4 3 1یعنی اسے اللہ کی عبادت سے جس چیز نے روک رکھا تھا وہ غیر اللہ کی عبادت تھی، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا تعلق ایک کافر قوم سے تھا، اس لئے توحید کی حقیقت سے بیخبر رہی، یعنی اللہ نے یا اللہ کے حکم سے سلیمان (علیہ السلام) نے اسے غیر اللہ کی عبادت سے روک دیا ؛ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے (فتح القدیر)
[٤١] اس آیت کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد سمجھایا جائے۔ جیسا کہ ترجمہ میں بیان ہوا ہے اس لحاظ سے اس کا معنی یہ ہوگا کہ چونکہ اسے ماحول کافرانہ اور مشرکانہ ملا تھا۔ لہذا وہ بھی قوم کی دیکھا دیکھی سورج کی پرستش کرنے لگی تھی۔ ورنہ اگر وہ کچھ بھی عقل سے کام لیتی تو ایسے شرک میں مبتلا نہ ہوتی۔ اور دوسرا مطلب ہے کہ اس جملہ کو حصرت سلیمان (علیہ السلام) کا فعل تسلیم کیا جائے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے بلقیس کو ان تمام چیزوں کی پرستش سے روک دیا جن کی وہ اپنے زمانہ کفر میں پرستش کیا کرتی تھی۔
وَصَدَّهَا مَا كَانَتْ تَّعْبُدُ ۔۔ : یعنی اتنا بڑا معجزہ دیکھنے کے باوجود اسے ایمان لانے سے روکا تو آفتاب نے جسے وہ اللہ کے سوا معبود بنا بیٹھی تھی اور اسے چھوڑنے پر تیار نہ تھی اور اس کے سورج پرستی پر جمے رہنے کی وجہ بھی اس کی ہٹ دھرمی نہ تھی، بلکہ وجہ یہ تھی کہ وہ کافر قوم سے تھی اور اپنی قوم کے رسم و رواج کو ترک کرنا اس کے لیے مشکل تھا۔ یہ ترجمہ ” مَا “ موصولہ کی صورت میں ہے۔ ” مَا “ مصدریہ کی صورت میں ترجمہ یہ ہوگا : ” اور اسے (ایمان لانے سے) روکا تو اس عبادت نے جو وہ اللہ کے سوا معبودوں کی کرتی تھی۔ “ بعض اہل علم نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے : ” سلیمان (علیہ السلام) نے اسے ان چیزوں سے روک دیا جن کی وہ اللہ کے سوا عبادت کرتی تھی۔ “ حافظ ابن کثیر اور دوسرے ائمہ نے اس معنی کے بجائے پہلے معنی کو ترجیح دی ہے، کیونکہ ملکہ سبا نے شیشے کے ملائم فرش کو پانی سمجھنے کی غلطی پر متنبہ ہونے کے بعد ایمان قبول کیا، اس سے پہلے وہ اپنی قوم کے رسم و رواج پر قائم تھی۔
وَصَدَّہَا مَا كَانَتْ تَّعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللہِ ٠ۭ اِنَّہَا كَانَتْ مِنْ قَوْمٍ كٰفِرِيْنَ ٤٣- صدد - الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً- ، [ النساء 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] - ( ص د د ) الصدود والصد - ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ - عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
(٤٣) اور ہم تو اسی وقت سے فرمانبردار ہوگئے تھے یا یہ کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس تبدیلی کی سمجھ اور بلقیس کے آنے سے پہلے انکے تخت لانے کی قوت عطا فرمائی اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ان کو یا اللہ تعالیٰ نے سورج کی پوجا سے بلقیس کو روک دیا کیوں کہ وہ پہلے مجوس قوم میں سے تھیں۔
سورة النمل حاشیہ نمبر : 54 یہ فقرہ اللہ تعالی کی طرف سے اس کی پوزیشن واضح کرنے کے لیے ارشاد ہوا ہے ، یعنی اس میں ضد اور ہٹ دھرمی نہ تھی ، وہ اس وقت تک صرف اس لیے کافر تھی کہ کافر قوم میں پیدا ہوئی تھی ، ہوش سنبھالنے کے بعد اس کو جس چیز کے آگے سجدہ ریز ہونے کی عادت پڑی ہوئی تھی ، بس وہی اس کے راستے میں ایک رکاوٹ بن گئی تھی ، حضرت سلیمان سے سابقہ پیش آنے پر جب اس کی آنکھیں کھلیں تو اس رکاوٹ کے ہٹ جانے میں ذرا سی دیر بھی نہ لگی ۔
18: بلقیس نے چونکہ سمجھ کی بات کی تھی کہ ہمیں پہلے ہی آپ کی سچائی کا علم ہوچکا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے بھی اس کی تعریف فرمائی کہ وہ ایک سمجھ دار عورت تھی، اور اب تک وہ جو ایمان نہیں لائی تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی ساری قوم کافر تھی، اور انسان جب ایسے ماحول میں ہو تو بے سوچے سمجھے ماحول کے مطابق کام کرتا رہتا ہے، لیکن جب اسے توجہ دلائی گئی تو اس نے حق بات کے ماننے میں دیر نہیں لگائی۔