Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بلقیس کو دوبارہ پیغام نبوت ملا جب قاصد پہنچتا ہے اور بلقیس کو دوبارہ پیغام نبوت پہنچاتا ہے تو وہ سمجھ لیتی ہے اور کہتی ہے واللہ یہ سچے پیغمبر ہیں ایک پیغمبر کا مقابلہ کر کے کوئی پنپ نہیں سکتا ۔ اسی وقت دوبارہ قاصد بھیجا کہ میں اپنی قوم کے سرداروں سمیت حاضر خدمت ہوتی ہوں تاکہ خود آپ سے مل کر دینی معلومات حاصل کروں اور آپ سے اپنی تشفی کرلوں یہ کہلوا کر یہاں اپنا نائب ایک کو بنایا ۔ سلطنت کے انتظامات اس کے سپرد کئے اپنا لاجواب بیش قیمت جڑاؤ تخت جو سونے کا تھا سات محلوں میں مقفل کیا اور اپنے نائب کو اسکی حفاطت کی خاص تاکید کی اور بارہ ہزار سردار جن میں سے ہر ایک کے تحت ہزاروں آدمی تھے ۔ اپنے ساتھ لئے اور ملک سلیمان کی طرف چل دی ۔ جنات قدم قدم اور دم دم کی خبریں آپ کو پہنچاتے رہتے تھے ۔ جب آپکو معلوم ہوا کہ وہ قریب پہنچ چکی ہے تو آپ نے اپنے دربار میں جس میں جن و انس سب موجود تھے فرمایا کوئی ہے جو اسکے تخت کو اسکے پہنچنے سے پہلے یہاں پہنچا دے ؟ کیونکہ جب وہ یہاں آجائیں گی اور اسلام میں داخل ہوجائیں پھر اس کا مال ہم پر حرام ہوگا ۔ یہ سن کر ایک طاقتور سرکش جن جس کا نام کوزن تھا اور جو مثل ایک بڑے پہاڑ کے تھا بول پڑا کہ اگر آپ مجھے حکم دیں تو آپ دربار برخواست کریں اس سے پہلے میں لادیتا ہوں ۔ آپ لوگوں کے فیصلے کرنے اور جھگڑے چکانے اور انصاف دینے کو صبح سے دوپہر تک دربارعام میں تشریف رکھاکرتے تھے ۔ اس نے کہا میں اس تخت کے اٹھا لانے کی طاقت رکھتا ہوں اور ہوں بھی امانت دار ۔ اس میں کوئی چیز نہیں چراؤں گا: حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا میں چاہتا ہوں اس سے بھی پہلے میرے پاس وہ پہنچ جائے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اللہ حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام کی تخت کے منگوانے سے عرض یہ تھی کہ اپنے ایک زبردست معجزے کا اور پوری طاقت کا ثبوت بلقیس کو دکھائیں کہ اس کا تخت جسے اس نے سات مقفل مکانوں میں رکھا تھا وہ اس کے آنے سے پہلے دربار سلیمانی میں موجود ہے ۔ ( وہ غرض نہ تھی جو اوپر روایت قتادہ میں بیان ہوئی ) حضرت سلیمان کے اس جلدی کے تقاضے کو سن کر جس کے پاس کتابی علم تھا وہ بولا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ یہ آصف تھے حضرت سلیمان کے کاتب تھے ان کے باپ کا نام برخیا تھا یہ ولی اللہ تھے اسم اعظم جانتے تھے ۔ پکے مسلمان تھے بنو اسرائیل میں سے تھے مجاہد کہتے ہیں ان کا نام اسطوم تھا ۔ بلیخ بھی مروی ہے ان کا لقب ذوالنور تھا ۔ عبداللہ لھیعہ کا قول ہے یہ خضر تھے لیکن یہ قول بہت ہی غریب ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنی نگاہ دوڑائیے جہاں تک پہنچے نظر کیجئے ابھی آپ دیکھ ہی رہے ہوں گے کہ میں اسے لادوں گا ۔ پس حضرت سلیمان نے یمن کی طرف جہاں اس کا تخت تھا نظر کی ادھر یہ کھڑے ہو کر وضو کرکے دعا میں مشغول ہوئے اور کہادعا ( یا ذالجلال والاکرام یا فرمایا یا الھنا والہ کل شی الھا واحدا لا الہ الاانت ائتنی بعرشھا ) اسی وقت تخت بلقیس سامنے آگیا ۔ اتنی ذرا سی دیر میں یمن سے بیت المقدس میں وہ تخت پہنچ گیا اور لشکر سلیمان کے دیکھتے ہوئے زمین میں سے نکل آیا ۔ جب سلیمان علیہ السلام نے اسے اپنے سامنے موجود دیکھ لیا تو فرمایا یہ صرف میرے رب کا فضل ہے کہ وہ مجھے آزمالے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یاناشکری؟ جو شکر کرے وہ اپنا ہی نفع کرتا ہے اور جو ناشکری کرے وہ اپنا نقصان کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ بندوں کی بندگی سے بےنیاز ہے اور خود بندوں سے بھی اس کی عظمت کسی کی محتاجی نہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( من عمل صالحا فلنفسہ الخ ) ، جو نیک عمل کرتا ہے وہ اپنے لئے اور جو برائی کرتا ہے وہ اپنے لئے ۔ اور جگہ ہے جو نیکی کرتے ہیں وہ اپنے لئے ہی اچھائی جمع کرتے ہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا تم اور روئے زمین کے سب انسان بھی اگر اللہ سے کفر کرنے لگو تو اللہ کا کچھ نہیں بگاڑوگے ۔ وہ غنی ہے اور حیمد ہے صحیح مسلم شریف میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو اگر تمہارے سب اگلے پچھلے انسان جنات بہتر سے بہتر اور نیک بخت سے نیک بخت ہوجائیں تو میرا ملک بڑھ نہیں جائے گا اور اگر سب کے سب بدبخت اور برے بن جائیں تو میرا ملک گھٹ نہیں جائے گایہ تو صرف تمہارے اعمال ہیں جو جمع ہونگے اور تم کو ہی ملیں گے جو بھلائی پائے تو اللہ کا شکر کرے اور جو برائی پائے تو صرف اپنے نفس کو ہی ملامت کرے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

381حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اس جواب سے ملکہ نے اندازہ لگا لیا کہ وہ سلیمان (علیہ السلام) کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے چناچہ انہوں نے مطیع و منقاد ہو کر آنے کی تیاری شروع کردی۔ سلیمان (علیہ السلام) کو بھی ان کی آمد کی اطلاع مل گئی تو آپ نے انھیں مذید اپنی اعجازی شان دکھانے کا پروگرام بنایا اور انکے پہنچنے سے قبل ہی اس کا تخت شاہی اپنے پاس منگوانے کا بندوبست کیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا اَيُّكُمْ يَاْتِيْنِيْ بِعَرْشِهَا ۔۔ : آیات کے سیاق سے یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ جب قاصد ملکہ سبا کے پاس پہنچا اور اس نے سلیمان (علیہ السلام) کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا اور ان کا پیغام پہنچایا تو وہ سمجھ گئی کہ وہ ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی، چناچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود آپ کے ہاں حاضر ہو کر آپ کے ساتھ گفت و شنید کرے۔ چناچہ وہ اپنے لشکر اور سرداروں کے ساتھ روانہ ہوئی، ابھی وہ راستے میں تھی اور پہنچا ہی چاہتی تھی کہ سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے سرداروں کو مخاطب کرکے فرمایا : ” تم میں سے کون ہے جو اس کا تخت میرے پاس اس سے پہلے لے آئے کہ وہ تابع فرمان ہو کر میرے پاس آئیں۔ “ سلیمان (علیہ السلام) کا مقصد اس سے یہ تھا کہ جب وہ یہاں پہنچ کر اپنے تخت کو موجود پائے تو اسے معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو کیسی غیر معمولی قوتیں عطا فرماتا ہے، تاکہ اسے یقین ہوجائے کہ میں واقعی اللہ کا نبی ہوں اور اس کی عقل کا بھی امتحان ہوجائے کہ کچھ تبدیلی کے بعد وہ اپنا تخت پہچانتی ہے یا نہیں۔ بعض مفسرین نے سلیمان (علیہ السلام) کے ملکہ کا تخت منگوانے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ وہ اس کے پہنچنے سے پہلے اس کے تخت پر قبضہ کرلینا چاہتے تھے، کیونکہ جب وہ پہنچ کر اسلام قبول کرلے گی تو اس کے مال پر قبضہ جائز نہ ہوگا۔ مگر یہ بات سراسر غلط ہے، کیونکہ سلیمان (علیہ السلام) کے پاس تو ہر چیز ملکہ سے کہیں بہتر اور بڑھ کر موجود تھی اور کسی شخص کے مسلمان ہونے کی امید پر اس کی مدد کے بجائے پہلے ہی اس کے اموال پر قبضہ جمانے کی فکر کرنا ایک نبی تو دور خلفائے اسلام کی شان کے لائق بھی نہیں۔ ویسے بھی پہلی امتوں کے لیے مال غنیمت حلال نہیں تھا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (غرض وہ قاصد اپنے ہدایا لے کر واپس گیا اور سارا قصہ بلقیس سے بیان کیا تو حالات سے اس کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے علم اور نبوت کے کمالات کا یقین ہوگیا اور حاضر ہونے کے ارادہ سے اپنے ملک سے چلی) سلیمان (علیہ السلام کو وحی سے یا اور کسی پرندے وغیرہ کے ذریعہ اس کا چلنا معلوم ہوا تو انہوں) نے (اپنے دربار والوں سے) فرمایا کہ اے دربار والو تم میں کوئی ایسا ہے جو اس (بلقیس) کا تخت پہلے اس کے کہ وہ لوگ میرے پاس مطیع ہو کر آویں حاضر کردے (مسلمین کی قید اظہار واقعہ کے لئے ہے کیونکہ وہ لوگ اسی قصد سے آ رہے تھے تخت کا منگانا غالباً اس غرض سے ہے کہ وہ لوگ میرا معجزہ بھی دیکھ لیں کیونکہ اتنا بڑا تخت اور پھر اس کا ایسے سخت پہروں میں اس طور پر اچانک آجانا کہ اطلاع تک نہ ہو عادت بشریہ سے باہر ہے اگر جنوں کی تسخیر یعنی تابع ہونے سے ہو تب بھی جنوں کا خود بخود تابع ہوجانا بھی ایک معجزہ ہی ہے اور اگر کسی ولی امت کی کرامت کے ذریعہ ہے تو ولی کی کرامت بھی نبی کا معجزہ ہوتا ہے اور اگر بغیر کسی واسطہ کے ہے تو پھر معجزہ ہونا ظاہر ہے۔ بہرحال ہر طور پر یہ معجزہ اور نبوت کی دلیل ہے لہذٰا مقصود یہ ہوگا کہ اندرونی کمالات کے ساتھ ساتھ یہ معجزہ کے کمالات بھی دیکھ لیں تاکہ ایمان و اطمینان زیادہ ہو) ایک قوی ہیکل جن نے جواب (میں) عرض کیا کہ میں اس کو آپ کی خدمت میں حاضر کر دوں گا پہلے اس کے کہ آپ اپنے اجلاس سے اٹھیں اور (گو وہ بہت بھاری ہے مگر) میں اس (کے لانے) پر طاقت رکھتا ہوں (اور گو بڑا قیمتی اور موتیوں سے مزین ہے مگر میں) امانت دار (بھی) ہوں (اس میں کوئی خیانت نہ کروں گا) جس کے پاس کتاب (الہی یعنی تورات کا یا اور وحی کی ہوئی کسی کتاب کا جس میں اللہ کے ناموں کی تاثیرات ہوں اس) کا علم تھا (اقرب یہ ہے کہ اس سے خود سلیمان (علیہ السلام) مراد ہیں غرض) اس (علم والے) نے (اس جن سے) کہا کہ (بس تجھ میں تو اتنی ہی قوت ہے اور) میں اس کو تیرے