Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خط نویس کے چند آداب :- اِنَّهٗ مِنْ سُلَيْمٰنَ وَاِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ، قرآن نے انسانی زندگی کا کوئی پہلو نہیں چھوڑا جس پر ہدایات نہ دی ہوں۔ خط و کتابت اور مراسلت کے ذریعہ باہمی گفت و شنید بھی انسان کی اہم ضروریات میں داخل ہے۔ اس سورت میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا مکتوب بنام ملکہ سبا (بلقیس) پورا کا پورا نقل فرمایا گیا۔ یہ ایک پیغمبر و رسول کا خط ہے اور قرآن کریم نے اس کو بطور استحسان کے نقل کیا ہے اس لئے اس خط میں جو ہدایات خط و کتابت کے معاملے میں پائی جاتی ہیں وہ مسلمانوں کے لئے بھی قابل اتباع ہیں۔- کاتب اپنا نام پہلے لکھے پھر مکتوب الیہ کا :- سب سے پہلے ایک ہدایت تو اس خط میں یہ ہے کہ خط کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے نام سے شروع کیا، مکتوب الیہ کا نام کس طرح لکھا قرآن کریم کے الفاظ میں وہ مذکور نہیں مگر اتنی بات اس سے معلوم ہوئی کہ خط لکھنے والے کے لئے سنت انبیاء یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنا نام لکھے جس میں بہت سے فوائد ہیں۔ مثلاً خط پڑھنے سے پہلے ہی مکتوب الیہ کے علم میں آجائے کہ میں کس کا خط پڑھ رہا ہوں تاکہ وہ اسی ماحول میں خط کے مضمون کو پڑھے اور غور کرے مخاطب کو یہ تکلیف نہ اٹھانی پڑے کہ کاتب کا نام خط میں تلاش کرے کہ کس کا خط ہے کہاں سے آیا ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جتنے مکاتیب منقول اور شائع شدہ عالم میں موجود ہیں ان سب میں بھی آپ نے یہی طریقہ اختیار فرمایا ہے کہ (من محمد عبداللہ و رسولہ) سے شروع فرمایا گیا ہے۔- یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ جب کوئی بڑا آدمی اپنے چھوٹے کو خط لکھے اس میں تو اپنے نام کی تقدیم پر کوئی اشکال نہیں، لیکن کوئی چھوٹا اپنے باپ، استاد، شیخ یا اور کسی بڑے کو خط لکھے اس میں اپنے نام کو مقدم کرنا کیا اس کے ادب کے خلاف نہ ہوگا اور اس کو ایسا کرنا چاہئے یا نہیں ؟ اس معاملے میں حضرات صحابہ کرام کا عمل مختلف رہا ہے اکثر حضرات نے تو اتباع سنت نبوی کو ادب پر مقدم رکھ کر خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو خطوط لکھے ان میں سے بھی اپنے نام کو مقدم لکھا ہے۔ روح المعانی میں بحر محیط کے حوالہ سے حضرت انس (رض) کا یہ قول نقل کیا ہے۔- ماکان احد اعظم حرمۃ من رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وکان اصحابہ اذا کتنبوا الیہ کتابا بداوا بانفسھم قلت و کتاب علاء الحضرمی یشھد لہ علی ماروی۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ تو کوئی انسان قابل تعظیم نہیں، مگر صحابہ کرام جب آپ کو بھی خط لکھتے تو اپنا نام ہی شروع میں لکھا کرتے تھے اور حضرت علائی حضرمی کا خط جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام معروف ہے وہ اس پر شاہد ہے۔- البتہ روح المعانی میں مذکورہ روایات نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ سب کلام افضلیت میں ہے جواز میں نہیں۔ اگر کوئی شخص اپنا نام شروع کے بجائے اخیر میں لکھ دے تو یہ بھی جائز ہے۔ فقیہ ابو اللیث کی بستان میں ہے کہ اگر کوئی شخص مکتوب الیہ کے نام سے شروع کر دے تو اس کے جواز میں کسی کو کلام نہیں کیونکہ امت میں یہ طریقہ بھی چلا آ رہا ہے اس پر نکیر نہیں کی گئی۔ (روح المعانی و قرطبی)- خط کا جواب دینا بھی سنت انبیاء ہے :- تفسیر قرطبی میں ہے کہ جس شخص کے پاس کسی کا خط آئے اس کے لئے مناسب ہے کہ اس کا جواب دے کیونکہ غائب کا خط حاضر کے سلام کے قائم مقام ہے اسی لئے حضرت ابن عباس سے ایک روایت میں ہے کہ وہ خط کے جواب کو جواب سلام کی طرح واجب قرار دیتے تھے۔ (قرطبی) - خطوط میں بسم اللہ لکھنا :- حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے مذکورہ خط سے نیز رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام مکاتیب سے ایک مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ خط کے شروع میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھنا سنت انبیاء ہے۔ رہا یہ مسئلہ کہ بسم اللہ کو اپنے نام سے پہلے لکھے یا بعد میں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکاتیب اس پر شاہد ہیں کہ بسم اللہ کو سب سے مقدم، اس کے بعد کاتب کا نام، پھر مکتوب الیہ کا نام لکھا جائے اور قرآن کریم میں جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا نام پہلے اور بسم اللہ بعد میں مذکور ہے اس کے ظاہر سے جو از اس کا بھی معلوم ہوتا ہے کہ بسم اللہ اپنے نام کے بعد لکھی جائے۔ لیکن ابن ابی حاتم نے یزید بن رومان سے نقل کیا ہے کہ دراصل حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے خط میں اس طرح لکھا تھا۔- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ من سلیمان بن داؤد الی بلقیس ابنتہ ذی شرح و قومھا۔ ان لا تعلوا الخ بلقیس نے جب یہ خط اپنی قوم کو سنایا تو اس نے قوم کی آگاہی کے لئے سلیمان (علیہ السلام) کا نام پہلے ذکر کردیا، قرآن کریم میں جو کچھ آیا ہے وہ بلقیس کا قول ہے قرآن کریم میں اس کی تصریح نہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اصل خط میں بسم اللہ مقدم تھی یا سلیمان (علیہ السلام) کا نام اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کا نام لفافہ کے اوپر لکھا ہو اور اندر بسم اللہ سے شروع ہو، بلقیس نے جب اپنی قوم کو خط سنایا تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا نام پہلے ذکر کردیا۔- مسئلہ : خط نویسی کی اصل سنت تو یہی ہے کہ ہر خط کے شروع میں بسم اللہ لکھی جائے لیکن قرآن و سنت کے نصوص و اشارات سے حضرات فقہاء نے یہ کلیہ قاعدہ لکھا ہے کہ جس جگہ بسم اللہ یا اللہ تعالیٰ کا کوئی نام لکھا جائے اگر اس جگہ اس کاغذ کے بےادبی سے محفوظ رکھنے کا کوئی اہمتام نہیں بلکہ وہ پڑھ کر ڈال دیا جاتا ہے تو ایسے خطوط اور ایسی چیز میں بسم اللہ یا اللہ تعالیٰ کا کوئی نام لکھنا جائز نہیں کہ وہ اس طرح اس بےادبی کے گناہ کا شریک ہوجائے گا۔ آج کل جو عموماً ایک دوسرے کو خطوط لکھے جاتے ہیں ان کا حال سب جانتے ہیں کہ نالیوں اور گندگیوں میں پڑے نظر آتے ہیں، اس لئے مناسب یہ ہے کہ ادائے سنت کے لئے زبان سے بسم اللہ کہہ لے تحریر میں نہ لکھے۔- ایسی تحریر جس میں کوئی آیت قرآنی لکھی ہو، کیا کسی کافر مشرک کے ہاتھ میں دینا جائز ہے :- یہ خط حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بلقیس کو اس وقت بھیجا ہے جبکہ وہ مسلمان نہیں تھیں حالانکہ اس خط میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا ہوا تھا جس سے معلوم ہوا کہ ایسا کرنا جائز ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو خطوط ملوک عجم کو لکھے ہیں اور وہ مشرک تھے، ان میں بھی بعض آیات قرآن لکھی ہیں۔ وجہ دراصل یہ ہے کہ قرآن کریم کا کسی کافر کے ہاتھ میں دینا تو جائز نہیں لیکن ایسی کوئی کتاب یا کاغذ جس میں کسی مضمون کے ضمن میں کوئی آیت آگئی ہے وہ عرف میں قرآن نہیں کہلاتا اس لئے اس کا حکم بھی قرآن کا حکم نہیں ہوگا وہ کسی کافر کے ہاتھ میں بھی دے سکتے ہیں اور بےوضو کے ہاتھ میں بھی (عالمگیری کتاب الخطر والاباحتہ)- خط مختصر، جامع، بلیغ اور موثر انداز میں لکھنا چاہئے :- حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اس والا نامہ کو دیکھئے تو چند سطروں میں تمام اہم اور ضروری مضامین بھی جمع کردیئے اور بلاغت کا اعلی معیار بھی قائم ہے۔ کافر کے مقابلے میں اپنی شاہانہ شوکت کا اظہار بھی ہے۔ اس کے ساتھ حق تعالیٰ کی صفات کمال کا بیان اور اسلام کی طرف دعوت بھی، اور ترفع وتکبر کی مذمت بھی۔ درحقیقت یہ خط بھی اعجاز قرآنی کا ایک نمونہ ہے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ خط نویسی میں تمام انبیاء (علیہم السلام) کی سنت بھی وہی ہے کہ تحریر میں طول نہ ہو، مگر ضروری کوئی مضمون چھوٹے بھی نہیں۔ (روح المعانی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّہٗ مِنْ سُلَيْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝ ٣٠ۙ- اسْمُ- والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها .- وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین :- أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس .- والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ.- ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا - [ مریم 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى- [ النجم 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا - [ مریم 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره .- الاسم - کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔ اللہ - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ (اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) ” - یہ قرآن کا واحد مقام ہے جہاں ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ سورت کے اندر اس کے متن میں شامل ہے۔ باقی ہر جگہ یہ سورتوں کے آغاز میں لکھی گئی ہے۔ اس کے بارے میں اختلاف ہے کہ سورتوں کے آغاز میں جہاں جہاں بھی بسم اللہ لکھی گئی ہے کیا اسے ایک آیت مانا جائے گا یا جتنی مرتبہ لکھی گئی ہے اتنی آیات شمار ہوں گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani