Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

371یہاں صیغہ واحد سے مخاطب کیا جب کہ اس سے قبل صیغہ جمع سے خطاب کیا تھا کیونکہ خطاب میں کبھی پوری جماعت کو ملحوظ رکھا گیا ہے کبھی امیر کو۔ 372حضرت سلیمان (علیہ السلام) نرے بادشاہ ہی نہیں تھے، اللہ کے پیغمبر بھی تھے۔ اس لئے ان کی طرف سے لوگوں کو ذلیل خوار کیا جانا ممکن نہیں تھا، لیکن جنگ و قتال کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کیونکہ جنگ نام ہی کشت و خون اور اسیری کا ہے اور ذلت و خواری سے یہی مراد ہے، ورنہ اللہ کے پیغمبر لوگوں کو خواہ مخواہ ذلیل خوار نہیں کرتے۔ جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طرز عمل اور اسوہ، حسنہ جنگوں کے موقع پر رہا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِرْجِعْ اِلَيْهِمْ فَلَنَاْتِيَنَّهُمْ بِجُنُوْدٍ ۔۔ : یہاں کچھ عبارت محذوف ہے، یعنی یہ تحفے تحائف لے کر واپس چلے جاؤ اور انھیں بتاؤ کہ اگر وہ تابع فرمان ہو کر حاضر نہ ہوئے تو ہم ان پر ایسے لشکر لے کر آئیں گے جن کے مقابلے کی ان میں کوئی طاقت نہ ہوگی۔ - وَلَنُخْرِجَنَّهُمْ مِّنْهَآ اَذِلَّةً وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ : ذلت یہ کہ سلطنت اور حکومت چھن جائے گی اور ” صغار “ (حقارت اور پستی) یہ کہ غلام اور قیدی بنیں گے، یا جلاوطن کیے جائیں گے۔ یہ معاملہ صرف ملکہ سبا کے ساتھ خاص نہیں بلکہ مسلمانوں کو تمام دنیا کے کفار سے لڑتے رہنے کا حکم ہے، حتیٰ کہ وہ مسلمان ہوجائیں یا اپنے ہاتھ سے جزیہ دینے کی ذلت قبول کریں اور مسلمانوں کے سامنے پست اور حقیر ہوں، جیسا کہ فرمایا : (قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَلَا بالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ ) [ التوبۃ : ٢٩ ] ” لڑو ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخر پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں، ان لوگوں میں سے جنھیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ دیں اور وہ حقیر ہوں۔ “- افسوس اس کتاب ہدایت نے تو سلیمان (علیہ السلام) کے واقعہ کے ساتھ بھی اور صریح الفاظ میں بھی مسلمان کو حکم دیا تھا کہ تمام دنیا کے کفار سے لڑتے رہو، حتیٰ کہ وہ اسلام قبول کرلیں یا اپنے ہاتھ سے جزیہ دے کر مسلمانوں کے ماتحت ہو کر زندگی بسر کریں، مگر مسلمانوں نے یہ سبق بھلا دیا اور شہادت اور جنت کی لذتوں کی طلب کے بجائے دنیائے فانی کے عیش و عشرت میں کھو گئے اور جہاد سے ہاتھ اٹھا بیٹھے۔ نتیجہ کفار کی ذلّت و پستی کے بجائے مسلمانوں کی ذلّت و پستی کی صورت میں سب کے سامنے ہے اور بقول امام مالک (رض) : ” لَنْ یَّصْلُحَ آخِرُ ھٰذِہِ الْأُمَّۃِ إِلَّا بِمَا صَلُحَ بِہِ أَوَّلُھَا “ [ شرح سنن أبي داوٗد لعبد المحسن العباد : ٢؍٣٣٤ ] ” اس امت کے آخر کی اصلاح بھی اسی نسخے کے ساتھ ہوگی جس کے ساتھ اس امت کے اول کی اصلاح ہوئی تھی۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِرْجِعْ اِلَيْہِمْ فَلَنَاْتِيَنَّہُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَہُمْ بِہَا وَلَنُخْرِجَنَّہُمْ مِّنْہَآ اَذِلَّۃً وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ۝ ٣٧- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - جند - يقال للعسکر الجُنْد اعتبارا بالغلظة، من الجند، أي : الأرض الغلیظة التي فيها حجارة ثم يقال لكلّ مجتمع جند، نحو : «الأرواح جُنُودٌ مُجَنَّدَة» «2» . قال تعالی: إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] - ( ج ن د ) الجند - کے اصل معنی سنگستان کے ہیں معنی غفلت اور شدت کے اعتبار سے لشکر کو جند کہا جانے لگا ہے ۔ اور مجازا ہر گروہ اور جماعت پر جند پر لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ( حدیث میں ہے ) کہ ارواح کئ بھی گروہ اور جماعتیں ہیں قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] اور ہمارا لشکر غالب رہے گا ۔