سامنے تیری آنکھ جھپکنے سے پہلے لاکھڑا کرسکتا ہوں (کیونکہ معجزہ کی طاقت سے لاؤں گا، چناچہ آپ نے حق تعالیٰ سے دعا کی ویسے ہی یا کسی اسم الہی کے ذریعہ سے اور تخت فوراً سامنے آموجود ہوا) جب سلیمان (علیہ السلام) نے اس کو اپنے روبرو رکھا دیکھا تو (خوش ہو کر شکر کے طور پر) کہنے لگے کہ یہ بھی میرے پروردگار کا ایک فضل ہے ( کہ میرے ہاتھ سے یہ معجزہ ظاہر کیا) تاکہ وہ میری آزمائش کرے کہ میں شکر کرتا ہوں یا (خدانخواستہ) ناشکری کرتا ہوں اور ظاہر ہے کہ جو شخص شکر کرتا ہے وہ اپنے ہی نفع کے لئے شکر کرتا ہے (اللہ تعالیٰ کا کوئی نفع نہیں) اور (اسی طرح) جو ناشکری کرتا ہے (وہ بھی اپنا ہی نقصان کرتا ہے اللہ تعالیٰ کا کوئی نقصان نہیں کیونکہ) میرا رب غنی ہے کریم ہے (اس کے بعد) سلیمان (علیہ السلام) نے (بلقیس کی عقل آزمانے کے لئے) حکم دیا کہ اس (کی عقل آزمانے) کے لئے اس کے تخت کی صورت بدل دو (جس کے بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں مثلاً موتیوں کی جگہیں بدل دو یا کسی اور طرح) ہم دیکھیں اس کو اس کا پتہ لگتا ہے یا اس کا انہیں میں شمار ہے جن کو (ایسی باتوں کا) پتہ نہیں لگتا (پہلی صورت میں معلوم ہوگا کہ وہ عقلمند ہے اور عقلمند سے حق بات سمجھنے کی زیادہ امید ہے اور اس کے حق کو پہچاننے کا اثر دور تک بھی پہنچے گا اور دوسری صورت میں اس سے حق پہچاننے کی امید کم ہے۔ )- معارف و مسائل - بلقیس کی حاضری دربار سلیمانی میں :- قرطبی نے تاریخی روایات کے حوالہ سے لکھا ہے کہ بلقیس کے قاصد خود بھی مرعوب و مبہوت ہو کر واپس ہوئے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اعلان جنگ سنا دیا تو بلقیس نے اپنی قوم سے کہا کہ پہلے بھی میرا یہی خیال تھا کہ سلیمان دنیا کے بادشاہوں کی طرح بادشاہ نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے کوئی خاص منصب بھی ان کو ملا ہے اور اللہ کے نبی و رسول سے لڑنا اللہ کا مقابلہ ہے، جس کی ہم میں طاقت نہیں یہ کہہ کر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضری کی تیاری شروع کردی۔ بارہ ہزار سرداروں کو اپنے ساتھ لیا جن کے تحت ایک ایک لاکھ افواج تھیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو حق تعالیٰ نے ایسا رعب و جلال عطا فرمایا تھا کہ ان کی مجلس میں کوئی ابتداء گفتگو کی جرات نہ کرسکتا تھا۔ ایک روز حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دور سے غبار اٹھتا ہوا دیکھا تو حاضرین سے سوال کیا کہ یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا، اے نبی اللہ ملکہ بلقیس اپنے ساتھیوں کے ساتھ آ رہی ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ اس وقت وہ دربار سلیمان سے ایک فرسخ یعنی تقریباً تین میل کے فاصلے پر تھی۔ اس وقت حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے جنود و عساکر کو مخاطب کر کے فرمایا :- يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤ ُ ا اَيُّكُمْ يَاْتِيْنِيْ بِعَرْشِهَا قَبْلَ اَنْ يَّاْتُوْنِيْ مُسْلِمِيْنَ :- حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو چونکہ یہ اطلاع مل گئی تھی کہ بلقیس ان کی دعوت سے متاثر ہونے کی بناء پر مطیع بن کر آ رہی ہے۔ تو ارادہ فرمایا کہ وہ شاہانہ قوت و شوکت کے ساتھ ایک پیغمبرانہ معجزہ بھی دیکھ لے تو اس کے ایمان لانے کے لئے زیادہ معین ہوگا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو حق تعالیٰ نے تسخیر جنات کا عام معجزہ عطا فرمایا ہوا تھا شاید حق تعالیٰ کی طرف سے اشارہ پا کر انہوں نے یہ ارادہ فرمایا کہ کسی طرح بلقیس کا تخت شاہی اس کے یہاں پہنچنے سے پہلے حاضر ہوجائے۔ اس لئے حاضرین کو جن میں جنات بھی تھے خطاب فرما کر یہ تخت لانے کے لئے فرما دیا اور اس کے تمام اموال و دولت میں تخت شاہی کا انتخاب بھی شاید اس لئے کیا گیا کہ وہ اس کی سب سے زیادہ محفوظ چیز تھی جس کو سات محلات شاہی کے وسط میں ایک محفوظ محل کے اندر مقفل کر کے رکھا تھا کہ اس کے اپنے آدمیوں کا بھی وہاں تک گزر نہ تھا۔ اس کا بغیر دروازہ یا قفل توڑے ہوئے منتقل ہوجانا اور اتنی مسافت بعیدہ پر پہنچ جانا حق تعالیٰ شانہ کی ہی قدرت کاملہ سے ہوسکتا ہے یہ اس کو حق تعالیٰ شانہ کی قدرت عظیمہ پر یقین کا سب سے بڑا ذریعہ ہوسکتا تھا اس کے ساتھ اس پر بھی یقین لازم تھا کہ سلیمان (علیہ السلام) کو حق تعالیٰ ہی کی طرف سے کوئی خاص منصب حاصل ہے کہ ان کے ہاتھ پر ایسی فوق العادت چیزیں ظاہر ہوجاتی ہیں (ذکرہ و اختارہ ابن جریر)- قَبْلَ اَنْ يَّاْتُوْنِيْ مُسْلِمِيْنَ ، مسلمین، مسلم کی جمع ہے جس کے لغوی معنی مطیع و فرمانبردار کے ہیں۔ اصطلاح شرع میں مومن کو مسلم کہا جاتا ہے۔ یہاں بقول ابن عباس اس کے لغوی معنے مراد ہیں، یعنی مطیع و فرمانبردار۔ کیونکہ ملکہ بلقیس کا اسلام لانا اس وقت ثابت نہیں بلکہ وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہونے اور کچھ گفتگو کرنے کے بعد مسلمان ہوئی ہے جیسا کہ خود قرآن کریم کے آنے والے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ يٰٓاَيُّہَا الْمَلَؤُا اَيُّكُمْ يَاْتِيْنِيْ بِعَرْشِہَا قَبْلَ اَنْ يَّاْتُوْنِيْ مُسْلِـمِيْنَ۝ ٣٨- ملأ - المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] ،- ( م ل ء ) الملاء - ۔ وی جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہو تو مظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔- أيا - أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص 28]- ( ا ی ی ) ای ۔- جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔- عرش - العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100]- ( ع رش ) العرش - اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٨) اس کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے درباریوں سے کہا کہ تم میں کوئی ایسا شخص ہے کہ بلقیس کا تخت اس سے پہلے کہ وہ لوگ میرے پاس مطیع ہو کر آئیں حاضر کر دے

