Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

401یہ کون شخص تھا جس نے یہ کہا ؟ یہ کتاب کون سی تھی ؟ اور یہ علم کیا تھا، جس کے زور پر یہ دعویٰ کیا گیا ؟ اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں، ان تینوں کی پوری حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ یہاں قرآن کریم کے الفاظ سے جو معلوم ہوتا ہے وہ اتنا ہی ہے کہ وہ کوئی انسان ہی تھا، جس کے پاس کتاب الٰہی کا علم تھا، اللہ تعالیٰ نے کرامات اور اعجاز کے طور پر اسے یہ قدرت دے دی کہ پلک جھپکتے میں وہ تخت لے آیا۔ کرامت اور معجزہ نام ہی ایسے کاموں کا ہے جو ظاہری اسباب اور امور عادیہ کے یکسر خلاف ہوں اور وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے ہی ظہور پذیر پاتے ہیں۔ اس لئے نہ شخصی قوت قابل تعجب ہے اور نہ اس علم کا سراغ لگانے کی ضرورت، جس کا ذکر یہاں ہے۔ کیونکہ یہ تو اس شخص کا تعارف ہے جس کے ذریعے سے یہ کام ظاہری طور پر انجام پایا، ورنہ حقیقت میں تو یہ مشیت الٰہی ہی کی کار فرمائی ہے جو چشم زدن میں، جو چاہے، کرسکتی ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے، اس لئے انہوں نے دیکھا کہ تخت موجود ہے تو اسے فضل ربی سے تعبیر کیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٤] ابھی اس دیو ہیکل کی بات ختم نہ ہونے پائی تھی کہ دربار میں ایک اور شخص بول اٹھا کہ میں اس تخت کو کم سے کم وقت میں آپ کے پاس لاسکتا ہوں۔ آپ اگر آسمان کی طرف نگاہ دوڑائیں پھر نگاہ نیچے لوٹائیں تو صرف اتنی مدت میں وہ تخت آپ کے قدموں میں پڑا ہوگا۔- وہ شخص کون تھا ؟ جن یا انسان ؟ وہ کتاب کونسی تھی ؟ ام الکتاب یعنی لوح محفوظ تھی یا قرآن تھا یا کوئی اور کتاب تھی ؟ وہ علم تقدیر الٰہی کا علم تھا یا کسی اور قسم کا علم تھا ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب قرآن و حدیث میں نہیں ملتا۔ اور غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ باتیں سمجھنا انسان کی محدود عقل سے ماوراء ہیں۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ وہ شخص آپ کا وزیر آصف بن پر خیا تھا۔ کتاب سے مراد کتب سماویٰ ہے۔ اور اسم اعظم۔۔ یا اللہ کے اسماء اور کلام اللہ کی تاثیر سے واقف تھا لیکن یہ سب قیاس آرائیاں ہیں۔ البتہ نتیجہ قرآن نے واضح طور پر بتلا دیا کہ وہ شخص اپنے دعویٰ میں بالکل سچا تھا۔ اور فی الواقعہ اس نے چشم زدن میں ملکہ بلقیس کا تخت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس لاحاضر کیا تھا۔- ایسے واقعات اگرچہ خرق عادت ہیں تاہم موجودہ علوم نے ایسی باتوں کو بہت حد تک قریب الفہم بنادیا ہے۔ مثلاً یہی زمین جس پر ہم آباد ہیں سورج کے گرد سال بھر چکر کاٹتی ہے اور اس کی رفتار چھیاسٹھ ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ بنتی ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اس قدر عظیم الجثہ کرہ زمین برق رفتاری کے ساتھ چکر کاٹ رہا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا اور یہ ایسی بات ہے کہ ہم ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں۔ اب اس زمین کی جسمات اور وزن کے مقابلہ میں ملکہ بلقیس کے تخت کی جسامت اور وزن دیکھئے اور مارب سے یروشلم کا صرف ڈیرھ ہزار میل فاصلہ ذہن میں لاکر غور فرمائے گا کہ اگر پہی بات ممکن ہے تو دوسری کیوں ممکن نہیں ہوسکتی۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ جو شخص چشم زدن میں تخت لایا تھا تو وہاں بھی اللہ ہی کی قدرت کام کر رہی تھی۔ یہ اس شخص کا کوئی ذاتی کمال نہ تھا۔ اور نہ ہی وہ تخت ظاہری اسباب کے ذریعہ وہاں لایا گیا تھا۔- بعض عقلی پرستوں نے اس تخت لانے کے واقعہ سے متعلق بھی عقل کے گھوڑے دوڑائے ہیں اور ایسی بےہودہ تاویلات پیش فرمائیں ہیں کہ عقل ہی سر پیٹ کر رہ جائے۔ مثلاً یہ کہ حصرت سلیمان (علیہ السلام) کو ملکہ بلقیس کا تخت مطلوب نہ تھا بلکہ اس سے ملتا جلتا تخت مطلوب تھا اور اس غرض کے لئے انہوں نے ٹھیکیداروں سے ٹنڈر طلب کئے تھے۔ وغیر ذلک من الخرافات یہاں طویل بحثوں کا اندراج ممکن نہیں۔ البتہ میں نے اپنی تصنیف عقل پرستی اور انکار معجزات ایسی سب تاویلات اور ان کا تجزیہ و تردید تفصیل سے پیش کردی ہے۔- [٣٥] جب حصرت سلیمان نے چشم زدن میں ملکہ کا تخت اپنے قدموں میں پڑا دیکھا تو فوراً اس بات کا اعتراف کیا کہ یہ مجھ پر اللہ کا فضل ہے۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ تخت معجزانہ طریق پر وہاں لایا گیا تھا اور اس کی عقلی توجیہات ناممکن ہیں۔ ورنہ اگر یہ کوئی عادی المر ہوتا تو نہ یہ اللہ کے فصل کی کوئی بات نہ تھی اور نہ ہی اس وقت اللہ کا شکر ادا کرنے کا خیال آسکتا تھا۔- [٣٦] قرآن میں متعدد مقامات پر یہ مضمون دہرایا گیا ہے کہ انسان کی دنیا میں آزمائش صرف اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہے یا ناشکرا بن کر رہتا ہے۔ نیز ایمان کی ضد بھی کفر ہے۔ اور شکر کی ضد بھی کفر ہے۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ایمان اور شکر کا آپس میں گہرا تعلق ہے ویسا ہی کفر اور ناشکری میں گہرا تعلق ہے۔ جو شخص جس قدر زیادہ مضبوط ایمان والا ہوگا اس قدر وہ اللہ کا شکرگزار بندہ ہوگا اور جو شخص جس درجے کا کافر ہوگا۔ اتنا ہی وہ ناشکرا ہوگا۔ حضرت سلیمان چونکہ اللہ کے نبی تھے اس لئے وہ جب کوئی اللہ کا انعام یا اس کا فضل دیکھتے تو فوراً اللہ کا شکر ادا کرنے میں مشغول ہوجاتے۔ اور یہ انبیاء اور ایمانداروں کا دستور ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کافر پر جب اللہ تعالیٰ کوئی انعام فرماتا ہے تو شکر ادا کرنے کی بجائے اس کی۔۔ مزید سرکشی اور تکبر کی طرف مائل ہونے لگتی ہے اور وہ اترانے اور شیخیاں بگھارنے لگتا ہے۔