Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ہم جنسوں سے جنسی تعلق ( نتیجہ ایڈز ) اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور رسول حضرت لوط علیہ السلام کا واقعہ بیان فرما رہا ہے کہ آپ نے اپنی امت یعنی اپنی قوم کو اس کے نالائق فعل پر جس کا فاعل ان سے پہلے کوئی نہ ہوا تھا ۔ یعنی اغلام بازی پر ڈرایا ۔ تمام قوم کی یہ حالت تھی کہ مرد مردوں سے عورت عورتوں سے شہوت رانی کرلیا کرتی تھیں ۔ ساتھ ہی اتنے بےحیا ہوگئے تھے کہ اس پاجی فعل کو پوشیدہ کرنا بھی کچھ ضروری نہیں جانتے تھے ۔ اپنے مجمعوں میں واہی فعل کرتے تھے ۔ عورتوں کو چھوڑ مردوں کے پاس آتے تھے اس لئے آپ نے فرمایا کہ اپنی اس جہالت سے باز آجاؤ تم تو ایسے گئے گزرے اور اتنے نادان ہوئے کہ شرعی پاکیزگی کے ساتھ ہی تم سے طبعی بھی جاتی رہی ۔ جیسے دوسری آیت میں ہے ( اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِيْنَ ١٦٥؀ۙ ) 26- الشعراء:165 ) کیا تم مردوں کے پاس آتے ہو اور عورتوں کو جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے جوڑ بنائے ہیں چھوڑتے ہو؟ بلکہ تم حد سے نکل جانے والے لوگ ہو ۔ قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ جب لوط اور لوط والے تمہارے اس فعل سے بیزار ہیں اور نہ وہ تمہاری مانتے ہیں نہ تم ان کی ۔ تو پھر ہمیشہ کی اس بحث و تکرار کو ختم کیوں نہیں کردیتے؟ لوط علیہ السلام کے گھرانے کو دیس نکالا دے کر ان کے روزمرہ کے کچوکوں سے نجات حاصل کرلو ۔ جب کافروں نے پختہ ارادہ کرلیا اور اس پر جم گئے اور اجماع ہوگیا تو اللہ نے انہیں کو ہلاک کردیا اور اپنے پاک بندے حضرت لوط کو اور ان کی اہل کو ان سے جو عذاب ان پر آئے ان سے بچالیا ۔ ہاں آپ کی بیوی جو قوم کے ساتھ ہی تھی وہ پہلے سے ہی ان ہلاک ہونے والوں میں لکھی جا چکی تھی وہ یہاں باقی رہ گئی اور عذاب کے ساتھ تباہ ہوئی کیونکہ یہ انہیں ان کے دین اور ان کے طریقوں میں مدد دیتی تھی انکی بد اعمالیوں کو پسند کرتی تھی ۔ اسی نے حضرت لوط علیہ السلام کے مہمانوں کی خبر قوم کو دی تھی ۔ لیکن یہ خیال رہے کہ معاذاللہ ان کی اس فحش کاری میں یہ شریک نہ تھی ۔ اللہ کے نبی علیہ السلام کی بزرگی کے خلاف ہے کہ ان کی بیوی بدکار ہو ۔ اس قوم پر آسمان سے پتھر برسائے گئے جن پر ان کے نام کندہ تھے ہر ایک پر اسی کے نام پتھر آیا اور ایک بھی ان میں سے بچ نہ سکا ۔ ظالموں سے اللہ کی سزا دور نہیں ۔ ان پر حجت ربانی قائم ہوچکی تھی ۔ انہیں ڈرایا اور دھمکایا جاچکا تھا ۔ تبلیغ رسالت کافی طور پر ہوچکی تھی ۔ لیکن انہوں نے مخالفت میں جھٹلانے میں اور اپنی بے ایمانی پر اڑنے میں کمی نہیں کی ۔ نبی اللہ علیہ السلام کو تکلیفیں پہنچائیں بلکہ انہیں نکال دینے کا ارادہ کیا اس وقت اس بدترین بارش نے یعنی سنگ باری نے انہیں فناکردیا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

