وہ قاصد سلیمان (علیہ السلام) کے پاس پہنچا (اور تمام ہدیے پیش کئے) تو سلیمان (علیہ السلام نے) فرمایا کیا تم لوگ (یعنی بلقیس اور بلقیس والے) مال سے میری امداد کرنا (چاہتے) ہو (اس لئے ہدیئے لائے ہو) سو (سمجھ رکھو کہ) اللہ نے جو کچھ مجھے دے رکھا ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو تم کو دے رکھا ہے (کیونکہ تمہارے پاس صرف دنیا ہے اور میرے پاس دین بھی اور دنیا بھی تم سے زیادہ لہٰذا میں تو ان چیزوں کا حریص نہیں ہوں) ہاں تم ہی اپنے ہدیئے پر فخر کرتے ہوگے (لہٰذا یہ ہدیئے ہم نہ لیں گے) تم (ان کو لے کر) ان لوگوں کے پاس لوٹ جاؤ (اگر وہ اب بھی ایمان لے آویں تو درست ورنہ) ہم ان پر ایسی فوجیں بھیجتے ہیں کہ ان لوگوں سے ان کا ذرا مقابلہ نہ ہو سکے گا اور ہم ان کو وہاں سے ذلیل کر کے نکال دیں گے اور وہ (ذلت کے ساتھ ہمیشہ کے لئے) ماتحت (اور رعایا) ہوجاویں گے (یہ نہیں کہ نکالنے کے بعد آزادی سے چھوڑ دیئے جاویں کہ جہاں چاہیں چلے جاویں بلکہ ہمیشہ کی ذلت ان کے لئے لازمی ہوجاوے گی۔ )- معارف و مسائل - قَالَتْ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤ ُ ا اِنِّىْٓ اُلْقِيَ اِلَيَّ كِتٰبٌ كَرِيْمٌ، کریم کے لفظی معنی معزز مکرم کے ہیں اور محاورہ میں کسی خط کو معزز مکرم جب کہا جاتا ہے جبکہ اس پر مہر لگائی گئی ہو۔ اس لئے اس آیت میں کتاب کریم کی تفسیر حضرت ابن عباس، قتادہ زہیر وغیرہ نے کتاب مختوم سے کی ہے جس سے معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے خط پر اپنی مہر ثبت فرمائی تھی۔ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب ملوک عجم کی یہ عادت معلوم ہوئی کہ جس خط پر مہر نہ ہو اس کو نہیں پڑھتے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی بادشاہوں کے خطوط کے لئے مہر بنوائی اور قیصر و کسری وغیرہ کو جو خطوط تحریر فرمائے ان پر مہر ثبت فرمائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ خط پر مہر لگانا مکتوب الیہ کا بھی اکرام ہے اور اپنے خط کا بھی آج کل عادت خط کو لفافہ میں بند کر کے بھیجنے کی ہوگئی ہے۔ یہ بھی مہر کے قائم مقام ہے جس جگہ مکتوب الیہ کا اکرام منظور ہو، کھلا خط بھیجنے کے بجائے لفافہ میں بند کر کے بھجینا اقرب الی السنتہ ہے۔- حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا خط کس زبان میں تھا :- حضرت سلیمان (علیہ السلام) گو عربی نہ تھے لیکن عربی زبان جاننا اور سمجھنا آپ سے کوئی بعید بھی نہیں۔ جبکہ آپ پرندوں تک کی زبان جانتے تھے اور عربی زبان تو تمام زبانوں سے افضل و اشرف ہے لہٰذا ہوسکتا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے خط عربی زبان میں لکھا ہو کیونکہ مکتوب الیہ (بلقیس) عربی النسل تھی اس نے خط کو پڑھا بھی اور سمجھا بھی اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے خط اپنی ہی زبان میں تحریر فرمایا ہو اور بلقیس کے پاس حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی زبان کا ترجمان ہو جس نے پڑھ کر خط سنایا اور سمجھایا ہو۔ (روح)
قَالَتْ يٰٓاَيُّہَا الْمَلَؤُا اِنِّىْٓ اُلْقِيَ اِلَيَّ كِتٰبٌ كَرِيْمٌ ٢٩- ملأ - المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] ،- ( م ل ء ) الملاء - ۔ وی جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہو تو مظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔- لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - كرم - الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی:- فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] .- والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ :- أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ- [ الذاریات 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] منطو علی المعنيين .- ( ک ر م ) الکرم - ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ - الا کرام والتکریم - کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے
(٢٩ تا ٣٢) غرض کہ ہدہد نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حکم کے مطابق ایسا ہی کیا اور اس خط کو حضرت بلقیس نے اٹھا لیا اور پڑھ کر اپنے سرداروں کو مشورہ کے لیے جمع کیا اور ان سے کہا کہ میرے پاس ایک مہر شدہ باوقعت خط ڈالا گیا ہے اور وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف سے ہے۔- اور اس میں یہ مضمون ہے کہ اول ،”۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم “۔ پھر یہ کہ تم لوگ میرے مقابلہ میں تکبر مت کرو اور میرے پاس مطیع وفرمانبردار ہو کر چلے آؤ۔- اس کے بعد حضرت بلقیس نے درباریوں سے فرمایا کہ تم مجھے اس معاملہ میں اپنی رائے اور مشورہ دو اور میں کبھی کسی معاملہ میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرتی جب تک کہ تم میرے پاس موجود نہ ہو اور مجھے مشورہ نہ دو ۔