- ( قبل) مُقَابَلَةُ والتَّقَابُلُ- : أن يُقْبِلَ بعضهم علی بعض، إمّا بالذّات، وإمّا بالعناية والتّوفّر والمودّة . قال تعالی: مُتَّكِئِينَ عَلَيْها مُتَقابِلِينَ [ الواقعة 16] ، إِخْواناً عَلى سُرُرٍ مُتَقابِلِينَ [ الحجر 47] ، ولي قِبَلَ فلانٍ كذا، کقولک : عنده . قال تعالی: وَجاءَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَهُ [ الحاقة 9] ، فَمالِ الَّذِينَ كَفَرُوا قِبَلَكَ مُهْطِعِينَ [ المعارج 36] ، ويستعار ذلک للقوّة والقدرة علی الْمُقَابَلَةِ ،- المقابلۃ والتقابل - کے معنی ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہونے کے ہیں خواہ وہ توجہ بذریعہ ذات کے ہو یا بذریعہ عنایت اور سورت کے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ مُتَّكِئِينَ عَلَيْها مُتَقابِلِينَ [ الواقعة 16] آمنے سامنے تکیہ لگائے ہوئے ۔ إِخْواناً عَلى سُرُرٍ مُتَقابِلِينَ [ الحجر 47] بھائی بھائی تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ لی قبل فلان کذا کے معنی ہیں میرے فلاں کی جانب اتنے ہیں اور یہ عندہ کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجاءَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَهُ«7» [ الحاقة 9] اور فرعون اوع جو لوگ اس سے پہلے تھے سب ۔۔۔۔ کرتے تھے ۔ فَمالِ الَّذِينَ كَفَرُوا قِبَلَكَ مُهْطِعِينَ [ المعارج 36] تو ان کا فروں کو کیا ہوا ہے کہ تمہاری طرف دوڑتے چلے آتے ہیں ۔ اور استعارہ کے طور پر قوت اور قدرت علی المقابل کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - ذلت - يقال : الذُّلُّ والقُلُّ ، والذِّلَّةُ والقِلَّةُ ، قال تعالی: تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج 44] ، وقال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، وقال : سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف 152] ، وذَلَّتِ الدّابة بعد شماس «6» ، ذِلًّا، وهي ذَلُولٌ ، أي : ليست بصعبة، قال تعالی: لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة 71] ،- بغیر تاء کے ذل اور تار کے ساتھ ذلتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ قل اور قلتہ ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج 44] اور ان کے مونہوں پر ذلت چھا جائے گی ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور ( آخری کار ) زلت ( اور رسوائی ) اور محتاجی ( اور بےتوانائی ) ان سے چنٹادی گئی ۔ سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف 152] پروردگار کا غضب واقع ہوگا اور ذلت ( نصیب ہوگی ) منہ زوزی کے بعد سواری کا مطیع ہوجانا اور اس قسم کی مطیع اور مئقاد سواری کا ذلول ( صفت فاعلی ) کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة 71] کہ وہ بیل کام میں لگا ہوا نہ ۔ نہ تو زمین جوتتا ہو ۔- صغر - والصَّاغِرُ : الرّاضي بالمنزلة الدّنيّة، قال تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صاغِرُونَ [ التوبة 29] .- ( ص غ ر ) الصغریہ - صغر صغر وصغار ا کے معنی ذلیل ہونے کے ہیں اور ذلیل اور کم مر تبہ آدمی کو جو اپنی ذلت پر قائع ہو صاغر کہتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صاغِرُونَ [ التوبة 29] یہاں تک کہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جز یہ دیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٧) اپنے تحائف لے کر ان لوگوں کے پاس لوٹ جاؤ ہم ان پر ایسی فوجیں بھیجتے ہیں کہ ان لوگوں سے ان کا ذرا بھی مقابلہ نہیں ہو سکے گا اور ہم ان کو ملک سبا سے اطاعت کا طوق ان کی گردنوں میں ڈال کر نکال دیں گے اور وہ ذلت کے ساتھ ہمیشہ ہمارے ماتحت ہوجائیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ (اِرْجِعْ اِلَیْہِمْ فَلَنَاْتِیَنَّہُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَہُمْ بِہَا وَلَنُخْرِجَنَّہُمْ مِّنْہَآ اَذِلَّۃً وَّہُمْ صَاغِرُوْنَ ) ” - یعنی انہیں یا تو ہماری پہلی بات ماننا پڑے گی کہ وہ مسلم (مطیع) ہو کر ہمارے پاس حاضر ہوجائیں ‘ ورنہ ہم ان پر لشکر کشی کریں گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 42 پہلے فقرے اور اس فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جو کلام پر غور کرنے سے خود بخود سمجھ میں آجاتا ہے ، یعنی پوری بات یوں ہے کہ اے سفیر یہ ہدیہ واپس لے جا اپنے بھیجنے والوں کی طرف ، انہیں یا تو ہماری پہلی بات ماننی پڑے گی کہ مسلم ہوکر ہمارے پاس حاضر ہوجائیں ورنہ ہم ان پر لشکر لے کر آئیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani