4 2 1ردو بدل سے چونکہ اس کی وضع شکل میں کچھ تبدیلی آگئی تھی، اس لئے اس نے صاف الفاظ میں اس کے اپنے ہونے کا اقرار بھی نہیں کیا اور ردو بدل کے باوجود انسان پھر بھی اپنی چیز کو پہچان لیتا ہے، اس لئے اپنے ہونے کی نفی بھی نہیں کی۔ اور یہ کہا گویا یہ وہی ہے اس میں اقرار ہے نہ نفی۔ بلکہ نہایت محتاط جواب ہے۔ 4 2 2یعنی یہاں آنے سے قبل ہی ہم سمجھ گئے تھے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں اور آپ کے مطیع و منقاد ہوگئے تھے۔ لیکن امام ابن کثیر و شوکانی وغیرہ نے اسے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا قول قرار دیا ہے کہ ہمیں پہلے ہی یہ علم دے دیا گیا تھا کہ ملکہ سبا تابع فرمان ہو کر حاضر خدمت ہوگی۔
[٤٠] بلقیس جب حضرت سلیمان کے دربار میں پہنچی تو اسے تخت دکھا کر پہلا سوال ہی یہ کیا گیا کہ کیا تمہارے پاس بھی ایسا تخت ہے ؟ وہ بڑی عقلمند عورت تھی اس نے فوراً پہچان لیا کہ یہ تخت اسی کا ہے۔ البتہ اس میں کچھ تبدیلیاں کر لیگئی ہیں۔ لہذا اس نے جواب بی سوال کے مطابق دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو بالکل ویسا ہی لگتا ہے اگر اس سے یہ سوال کیا جاتا کہ کیا یہ تیرا تخت ہے۔ تب وہ یہ جواب دیتی کہ ہاں یہ میرا ہی تخت ہے۔ اس امتحان سے حصرت سلیمان نے اس کے عقلمند ہونے کا اندازہ کرلیا۔- اس سوال کے بعد جو بات سلیمان (علیہ السلام) اسے سمجھانا چاہتے تھے اس کا اس نے خود ہی اظہار کردیا اور کہنے لگی۔ یہ عرش کے یہاں لانے کا کام واقعی معجزانہ ہے جو آپ کی نبوت پر دلیل ہے۔ لیکن ہمیں تو اس سے پہلے ہی آپ کے متعلق بہت کچھ معلومات حاصل ہوچکی ہیں۔ اور آپ کے تابع فرمان بن کر ہی یہاں آئے ہیں۔
فَلَمَّا جَاۗءَتْ قِيْلَ اَهٰكَذَا عَرْشُكِ ۔۔ : جب ملکہ سبا آئی تو سلیمان (علیہ السلام) نے اس سے پوچھا : ” کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے ؟ “ سلیمان (علیہ السلام) کے سوال میں ان کی کمال ذہانت ظاہر ہو رہی ہے، انھوں نے یہ نہیں فرمایا کہ کیا یہ تمہارا تخت ہے ؟ کیونکہ اس میں جواب کا بھی اشارہ ہوجاتا اور وہ کہہ دیتی کہ ہاں یہ میرا ہی تخت ہے۔ اس کے بجائے سلیمان (علیہ السلام) نے موجودہ تخت کو الگ تخت ظاہر کیا اور پوچھا : ” کیا تمہارا تخت ایسا ہی ہے ؟ “ ملکہ کے جواب سے اس کی عقل مندی معلوم ہوتی ہے، اگر وہ کہتی کہ ہاں میرا تخت ایسا ہی ہے تو ثابت ہوجاتا کہ اس نے اپنا تخت نہیں پہچانا اور اگر کہتی کہ یہ وہی ہے تو شناخت بدلنے کی وجہ سے اسے ایسا کہنا مشکل تھا، اس لیے اس نے تھوڑے سے شک کے الفاظ کے ساتھ کہا : ” یہ تو گویا وہی ہے۔ “ اس طرح وہ امتحان میں کامیاب ہوگئی۔- وَاُوْتِيْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِيْنَ : یعنی ہمیں تو اس سے پہلے ہی آپ کی قوت و شوکت اور عظیم سلطنت کا علم ہوگیا تھا اور ہم تابع فرمان ہوچکے تھے، اسی لیے خدمت میں حاضر ہوگئے ہیں۔
خلاصہ تفسیر - (سلیمان (علیہ السلام) نے یہ سب سامان کر رکھا تھا، پھر بلقیس پہنچی) سو جب بلقیس آئی تو اس سے (تخت دکھا کر) کہا گیا (خواہ سلیمان (علیہ السلام) نے خود کہا ہو یا کسی سے کہلوایا ہو) کہ کیا تمہارا تخت ایسا ہی ہے ؟ وہ کہنے لگی کہ ہاں ہے تو ویسا ہی (بلقیس سے اس طور پر اس لئے سوال کیا کہ ہیئت تو بدل دی گئی تھی اپنی اصل کے اعتبار سے تو وہی تخت تھا اور صورت وہ نہ تھی۔ اس لئے یوں نہیں کہا کہ کیا یہی تمہارا تخت ہے بلکہ یہ کہا کہ ایسا ہی تمہارا تخت ہے اور بلقیس اس کو پہچان گئی اور اس کے بدل دینے کو بھی سمجھ گئی اس لئے جواب بھی مطابق سوال کے دیا) اور (یہ بھی کہا کہ) ہم لوگوں کو تو اس واقعہ سے پہلے ہی (آپ کی نبوت کی) تحقیق ہوچکی ہے اور ہم (اسی وقت سے دل سے) مطیع ہوچکے ہیں (جب قاصد سے آپ کے کمالات معلوم ہوئے تھے اس معجزہ کی چنداں حاجت نہ تھی) اور (چونکہ اس معجزہ سے قبل تصدیق و اعتقاد کرلینا کمال عقل کی دلیل ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس کے عاقل ہونے کی تقریر فرماتے ہیں کہ فی الواقع وہ تھی سمجھدار مگر چند روز تک جو ایمان نہ لائی تو وجہ اس کی یہ ہے کہ) اس کو (ایمان لانے سے) غیر اللہ کی عبادت نے (جس کی اس کو عادت تھی) روک رکھا تھا (ور وہ عادت اس لئے پڑگئی تھی کہ) وہ کافر قوم میں کی تھی (پس جو سب کو دیکھا وہی آپ کرنے لگی اور قومی عادات اکثر اوقات انسان کے سوچنے سمجھنے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں مگر چونکہ عاقل تھی اس لئے جب تنبیہ کی گئی تو سمجھ گئی۔ اس کے بعد سلیمان (علیہ السلام) نے یہ چاہا کہ علاوہ اعجاز و شان نبوت دکھلانے کے اس کو ظاہری شان سلطنت بھی دکھلا دی جائے تاکہ اپنے کو دنیا کے اعتبار سے بھی عظیم نہ سمجھے اس لئے ایک شیش محل بنوا کر اس کے صحن میں حوض بنوایا اور اس میں پانی اور مچھلیاں بھر کر اس کو شیشہ سے پاٹ دیا۔ اور شیشہ ایسا شفاف تھا کہ ظاہر نظر میں نظر نہ آتا تھا اور وہ حوض ایسے موقع پر تھا کہ اس محل میں جانے والے کو لامحالہ اس پر سے عبور کرنا پڑے۔ چناچہ اس تمام سامان کے بعد) بلقیس سے کہا گیا کہ اس محل میں داخل ہو (ممکن ہے وہی محل قیام کے لئے تجویز کیا ہو، غرض وہ چلیں راہ میں حوض آیا) تو جب اس کا صحن دیکھا تو اس کو پانی (سے بھرا ہوا) سمجھا اور (چونکہ قرینہ سے پایاب گمان کیا اس لئے اس کے اندر گھسنے کے لئے (دامن اٹھائے اور) اپنی دونوں پنڈلیاں کھول دیں (اس وقت) سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ تو محل ہے جو (سب کا سب مع صحن) شیشوں سے بنایا گیا ہے (اور یہ حوض بھی شیشہ سے پٹا ہوا ہے۔ دامن اٹھانے کی ضرورت نہیں اس وقت) بلقیس (کو معلوم ہوگیا کہ یہاں پر دنیوی صنعت کاری کے عجائب بھی ایسے ہیں جو آج تک میں نے آنکھ سے نہیں دیکھے تو ان کے دل میں ہر طرح سے سلیمان (علیہ السلام) کی عظمت پیدا ہوئی اور بےساختہ) کہنے لگی کہ اے میرے پروردگار میں نے (اب تک) اپنے نفس پر ظلم کیا تھا (کہ شرک میں مبتلا تھی) اور میں (اب) سلمان (علیہ السلام) کے ساتھ (یعنی ان کے طریق پر) ہو کر رب العالمین پر ایمان لائی۔
فَلَمَّا جَاۗءَتْ قِيْلَ اَہٰكَذَا عَرْشُكِ ٠ۭ قَالَتْ كَاَنَّہٗ ہُوَ ٠ۚ وَاُوْتِيْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہَا وَكُنَّا مُسْلِـمِيْنَ ٤٢- عرش - العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100]- ( ع رش ) العرش - اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ - إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی
(٤٢) چناچہ جب بلقیس آئیں تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ان کو تخت دکھا کر فرمایا کہ کیا تمہارا تخت ایسا ہی ہے وہ کہنے لگیں ہاں ہے تو ایسا ہی اور ہمیں تو اس واقعہ سے پہلے ہی آپ کی نبوت کی تحقیق ہوگئی۔
