Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41یہ گناہوں کا وبال اور بدلہ ہے کہ برائیاں ان کو اچھی لگتی ہیں اور آخرت پر عدم ایمان اس کا بنیادی سبب ہے اس کی نسبت اللہ کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ ہر کام اس کی مشیت سے ہی ہوتا ہے، تاہم اس میں بھی اللہ کا وہی اصول کار فرما ہے کہ نیکوں کے لئے نیکی کا راستہ اور بدوں کے لئے بدی کا راستہ آسان کردیا جاتا ہے۔ لیکن ان دونوں میں سے کسی ایک راستے کا اختیار کرنا، یہ انسان کے اپنے ارادے پر منحصر ہے۔ 42یعنی گمراہی کے جس راستے پر وہ چل رہے ہوتے ہیں، اس کی حقیقت سے وہ آشنا نہیں ہوتے اور صحیح راستے کی طرف رہنمائی نہیں پاتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] یعنی جو اللہ پر تو ایمان رکھتے ہوں مگر روز آخرت پر ایمان نہ رکھتے ہوں وہ اپنا معیار خیر و شر صرف انہی نتائج سے متعین کرتے ہیں جو اس دنیا میں ظاہر ہوتے یا ہوسکتے ہیں۔ لہذا ان کی زندگی کسی اصول کی پابند نہیں ہوتی وہ جس کام میں اپنا ذاتی فائدہ دیکھتے ہیں۔ وہی کام ان کے نزدیک خیر ہے۔ دوسروں کے نفع و نقصان سے انھیں کچھ غرض نہیں ہوتی۔ دنیا میں تمام فسادات روز آخرت اور باز پرس سے انکار یا بھول کی بنا پر واقع ہوتے ہیں۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ ایسے دنیا پر نہ سمجھنے والے لوگوں کو اپنے ایسے ہی خود غرضی پر مبنی اعمال اچھے نظر آنے لگتے ہیں۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ جو طرز عمل انہوں نے اختیار کر رکھا ہے وہی سب سے اچھا اور بہتر ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ ۔۔ : اہل ایمان کے لیے قرآن کے ہدایت اور بشارت ہونے کے بعد ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، کہ ہم نے ان کے لیے ان کے اعمال مزیّن کردیے ہیں، یعنی انھیں ان کے کفر کی یہ سزا دی ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ ) [ الأنعام : ١١٠ ] ” اور ہم ان کے دلوں اور ان کی آنکھوں کو پھیر دیں گے، جیسے وہ اس پر پہلی بار ایمان نہیں لائے اور انھیں چھوڑ دیں گے، اپنی سرکشی میں بھٹکتے پھریں گے۔ “ یا ان کے کفر کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ دنیا ہی میں مگن ہوگئے اور اسی کو اپنی تمام کوششوں کا مرکز سمجھنے لگے، گویا آخرت پر ایمان نہ لانے کی یہ سزا ملتی ہے کہ انسان اپنے برے کاموں کو بھی اچھا سمجھنے لگتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا ذٰلِكَ جَزَاۗؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوْا وَاتَّخَذُوْٓا اٰيٰتِيْ وَرُسُلِيْ هُزُوًا ) [ الکہف : ١٠٣ تا ١٠٦ ] ” کہہ دے کیا ہم تمہیں وہ لوگ بتائیں جو اعمال میں سب سے زیادہ خسارے والے ہیں۔ وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں ضائع ہوگئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ بیشک وہ ایک اچھا کام کر رہے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا، تو ان کے اعمال ضائع ہوگئے، سو ہم قیامت کے دن ان کے لیے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ یہ ان کی جزا جہنم ہے، اس وجہ سے کہ انھوں نے کفر کیا اور میری آیات اور میرے رسولوں کو مذاق بنایا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل - زَيَّنَّا لَهُمْ اَعْمَالَهُمْ ، یعنی جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ہم نے ان کے اعمال بد ان کی نظروں میں مزین کردیئے ہیں۔ اس لئے وہ انہی کو بہتر سمجھ کر گمراہی میں مبتلا رہتے ہیں اور بعض مفسرین نے اس آیت کی یہ تفسیر کی ہے کہ اعمالھم سے مراد نیک اعمال ہیں اور مطلب یہ ہے کہ ہم نے تو نیک اعمال کو مزین کر کے ان کے سامنے رکھ دیا تھا مگر ان ظالموں نے ان کی طرف التفات نہ کیا بلکہ کفر و شرک میں مبتلا رہے اس لئے گمراہی میں بھٹکنے لگے۔ لیکن پہلی تفسیر زیادہ واضح ہے، اول تو اس لئے کہ مزین کرنے کے الفاظ عموماً اعمال بد کے لئے استعمال ہوئے ہیں جیسے زُيِّنَ للنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ ، زُيِّنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا، زَيَّنَ لِكَثِيْرٍمِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ الخ اور اچھے اعمال کے لئے اس لفظ کا استعمال بہت کم ہے جیسے حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَهٗ فِيْ قُلُوْبِكُمْ الآیتہ دوسرے آیت میں اعمالھم (ان کے اعمال) کا لفظ بھی اس پر دلالت کر رہا ہے کہ مراد اعمال بد ہیں نہ کہ اعمال صالحہ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ زَيَّنَّا لَہُمْ اَعْمَالَہُمْ فَہُمْ يَعْمَہُوْنَ۝ ٤ۭ- زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - عمه - الْعَمَهُ : التّردُّدُ في الأمر من التّحيّر . يقال : عَمَهَ فهو عَمِهٌ وعَامِهٌ وجمعه عُمَّهٌ. قال تعالی: فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف 186] ، فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15] ، وقال تعالی: زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل 4] .- ( ع م ہ ) العمۃ - کے معنی حیر انگی کی وجہ سے کسی کام میں تردد سے کام لینا کے ہیں ۔ عمہ ( س) صیغہ صفت فاعل عمہ وعامہ اور عامہ کی جمع عمہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف 186] وہ اپنی شرارت وسرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل 4] ہم نے ان کے اعمال ان کے لئے آراستہ کردیئے تو وہ سرگردان ہو رہے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کی نظر میں ان کے اعمال کفریہ مرغوب کر رکھے ہیں جیسا کہ ابوجہل اور ان کے ساتھی سو وہ بھٹکتے پھرتے ہیں اور ان کو کچھ نہیں سوجھتا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ (اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَۃِ زَیَّنَّا لَہُمْ اَعْمَالَہُمْ ) ” - ایسے لوگوں کو اپنے غلط کام بھی اچھے لگتے ہیں اور اپنا کلچر ہی مثالی نظر آتا ہے۔- (فَہُمْ یَعْمَہُوْنَ ) ” - ع م ی کے مادہ میں بصارت ظاہری کے اندھے پن کا مفہوم ہے ‘ جبکہ ع م ہ کے مادہ میں بصیرت باطنی کے اندھے پن کے معنی پائے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بصارت تو چاہے درست ہو مگر بصیرت ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ انسان کی اس کیفیت کو سورة الحج میں یوں بیان فرمایا گیا ہے : (فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ ) ” تو اصل میں آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں ‘ بلکہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر :5 یعنی خدا کا قانون فطرت یہ ہے ، نفسیات انسان کی فطری منطق یہی ہے کہ جب آدمی زندگی اور اس کی سعی و عمل کے نتائج کو صرف اسی دنیا تک محدود سمجھے گا ، جب وہ کسی ایسی عدالت کا قائل نہ ہوگا جہاں انسان کے پورے کارنامہ حیات کی جانچ پڑتال کر کے اس کے حسن و قبح کا آخری اور قطعی فیصلہ کیا جانے والا ہو ، اور جب وہ موت کے بعد کسی ایسی زندگی کا قائل نہ ہوگا جس میں حیات دنیا کے اعمال کی حقیقی قدر و قیمت کے مطابق ٹھیک ٹھیک جزا و سزا دی جانے والی ہو تو لازما اس کے اندر ایک مادہ پرستانہ نقطعہ نظر نشو و نما پائے گا ۔ اسے حق اور باطل ، شرک اور توحید ، نیکی اور بدی ، اخلاق اور بد اخلاقی کی ساری بحثیں سراسر بے معنی نظر آئیں گی ، جو کچھ اسے اس دنیا میں لذت و عیش اور مادی ترقی و خوشحالی اور قوت و اقتدار سے ہمکنار کرے وہی اس کے نزدیک بھلائی ہوگی قطع نظر اس سے کہ وہ کوئی فلسفہ حیات اور کوئی طرز زندگی اور نظام اخلاق ہو ، اس کو حقیقت اور صداقت سے دراصل کوئی غرض ہی نہ ہوگی ، اس کی اصل مظلوب صرف حیات دنیا کی زینتیں اور کامرانیاں ہوں گی جن کے حصول کی فکر اسے ہر وادی میں لیے بھٹکتی پھرے گی ، اور اس مقصد کے لیے جو کچھ بھی وہ کرے گا اسے اپنے نزدیک بڑی خوبی کی بات سمجھے گا اور الٹا ان لوگوں کو بیوقوف سمجھے گا جو اس کی طرح دنیا طلبی میں منہمک نہیں ہیں اور اخلاق و بد اخلاقی سے بے نیاز ہوکر ہر کام کر گزرنے میں بے باک نہیں ہیں ۔ کسی کے اعمال بد کو اس کے لیے خوشنما بنا دینے کا یہ فعل قرآن مجید میں کبھی اللہ تعالی کی طرف منسوب کیا گیا ہے ، اور کبھی شیطان کی طرف ، جب اسے اللہ تعالی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے تو اس سے مراد جیسا کہ اوپر بیان ہوا ، یہ ہوتی ہے کہ جو شخص یہ نقطہ نظر اختیار کرتا ہے اسے فطرۃ زندگی کا یہی ہنجار خویش آئند محسوس ہوتا ہے اور جب یہ فعل شیطان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس طرز فکر اور طرز عمل کو اختیار کرنے والے آدمی کے سامنے شیطان ہر وقت ایک خیالی جنت پیش کرتا رہتا ہے اور اسے خوب اطمینان دلاتا ہے کہ شاباش برخوردار بہت اچھے جارہے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: یعنی ان کی ضد کی وجہ سے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنے سارے برے اعمال کو اچھا سمجھتے ہیں، اور ہدایت کی طرف نہیں آتے۔