- [٣٧] شکر اپنے اند ایک خاص تاثیر رکھتا ہے اور وہ ہے نعمت کی افزونی یعنی شکر کی خاصیت ہے کہ وہ مزید نعمتوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اس کے برعکس ناشکری کی خاصیت یہ ہے کہ ناشکرا آدمی موجودہ نعمت سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ ایسی حقیقت ہے جس کا ہر شخص ذاتی طور پر بھی تجربہ رکھتا ہے اور تجربہ کرسکتا ہے۔ تاہم ثبوت کے طور پر اس پر قرآن کریم کی صریح آیت بھی موجود ہے ارشاد باری ہے : اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو یاد رکھو میرا عذاب بڑا سخت ہے (١٤: ٧) شکر سے متلعق مزید تفصیلات اسی آیت کے تحت حاشیہ میں ملاحظہ فرمائیے ( اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ شکر ادا کرنے کا فائدہ شکر ادا کرنے والے کو ہی پہنچتا ہے۔- [٣٨] اور اگر کوئی شخص ناشکری کرتا ہے تو اس کا نقصان اسی کو پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نہ کسی کے شکر ادا کرنے سے کچھ سنور جاتا ہے اور نہ کسی کی ناشکری کرنے سے اس کا کچھ بگڑ جاتا ہے۔ وجہ وہ یہ ہے کہ وہ بندوں کے شکر یا ناشکری سے بےنیاز ہے۔ کیونکہ اس کی ذات اور اس کے سب کارنامے اپنی ذات میں محمود ہیں۔ وہ کسی کے تعریف بیان کرنے کے محتاج نہیں ہیں۔ اس مضمون کو درج ژیل قدسی حدیث میں پوری طرح واضح کردیا گیا ہے :- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : کہ اے میرے بندو اگر اول سے آخر تک تم سب انسان اور جن اپنے سب سے زیادہ متقی شخص کے دل جیسے ہوجاؤ تو اس سے میری بادشاہی میں کچھ اضافہ نہ ہوجائے گا اور اے میرے بندو اگر اول سے آخر تک تم سب انسان اور جن اپنے سے زیادہ بدکار شخص کے دل سے ہوجاؤ تو اس سے میری بادشاہت میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی۔ اور اے میرے بندو یہ تمہارے اپنے اعمال ہی ہیں جن کا میں تمہارے حساب میں شمار کرتا ہوں پھر تمہیں ان اعمال کی پوری جزا دیتا ہوں لہذا جسے کوئی بھلائی نصیب ہو اسے چاہئے کہ اللہ کا شکر ادا کرے۔ اور جسے کچھ اور نصیب ہو تو وہ اپنے آپ ہی ملامت کرے ) مسلم۔ کتاب البرواصلہ۔ باب تحریم الظلم (

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ الَّذِيْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ ۔۔ : ابن ابی حاتم نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے نقل فرمایا ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا : ” میں اس سے جلدی چاہتا ہوں۔ “ اس پر وہ شخص جس کے پاس کتاب کا ایک علم تھا، کہنے لگا : ” میں اسے آپ کے پاس اس سے پہلے لاتا ہوں کہ آپ کی آنکھ جھپکے۔ “ سلیمان (علیہ السلام) نے دیکھا تو وہ تخت ان کے پاس پڑا ہوا تھا۔ اس پر تکبر اور غرور کے بجائے انھوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ - 3 آنکھ جھپکنے سے پہلے تخت لانے والا یہ شخص کون تھا، اس کے پاس کس کتاب کا علم تھا اور وہ علم کیا تھا ؟ اس کی تصریح قرآن یا کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے۔ لہٰذا ہم صرف اتنی بات ماننے کے مکلف ہیں جتنی قرآن میں بیان کی گئی ہے کہ وہ ایک شخص تھا جس کے پاس کتاب کا علم تھا۔ اکثر مفسرین کا کہنا یہ ہے کہ وہ سلیمان (علیہ السلام) کا ایک وزیر آصف بن برخیا تھا، جو بنی اسرائیل سے تھا اور اسے اللہ تعالیٰ کے اس اسم اعظم کا علم تھا جس کے ذریعے سے اگر دعا کی جائے تو وہ اسے ضرور قبول فرماتا ہے اور وہ تخت لانا آصف بن برخیا کی کرامت تھی، لیکن ظاہر ہے کہ ان مفسرین کی یہ بات اسرائیلیات سے ہے، کیونکہ یہ حضرات نہ اس وقت موجود تھے، نہ یہ بتاتے ہیں کہ انھیں یہ بات کس نے بتائی اور نہ ان سے لے کر سلیمان (علیہ السلام) تک کوئی سند ہے کہ اس پر یقین کیا جاسکے۔ بعض مفسرین نے اسے جبریل (علیہ السلام) اور بعض نے خضر (علیہ السلام) قرار دیا ہے، مگر یہ بالکل ہی بےاصل ہے۔ بعض مفسرین نے سلیمان (علیہ السلام) کو وہ شخص قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جب عفریت نے سلیمان (علیہ السلام) کے مجلس سے اٹھنے سے پہلے تخت لانے کی بات کی تو سلیمان (علیہ السلام) نے، جن کے پاس کتاب اللہ کا علم تھا، اسے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں آنکھ جھپکنے سے بھی پہلے تیرے پاس لاتا ہوں۔ چناچہ وہ اسے لے آئے اور یہ ان کا معجزہ تھا، جس پر انھوں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ رازی اور کچھ اور مفسرین نے صرف اس بات کو صحیح کہا ہے، مگر اس میں جو تکلف ہے وہ مخفی نہیں۔ زمانہ حال کے ایک مفسر محمد اسحاق خاں نے ایک احتمال کا ذکر کیا ہے جو ان سے پہلے بھی ایک جدید مفسر ذکر کرچکے ہیں، وہ لکھتے ہیں : ” علم کتاب سے بظاہر یہاں مراد خداوند قدوس کی کتاب و شریعت یعنی تورات کا علم ہے کہ اپنے دور میں علم اور ہدایت و نور کا سرچشمہ وہی کتاب الٰہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس عالم کتاب کو اسمائے الٰہی اور خواص کلمات کے اس علم کا بھی کوئی حصہ حاصل تھا جو سحر اور شعبدہ وغیرہ جیسے سفلی علوم کے مقابلے کے لیے بنی اسرائیل کو بابل کی اسیری کے دور میں ہاروت و ماروت نامی دو فرشتوں کے ذریعے سے قدرت کی طرف سے عطا فرمایا گیا تھا۔ یہ علم تورات وغیرہ آسمانی صحیفوں میں سے کسی کا حصہ نہیں تھا، بلکہ یہ ان سے الگ ایک خاص علم تھا جو ایک خاص دور میں اور خاص ضرورت و مصلحت کے لیے بنی اسرائیل کو سکھایا گیا تھا۔ جس طرح کہ اس کا ذکر سورة بقرہ میں ہاروت و ماروت کے قصے کے ضمن میں فرمایا گیا ہے۔ سو علم کتاب و شریعت رکھنے والے اس شخص نے اپنے اسی علم کی تاثیر و تسخیر کے ذریعے سے ملکہ بلقیس کے اس تخت کو اس قدر جلد سلیمان (علیہ السلام) کے پاس حاضر کردیا۔ “- لیکن یہ بھی تکلف سے خالی نہیں ہے۔ قرآن مجید اور تفاسیر کے مطالعہ کے بعد دو باتیں زیادہ قریب معلوم ہوتی ہیں، ان میں سے کوئی بھی مراد ہوسکتی ہے۔ (واللہ اعلم) پہلی یہ کہ سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے جن سرداروں سے تخت لانے کی فرمائش کی وہ تین قسم کے لشکروں کے سردار تھے۔ جن، انس اور طیر یعنی پرندے، ان میں جبریل (علیہ السلام) بطور سردار شامل نہیں تھے اور خضر (علیہ السلام) کا اس وقت تک زندہ ہونا اور سلیمان (علیہ السلام) کے سرداروں میں شامل ہونا، پھر اتنی طاقت کا مالک ہونا بالکل ہی بےسروپا بات ہے۔ غالب احتمال یہ ہے کہ یہ تخت لانے والا کوئی صالح جن تھا جو ان جنوں میں سے تھا جو اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کر رکھے تھے۔ جنوں کی سرعت انتقال مسلم ہے، یعنی وہ نہایت تیزی کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوسکتے ہیں، جیسا کہ وہ آسمان دنیا کے نیچے فرشتوں کی باتیں سننے کے لیے پہنچ جاتے ہیں، اتنی تیزی سے نہ انسان منتقل ہوسکتا ہے نہ پرندے۔ آج کل تیز رفتار سے تیز رفتار طیارے بھی اتنی تیزی سے کار روائی نہیں کرسکتے جتنی تیزی کا دعویٰ عفریت نے کیا تھا۔ الفاظ قرآن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عفریت (خبیث سرکش) جن نے گھنٹے دو گھنٹے یا اس سے کم و بیش وقت میں وہ تخت محافظوں اور کمروں سے نکال کر لانے کا اور اتنی طاقت رکھنے کا دعویٰ کیا تو وہ شخص جو کتاب کا ایک علم رکھتا تھا، اسے چشم زدن میں لے آیا۔ ” الَّذِيْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ “ میں ” الَّذِيْ “ سے مراد انسان بھی ہوسکتا ہے اور جن بھی۔ یہ لفظ صرف انسان کے ساتھ خاص نہیں کہ کہا جائے کہ وہ انسان ہی تھا۔ اس لیے یا تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ عفریت کی سرعت مجلس سے اٹھنے تک کی تھی، مگر کتاب کا ایک علم رکھنے والے صالح جن کی سرعت آنکھ جھپکنے سے بھی تیز تھی۔ - ایک دوسرا احتمال ہمارے استاذ حافظ محمد گوندلوی (رض) بیان فرماتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس علم کی کیفیت بیان نہیں فرمائی، کیونکہ نزول قرآن کے وقت بیان کی جاتی تو وہ کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتی تھی۔ مثلاً آج سے دو سو سال پہلے اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا کہ ہزاروں میل کے فاصلے سے تصویر ایک جگہ سے دوسری جگہ آنکھ جھپکنے میں پہنچ سکتی ہے تو کوئی شخص اسے تسلیم نہ کرتا، مگر آج یہ بات حقیقت بن کر سب کے سامنے آچکی ہے۔ اس طرح سلیمان (علیہ السلام) کے اس سردار کے پاس وہ علم بھی تھا جس سے کوئی مادی وجود بھی آنکھ جھپکنے میں ہزاروں میل کے فاصلے سے منتقل ہوسکتا ہے۔ آج کل سائنس دان اس کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں، مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ نعمت سلیمان (علیہ السلام) کے ساتھ ہی خاص تھی، کیونکہ انھوں نے دعا کی تھی : ( رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ ) [ صٓ : ٣٥ ] ” اے میرے رب مجھے بخش دے اور مجھے ایسی بادشاہی عطا فرماجو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو۔ “ رہی یہ بات کہ یہ علم رکھنے والا جنّ تھا یا انسان، تو یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر وہ انسان تھا تو کچھ بعید نہیں کہ وہی ہو جس کا نام ہمارے مفسرین نے اہل کتاب سے آصف نقل کیا ہے۔ بہرحال نام معلوم ہونا نہ ضروری ہے نہ اس کا کوئی خاص فائدہ ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ نام ضرور بتادیتا۔ سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت کی عظمت ہر حال میں مسلّم ہے، جو ان کے بعد نہ کسی کو عطا ہوئی ہے نہ ہوگی۔ اگر یہ قوت طبعی علم کے تحت ہو پھر بھی سلیمان (علیہ السلام) کا معجزہ ہی ہے کہ ان کے زیر فرمان اس قسم کے اصحاب کمال تھے جو بعد میں کسی کو میسر نہیں ہوئے۔ رہی یہ بات کہ یہ طبعی علم، ” عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ “ کیسے ہوگیا، تو جواب اس کا یہ ہے کہ آسمانی کتابوں میں طبعی علوم کی طرف بہت توجہ دلائی گئی ہے، چناچہ فرمایا : (اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ ) [ البقرۃ : ١٦٤ ] ” بیشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں وہ چیزیں لے کر چلتی ہیں جو لوگوں کو نفع دیتی ہیں۔ “ اور دیکھیے سورة آل عمران اور دوسری بہت سی آیات۔ - 3 ہمارے زمانے کے کچھ اولیاء پرست حضرات کہتے ہیں کہ جب سلیمان (علیہ السلام) کے ایک امتی ولی میں اتنی طاقت تھی تو امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اولیاء کی طاقت تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے، اس لیے آنکھ جھپکنے میں کسی کو کہیں سے کہیں پہنچا دینا اولیائے کرام کی قوت کا ادنیٰ کرشمہ ہے۔ مگر ان حضرات کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ اگر ایسے اولیاء موجود ہیں تو وہ سلیمان (علیہ السلام) کے امتی ولی کی طرح امریکہ، برطانیہ، اسرائیل یا بھارت کے کفار کو چیلنج کیوں نہیں دیتے اور ان کے ایٹم بم اٹھا کر کیوں نہیں لے آتے، کفار کی غلامی پر قناعت کیوں کیے بیٹھے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیاء سے افضل اور ہماری امت تمام امتوں سے افضل ہے، مگر دنیا کی نعمتوں میں سے کوئی نعمت، مثلاً جنوں اور پرندوں کی فوج یا دنیا کے علوم میں سے کوئی علم کسی اور پیغمبر یا اس کی امت کو عطا ہوجائے جو امت مسلمہ کے پاس نہ ہو تو اس سے امت مسلمہ کی افضلیت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ دوسرے پیغمبروں اور ان کی امتوں کی فضیلت جزوی ہے، ہمارے نبی اور آپ کی امت کی فضیلت کلی ہے۔ ہمارے نبی اور آپ کے صحابہ نے بھی جہاد کے ذریعے سے دنیا فتح کی اور اسلام کا بول بالا کیا، حالانکہ ان کے پاس وہ وسائل نہ تھے جو سلیمان (علیہ السلام) کے پاس تھے۔ اتنے کم وسائل رکھتے ہوئے حیرت انگیز شجاعت اور بےمثال قربانی کے ساتھ سلیمان (علیہ السلام) سے زیادہ علاقوں کو اسلام کے زیر نگیں لانا سید الانبیاء اور آپ کی امت کے افضل ہونے کی دلیل ہے۔ - فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ : بقاعی نے فرمایا : ” بظاہر اتنے الفاظ ہی کافی تھے کہ ” فَلَمَّا رَآہُ عِنْدَہُ “ کیونکہ ” عِنْدَہُ “ کا لفظ ” مُسْتَقِرٌّ“ محذوف ہی کے متعلق ہوتا ہے۔ یہاں اس لفظ کو ظاہر کرنے اور صرف ” عِنْدَہٗ “ کے بجائے ” مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ “ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے حقیقت میں اپنے پاس پڑا ہوا پایا، جو نہ جادو کا اثر تھا، نہ خواب اور نہ ہی کوئی مثالی صورت۔ “- قَالَ ھٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّيْ ۔۔ : جب سلیمان (علیہ السلام) نے وہ تخت فی الواقع آنکھوں کے سامنے پڑا ہوا دیکھا تو بجائے پھولنے یا فخر و غرور کے اپنے رب کے فضل کا اعتراف کیا کہ اس میں میرا کوئی کمال نہیں کہ مجھے ایسے علم والے ساتھی میسر ہیں، بلکہ یہ صرف اور صرف میرے رب کا فضل ہے جس کا مقصد میری آزمائش ہے کہ میں اس کا شکر کرتا ہوں یا کفر کرتا ہوں۔ کفر کا لفظ شکر کے مقابلے میں بھی آتا ہے اور ایمان کے مقابلے میں بھی۔ کیونکہ جو شخص اللہ کی نعمت کی قدر کرتا ہے اور اس کا شکر ادا کرتا ہے، وہ اس پر ایمان بھی لے آتا ہے اور جو اس کی نعمت کی بےقدری اور ناشکری کرتا ہے وہ اس پر ایمان لانے سے بھی محروم رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نعمت چھین کر بھی آزمائش ہوتی ہے اور نعمت دے کر بھی۔ مومن مصیبت پر صبر کرتا ہے اور آزمائش میں کامیاب ہوجاتا ہے، پھر نعمت پر شکر کرتا ہے تب بھی کامیاب ہوتا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ صبر وہی کرتا ہے جو شاکر ہو اور شکر وہی کرتا ہے جو صابر ہو۔ اس واقعہ میں سلیمان (علیہ السلام) کی بہت بڑی فضیلت ہے کہ اتنی عظیم سلطنت اور حیرت انگیز قوتوں والے لشکر رکھنے کے باوجود نہ ان کے دل میں فخر کا کوئی خیال آیا، نہ ہی زبان پر کوئی ایسا لفظ آیا، بلکہ انھوں نے ہر نعمت کو اللہ کا فضل ہی قرار دیا۔ - وَمَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ ۔۔ : یعنی جو شکر کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کوئی فائدہ نہیں کرتا، اس کا فائدہ خود اسی کو ہے، کیونکہ اس سے اسے مزید نعمتیں حاصل ہوں گی، جیسا کہ فرمایا : ( لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ ) [ إبراھیم : ٧ ] ” کہ بیشک اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور ہی تمہیں زیادہ دوں گا۔ “ اور جو اللہ کی نعمتوں کی بےقدری اور ان کا انکار کرتا ہے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑتا۔ اسے نہ بندوں کی کوئی ضرورت یا پروا ہے، نہ ان کی عبادت کی، کیونکہ وہ غنی ہے اور اتنے بیحد کرم والا ہے کہ بندوں کے کفر اور ناشکری کے باوجود نعمتیں دیتا ہی چلا جاتا ہے اور فوری گرفت کے بجائے اس نے مہلت دے رکھی ہے، تاکہ بندے اس کی طرف پلٹ آئیں۔ اس مفہوم کی اور بھی آیات ہیں، جیسے فرمایا : (مَنْ عَمِلَ صَالِحًــا فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَيْهَا ) [ حٰآ السجدۃ : ٤٦ ] ” جس نے نیک عمل کیا سو اپنے لیے اور جس نے برائی کی سو اسی پر ہوگی۔ “ اور فرمایا : (وَقَالَ مُوْسٰٓى اِنْ تَكْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ حَمِيْدٌ) [إبراھیم : ٨ ] ” اور موسیٰ نے کہا اگر تم اور وہ لوگ جو زمین میں ہیں، سب کے سب کفر کرو تو بیشک اللہ یقیناً بڑا بےپروا، بیحد تعریف والا ہے۔ “ ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے روایت کی کہ اس نے فرمایا : ( یَا عِبَادِيْ لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَ آخِرَکُمْ ، وَ إِنْسَکُمْ وَ جِنَّکُمْ ، کَانُوْا عَلٰی أَتْقٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ ، مَا زَادَ ذٰلِکَ فِيْ مُلْکِيْ شَیْءًا، یَا عِبَادِيْ لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَ آخِرَکُمْ ، وَ إِنْسَکُمْ وَ جِنَّکُمْ ، کَانُوْا عَلٰی أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِّنْکُمْ ، مَا نَقَصَ ذٰلِکَ مِنْ مُلْکِيْ شَیْءًا، یَا عِبَادِيْ لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَ آخِرَکُمْ ، وَ إِنْسَکُمْ وَ جِنَّکُمْ ، قَامُوْا فِيْ صَعِیْدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُوْنِيْ ، فَأَعْطَیْتُ کُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَہُ ، مَا نَقَصَ ذٰلِکَ مِمَّا عِنْدِيْ إِلَّا کَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ ، یَا عِبَادِيْ إِنَّمَا ھِيَ أَعْمَالُکُمْ أُحْصِیْھَا لَکُمْ ، ثُمَّ أُوَفِّیْکُمْ إِیَّاھَا، فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا فَلْیَحْمَدِ اللّٰہَ ، وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذٰلِکَ فَلَا یَلُوْمَنَّ إِلَّا نَفْسَہُ ) [ مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم الظلم : ٢٥٧٧ ] ” اے میرے بندو اگر تمہارے اول اور تمہارے آخر اور تمہارے انس اور تمہارے جن تم میں سے کسی سب سے زیادہ متقی شخص کے دل پر ہوجائیں (یعنی اس جیسے ہوجائیں) ، تو یہ چیز میرے ملک میں کچھ اضافہ نہیں کرے گی۔ اے میرے بندو اگر تمہارے اول اور تمہارے آخر اور تمہارے انس اور تمہارے جن تمہارے کسی سب سے فاجر شخص کے دل پر ہوجائیں (یعنی اس جیسے ہوجائیں) ، تو یہ چیز میرے ملک میں کچھ کمی نہیں کرے گی۔ اے میرے بندو اگر تمہارے اول اور تمہارے آخر اور تمہارے انس اور تمہارے جن ایک میدان میں کھڑے ہوجائیں، پھر مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کو دے دوں جو اس نے مانگا، تو یہ میرے ملک میں سے اتنا ہی کم کرے گا جتنا ایک سوئی جب سمندر میں داخل کی جائے۔ اے میرے بندو یہ تو تمہارے ہی اعمال ہیں جو میں تمہارے لیے محفوظ رکھتا ہوں، تو جو خیر پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جو اس کے سوا پائے وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

قَالَ الَّذِيْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ ، یعنی کہا اس شخص نے جس کے پاس علم تھا کتاب میں سے یہ کون شخص تھا ؟ اس کے متعلق ایک احتمال تو وہ ہی جو خلاصہ تفسیر میں لکھا گیا ہے کہ خود حضرت سلیمان (علیہ السلام) مراد ہیں کیونکہ کتاب اللہ کا سب سے زیادہ علم انہیں کو حاصل تھا۔ اس صورت میں یہ سارا معاملہ بطور معجزہ کے ہوا اور یہی مقصود تھا کہ بلقیس کو پیغمبرانہ اعجاز کا مشاہدہ ہوجائے اور کوئی اشکال اس معاملے میں نہ رہے۔ مگر اکثر ائمہ تفسیر فتادہ وغیرہ سے ابن جریر نے نقل کیا ہے اور قرطبی نے اسی کو جمہور کا قول قرار دیا ہے کہ یہ کوئی شخص حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اصحاب میں سے تھا۔ ابن اسحاق نے اس کا نام آصف بن برخیا بتلایا ہے اور یہ کہ وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا دوست تھا اور بعض روایات کے اعتبار سے ان کا خالہ زاد بھائی بھی تھا جس کو اسم اعظم کا علم تھا جس کا خاصہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے جو بھی دعا کی جائے قبول ہوتی ہے اور جو کچھ مانگا جائے اللہ کی طرف سے عطا کردیا جاتا ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اسم اعظم کا علم نہیں تھا کیونکہ یہ کچھ بعید نہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے مصلحت اس میں دیکھی ہو کہ یہ عظیم کارنامہ ان کی امت کے کسی آدمی کے ذریعہ ظاہر ہو جس سے بلقیس پر اور زیادہ اثر پڑے اس لئے بجائے خود یہ عمل کرنے کے اپنے اصحاب کو خطاب فرمایا اَيُّكُمْ يَاْتِيْنِيْ (کذا فی فصوص الحکم) اس صورت میں یہ واقعہ آصف بن برخیا کی کرامت ہوگی۔- معجزہ اور کرامت میں فرق :- حقیقت یہ ہے کہ جس طرح معجزہ میں اسباب طبعیہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ وہ براہ راست حق تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا ہے وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى، اسی طرح کرامت میں بھی اسباب طبعیہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا براہ راست حق تعالیٰ کی طرف سے کوئی کام ہوجاتا ہے اور معجزہ اور کرامت دونوں خود صاحب معجزہ و کرامت کے اختیار میں بھی نہیں ہوتے۔ ان دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ ایسا کوئی خارق عادت کام اگر کسی صاحب وحی نبی کے ہاتھ پر ہو تو معجزہ کہلاتا ہے غیر نبی کے ذریعہ اس کا ظہور ہو تو کرامت کہلاتی ہے۔ اس واقعہ میں اگر یہ روایت صحیح ہے کہ یہ عمل حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اصحاب میں سے آصف بن برخیا کے ذریعہ ہوا تو یہ ان کی کرامت کہلائے گی اور ہر ولی کے کمالات چونکہ ان کے رسول و پیغمبر کے کمالات کا عکس اور انہی سے مستفاد ہوتے ہیں اس لئے ا مت کے اولیاء اللہ کے ہاتھوں جتنی کرامتوں کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ یہ سب رسول کے معجزات میں شمار ہوتے ہیں۔- تخت بلقیس کا واقعہ کرامت تھی یا تصرف :- شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے اس کو آصف بن برخیا کا تصرف قرار دیا ہے۔ تصرف اصطلاح میں خیال و نظر کی طاقت استعمال کر کے حیرت انگیز کام صادر کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کے لئے نبی یا ولی بلکہ مسلمان ہونا بھی شرط نہیں، وہ مسمریزم جیسا ایک عمل ہے۔ صوفیائے کرام نے اصلاح مریدین کے لئے کبھی کبھی اس کو استعمال کیا ہے۔ ابن عربی نے فرمایا کہ انبیاء (علیہم السلام) چونکہ تصرف کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اس لئے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ کام آصف بن برخیا سے لیا۔ مگر قرآن کریم نے اس تصرف کو عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ کا نتیجہ بتلایا ہے اس سے ترجیح اس کو ہی ہوتی ہے کہ یہ کسی دعا یا اسم اعظم کا اثر تھا جس کا تصرف سے کوئی واسطہ نہیں، وہ کرامت ہی کے مفہوم میں داخل ہے۔- رہا یہ شبہ کہ ان کا یہ کہنا کہ اَنَا اٰتِيْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ يَّرْتَدَّ اِلَيْكَ طَرْفُكَ ، یعنی میں یہ تخت آنکھ جھپکنے سے پہلے لادوں گا یہ علامت اس کی ہے کہ یہ کام ان کے قصد و اختیار سے ہوا جو علامت تصرف کی ہے کیونکہ کرامت ولی کے اختیار میں نہیں ہوتی تو اس کا یہ جواب ہوسکتا ہے کہ ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ اطلاع کردی ہو کہ تم ارادہ کرو گے تو ہم یہ کام اتنی جلدی کردیں گے۔ یہ تقریر حضرت سیدی حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ کی ہے جو احکام القرآن میں سورة نمل کی تفسیر لکھنے کے وقت حضرت نے ارشاد فرمائی تھی اور تصرف کی حقیقت اور اس کے احکام پر حضرت کا ایک مستقل رسالہ بنام التصرف عربی زبان میں تھا جس کا اردو ترجمہ احقر نے لکھا تھا وہ جداگانہ شائع ہوچکا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ الَّذِيْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِيْكَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ يَّرْتَدَّ اِلَيْكَ طَرْفُكَ۝ ٠ۭ فَلَمَّا رَاٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ قَالَ ھٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّيْ۝ ٠ۣۖ لِيَبْلُوَنِيْٓ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُ۝ ٠ۭ وَمَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِہٖ۝ ٠ۚ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّيْ غَنِيٌّ كَرِيْمٌ۝ ٤٠- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - ردت - والارْتِدَادُ والرِّدَّةُ : الرّجوع في الطّريق الذي جاء منه، لکن الرّدّة تختصّ بالکفر، والارتداد يستعمل فيه وفي غيره، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلى أَدْبارِهِمْ [ محمد 25] - وقوله عزّ وجلّ : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف 96] ، أي : عاد إليه البصر، - ( رد د ) الرد ( ن )- الارتدادؤالردۃ اس راستہ پر پلٹنے کو کہتے ہیں جس سے کوئی آیا ہو ۔ لیکن ردۃ کا لفظ کفر کی طرف لوٹنے کے ساتھ مختض ہوچکا ہے اور ارتداد عام ہے جو حالت کفر اور دونوں کی طرف لوٹنے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلى أَدْبارِهِمْ [ محمد 25] بیشک جو لوگ اپنی پشتوں پر لوٹ گئے ( اس کے ) بعد کہ ان کے سامنے ہدایت واضح ہوگئی ۔ - فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف 96] پھر جب ( یوسف (علیہ السلام) کے زندہ و سلامت ہونے ) خوشخبری دینے والا ( یعقوب (علیہ السلام) کے پاس ) آپہنچا تو اس نے آنے کے ساتھ ہی یوسف (علیہ السلام) کا کرتہ ) یعقوب (علیہ السلام) ) کے چہرہ پر ڈال دیا تو وہ فورا بینا ہوگئے ۔ یعنی ان کی بینائی ان کی طرف لوٹ آئی - طرف - طَرَفُ الشیءِ : جانبُهُ ، ويستعمل في الأجسام والأوقات وغیرهما . قال تعالی: فَسَبِّحْ وَأَطْرافَ النَّهارِ [ طه 130] ، أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهارِ- [هود 114] - ( ط رف ) الطرف - کے معنی کسی چیز کا کنارہ اور سرا کے ہیں اور یہ اجسام اور اوقات دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَسَبِّحْ وَأَطْرافَ النَّهارِ [ طه 130] اور اس کی بیان کرو اور دن کے اطراف میں ۔ أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهارِ [هود 114] اور دن ۔ کے دونوں سروں ( یعنی صبح اور شام کے اوقات میں ) نماز پڑھا کرو ۔ - اسْتَقَرَّ- فلان : إذا تحرّى الْقَرَارَ ، وقد يستعمل في معنی قرّ ، کاستجاب وأجاب . قال في الجنّة : خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [ الفرقان 24] ، وفي النار : ساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان 66] ، وقوله : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام 98] ، قال ابن مسعود : مُسْتَقَرٌّ في الأرض ومستودع في القبور «5» . وقال ابن عبّاس : مستقرّ في الأرض ومستودع في الأصلاب . وقال الحسن : مستقرّ في الآخرة ومستودع في الدّنيا . وجملة الأمر أنّ كلّ حال ينقل عنها الإنسان فلیس بالمستقرّ التّامّ.- استقر فلان قرار پکڑنے کا فصد کرنا اور کبھی یہ بمعنی قرر ( قرار پکڑنا ) بھی آجاتا ہے جیسے استجاب بمعنی اجاب چناچہ جنت کے متعلق فرمایا : خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [ الفرقان 24] ٹھکانا بھی بہترہوگا اور مقام استراحت بھی عمدہ ہوگا اور جن ہم کے متعلق فرمایا : ساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان 66] اور درزخ ٹھہرنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام 98] تمہاری لئے ایک ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سپر د ہونے کی ۔ میں ابن مسعود کے نزدیک مستقر سے مراد زمین میں ٹھہرنا ہے اور مستودع سے مراد قبر میں ہیں ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ مستقر سے مراد تو زمین ہی ہے لیکن مستودع سے مراد دنیا ہے ۔ الحاصل ہر وہ حالت جس سے انسان منتقل ہوجائے وہ مستقر تام نہیں ہوسکتا ہے - فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- بلی - يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي :- أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] - ( ب ل ی )- بلی الثوب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہنچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجورح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔- كفر ( ناشکري)- الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152]- ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ معنی کفران کے متعلق فرمایا : ۔- لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔ - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - غنی - الغِنَى يقال علی ضروب :- أحدها : عدم الحاجات،- ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] ، - الثاني : قلّة الحاجات،- وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس»- والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس - کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] ،- ( غ ن ی ) الغنیٰ- ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ - 2 قدرے محتاج ہونا - اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور - غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں - اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٠) اس کے بعد آصف بن برخیانامی ایک شخص نے جو اسم اعظم یعنی ” یاحی یا قیوم “ جانتا تھا عرض کیا کہ میں اس کو آپ کی آنکھ جھپکنے سے پہلے یعنی جیسا کہ آپ کو کوئی چیز فاصلہ سے نظر آئی، اس چیز کے آپ تک پہنچنے سے پہلے آپ کے سامنے لا کر حاضر کرتا ہوں۔- غرض کہ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس تخت کو اپنے تخت کے پاس رکھا ہوا دیکھا تو خوش ہو کر آصف سے فرمانے لگے کہ یہ میرا پروردگار کا فضل ہے تاکہ وہ میری آزمائش کرے کہ میں اس کی نعمتوں کا شکر کرتا ہوں یا خدا نخواستہ ناشکری کرتا ہوں۔- اور جو اس کی نعمتوں کا شکر کرتا ہے وہ اپنے ہی نفع اور ثواب حاصل کرنے کے لیے شکر کرتا ہے اور اسی طرح جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب اس کے شکر سے غنی ہے اور تائب کو معاف فرمانے والا ہے اور ایسے ہی سزا دینے میں جلدی نہیں فرماتا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠ (قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ ط) ” - یعنی میں آپ ( علیہ السلام) کے پلک جھپکنے سے پہلے اس کو حاضر کیے دیتا ہوں۔ یہ جس شخص کا ذکر ہے اس کے بارے میں مفسرین کہتے ہیں کہ وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے وزیر آصف بن برخیاہ تھے ‘ اور یہ کہ ان کے پاس کتب سماویہ اور اللہ تعالیٰ کے ناموں سے متعلق ایک خاص علم تھا جس کی تاثیر سے انہوں نے اس کام کو ممکن کر دکھایا۔ ہمارے پاس اس موضوع پر نہ تو کوئی مرفوع حدیث ہے اور نہ ہی ان اسمائے الہٰیہ میں ایسی کوئی تاثیر ثابت ہوتی ہے جو ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے بتائے گئے ہیں۔ لہٰذا ہمارا ایمان ہے کہ قرآن میں یہ واقعہ جس طرح مذکور ہے بالکل ویسے ہی وقوع پذیر ہوا ہوگا۔ لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر اس کی تفصیلات میں دلچسپی لینا ہمارے لیے مفید ہوتا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لازماً وضاحت فرما دیتے کہ اس شخصیت کے پاس کس کتاب کا کون سا علم تھا۔ اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ایسی کچھ ہدایات نہیں دی گئیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ہمیں اس بارے میں مزید کسی کھوج کرید میں نہیں پڑنا چاہیے۔ چناچہ اس اعتبار سے یہ آیت متشابہات میں سے ہے۔- البتہ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ کے الفاظ میں سائنسی اور ٹیکنیکل علم کی طرف بھی اشارہ موجود ہے۔ ہوسکتا ہے انہیں کوئی ایسی ترکیب معلوم ہو جس کے ذریعے سے سائنسی طور پر ایسا کرنا ممکن ہوا ہو۔ بہر حال سائنسی نقطہ نظر سے ایسا ہونا کوئی ناممکن بات بھی نہیں ہے۔ آج سائنس جس انداز اور جس رفتار سے ترقی کر رہی ہے اس کے نتیجے میں ممکن ہے بہت جلد ایسی ٹیکنالوجی حاصل کرلی جائے جس کے ذریعے سے کسی مادی چیز کو میں تحلیل کرنا اور پھر ان کو چشم زدن میں دوسری جگہ منتقل کر کے ان سے اس چیز کو اسی حالت میں دوبارہ ٹھوس شکل دے دینا ممکن ہوجائے۔- (فَلَمَّا رَاٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ ) ” - یعنی وہ صاحب اپنے دعوے کے مطابق اس تخت کو واقعی پلک جھپکنے سے پہلے لے آئے اور جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اسے اپنے سامنے دیکھا تو بےاختیار آپ اللہ کی حمد و ثنا کرنے لگے۔- (قَالَ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْقف) ” - کوئی دنیا دار بادشاہ ہوتا تو اپنے وزیر کے کمال کو بھی اپنا ہی کمال قرار دیتا ‘ لیکن حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اسے اللہ کا فضل قرار دیا اور اس کا شکر ادا کیا۔ بندگی کا کامل نمونہ بھی یہی ہے کہ انسان بڑی سے بڑی کامیابی کو اپنا کمال سمجھنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا انعام جانے اور اس پر اس کا شکر ادا کرے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 47 اس شخص کے بارے میں قطعی طور پر یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کون تھا اور اس کے اپس وہ کس خاص قسم کا علم تھا اور اس کتاب سے کونسی کتاب مراد ہے جس کا علم اس کے پاس تھا ، ان امور کی کوئی وضاحت نہ قرآن میں ہے نہ کسی حدیث صحیح میں ، مفسرین میں سے بعض کہتے ہیں کہ وہ فرشتہ تھا اور بعض کہتے ہیں کہ وہ کوئی انسان تھا پھر اس انسان کی شخصیت کے تعیین میں بھی ان کے درمیان اختلاف ہے ، کوئی آصف بن برخیاہ ( ) کا نام لیتا ہے جو یہودی ربیوں کی روایات کے مطابق رئیس الرجال ( ) تھے ، کوئی کہتا ہے کہ وہ حضرت خضر تھے ، کوئی کسی اور کا نام لیتا ہے اور امام رازی کو اصرار ہے کہ وہ خود حضرت سلیمان تھے ، لیکن ان میں سے کسی کا کو بھی کوئی قابل اعتماد ماخذ نہیں ہے ، اور امام رازی کی بات تو قرآن کے سیاق و سباق سے بھی مطابقت نہیں رکھتی ، اسی طرح کتاب کے بارے میں بھی مفسرین کے اقوال مختلف ہیں ، کوئی کہتا ہے کہ اس سے مراد لوح محفوظ ہے اور کوئی کتاب شریعت مراد لیتا ہے ، لیکن یہ سب محض قیاسات ہیں ، اور ایسے ہی قیاسات اس علم کے بارے میں بھی بلا دلیل و ثبوت قائم کرلیے گئے ہیں جو کتاب سے اس شخص کو حاصل تھا ، ہم صرف اتنی ہی بات جانتے اور مانتے ہیں جتنی قرآن میں فرامائی گئی ہے ، یا جو اس کے الفاظ سے مترشح ہوتی ہے ، وہ شخص بہرحال جن کی نوع میں سے نہ تھا اور بعید نہیں کہ وہ کوئی انسان ہی ہو ، اس کے پاس کوئی غیر معمولی علم تھا اور وہ اللہ کی کسی کتاب ( الکتاب ) سے ماخوذ تھا ، جن اپنے وجود کی طاقت سے اس تخت کو چند گھنٹوں میں اٹھا لانے کا دعوی کر رہا تھا ، یہ شخص علم کی طاقت سے اس کو ایک لحظہ میں اٹھا لایا ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 48 قرآن مجید کا انداز بیان اس معاملہ میں بالکل صاف ہے کہ اس دیوہیکل جن کے دعوے کی طرح اس شخص کا دعوی صرف دعوی ہی نہ رہا بلکہ فی الواقع جس وقت اس نے دعوی کیا اسی وقت ایک ہی لحظہ میں وہ تخت حضرت سلیمان کے سامنے رکھا نظر آیا ، ذرا ان الفاظ پر غور کیجیے ۔ اس شخص نے کہا میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے لے آتا ہوں ، جونہی کہ سلیمان نے اسے اپنے پاس رکھا دیکھا ۔ جو شخص بھی واقعہ کے عجیب و غریب ہونے کا تصور ذہن سے نکال کر بجائے خود اس عبارت کو پڑھے گا وہ اس سے یہی مفہوم لے گا کہ اس شخص کے یہ کہتے ہی دوسرے لمحہ میں وہ واقعہ پیش آگیا جس کا اس نے دعوی کیا تھا ، اس سیدھی سی بات کو خواہ مخواہ تاویل کے خراد پر چڑھانے کی کیا ضرورت ہے ؟ پھر تخت کو دیکھتے ہی حضرت سلیمان کا یہ کہنا کہ یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کافر نعمت بن جاتا ہوں اسی صورت میں بر محل ہوسکتا ہے جب کہ یہ کوئی غیر معمولی واقعہ ہو ، ورنہ اگر واقعہ یہ ہوتا کہ ان کا ایک ہوشیار ملازم ملکہ کے لیے جلدی سے ایک تخت بنا لایا یا بنوا لایا ، تو ظاہر ہے کہ یہ ایسی کوئی نادر بات نہ ہوسکتی تھی کہ اس پر حضرت سلیمان بے اختیار ھذا من فضل ربی پکار اٹھتے اور ان کو یہ خطرہ لاحق ہوجاتا کہ اتنے جلدی مہمان عزیز کے لیے تخت تیار ہوجانے سے کہیں میں شاکر نعمت بننے کے بجائے کافر نعمت نہ بن جاؤں ، آخر اتنی سی بات پر کسی مومن فرمانروا کو اتنا غرور اور کبر نفس لاحق ہوجانے کا کیا خطرہ ہوسکتا ہے ، خصوصا جبکہ وہ ایک معمولی مومن نہ ہو بلکہ اللہ کا نبی ہو ۔ اب رہی یہ بات کہ ڈیڑھ ہزار میل سے ایک تخت شاہی پلک جھپکتے کس طرح اٹھ کر آگیا ، تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ زمان و مکان اور مادہ و حرکت کے جو تصورات ہم نے اپنے تجربات و مشاہدات کی بنا پر قائم کیے ہیں ان کے جملہ حدود صرف ہم ہی پر منطبق ہوتے ہین ، خدا کے لیے نہ یہ تصورات صحیح ہیں اور نہ وہ ان حدود سے محدود ہے ، اس کی قدرت ایک معمولی تخت تو درکنار ، سورج اور اس سے بھی زیادہ بڑے سیاروں کو آن کی آن میں لاکھوں میل کا فاصلہ طے کرا سکتی ہے ، جس خدا کے صرف ایک حکم سے یہ عطیم کائنات وجود میں آگئی ہے اس کا ایک ادنی اشارہ ہی ملکہ سبا کے تخت کو روشنی کی رفتار سے چلا دینے کے لیے کافی تھا ، آخر اسی قرآن میں یہ ذکر بھی تو موجود ہے کہ اللہ تعالی ایک رات اپنے بندے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے بیت المقدس لے بھی گیا اور واپس بھی لے آیا ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 49 یعنی وہ کسی کے شکر کا محتاج نہیں ہے ، اس کی خدائی میں کسی کی شکر گزاری سے نہ ذرہ برابر کوئی اضافہ ہوتا ہے اور نہ کسی کی ناشکری و احسان فراموشی سے یک سر مو کوئی کمی آتی ہے ، وہ آپ اپنے ہی بل بوتے پر خدائی کر رہا ہے ، بندوں کے ماننے یا نہ ماننے پر اس کی خدائی منحصر نہیں ہے ، یہی بات قرآن مجید میں ایک جگہ حضرت موسی کی زبان سے نقل کی گئی ہے کہ اِنْ تَكْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ حَمِيْدٌ ۔ اگر تم اور ساری دنیا والے مل کر بھی کفر کریں تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے ( ابراہیم ۔ آیت8 ) اور یہی مضمون اس حدیث قدسی کا ہے جو صحیح مسلم میں وارد ہوئی ہے کہ : یقول اللہ تعالی یا عبادی لو ان اولکم و اخرکم وانسکم و جنکم کانوا علی اتقی قلب رجل منکم ما زاد زلک فی ملکی شیئا ، یا عبادی لو ان اولکم و اخرکم وانسکم و جنکم کانوا علی افجر قلب قلب رجل منکم ما نقص ذلک فی ملکی شیئا ، یا عبدادی انما ھی اعمالکم احصیھا لکم ثم اوفیکم ایاھا ۔ فمن وجد خیرا فلیحمد اللہ ومن وجد غیر ذلک فلا یلومن الا نفسہ ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے میرے بندو ، اگر اول سے آخر تک تم سب انس اور جن اپنے سب سے زیادہ متقی شخص کے دل جیسے ہوجاؤ تو اس سے میری بادشاہ میں کوئی اضافہ نہ ہوجائے گا ، اے میرے بندو ، اگر اول سے آخر تک تم سب انس اور جن اپنے سب سے زیادہ بدکار شخص کے دل جیسے ہوجاؤ تو میری بادشاہی میں اس سے کوئی کمی نہ ہوجائے گی ، اے میرے بندو یہ تمہارے اپنے اعمال ہی ہیں جن کا میں تمہارے حساب میں شمار کرتا ہوں ، پھر ان کی پوری پوری جزا تمہیں دیتا ہوں ، پس جسے کوئی بھلائی نصیب ہو اسے چاہیے کہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جسے کچھ اور نصیب ہو وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

14: قرآنِ کریم نے اِس شخص کا تعین نہیں فرمایا، صرف اتنا کہا ہے کہ اُس کے پاس کتاب کا علم تھا۔ بظاہر اس کتاب سے مراد تورات ہے، اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وزیر آصف بن برخیا تھے، اور اُن کو اسمِ اعظم کا علم حاصل تھا جس کی بنا پر اُنہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ اس کی برکت سے پلک جھپکنے کی دیر میں تخت وہاں لے آئیں گے۔ دوسری طرف امام رازیؒ وغیرہ نے اس کو ترجیح دی ہے کہ اس سے مراد خود حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں۔ کیونکہ کتاب کا جتنا علم اُن کو حاصل تھا، اُتنا کسی اور کو نہیں تھا، اور شروع میں تو آپ نے اہلِ دربار اور خاص طور پر جنات کو خطاب کر کے فرمایا تھا کہ کون ہے جو اس ملکہ کا تخت اس کے آنے سے پہلے ہی یہاں لے آئے، لیکن اِس سے اُن کا مقصد جنات کا غرور توڑنا تھا۔ چنانچہ جب ایک جن نے بڑے فخریہ انداز میں یہ کہا کہ میں دربار ختم ہونے سے پہلے ہی تخت لے آؤں گا تو اس پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے خود یہ فرمایا کہ تم تو دربار ختم ہونے کی بات کر رہے ہو، میں اﷲ تعالیٰ کے حکم سے معجزے کے طور پر اُسے تمہاری پلک جھپکنے سے پہلے ہی یہاں لے آؤں گا۔ چنانچہ پھر اُنہوں نے اﷲ تعالیٰ سے دُعا کی ہوگی، اور اﷲ تعالیٰ نے اُسی وقت وہ تخت وہاں حاضر کرا دیا۔