Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

391اس سے وہ مجلس مراد ہے، جو مقدمات کی سماعت کے لئے حضرت سلیمان (علیہ السلام) صبح سے نصف النہار تک منعقد فرماتے تھے۔ 392اس سے معلوم ہوا کہ وہ یقینا ایک جن ہی تھا جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مقابلے میں غیر معمولی قوتوں سے نوازا ہے کیونکہ کسی انسان کے لیے چاہے وہ کتنا ہی زور آور ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ بیت المقدس سے مآرب یمن جائے اور پھر وہاں سے تخت شاہی اٹھا لائے اور ڈیڑھ ہزار میل کا یہ فاصلہ جسے دو طرفہ شمار کیا جائے تو تین ہزار میل بنتا ہے تین یا چار گھنٹے میں ٍطے کرلے ایک طاقتور سے طاقتور انسان بھی اول تو اتنے بڑے تخت کو اٹھا ہی نہیں سکتا اور اگر وہ مختلف لوگوں یا چیزوں کا سہارا لے کر اٹھوا بھی لے تو اتنی قلیل مدت میں اتنا سفر کیوں کر ممکن ہے۔ 393یعنی میں اسے اٹھا کر لا بھی سکتا ہوں اور اس کی کسی چیز میں ہیرا پھیری بھی نہیں کروں گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ عِفْرِيْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِيْكَ بِهٖ : ۔۔ :” عِفْرِيْتٌ“ کا مادہ ” اَلْعَفَرُ “ ہے، جس کا معنی مٹی ہے۔ تفسیر مراغی میں ہے : ” اَلْعِفْرِیْتُ مِنَ الْبَشَرِ : اَلْخَبِیْثُ الْمَاکِرُ الَّذِيْ یُعَفِّرُ أَقْرَانَہُ “ ” وہ خبیث مکار جو اپنے مقابل لوگوں کو مٹی پر گرا دے۔ “ مراد جو طاقت ور ہو اور شریر ہو۔ ایک بہت طاقت ور شریر جن کہنے لگا، آپ اپنی جس مجلس میں بیٹھے ہیں آپ کے اس سے اٹھ کر جانے سے پہلے وہ تخت میں آپ کے پاس لے آؤں گا اور میں اسے لانے کی پوری قوت رکھتا ہوں اور امانت دار ہوں، یعنی کسی ہیرے، جوہر یا قیمتی چیز کی خیانت نہیں کروں گا۔ معلوم ہوتا ہے اس کی شہرت اچھی نہ تھی، اس لیے اسے اپنی صفائی پیش کرنا پڑی۔ (واللہ اعلم) سلیمان (علیہ السلام) کے پاس ایسے شیاطین بڑی تعداد میں موجود تھے، جیسا کہ فرمایا : (وَمِنَ الشَّيٰطِيْنِ مَنْ يَّغُوْصُوْنَ لَهٗ وَيَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِكَ ) [ الأنبیاء : ٨٢ ] ” اور کئی شیطان جو اس کے لیے غوطہ لگاتے تھے اور اس کے علاوہ کام بھی کرتے تھے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ عِفْرِيْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِيْكَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَ۝ ٠ۚ وَاِنِّىْ عَلَيْہِ لَقَوِيٌّ اَمِيْنٌ۝ ٣٩- عفر - قال تعالی: قالَ عِفْرِيتٌ مِنَ الْجِنِ [ النمل 39] . العفریت من الجنّ : هو العارم الخبیث، ويستعار ذلک للإنسان استعارة الشّيطان له، يقال : عفریت نفریت قال ابن قتیبة :- العفریت الموثّق الخلق وأصله من العفر، أي : التّراب، وعَافَرَهُ : صارعه، فألقاه في العَفَرِ ، ورجل عِفْرٌ نحو : شرّ وشمرولیث عِفِرِّين : دابّة تشبه الحرباء تتعرّض للرّاكب، وقیل : عِفْرِيَة الدّيك والحباری للشّعر الذي علی رأسهما .- ( ع ف ر ) العفر یت جنوں میں سے عفریت اس جن کو کہا جاتا ہے جو نہایت موذی اور شریر ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ قالَ عِفْرِيتٌ مِنَ الْجِنِ [ النمل 39] جنات میں سے ایک موذی اور شریر جن نے کہا ۔ پھر جس طرح کبھی شریر انسان کو شیطان کہہ دیا جاتا ہے اس طرح استعارہ انسان کو عفریت بھی کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ عفریت نفریت کا محاورہ ہے ( نفرت تابع مہمل ہے ) ابن قتیبہ کہتے ہیں کہ العفریت کے معنی قوی هیکل کے ہیں ۔ اصل میں عفریت کا لفظ العفر سے ہے جس کے معنی مٹی کے ہیں اور عافرہ کے معنی ہیں اسے پچھار کر مٹی میں لت پت کردیا اور رجل شر وشمر کی طرح رجل عفر بھی کہا جا تا ہے جس کے معنی ہیں چالاک اور شریر آدمی لیث عفرین گرگٹ کی شکل کا ایک جانور ہے جو سوار پر حملہ کر کے اسے نیچے گر ا لیتا ہے عفریتہ الدیک اویلحبار یٰ مرگ یا ھبازی کے سر کے بال کلغی )- جِنّ ( شیطان)- والجِنّ يقال علی وجهين : أحدهما للروحانيين المستترة عن الحواس کلها بإزاء الإنس، فعلی هذا تدخل فيه الملائكة والشیاطین، فكلّ ملائكة جنّ ، ولیس کلّ جنّ ملائكة، وعلی هذا قال أبو صالح «4» : الملائكة كلها جنّ ، وقیل : بل الجن بعض الروحانيين، وذلک أنّ الروحانيين ثلاثة :- أخيار : وهم الملائكة .- وأشرار : وهم الشیاطین .