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ (قَالَ یٰٓاَیُّہَا الْمَلَؤُا اَیُّکُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِہَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ ) ” (- یعنی آپ ( علیہ السلام) کو یقین تھا کہ ملکہ سبا اظہار اطاعت کے لیے ضرور حاضر ہوگی۔ چناچہ آپ ( علیہ السلام) نے چاہا کہ اس کے آنے سے پہلے اس کا تخت یہاں پہنچ جائے اور اس میں تھوڑی بہت تبدیلی کر کے اس کی آزمائش کی جائے کہ وہ اپنے تخت کو پہچان پاتی ہے یا نہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 43 بیچ میں یہ قصہ چھوڑ دیا گیا ہے کہ سفارت ملکہ کا ہدیہ واپس لیکر پہنچی اور جو کچھ اس نے دیکھا اور سنا تھا وہ عرض کردیا ، ملکہ نے اس سے حضرت سلیمان کے جو حالات سنے ان کی بنا پر اس نے یہی مناسب سمجھا کہ خود ان کی ملاقات کے لیے بیت المقدس جائے ، چنانچہ وہ خدم و حشم او شاہی ساز و سامان کے ساتھ سبا سے فلسطین کی طرف روانہ ہوئی اور اس نے دربار سلیمانی میں اطلاع بھیج دی کہ میں آپ کی دعوت خود آپ کی زبان سے سننے اور بالمشافہ گفتگو کرنے کے لیے حاضر ہورہی ہوں ، ان تفصیلات کو چھوڑ کر اب اس وقت کا قصہ بیان کیا جارہا ہے جب ملکہ بیت المقدس کے قریب پہنچ گئی تھی اور ایک دو ہی دن میں حاضر ہونے والی تھی ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 44 یعنی وہی تخت جس کے متعلق ہدہد نے بتایا تھا کہ اس کا تخت بڑا عظیم الشان ہے بعض مفسرین نے غضب کیا ہے کہ ملکہ کے آنے سے پہلے اس کا تخت منگوانے کی وجہ یہ قرار دی ہے کہ حضرت سلیمان اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے ، انہیں اندیشہ ہوا کہ اگر ملکہ مسلمان ہوگئی تو پھر اس کے مال پر اس کی مرضی کے بغیر قبضہ کرلینا حرام ہوجائے گا ، اس لیے انہوں نے اس کے آنے سے پہلے تخت منگا لینے کی جلدی کی ، کیونکہ اس وقت ملکہ کا مال مباح تھا ، استغفر اللہ ، ایک نبی کی نیت کے متعلق یہ تصور بڑا عجیب ہے ، آخر یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ حضرت سلیمان تبلیغ کے ساتھ ساتھ ملکہ اور اس کے درباریوں کو ایک معجزہ بھی دکھانا چاہتے تھے تاکہ اسے معلوم ہو کہ اللہ رب العالمین اپنے انبیاء کو کیسی غیر معمولی قدرتیں عطا فرماتا ہے اور اسے یقین آجائے کہ حضرت سلیمان واقعی اللہ کے نبی ہیں ، اس سے بھی کچھ زیادہ غضب بعض جدید مفسرین نے کیا ہے ۔ وہ آیت کا ترجمہ یہ کرتے ہیں کہ تم میں سے کون ہے جو ملکہ کے لیے ایک تخت مجھے لادے حالانکہ قرآن یاتینی بعرش لھا نہیں بلکہ بعرشھا کہہ رہا ہے جس کے معنی اس کا تخت ہیں نہ کہ اس کے لیے ایک تخت یہ بات صرف اس لیے بنائی گئی ہے کہ قرآن کے اس بیان سے کسی طرح پیچھا چھڑایا جائے کہ حضرت سلیمان اس ملکہ ہی کا تخت یمن سے بیت المقدس اٹھوا منگانا چاہتے تھے اور وہ بھی اسی طرح کہ ملکہ کے پہنچنے سے پہلے پہلے وہ آجائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

12: حضرت سلیمان (علیہ السلام) در اصل یہ چاہتے تھے کہ جب ملکہ آئے تو اس کے سامنے ان کا یہ معجزہ ظاہر ہو کہ اتنا بھاری تخت ملکہ کے آنے سے پہلے ہی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس پہنچ گیا، اور اس طرح ان کی طاقت کا بھی مظاہرہ ہو۔