Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

311جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی بادشاہوں کو خطوط لکھے تھے، جن میں انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اسی طرح سلیمان (علیہ السلام) نے بھی اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت بذریعہ خط دی۔ آج کل مکتوب الیہ کا نام خط میں پہلے لکھا جاتا ہے لیکن سلف کا طریقہ یہی تھا جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اختیار کیا کہ پہلے اپنا نام تحریر کیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٩] جس وقت نامہ بر ہدہد نے یہ خط دربار میں ملکہ سبا کے سامنے پھینکا اس وقت وہ سورج کی عبادت کے لئے تیار کر رہی تھی۔ اس خط نے اسے عجیب قسم کی کشمکش میں مبتلا کردیا۔ کیونکہ یہ خط کئی پہلوؤں سے بہت اہم تھا۔ مثلاً ایک یہ کہ یہ خط اسے غیر معمولی طریقہ سے ملا۔ یعنی یہ خط کسی ملک کے سفارت خانہ کی معرفت نہیں بلکہ ایک نامہ بر پرندہ کے ذریعہ ملا تھا۔ دوسرے یہ کہ یہ خط کسی معمولی درجہ کے حاکم سے نہیں بلکہ شام و فلسطین کے عظیم فرمانروا کی طرف سے موصول ہوا تھا۔ تیسرا یہ کہ یہ خط رحمن اور رحیم کے نام سے شروع کیا گیا تھا کہ ان ناموں سے یہ لوگ قطعاً متعارف نہ تھے۔ اور چوتھے یہ کہ اس انتہائی مختصر سے خط میں ملکہ سے مکمل اطاعت کا اور پھر اس کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اور یہ بھی بتلا دیا گیا تھا کہ میرے مقابلہ میں سرکشی کا راہ اختیار نہ کرنا ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔ پانچویں یہ کہ انداز خطاب ایسا تھا جس میں کسی قسم کی کوئی لچک نہ پائی جاتی تھی۔- اس آیت میں واتو فی مسلمین کے الفاظ آئے ہیں۔ مسلمین کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ میرے فرمانبردار بن کر میرے ہاں آؤ۔ اور یہ حکم آپ کی فرمانروائی سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اسلام لاکر یا مسلمان ہو کر میرے ہاں آؤ اور سورج پرستی چھوڑ دو ۔ اور یہ حکم آپ کی نبوت سے تعلق رکھتا ہے اور آپ چونکہ بادشاہ بھی تھے اور نبی بھی۔ لہذا اس سلسلہ میں اپنے سرکاری امیروں، وزیروں سے مشورہ کرنا ہی مناسب سمجھا۔ چناچہ اس نے سب کو اکٹھا کرکے اس خط کے وصول ہونے اور اس کی مختلف پہلوؤں سے اہمیت سے آگاہ کیا پھر اسے پوچھا کہ : تم لوگ مجھے اس خط کے جواب کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہو ؟ اور یہ تو جانتے ہی ہو کہ میں سلطنت کے ایسے اہم کاموں میں پہلے بھی تم سے مشورہ کرتی رہی ہوں۔ اور از خود میں نے کبھی مشورہ کے بغیر کسی کام کا فیصلہ نہیں کیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَّا تَعْلُوْا عَلَيَّ وَاْتُوْنِيْ مُسْلِـمِيْنَ۝ ٣١ۧ- علا - العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعُلْوِيُّ والسُّفْليُّ المنسوب إليهما، والعُلُوُّ : الارتفاعُ ، وقد عَلَا يَعْلُو عُلُوّاً وهو عَالٍ وعَلِيَ يَعْلَى عَلَاءً فهو عَلِيٌّ فَعَلَا بالفتح في الأمكنة والأجسام أكثر . قال تعالی:- عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان 21] . وقیل : إنّ ( عَلَا) يقال في المحمود والمذموم، و ( عَلِيَ ) لا يقال إلّا في المحمود، قال : إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص 4] - ( ع ل و ) العلو - کسی چیز کا بلند ترین حصہ یہ سفل کی ضد ہے ان کی طرف نسبت کے وقت علوی اسفلی کہا جاتا ہے اور العوا بلند ہونا عال صفت فاعلی بلند علی علی مگر علا ( فعل ) کا استعمال زیادہ تر کسی جگہ کے یا جسم کے بلند ہونے پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان 21] ان کے بدنوں پر دیبا کے کپڑے ہوں گے ۔ بعض نے علا اور علی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ علان ( ن ) محمود اور مذموم دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن علی ( س ) صرف مستحن معنوں میں بولا جاتا ہے : ۔ قرآن میں ہے : ۔- إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص 4] فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا ۔- سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 37 یعنی خط کی اہمیت کئی وجوہ سے ہے ، ایک یہ کہ وہ عجیب غیر معمولی طریقے سے آیا ہے ، بجائے اس کے کہ کوئی سفارت اسے لاکر دیتی ، ایک پرندے نے اسے لاکر مجھ پر ٹپکا دیا ہے ، دوسرے یہ کہ وہ فلسطین و شام کے عظیم فرمانروا سلیمان کی جانب سے ہے ، تیسرے یہ کہ اسے اللہ رحمن و رحیم کے نام سے شروع کیا گیا ہے ، حالانکہ دنیا میں کہیں کسی سلطنت کے مراسلوں میں یہ طریقہ استعمال نہیں کیا جاتا ، پھر سب دیوتاؤں کو چھوڑ کر صرف خدائے بزرگ و برتر کے نام پر خط لکھنا بھی ہماری دنیا میں ایک غیر معمولی بات ہے ، ان سب باتوں کے ساتھ یہ امر اس کی اہمیت کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے کہ اس میں بالکل صاف صاف ہم کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ ہم سرکشی چھوڑ کر اطاعت اختیار کرلیں اور تابع فرمان بن کر یا مسلمان ہوکر سلیمان کے آگے حاضر ہوجائیں ۔ مسلم ہوکر حاضر ہونے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ مطیع بن کر حاضر ہوجاؤ ، دوسرے یہ کہ دین اسلام قبول کر کے حاضر ہوجاؤ ، پہلا مفہوم حضرت سلیمان کی شان فرماں روائی سے مطابقت رکھتا ہے اور دوسرا مفہوم ان کی شان پیغمبری سے ۔ غالبا یہ جامع لفظ اسی لیے استعمال کیا گیا ہے کہ خط میں یہ دونوں مقاصد شامل تھے ۔ اسلام کی طرف سے خود مختار قوموں اور حکومتوں کو ہمیشہ یہی دعوت دی گئی ہے کہ یا تو دین حق قبول کرو اور ہمارے ساتھ نظام اسلامی میں برابر کے حصہ دار بن جاؤ ، یا پھر اپنی سیاسی خود مختاری سے دست بردار ہوکر اسلامی نظام کی ماتحتی قبول کرلو اور سیدھے ہاتھ سے جزیہ دو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

11: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یمن کا یہ علاقہ بھی اصل میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ماتحت تھا، لیکن کسی وقت اس عورت نے خفیہ طور پر یہاں اپنی حکومت قائم کرلی تھی، جس کی خبر آ کر ہد ہد نے دی۔ اسی وجہ سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس مختصر مگر نہایت بلیغ خط میں کوئی تفصیلی بات کرنے کے بجائے بلقیس اور اس کی قوم کو سرکشی سے باز رہنے اور تابع دار بننے کا حکم دیا۔