Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

341یعنی طاقت کے ذریعے سے فتح کرتے ہوئے۔ 342یعنی قتل و غارت گری کرکے اور قیدی بنا کر۔ 343بعض مفسرین کے نزدیک یہ اللہ کا قول ہے جو ملکہ سبا کی تائید میں ہے اور بعض کے نزدیک یہ بلقیس ہی کا کلام اور اس کا تتمہ ہے اور یہی سیاق کے زیادہ قریب ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣١] خط کے انداز خطاب سے ملکہ کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ سلیمان عام فرمانرواؤں کی طرح نہیں بلکہ ان کی پشت پر کوئی غیر معمول طاقت ہے اور یہ بھی معلوم ہو رہا تھا کہ اگر ملکہ اور اس کے کار پرداز مطیع فرمان بن کر سلیمان (علیہ السلام) کے پاس حاضر نہ ہوئے تو حضرت سلیمان ان کی سرکوبی کے لئے ضرور ان پر چڑھائی کریں گے۔ حضرت سلیمان یہ تو گوارا کرسکتے تھے کہ یہ لوگ سورج پرستی چھوڑ کر راہ راست پر آجائیں تو ان سے کچھ تعرض نہ کیا جائے۔ مگر یہ گوارا نہ کرسکتے تھے کہ ان کے پاس اسباب و وسائل موجود ہونے کے باوجود ان کے قرب و جوار میں اس طرح علانیہ ملکی سطح پر شرک اور سورج پرستی ہوتی رہے۔ لہذا ملکہ کے خطرات کچھ موہوم خطرات نہ تھے۔ اس نے ٹھیک اندازہ کرلیا تھا کہ ایک تو حضرت سلیمان ان کی سرتابی کی صورت میں ضرور ان پر چڑھائی کریں گے اور دوسرے اس نے یہ بھی اندازہ کرلیا تھا کہ حضرت سلیمان کے لشکروں کے مقابلہ میں ان میں مقابلہ کی تاب نہیں ہے۔ لہذا اس نے سترہ بی یا خاموشی کے انجام سے اپنے مشریوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں اکثر یوں ہی ہوتا آیا ہے کہ جب کوئی بادشاہ کسی ملک کو فتح کرتا ہے تو سب سے پہلے اس ملک کے وسائل معاش پر قبضہ کرکے اس ملک کو مفلس و قلاش بنا دیتا ہے۔ پھر وہاں کے سر کردہ لوگوں کو کچل کر ان کا زور ختم کردیتا ہے تاکہ وہ دوبارہ کبھی اس کے مقابلہ کی بات بھی نہ سوچ سکے۔ اس طرح وہ اس مفتوحہ ملک کے تمام سیاسی، تمدنی اور معاشی وسائل پر قبضہ کرکے اس ملک کی طاقت کو عملاً ختم کرکے اپنی طاقت میں اضافہ کرلیتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اکابرین مملکت یا تو موت کے گھاٹ اتار دیئے جاتے ہیں یا پھر انھیں ذلیل و رسوا ہو کر رہنا پڑتا ہے۔ لوٹ گھسوٹ اور قتل و غارت عام ہوتا ہے اور بسا اوقات شہروں کو آگ لگا دی جاتی ہے اور عام حالات میں ایسے ہی نتائج متوقع ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً ۔۔ : ملکہ ان سے زیادہ سمجھ دار تھی اور سلیمان (علیہ السلام) کے متعلق ان سے زیادہ علم رکھتی تھی، انھوں نے اگرچہ جنگ کے حق میں رائے دی تھی، مگر اسے معلوم تھا کہ سلیمان (علیہ السلام) کے لشکروں میں انسانوں کے علاوہ جنّ اور پرندے بھی شامل ہیں اور وہ ان کا کسی صورت مقابلہ نہیں کرسکتی۔ وہ ہد ہد کے ذریعے سے آنے والے خط کا عجیب و غریب مشاہدہ بھی کرچکی تھی۔ اس لیے اس نے کہا، مجھے ڈر ہے کہ اگر ہم نے ان سے مقابلے اور لڑائی کا ارادہ کیا تو وہ اپنے لشکروں کے ساتھ حملہ آور ہو کر مجھے اور تم سب سرداروں کو خاص طور پر ذلیل و خوار یا ہلاک کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے کہا کہ بادشاہ جب کسی بستی میں بزور شمشیر داخل ہوتے ہیں تو اسے برباد کردیتے ہیں اور اس کے باشندوں میں سے جو عزت والے ہوں انھیں ذلیل کردیتے ہیں، قتل کرکے یا قیدی بنا کر، کیونکہ وہ ان کی موجودگی کو اپنی حکومت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔- وَكَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ : یہ ملکہ سبا کا قول بھی ہوسکتا ہے کہ اگر ہم نے اطاعت قبول نہ کی تو یہ لوگ بھی ایسے ہی کریں گے اور اللہ تعالیٰ کا کلام بھی ہوسکتا ہے کہ ملوک ایسے ہی کیا کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ اللہ کا ڈر نہ رکھنے والے بادشاہوں کا یہی حال ہوتا ہے، کیونکہ ان کی مہم جوئی اور دوسری قوموں پر چڑھائی اعلائے کلمۃ اللہ اور کسی نیک مقصد کے لیے نہیں ہوتی، بلکہ محض اپنی برتری کے اظہار اور دوسری قوموں کو اپنا غلام بنانے کے لیے اور ان کے تمام وسائل پر قبضے کے لیے ہوتی ہے۔ چناچہ اس مقصد کے لیے وہ ظلم کی کسی صورت سے بھی دریغ نہیں کرتے، حتیٰ کہ بعض اوقات شہروں کے شہر آگ لگا کر جلا دیتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَۃً اَفْسَدُوْہَا وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّۃَ اَہْلِہَآ اَذِلَّۃً۝ ٠ۚ وَكَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ۝ ٣٤- ملك) بادشاه)- المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور - وَالمِلْكُ ضربان :- مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20]- ( م ل ک ) الملک - ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے .- اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے - عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔- دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں - ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ - اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ - دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔- عز - العِزَّةُ : حالةٌ مانعة للإنسان من أن يغلب . من قولهم : أرضٌ عَزَازٌ. أي : صُلْبةٌ. قال تعالی: أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء 139] - ( ع ز ز ) العزۃ - اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان کو مغلوب ہونے سے محفوظ رکھے یہ ارض عزاز سے ماخوذ ہے جس کے معنی سخت زمین کے ہیں۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء 139] کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ عزت تو سب خدا ہی کی ہے ۔- أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- ذلت - يقال : الذُّلُّ والقُلُّ ، والذِّلَّةُ والقِلَّةُ ، قال تعالی: تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج 44] ، وقال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، وقال : سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف 152] ، وذَلَّتِ الدّابة بعد شماس «6» ، ذِلًّا، وهي ذَلُولٌ ، أي : ليست بصعبة، قال تعالی: لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة 71] ،- بغیر تاء کے ذل اور تار کے ساتھ ذلتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ قل اور قلتہ ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج 44] اور ان کے مونہوں پر ذلت چھا جائے گی ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور ( آخری کار ) زلت ( اور رسوائی ) اور محتاجی ( اور بےتوانائی ) ان سے چنٹادی گئی ۔ سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف 152] پروردگار کا غضب واقع ہوگا اور ذلت ( نصیب ہوگی ) منہ زوزی کے بعد سواری کا مطیع ہوجانا اور اس قسم کی مطیع اور مئقاد سواری کا ذلول ( صفت فاعلی ) کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة 71] کہ وہ بیل کام میں لگا ہوا نہ ۔ نہ تو زمین جوتتا ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٤) یہ سن کر حضرت بلقیس نے حکمت آمیز گفتگو کی وہ یہ کہ والیان ملک جب کسی بستی میں غلبہ اور لڑائی کے ذریعے سے داخل ہوتے ہیں تو اس کو تہہ وبالا کردیتے ہیں اور جو عزت والے ہوتے ہیں ان کو قتل کے ذریعے ورسوا کردیتے ہیں چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ والیان ملک بڑائی میں ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤ (قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْہَا) ” - اس نازک موقع پر ملکہ نے بڑی دانش مندانہ بات کی کہ بادشاہوں کا ہمیشہ سے ہی دستوررہا ہے کہ وہ جس شہر یا علاقے کو فتح کرتے ہیں اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔- (وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّۃَ اَہْلِہَآ اَذِلَّۃًج وَکَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ ) ” - ملکہ کی یہ بات بھی بہت اہم اور حقیقت پر مبنی ہے۔ علامہ اقبالؔ نے اپنی نظم ” خضر راہ “ کے ذیلی عنوان ” سلطنت “ کے تحت جو فلسفہ بیان کیا ہے اس کا مرکزی خیال انہوں نے اسی آیت سے اخذ کیا ہے اور پہلے شعر میں اس آیت سے تلمیح بھی استعمال کی ہے۔ نظم کا آغاز یوں ہوتا ہے : ؂- آ بتاؤں تجھ کو رمز آیۂ اِنَّ الْمُلُوْک - سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادوگری - خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر - پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری - برعظیم پاک وہند میں مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ یہاں مسلمان حکمران تھے جبکہ ہندو ان کے محکوم تھے۔ انگریزوں کے اقتدار پر قبضہ کرنے سے ہندوؤں کو تو کچھ خاص فرق نہ پڑا ‘ ان کے تو صرف حکمران تبدیل ہوئے ‘ پہلے وہ مسلمانوں کے غلام تھے ‘ اب انگریزوں کے غلام بن گئے ‘ لیکن مسلمان تو گویا آسمان سے زمین پر پٹخ دیے گئے۔ وہ حاکم سے محکوم بن گئے۔ اب اگر انگریزوں کو کچھ خطرہ تھا تو مسلمانوں سے تھا۔ انہیں خدشہ تھا کہ مسلمان اپنا کھویا ہوا اقتدار دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ضرور کوشش کریں گے۔ چناچہ انہوں نے مسلمانوں کی ممکنہ بغاوت کی پیش بندی کے لیے انہیں ہر طرح سے دبانے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے یہ طریقہ اپنایا کہ معاشرے کے گھٹیا لوگوں کو تو خطابات اور جاگیروں سے نواز کر اعلیٰ مناصب پر بٹھا دیا اور ان کے مقابلے میں معززین اور شرفاء کو ہر طرح سے ذلیل و رسوا کیا۔ ایسے تمام جاگیردار انگریزوں کا حق نمک ادا کرتے ہوئے اپنی قوم کے مفادات کے خلاف اپنے آقاؤں کی معاونت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔- یہی حکمت عملی مصر میں فرعون نے بھی اپنا رکھی تھی۔ اس نے بھی بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگوں کو اپنے دربار میں جگہ دے رکھی تھی۔ یہ مراعات یافتہ لوگ فرعون کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی قوم کی مخبری کرتے اور اپنے ہی بھائی بندوں کے خلاف فرعون کے معاون و مدد گار بنتے۔ سورة یونس کی آیت ٨٣ میں اس صورت حال کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : (فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓی الاَّ ذُرِّیَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلاَءِہِمْ اَنْ یَّفْتِنَہُمْ ط) ” پس نہیں ایمان لائے موسیٰ پر مگر کچھ نوجوان اس کی قوم میں سے ‘ فرعون اور اپنے سرداروں کے خوف کی وجہ سے کہ وہ انہیں کسی مصیبت میں مبتلا نہ کردیں “۔ گویا بنی اسرائیل کے عام لوگوں پر اپنے ان سرداروں کا خوف طاری تھا جو فرعون کی وفاداری میں اپنی ہی قوم پر ظلم و ستم روا رکھتے تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 39 اس ایک فقرے میں امپیریلزم اور اس کے اثرات و نتائج پر مکمل تبصرہ کردیا گیا ہے ۔ بادشاہوں کی ملک گیری اور فاتح قوموں کی دوسری قوموں پر دست درازی کبھی اصلاح اور خیر خواہی کے لیے نہیں ہوتی ، اس کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ دوسری قوم کو خدا نے جو رزق دیا ہے اور جو وسائل و ذرائع عطا کیے ہیں ان سے وہ خود متمتع ہوں اور اس قوم کو اتنا بے بس کردیں کہ وہ کبھی ان کے مقابلے میں سر اٹھا کر اپنا حصہ نہ مانگ سکے ، اس غرض کے لیے وہ اس کی خوشحالی اور طاقت اور عزت کے تمام ذرائع ختم کردیتے ہیں ، اس کے جن لوگوں میں بھی اپنی خودی کا دم داعیہ ہوتا ہے انہیں کچل کر رکھ دیتے ہیں ، اس کے افراد میں غلامی ، خوشامد ، ایک دوسرے کی کاٹ ، ایک دوسرے کی جاسوسی ، فاتح کی نقالی ، اپنی تہذیب کی تحقیر ، فاتح تہذیب کی تعظیم اور ایسے ہی دوسرے کمینہ اوصاف پیدا کردیتے ہیں ، اور انہیں بتدریج اس بات کا خوگر بنا دیتے ہیں کہ وہ اپنی کسی مقدس سے مقدس چیز کو بھی بیچ دینے میں تامل نہ کریں اور اجرت پر ہر ذلیل سے ذلیل خدمت انجام دینے کے لیے تیار ہوجائیں ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 40 اس فقرے میں دو برابر کے احتمال ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ ملکہ سبا ہی کا قول ہو اور اس نے اپنے پچھلے قول پر بطور تاکید اس کا اضافہ کیا ہو ۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالی کا قول ہو جو ملکہ کے قول کی تائید کے لیے جملہ معترضہ کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani