3 5 1اس سے اندازہ ہوجائے گا کہ سلیمان (علیہ السلام) کوئی دنیا دار بادشاہ ہے یا نبی مرسل، جس کا مقصد اللہ کے دین کا غلبہ ہے۔ اگر ہدیہ قبول نہیں کیا تو یقینا اس کا مقصد دین کی اشاعت و سر بلندی ہے، پھر ہمیں بھی اطاعت بغیر چارہ نہیں ہوگا۔
[٣٢] ملکہ کی اس تقریر سے یہ تو صاف واضح تھا کہ وہ مقابلہ کے لئے تیار نہیں۔ مگر وہ فوری طور پر مطیع فرمان ہونے پر بھی آمادہ نہ تھی۔ لہذا اس نے ایک دانشمندانہ قوم اٹھاتے ہوئے درمیانی راستہ اختیار کیا۔ جو یہ تھا کہ حضرت سلیمان کے پاس ایک وفد بھیجا جائے اور ساتھ کچھ تحفے تحائف بھی بھیجے جائیں ان لوگوں کے ردعمل سے ان کی ذہنیت پوری طرح واضح ہوجائے گی۔ چناچہ اس نے ہدید کی صورت میں بہت سامان و دولت کچھ سونے کی اینٹیں اور کچھ نوادرات بھیجے اور وفد کے لئے ایسے آدمی انتخاب کئے جو بہت خوبصورت تھے اور اس سے دراصل ہو حضرت سلیمان کا امتحان لینا چاہتی تھی وہ کس قسم کی اشیاء کا شوق رکھتے ہیں۔ نیز یہ کہ اگر وہ دنیا دار بادشاہ ہے تو تحائف قبول کرلے گا۔ اندریں صورت اس سے جنگ بھی لڑی جاسکتی ہے اور نبی ہے تو تحفے قبول نہیں کرے گا نہ اس سے مقابلہ ممکن ہوگا۔
وَاِنِّىْ مُرْسِلَةٌ اِلَيْهِمْ بِهَدِيَّةٍ ۔۔ : اس کے بعد اس نے طے کیا کہ حالات کا جائزہ لیتی رہے اور سلیمان (علیہ السلام) سے موافقت کرکے صلح کرلے۔ چناچہ اس نے اپنے سرداروں سے کہا کہ میں اس کی طرف ان کے شایان شان تحفہ بھیجتی ہوں، پھر دیکھتی ہوں کہ وہ میرے قاصدوں کو کیا جواب دیتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ وہ تحفہ قبول کرلیں اور ہم ہر سال کچھ رقم بطور جزیہ بھیجتے رہیں اور وہ ہم پر چڑھائی کا خیال ترک کردیں۔ یہ خاتون اپنے شرک کی حالت اور اسلام کی حالت دونوں میں بہت عقل مند تھی۔ وہ جانتی تھی کہ کسی کے شوق کے مطابق تحفہ وہ چیز ہے جو لوہے کو بھی نرم کردیتا ہے، اور اسے یہ بھی آزمانا تھا کہ دیکھیں وہ ہمارے اس مال کو قبول کرتے ہیں یا نہیں، اگر قبول کرلیا تو سمجھ لو کہ وہ ایک بادشاہ ہیں، پھر ان سے مقابلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر واپس کردیا تو ان کی نبوت میں کوئی شک نہیں، پھر مقابلہ سراسر بےسود بلکہ مُضِر ہے۔ مفسرین نے ان تحائف کی عجیب و غریب تفصیلات بیان کی ہیں جو سب اسرائیلیات ہیں، ان میں سے ایک بھی ثابت نہیں۔
وَاِنِّىْ مُرْسِلَةٌ اِلَيْهِمْ بِهَدِيَّةٍ فَنٰظِرَةٌۢ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ ، یعنی میں حضرت سلیمان اور ان کے ارکان دولت کے پاس ایک ہدیہ بھیجتی ہوں پھر دیکھوں گی کہ جو قاصد یہ ہدیہ لے کر جائیں گے وہ واپس آ کر کیا صورت حال بیان کرتے ہیں۔- بلقیس کے قاصدوں کی دربار سلیمانی میں حاضری :- تاریخی اسرائیلی روایات میں بلقیس کی طرف سے آنے والے قاصدوں اور تحفوں کی بڑی تفصیلات مذکور ہیں۔ اتنی بات پر سب روایات متفق ہیں کہ تحفہ میں کچھ سونے کی اینٹیں تھیں کچھ جواہرات اور ایک سو غلام اور ایک سو کنیزیں تھیں مگر کنیزوں کو مردانہ لباس میں اور غلاموں کو زنانہ لباس میں بھیجا تھا اور ساتھ ہی بلقیس کا ایک خط بھی تھا جس میں سلیمان کے امتحان کے لئے کچھ سوالات بھی تھے، تحفوں کے انتخاب میں بھی ان کا امتحان مطلوب تھا۔ حضرت سلیمان کو حق تعالیٰ نے اس کے تحفوں کی تفصیلات ان کے پہنچنے سے پہلے بتلا دی تھیں۔ سلیمان (علیہ السلام) نے جناب کو حکم دیا کہ دربار سے نو فرسخ تقریباً تیس میل کی مسافت میں سونے چاندی کی اینٹوں کا فرش کردیا جائے اور راستہ میں دو طرفہ عجیب الخلقت جانوروں کو کھڑا کردیا جائے جن کا بول و براز بھی سونے چاندی کے فرش پر ہو۔ اسی طرح اپنے دربار کو خاص اہتمام سے مزین فرمایا، دائیں بائیں چار چار ہزار سونے کی کرسیاں ایک طرف علماء کے لئے، دوسری طرف وزراء اور عمال سلطنت کے لئے بچھائی گئیں۔ جواہرات سے پورا ہال مزین کیا گیا۔ بلقیس کے قاصدوں نے جب سونے کی اینٹوں پر جانوروں کو کھڑا دیکھا تو اپنے تحفہ سے شرما گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ اپنی سونے کی اینٹیں وہیں ڈال دیں، پھر جوں جوں آگے بڑھتے گئے دو طرفہ وحوش و طیور کی صفیں دیکھیں، پھر جنات کی صفیں دیکھیں تو بےحد مرعوب ہوگئے مگر جب دربار تک پہنچے اور حضرت سلیمان کے سامنے حاضر ہوئے تو آپ خندہ پیشانی سے پیش آئے، ان کی مہمانی کا اکرام کیا مگر ان کے تحفے واپس کردیئے اور بلقیس کے سب سوالات کے جوابات دیئے۔ (ملخصًا از تفسیر قرطبی)
وَاِنِّىْ مُرْسِلَۃٌ اِلَيْہِمْ بِہَدِيَّۃٍ فَنٰظِرَۃٌۢ بِمَ يَرْجِـــعُ الْمُرْسَلُوْنَ ٣٥- رسل ( ارسال)- والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] - ( ر س ل ) الرسل - الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔- هَدِيَّةُ- والهَدِيَّةُ مختصّة باللُّطَف الذي يُهْدِي بعضنا إلى بعضٍ. قال تعالی: وَإِنِّي مُرْسِلَةٌ إِلَيْهِمْ بِهَدِيَّةٍ [ النمل 35] ، بَلْ أَنْتُمْ بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ [ النمل 36] والمِهْدَى الطّبق الذي يهدى عليه، والْمِهْدَاءُ : من يكثر إِهْدَاءَ الهديّة، قال الشاعر۔ وإنّك مهداء الخنا نطف الحشا والْهَدِيُّ يقال في الهدي، وفي العروس يقال : هَدَيْتُ العروسَ إلى زوجها، وما أحسن هَدِيَّةَ فلان وهَدْيَهُ ، أي : طریقته، وفلان يُهَادِي بين اثنین : إذا مشی بينهما معتمدا عليهما، وتَهَادَتِ المرأة : إذا مشت مشي الهدي .- الھدیۃ ان تحائف کو کہا جاتا ہے جو ہم ایک دوسرے کو پیش کرتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَإِنِّي مُرْسِلَةٌ إِلَيْهِمْ بِهَدِيَّةٍ [ النمل 35] اور میں ان کی طرف کچھ تحفہ بھیجتی ہون ۔ بَلْ أَنْتُمْ بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ [ النمل 36] بلکہ اپنے تحفے سے تم ہی خوش ہوتے ہوں گے ۔ المھدی طباق وغیرہ جس میں ہدیہ بھیجا جاتا ہے اور اس شخص کو جو بہت زیادہ تحائف پیش کرنے کا عادی ہو اسے مھداء کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے وانک مھداء الخنانطف النشا بیشک تو فحش گو اور بد باطن ہے ۔ لھدی کے معنی قربانی کا جانور اور دلہن اور سیرت کے آتے ہیں چناچہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ ھدیت العروس الیٰ زوجھا دلہن کو شوہر کے پاس بھیجا ما احسن ھدیۃ فلان وھدیۃ یعنی اس کی سیرت کتنی اچھی ہے فلان یھا ویٰ بین اثنین فلاں دو آدمیوں چلتا ہے ۔ تھا دت امرء ۃ عورت کا قرابانی کے جانور کی طرح لڑ کھڑا کر چلنا ۔- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے
(٣٥) اور سردست میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں کچھ تحائف بھیجتی ہوں پھر دیکھوں گی کہ قاصد وہاں سے کیا جواب لاتے ہیں۔
آیت ٣٥ (وَاِنِّیْ مُرْسِلَۃٌ اِلَیْہِمْ بِہَدِیَّۃٍ فَنٰظِرَۃٌم بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ ) ” - حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں قیمتی تحائف بھیج کر وہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ آیا دنیوی مال و دولت کا حصول ہی ان کا مقصد و مدعا ہے یا اس سے آگے بڑھ کر وہ کچھ اور چاہتے ہیں۔