آیت ٤٢ (فَلَمَّا جَآءَ تْ قِیْلَ اَہٰکَذَا عَرْشُکِط قَالَتْ کَاَنَّہٗ ہُوَ ج) ” - چنانچہ اس نے اپنے تخت کو پہچان لیا۔ یعنی وہ واقعی ایک ذہین اور سمجھ دار عورت تھی۔ اس سے پہلے آیت ٤٣ میں فاتح بادشاہوں کے بارے میں اس کا تبصرہ بھی اس کی ذہانت اور دانش مندی کا ثبوت ہے۔- (وَاُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہَا وَکُنَّا مُسْلِمِیْنَ ) ” - یعنی میرے تخت کا یہاں پہنچ جانا اب میرے لیے کوئی بہت بڑی حیرت کی بات نہیں۔ آپ ( علیہ السلام) کا اللہ کے ہاں جو مقام و مرتبہ ہے اس کے بارے میں مجھے بہت پہلے ہی علم ہوچکا ہے اور اسی وجہ سے ہم مسلمان ہو کر آپ ( علیہ السلام) کی اطاعت قبول کرچکے ہیں۔
سورة النمل حاشیہ نمبر : 52 اس سے ان لوگوں کے خیالات کی بھی تردید ہوجاتی ہے جنہوں نے صورت واقعہ کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے کہ گویا حضرت سلیمان اپنی مہمان ملکہ کے لیے ایک تخت بنوانا چاہتے تھے ، اس غرض کے لیے انہوں نے ٹینڈر طلب کیے ، ایک ہٹے کٹے کاریگر نے کچھ زیادہ مدت میں تخت بنا دینے کی پیش کش کی ، مگر ایک دوسرے ماہر استاد نے کہا میں ترت پھرت بنائے دیتا ہوں ، اس سارے نقشے کا تارو پود اس بات سے بکھر جاتا ہے کہ حضرت سلیمان نے خود ملکہ ہی کا تخت لانے کے لیے فرمایا تھا ( اَيُّكُمْ يَاْتِيْنِيْ بِعَرْشِهَا ) اور اس کی آمد پر اپنے ملازموں کو اسی کا تخت انجام طریقے سے اس کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا تھا ( نَكِّرُوْا لَهَا عَرْشَهَا ) پھر جب وہ آئ تو اس سے پوچھا گیا کہ کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے ( اَهٰكَذَا عَرْشُكِ ) اور اس نے کہا گویا یہ وہی ہے ( كَاَنَّهٗ هُوَ ) اس صاف بیان کی موجودگی میں ان لا طائل تاویلات کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے ، اس پر بھی کسی کو شک رہے تو بعد کا فقرہ اسے مطمئن کرنے کے لیے کافی ہے ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 53 یعنی یہ معجزہ دیکھنے سے پہلے ہی سلیمان علیہ السلام کے جو اوصاف اور حالات ہمیں معلوم ہوچکے تھے ان کی بنا پر ہمیں یقین ہوگیا تھا کہ وہ اللہ کے نبی ہیں ، محض ایک سلطنت کے فرمانروا نہیں ہیں ، تخت کو دیکھنے اور گویا یہ وہی ہے کہنے کے بعد اس فقرے کا اضافہ کرنے میں آخر کیا معنویت باقی رہ جاتی ہے ، اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ حضرت سلیمان نے اس کے لیے ایک تخت بنوا کر رکھ دیا تھا ؟ بالفرض اگر وہ تخت ملکہ کے تخت سے مشابہ ہی تیار کرا لیا گیا ہو تب بھی اس میں آخر وہ کیا کمال ہوسکتا تھا کہ ایک آفتاب پرست ملکہ اسے دیکھ کر یہ بول اٹھتی کہ ( اُوْتِيْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِيْنَ ) ہم کو پہلے ہی علم نصیب ہوگیا تھا اور ہم مسلم ہوچکے تھے ۔
16: بلقیس سمجھ گئی کہ اس تخت کی شکل میں کچھ رد وبدل کیا گیا ہے اس لئے اس نے ایک طرف تو یقین ظاہر کرنے کے بجائے یہ کہا کہ ایسا لگتا ہے، لیکن دوسری طرف یہ بھی ظاہر کردیا کہ وہ اپنے تخت کو پہچان گئی ہے۔ 17: یعنی مجھے آپ کی سچائی کا یقین کرنے کے لئے یہ معجزہ دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ آپ کے ایلچیوں کے ذریعے آپ کے جو حالات مجھے معلوم ہوئے تھے ان کی وجہ سے مجھے پہلے ہی آپ کی سچائی کا علم حاصل ہوگیا تھا اور ہم نے آپ کی تابع داری میں سرجھکانے کا ارادہ کرلیا تھا۔