- وأوساط فيهم أخيار وأشرار : وهم الجن، ويدلّ علی ذلک قوله تعالی: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن 1- 14] .- والجِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] ، وقال تعالی:- وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] .- الجن - جن ( اس کی جمع جنتہ آتی ہے اور ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ۔ (1) انسان کے مقابلہ میں ان تمام روحانیوں کو جن کہا جاتا ہے جو حواس سے مستور ہیں ۔ اس صورت میں جن کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہوتا ہے لھذا تمام فرشتے جن ہیں لیکن تمام جن فرشتے نہیں ہیں ۔ اسی بناء پر ابو صالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں ۔ ( 2) بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ جن روحانیوں کی ایک قسم ہیں کیونکہ وحانیات تین قسم ہیں ۔ (1) اخیار ( نیک ) اور یہ فرشتے ہیں ( 2) اشرا ( بد ) اور یہ شیاطین ہیں ۔ ( 3) اوساط جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں اور یہ جن ہیں چناچہ صورت جن کی ابتدائی آیات ۔ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن 1- 14] اور یہ کہ ہم بعض فرمانبردار ہیں بعض ( نافرماں ) گنہگار ہیں ۔ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جنوں میں بعض نیک اور بعض بد ہیں ۔ الجنۃ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔- مَقامُ- والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] ، ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم 14] ، وَلِمَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ [ الرحمن 46] ، وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهِيمَ مُصَلًّى [ البقرة 125] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ مَقامُ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 97] ، وقوله : وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] ، إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ [ الدخان 51] ، خَيْرٌ مَقاماً وَأَحْسَنُ نَدِيًّا [ مریم 73] ، وقال : وَما مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقامٌ مَعْلُومٌ [ الصافات 164] ، وقال : أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل 39] قال الأخفش : في قوله قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل 39] : إنّ المَقَامَ المقعد، فهذا إن أراد أنّ المقام والمقعد بالذّات شيء واحد، وإنما يختلفان بنسبته إلى الفاعل کالصّعود والحدور فصحیح، وإن أراد أنّ معنی المقام معنی المقعد فذلک بعید، فإنه يسمی المکان الواحد مرّة مقاما إذا اعتبر بقیامه، ومقعدا إذا اعتبر بقعوده، وقیل : المَقَامَةُ : الجماعة، قال الشاعر : 379-- وفيهم مَقَامَاتٌ حسان وجوههم - «1» وإنما ذلک في الحقیقة اسم للمکان وإن جعل اسما لأصحابه . نحو قول الشاعر :- 380-- واستبّ بعدک يا كليب المجلس - «2» فسمّى المستبّين المجلس .- المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم 14] اس شخص کے لئے ہے جو قیامت کے روز میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے ۔ وَلِمَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ [ الرحمن 46] اور جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا ۔ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهِيمَ مُصَلًّى [ البقرة 125] کی جگہ بنا لو ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ مَقامُ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراھیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ [ الدخان 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ خَيْرٌ مَقاماً وَأَحْسَنُ نَدِيًّا [ مریم 73] مکان کس کے اچھے اور مجلس کس کی بہتر ہیں ۔ وَما مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقامٌ مَعْلُومٌ [ الصافات 164] ہم میں سے ہر ایک کا ایک مقرر مقام ہے اور آیت کریمہ : ۔ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل 39] قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں میں اس کو آپ کے پاس حاضر کرتا ہوں ۔ کی تفسیر میں اخفش نے کہا ہے کہ یہاں مقام بمعنی مقعد یعنی نشستگاہ کے ہیں اگر اخفش کا مقصد اس سے یہ ہے کہ مقام اور مقصد بالزات ایک ہی چیز کے دو نام ہیں صرف نسبت ( لی ) الفاعل کے لحاظ سے دونوں میں فرق پایا جاتا ( یعنی ایک ہی جگہ کو کسی شخص کے ہاں اور بیٹھنے کے اعتبار سے مقعد کہا جاتا ہے جس طرح کہ صعود اور حدور کے الفاظ ہیں ( کہ ایک ہی جگہ کو اوپر چڑھنے کے لحاظ سے صعود اور اس سے نیچے اترنے کے لحاظ سے حدود کہا جاتا ہے ) تو بجا ہے اور اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ لغت میں مقام بمعنی نے المقامتہ کے معنی جماعت بھی کئے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 322 ) ونیھم مقامات حسان وجوھم اور ان میں خوڈ لوگوں کی جماعتیں ہیں مگر یہ بھی دراصل ظرف مکان ہے اگرچہ ( مجازا ) اصھاب مقام مراد ہیں جس طرح کہ ا ( الکامل ) ؎( 327 ) واستب بعدک یاکلیب المجلس اے کلیب تیرے بعد لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگے ہیں ۔ میں مجلس سے اہل مجلس مراد ہیں ۔- قوی - القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] - ( ق وو ) القوۃ - یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٩) یہ سن کر ایک عمر و نامی قوی ہیکل جن نے کہا کہ میں اس کو لا کر آپ کی خدمت میں حاضر کر دوں گا اس سے پہلے کہ آپ اپنے اجلاس سے اٹھیں اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اجلاس قضا آدھی رات تک ہوتا تھا۔- اور میں اس کے اٹھانے پر طاقت رکھتا ہوں اور اس میں جو جواہرات اور موتی اور سونا و چاندی لگا ہوا ہے اس پر امانت دار بھی ہوں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا میں اس سے جلدی منگوانا چاہتا ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩ (قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِکَج وَاِنِّیْ عَلَیْہِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ ) ” - جس طرح انسانوں میں کوئی کمزور ہوتا ہے اور کوئی طاقتور ‘ اسی طرح جنوں میں بھی چھوٹے بڑے ِ جن ہوتے ہیں۔ چناچہ ایک طاقتور قوی ہیکل دیو نے دعویٰ کیا کہ آپ ( علیہ السلام) کے دربار برخواست کرنے سے پہلے میں وہ تخت لا کر آپ ( علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر کیے دیتا ہوں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 45 اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس جو جن تھے وہ آیا جو مودہ زمانے کے محض عقل پرست مفسرین کی تاویلوں کے مطابق بنی نوع انسان میں سے تھے یا عرف عام کے مطابق اسی پوشیدہ مخلوق میں سے جو جن کے نام سے معروف ہے ۔ ظاہر ہے کہ حضرت سلیمان کے دربار کی نشست زیادہ سے زیادہ تین چار گھنٹے کی ہوگی ، اور بیت المقدس سے سبا کے پایہ تخت مارب کا فاصلہ پرندے کی اڑان کے لحاظ سے بھی کم از کم ڈیڑھ ہزار میل کا تھا ۔ اتنے فاصلہ سے ایک ملکہ کا عظیم الشان تخت اتنی کم مدت میں اٹھا لانا کسی انسان کا کام نہیں ہوسکتا تھا ، خوہ وہ عمالقہ میں سے کتنا ہی موٹا تازہ آدمی کیوں نہ ہو ، یہ کام تو آج کل کا جٹ طیارہ بھی انجام دینے پر قادر نہیں ہے ۔ مسئلہ اتنا ہی نہیں ہے کہ تخت کہیں جنگل میں رکھا ہو اور اسے اٹھا لایا جائے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ تخت ایک ملکہ کے محل میں تھا جس پر یقینا پہرہ دار متعین ہوں گے اور وہ ملکہ کی غیر موجوگی میں ضرور محفوظ جگہ رکھا گیا ہوگا ، انسان جاکر اٹھا لانا چاہتا تو اس کے ساتھ ایک چھاپہ مار دستہ ہونا چاہیے تھا کہ لڑ بھڑا کر اسے پہرہ داروں سے چھین لائے ۔ یہ سب کچھ آخر دربار برخاست ہونے سے پہلے کیسے ہوسکتا تھا ۔ اس چیز کا تصور اگر کیا جاسکتا ہے تو ایک حقیقی جن ہی کے بارے میں کیا جاسکتا ہے ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 46 یعنی آپ مجھ پر یہ بھروسا کرسکتے ہیں کہ میں اسے خود اڑا نہ لے جاؤں گا ، یا اس میں سے کوئی قیمتی چیز نہ چرا لوں گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

13: یہ کوئی جن تھا جس نے یہ پیشکش کی کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دربار ختم کرنے سے پہلے ہی وہ تخت اٹھا لائے گا۔ اور یہ اطمینان دلایا کہ نہ صرف یہ کہ اس میں اتنی طاقت ہے، بلکہ وہ امانت دار بھی ہے، اس لیے اس تخت میں جو سونا چاندی یا ہیرے جواہرات لگے ہوں گے، ان میں کوئی خرد برد نہیں کرے گا۔