بلقیس کو خط ملا بلقیس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط انہیں سنا کر ان سے مشورہ طلب کیا اور کہا کہ تم جانتے ہو جب تک تم سے میں مشورہ نہ کرلوں ، تم موجود نہ ہو تو میں چونکہ کسی امر کا فیصلہ تنہا نہیں کرتی اس بارے میں بھی تم سے مشورہ طلب کرتی ہوں بتاؤ کیا رائے ہے؟ سب نے متفقہ طور پر جواب دیا کہ ہماری جنگی طاقت بہت کچھ ہے اور ہماری طاقت مسلم ہے ۔ اس طرف سے تو اطمینان ہے آگے جو آپ کا حکم ہو ۔ ہم تابعدراری کے لئے موجود ہیں ۔ اسمیں ایک حد تک سرداران لشکر نے لڑائی کی طرف اور مقابلے کی طرف رغبت دی تھی لیکن بلقیس چونکہ سمجھدار عاقبت اندیش تھی اور ہدہد کے ہاتھوں خط کے ملنے کا ایک کھلا معجزہ دیکھ چکی تھی یہ بھی معلوم کر لیا تھا کہ حضرت سلیمان کی طاقت کے مقابلے میں ، میں میرا لاؤ لشکر کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔ اگر لڑائی کی نوبت آئی تو علاوہ ملک کی بربادی کے میں بھی سلامت نہ رہ سکوں گی اس لئے اس نے اپنے وزیروں اور مشیروں سے کہا بادشاہوں کا قاعدہ ہے کہ جب وہ کسی ملک کو فتح کرتے ہیں تو اسے برباد کر دیتے ہیں اجاڑ دیتے ہیں ۔ وہاں کے ذی عزت لوگوں کو ذلیل کردیتے ہیں ۔ سرداران لشکر اور حکمران شہر خصوصی طور پر انکی نگاہوں میں پڑھ جاتے ہیں ۔ جناب فاری نے اسکی تصدیق فرمائی کہ فی الواقع یہ صحیح ہے وہ ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔ اس کی بعد اسنے جو ترکیب سوچی کہ ایک چال چلے اور حضرت سلیمان سے موافقت کر لے صلح کر لے وہ اس نے انکے سامنے پیش کی کہا کہ اس وقت تو میں ایک گراں بہا تحفہ انہیں بھیجتی ہوں دیکھتی ہوں اس کے بعد وہ میرے قاصدوں سے کیا فرماتے ہیں ۔ بہت ممکن ہے کہ وہ اسے قبول فرمالیں اور ہم آئندہ بھی انہیں یہ رقم بطور جزیے کے بھیجتے رہیں اور انہیں ہم پر چڑھائی کرنے کی ضرورت نہ پڑے ۔ اسلام کی قبولیت میں اسی طرح اس نے ہدیے بھیجنے میں نہاپت دانائی سے کام لیا ۔ وہ جانتی تھی کہ روپیہ پیسہ وہ چیز ہے فولاد کو بھی نرم کردیتا ہے ۔ نیز اسے یہ بھی آزمانا تھا کہ دیکھیں وہ ہمارے اس مال کو قبول کرتے ہیں یا نہیں ۔ ؟ اگر قبول کر لیا تو سمجھ لو کہ وہ ایک بادشاہ ہیں پھر ان سے مقابلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر واپس کردیا تو انکی نبوت میں کوئی شک نہیں پھر مقابلہ سراسر بےسود بلکہ مضر ہے ۔
قَالَتْ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِيْ فِيْٓ اَمْرِيْ ۔۔ : اس سے پہلے ملکہ سبا کی بات چل رہی ہے، ” يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِيْ ۔۔ “ بھی اسی کا کلام ہے۔ بظاہر درمیان میں ” قَالَتْ “ لانے کی ضرورت نہ تھی۔ بقاعی فرماتے ہیں : ” کلام کے درمیان وقفہ ہے کہ ملکہ سبا سلیمان (علیہ السلام) کا خط سنا کر منتظر تھی کہ قوم کے سردار اس پر اپنا رد عمل ظاہر کریں گے، مگر جب وہ خط سن کر خاموش اور مبہوت رہ گئے، تو اس نے کہا : ” اے سردارو میرے اس معاملے میں مجھے حل بتاؤ۔ “- 3 اس سے ملکہ کی دانش مندی اور سمجھ داری ظاہر ہے کہ وہ ہر کام اپنے سرداروں کے مشورے سے کرتی تھی اور یہ بھی کہ سبا کا نظام بادشاہی ہونے کے باوجود استبدادی نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ طرز حکومت کوئی بھی ہو، بادشاہت ہو یا خلافت، یا جمہوریت، مشورے کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ بعض لوگ بادشاہت کو مطلق العنانی اور جمہوریت کو مشورہ قرار دیتے ہیں، مگر یہ سراسر غلط ہے۔ ایک بادشاہ ہر کام مشورے سے کرنے والا ہوسکتا ہے، عادل بادشاہ ایسے ہی ہوتے ہیں اور ایک جمہوری سربراہ بدترین مطلق العنان آمر ہوسکتا ہے، جو پارلیمنٹ کے ارکان کو ان کی خواہشوں اور کمزوریوں کی وجہ سے داغ دار بنا کر اپنی مرضی کے تابع رکھنے پر مجبور رکھنے والا ہو۔ اس وقت تقریباً دنیا کے تمام جمہوری سربراہوں کا یہی حال ہے، بلکہ جمہوریت جس میں عوام کے لفظ کی گردان ذکر الٰہی کی طرح کی جاتی ہے، صرف عوام کو ایک دفعہ رائے کا حق دیتی ہے، پھر وہ چار پانچ سال تک بےبسی سے اپنے چنے ہوئے نمائندوں کی مطلق العنانی کے زخم کھاتے رہتے ہیں۔ اسلام میں مطلق العنان بادشاہت یا جمہوریت دونوں کا وجود نہیں۔ یہاں خلیفہ ہو یا بادشاہ، اللہ تعالیٰ کے احکام کو، جو قرآن و حدیث میں ہیں، کوئی چاہے یا نہ چاہے، ہر حال میں نافذ کرنے کا پابند ہے۔ اس کے بعد دوسرے معاملات میں وہ مشورہ کرنے کا پابند ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ ) [ الشورٰی : ٣٨ ] ” اور ان کا کام آپس میں مشورہ کرنا ہے۔ “ اور فرمایا : (وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ ) [ آل عمران : ١٥٩ ] ” اور کام میں ان سے مشورہ کر۔ “ مگر اس کے لیے نہ ہر ایک سے مشورہ ضروری ہے نہ وہ اکثریت کی رائے کا پابند ہے، بلکہ وہ ہر کام میں ان لوگوں سے مشورہ لے گا جو اس کے اہل ہیں اور چونکہ فیصلے کے نفع نقصان کا ذمہ دار وہ ہے، اس لیے آخری فیصلہ اسی کا ہوگا، جو بعض اوقات اقلیت کی رائے کے مطابق بھی ہوسکتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر و عمر (رض) سے فرمایا : ( لَوْ أَنَّکُمَا تَتَّفِقَانِ عَلٰی أَمْرٍ وَاحِدٍ مَا عَصَیْتُکُمَا فِيْ مَشْوَرَۃٍ أَبَدًا ) [ فتح الباري، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب قول اللہ تعالیٰ : ( و أمرھم شورٰی ۔۔ ) : ١٣؍٣٤١ ] ” اگر تم کسی بات پر متفق ہوجاؤ تو میں اس معاملے میں کبھی تمہاری مخالفت نہیں کروں گا۔ “ مشورے کی ایک مثال ملکہ سبا کے سرداروں کی مجلس ہے کہ انھوں نے مشورہ دے کر کہا : ( وَّالْاَمْرُ اِلَيْكِ فَانْظُرِيْ مَاذَا تَاْمُرِيْنَ ) [ النمل : ٣٣ ]” اور معاملہ تیرے سپرد ہے، سو دیکھ تو کیا حکم دیتی ہے۔ “
اہم امور میں مشورہ کرنا سنت ہے اس میں دوسروں کی رائے سے فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے اور لوگوں کی دلجوئی بھی ہوتی ہے :- قَالَتْ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤ ُ ا اَفْتُوْنِيْ فِيْٓ اَمْرِيْ ۚ مَا كُنْتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ ، افتونی، فتوی سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کسی خاص مسئلہ کا جواب دینا۔ یہاں مشورہ دینا اور اپنی رائے کا اظہار کرنا مراد ہے۔ ملکہ بلقیس کو جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا خط پہنچا تو اس نے اپنے ارکان حکومت کو جمع کر کے اس واقعہ کا اظہار کیا اور ان سے مشورہ طلب کیا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔ اس نے ان کی رائے دریافت کرنے سے پہلے ان کی دلجوئی اور ہمت افزائی کے لئے یہ بھی کہا کہ میں کسی معاملہ کا فیصلہ تمہارے بغیر نہیں کرتی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ فوج اور وزراء نے اس کے جواب میں اپنی مستعدی کے ساتھ تعمیل حکم کے لئے ہر قسم کی قربانی پیش کردی (نَحْنُ اُولُوْا قُوَّةٍ وَّاُولُوْا بَاْسٍ شَدِيْدٍ وَّالْاَمْرُ اِلَيْكِ ) حضرت قتادہ نے فرمایا کہ ہم سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ بلقیس کی مجلس شوریٰ کے ارکان تین سو تیرہ تھے اور ان میں سے ہر ایک آدمی دس ہزار آدمیوں کا امیر اور نمائندہ تھا۔ (قرطبی)- اس سے معلوم ہوا کہ اہم امور میں مشورہ لینے کا دستور پرانا ہے۔ اسلام نے مشورہ کو خاص اہمیت دی اور عمال حکومت کو مشورہ کا پابند کیا۔ یہاں تک کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو وحی الٰہی کے مورد تھے۔ اور آسمانی ہدایات آپ کو ملتی تھیں اس کی وجہ سے آپ کو کسی رائے مشورہ کی درحقیقت ضرورت نہ تھی۔ مگر امت کے لئے سنت قائم کرنے کے واسطے آپ کو بھی حکم دیا گیا (وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ ) یعنی آپ اہم امور میں صحابہ کرام سے مشورہ لیا کریں۔ اس میں صحابہ کرام کی دلجوئی اور عزت افزائی بھی ہے اور آئندہ آنے والے عمال حکومت کو اس کی تاکید بھی کہ مشورہ سے کام کیا کریں۔- مکتوب سلیمانی کے جواب میں ملکہ بلقیس کا ردعمل :- ارباب حکومت کو مشورہ میں شریک کرکے ان کا تعاون حاصل کرلینے کے بعد ملکہ بلقیس نے خود ہی ایک رائے قائم کی جس کا حاصل یہ تھا کہ وہ حضرت سلیمان کا امحتان لے اور تحقیق کرے کہ وہ واقعی اللہ کے رسول اور نبی ہیں اور جو کچھ حکم دے رہے ہیں وہ اللہ کے احکام کی تعمیل ہے یا وہ ایک ملک گیری کے خواہشمند بادشاہ ہیں، اس امتحان سے اس کا مقصد یہ تھا کہ اگر واقعی وہ نبی و رسول ہیں تو ان کے حکم کا اتباع کیا جائے اور مخالفت کی کوئی صورت اختیار نہ کی جائے اور اگر بادشاہ ہیں اور ملک گیری کی ہوس میں ہمیں اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں تو پھر غور کیا جائے گا کہ ان کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔ اس امتحان کا طریقہ اس نے یہ تجویز کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) کے پاس کچھ ہدیے تحفے بھیجے اگر وہ ہدیے تحفے لے کر راضی ہوگئے تو علامت اس کی ہوگی کہ وہ ایک بادشاہ ہی ہیں اور اگر وہ واقع میں نبی و رسول ہیں تو وہ اسلام و ایمان کے بغیر کسی چیز پر راضی نہ ہوں گے، یہ مضمون ابن جریر نے متعدد اسانید کے ساتھ حضرت ابن عباس، مجاہد، ابن جریج، ابن وہب سے نقل کیا ہے اسی کا بیان اس آیت میں ہے۔
قَالَتْ يٰٓاَيُّہَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِيْ فِيْٓ اَمْرِيْ ٠ۚ مَا كُنْتُ قَاطِعَۃً اَمْرًا حَتّٰى تَشْہَدُوْنِ ٣٢- ملأ - المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] ،- ( م ل ء ) الملاء - ۔ وی جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہو تو مظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔- فَتْوَى- والفُتْيَا والفَتْوَى: الجواب عمّا يشكل من الأحكام، ويقال : اسْتَفْتَيْتُهُ فَأَفْتَانِي بکذا . قال : وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء 127] ، فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات 11] ، أَفْتُونِي فِي أَمْرِي [ النمل 32] .- اور کسی مشکل مسلہ کے جواب کو فتیا وفتوی کہا جاتا ہے ۔ استفتاہ کے معنی فتوی طلب کرنے اور افتاہ ( افعال ) کے معنی فتی دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء 127]( اے پیغمبر ) لوگ تم سے ( یتیم ) عورتوں کے بارے میں فتوی طلب کرتے ہیں کہدو کہ خدا تم کو ان کے ( ساتھ نکاح کرنے کے ) معاملے میں فتوی اجازت دیتا ہے فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات 11] تو ان سے پوچھو ۔۔۔ أَفْتُونِي فِي أَمْرِي [ الن قطع - القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] ، - ( ق ط ع ) القطع - کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا - مل 32] . میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو ۔- شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے
سورة النمل حاشیہ نمبر : 38 اصل الفاظ ہیں حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ جب تک تکہ تم حاضر نہ ہو ، یا تم گواہ نہ ہو ، یعنی اہم معاملات میں فیصلہ کرتے وقت تم لوگوں کی موجودگی مریے نزدیک ضروری ہے ، اور یہ بھی کہ جو فیصلہ میں کروں اس کے صحیح ہونے کی تم شہادت دو ، اس سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ قوم سبا میں بادشاہی نظام تو تھا مگر وہ استبدادی نظام نہ تھا بلکہ فرماں روائے وقت معاملات کے فیصلے اعیان سلطنت کے مشورے سے کرتا تھا ۔