541یعنی لوط (علیہ السلام) کا قصہ یاد کرو، جب لوط (علیہ السلام) نے کہا یہ قوم عموریہ اور سدوم بستیوں میں رہائش پذیر تھی۔ 542یعنی یہ جاننے کے باوجود کہ یہ بےحیائی کا کام ہے۔ یہ بصارت قلب ہے۔ اور اگر بصارت ظاہری یعنی آنکھوں سے دیکھنا مراد ہو تو معنی ہونگے کہ نظروں کے سامنے یہ کام کرتے ہو، یعنی تمہاری سرکشی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ چھپنے کا تکلف بھی نہیں کرتے ہو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٣] یہاں لفظ تبصرون استعمال ہوا ہے جو دیکھنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور سمجھنے کے معنوں میں بھی۔ اس لحاظ سے ان دو آیات کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ تم خود بھی یہ سمجھتے ہو کہ یہ گندا اور بےحیائی کا کام ہے۔ اور خلاف فطرت ہے۔ حقیر سے حقیر جانور بھی ایسا کام نہیں کرتے تم اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود ایسا کام کرتے ہو۔ دوسرا یہ کہ تم خوب سمجھتے ہو کہ اس کام کے لئے اللہ نے بیویاں پیدا کی ہیں۔ لیکن تم ان سے بےتعلق ہو کر مرعوں سے ہی یہ کام کرتے ہو۔ تیسرے یہ کہ تم اس قدر بےحیا ہوچکے ہو کہ ایک دوسرے کی آنکھوں کے سامنے یہ کام کرتے ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖٓ ۔۔ : لوط (علیہ السلام) کے قصے کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٨٠ تا ٨٤) ، ہود (٧٧ تا ٨٣) ، حجر (٦١ تا ٧٧) ، انبیاء (٧١ تا ٧٥) ، شعراء (١٦٠ تا ١٧٥) ، عنکبوت (٢٨ تا ٣٥) ، صافات (١٣٣ تا ١٣٨) اور قمر (٣٣ تا ٣٩) ۔ صالح (علیہ السلام) کے واقعہ کے بعد، جو قرابت رکھنے والوں کی طرف مبعوث تھے اور جن کی قوم مومن و کافر دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی تھی، اس پیغمبر کا ذکر کیا جو اپنی قوم میں اجنبی تھا اور جس پر اہل سدوم میں سے ایک شخص بھی ایمان نہیں لایا، یہ پیغمبر لوط (علیہ السلام) تھے۔ ” اَلْفَاحِشَةُ “ وہ کام جو برائی میں انتہا کو پہنچا ہوا ہو۔ ” تبصرون “ یہ بصیرت سے بھی ہوسکتا ہے اور بصارت سے بھی۔ بصیرت سے ہو تو مطلب یہ کہ تم یہ انتہائی بےحیائی کا کام کرتے ہو جب کہ خود بھی سمجھتے ہو کہ یہ گندا اور خلاف فطرت فعل ہے، جو تم سے پہلے کسی قوم نے نہیں کیا اور حقیر سے حقیر جانور بھی ایسا کام نہیں کرتے اور بصارت سے ہو تو مطلب یہ ہے کہ تم اس قدر بےحیا ہوچکے ہو کہ ایک دوسرے کی آنکھوں کے سامنے یہ کام کرتے ہو، جیسا کہ فرمایا : (وَتَاْتُوْنَ فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَ ) [ العنکبوت : ٢٩ ] ” اور تم اپنی مجلس میں برا کام کرتے ہو۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو (پیغمبر کر کے ان کی قوم کے پاس) بھیجا تھا جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا تم یہ بےحیائی کا کام کرتے ہو حالانکہ سمجھدار ہو (کیا اس کی برائی نہیں سمجھتے، آگے اس بےحیائی کا بیان ہے یعنی) کیا تم مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو عورتوں کو چھوڑ کر (اس کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی) بلکہ (اس معاملے میں) تم (محض) جہالت کر رہے ہو (اس تقریر کا) ان کی قوم سے کوئی (معقول) جواب نہ بن پڑا بجز اس کے کہ آپس میں کہنے لگے کہ لوط (علیہ السلام) کے لوگوں کو (یعنی ان پر ایمان لانے والوں کو مع ان کے) تم اپنی بستی سے نکال دو (کیونکہ) یہ لوگ بڑے پاک صاف بنتے ہیں سو (جب یہاں تک نوبت پہنچ گئی تو) ہم نے (اس قوم پر عذاب نازل کیا اور) لوط (علیہ السلام) کو اور ان کے متعلقین کو (اس عذاب سے) بچا لیا بجز ان کی بیوی کے کہ اس کو (بوجہ ایمان نہ لانے کے) ہم نے انہیں لوگوں میں تجویز کر رکھا تھا جو عذاب میں رہ گئے تھے اور (وہ عذاب جو ان پر نازل ہوا یہ تھا کہ) ہم نے ان پر ایک نئی طرح کا مینہ برسایا (کہ وہ پتھروں کی بارش تھی) سو ان لوگوں کا کیسا برا مینہ تھا جو (اول عذاب خدا سے ڈرائے گئے تھے (جس پر انہوں نے التفات نہ کیا) آپ (بیان توحید کے لئے بطور خطبہ کے) کہئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے سزاوار ہیں اور اس کے ان بندوں پر سلام (نازل) ہو جن کو اس نے منتخب فرمایا ہے (یعنی انبیاء و صلحاء۔ آگے مضمون ہماری طرف سے بیان کیجئے وہ یہ کہ لوگو یہ بتلاؤ کہ کیا (کمالات اور احسانات میں) اللہ بہتر ہے یا وہ چیزیں (بہتر ہیں) جن کو (الوہیت میں) شریک ٹھہراتے ہیں (یعنی ظاہر اور مسلم ہے کہ اللہ ہی بہتر ہے پس مستحق عبادت بھی وہی ہوگا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ۝ ٥٤- لوط - لُوطٌ: اسم علم، واشتقاقه من لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، وفي الحدیث : «الولد أَلْوَطُ- أي : ألصق۔ بالکبد» وهذا أمر لا يَلْتَاطُ بصفري . أي : لا يلصق بقلبي، ولُطْتُ الحوض بالطّين لَوْطاً : ملطته به، وقولهم : لَوَّطَ فلان : إذا تعاطی فعل قوم لوط، فمن طریق الاشتقاق، فإنّه اشتقّ من لفظ لوط الناهي عن ذلک لا من لفظ المتعاطین له .- ( ل و ط ) لوط - ( حضرت لوط (علیہ السلام) ) یہ اسم علم ہے لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز کی محبت دل میں جاگزیں اور پیوست ہوجانے کے ہیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (115) الولد الوط بالکید ۔ کہ اولاد سے جگری محبت ہوتی ہے ۔ ھذا امر لایلنا ط بصفری ۔ یہ بات میرے دل کو نہیں بھاتی ۔ لطت الحوض بالطین لوطا ۔ میں نے حوض پر کہگل کی ۔ گارے سے پلستر کیا ۔۔۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے نام سے اشتقاق کرکے تولط فلان کا محاورہ ستعمال ہوتا ہے جس کے معنی خلاف فطرت فعل کرنا ہیں حالانکہ حضرت لوط (علیہ السلام) تو اس فعل سے منع کرتے تھے اور اسے قوم لوط س مشتق نہیں کیا گیا جو اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - فحش - الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] - ( ف ح ش ) الفحش - والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے :- إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ - ( بصر) مبصرۃ - بَاصِرَة عبارة عن الجارحة الناظرة، يقال : رأيته لمحا باصرا، أي : نظرا بتحدیق، قال عزّ وجل : فَلَمَّا جاءَتْهُمْ آياتُنا مُبْصِرَةً [ النمل 13] ، وَجَعَلْنا آيَةَ النَّهارِ مُبْصِرَةً [ الإسراء 12] أي : مضيئة للأبصار وکذلک قوله عزّ وجلّ : وَآتَيْنا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً [ الإسراء 59] ، وقیل : معناه صار أهله بصراء نحو قولهم : رجل مخبث ومضعف، أي : أهله خبثاء وضعفاء، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص 43] أي : جعلناها عبرة لهم،- الباصرۃ - کے معنی ظاہری آنکھ کے ہیں ۔ محاورہ ہے رائتہ لمحا باصرا میں نے اسے عیال طور پر دیکھا ۔ المبصرۃ روشن اور واضح دلیل ۔ قرآن میں ہے :۔ فَلَمَّا جاءَتْهُمْ آياتُنا مُبْصِرَةً [ النمل 13] جن ان کے پاس ہماری روشن نشانیاں پہنچیں یعنی ہم نے دن کی نشانیاں کو قطروں کی روشنی دینے والی بنایا ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَآتَيْنا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً [ الإسراء 59] اور ہم نے ثمود کی اونٹنی ( نبوت صالح) کی کھل نشانی دی میں مبصرۃ اسی معنی پر محمول ہے بعض نے کہا ہے کہ یہاں مبصرۃ کے معنی ہیں کہ ایسی نشانی جس سے ان کی آنکھ کھل گئی ۔ جیسا کہ رجل مخبث و مصعف اس آدمی کو کہتے ہیں جس کے اہل اور قریبی شت دار خبیث اور ضعیب ہوں اور آیت کریمہ ؛۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص 43] میں بصائر بصیرۃ کی جمع ہے جس کے معنی عبرت کے ہیں یعنی ہم نے پہلی قوموں کی ہلاکت کو ان کے لئے تازہ یا عبرت بنادیا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٤) اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا جس وقت انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا تم جان بوجھ کر بےحیائی کا کام کرتے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ (وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ ) ” - اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ علی الاعلان اپنی مجالس کے اندر ایسی فحش حرکات کا ارتکاب کرتے تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 67 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیات 80 تا 84 ، ہود 74 تا 83 ، الحجر 57 77 ، الانبیاء 71 تا 75 ، الشعراء 16 تا 174 ، العنکبوت 28 تا 75 ، الصافات 133 تا 138 ، القمر 33 تا 39 سورة النمل حاشیہ نمبر : 68 اس ارشاد کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں ، اور غالبا وہ سب ہی مراد ہیں ، ایک یہ کہ تم اس فعل کے فحش اور کار بد ہونے سے ناواقف نہیں ہو ، بلکہ جانتے بوجھتے اس کا ارتکاب کرتے ہو ۔ دوسرے یہ کہ تم اس بات سے بھی ناواقف نہیں ہو کہ مرد کی خواہش نفس کے لیے مرد نہیں پیدا کیا گیا بلکہ عورت پیدا کی گئی ہے ، اور مرد و عورت کا فرق بھی ایسا نہیں ہے کہ تمہاری آنکھوں کو نظر نہ آتا ہو ، مگر تم کھلی آنکھوں کے ساتھ یہ جیتی مکھی نگلتے ہو ، تیسرے یہ کہ تم علانیہ یہ بے حیائی کا کام کرتے ہو جب کہ دیکھنے والی آنکھیں تمہیں دیکھ رہی ہوتی ہیں ، جیسا کہ آگے سورہ عنکبوت میں آرہا ہے: ڏوَتَاْتُوْنَ فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَ ، اور تم اپنی مجلسوں میں برا کام کرتے ہو ۔ ( آیت 29 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani