Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

551یہ تکرار توبیخ کے لئے ہے کہ یہ بےحیائی وہی لواطت ہے جو تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے غیر فطری شہوت رانی کے طور پر کرتے ہو۔ 552یا اس کی حرمت سے یا اس معصیت کی سزا سے تم بیخبر ہو۔ ورنہ شاید یہ کام نہ کرتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٤] یعنی تم اس لواطت کے انجام سے آگاہ نہیں اس کا انجام یہ ہوگا کہ چند ہی سالوں بعد تمہاری نسل ختم ہوجائے گی نیز تمہاری عورتوں میں فحاشی پھیل جائے گی۔ یا تم اس فعل کے اس انجام سے بیخبر ہو کہ اس کے نتیجہ میں اللہ کا عذاب تم پر نازل ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً ۔۔ : ہمزہ استفہام کے بعد ”إِنَّ “ اور لام کے ساتھ تاکید کا مطلب تعجب کا اظہار ہے کہ کیا واقعی ایسا ہی ہے کہ تم وہ کام کرتے ہو جو کسی صحیح الفطرت آدمی کے خیال میں بھی نہیں آتا۔- 3 پچھلی آیت میں صرف فاحشہ کا ذکر کیا تھا، اب مذمت کی مزید تاکید کے لیے ان کے فعل بد کی تصریح فرمائی کہ تم پاک دامنی اور اولاد کے حصول کے لیے بیویوں کے پاس جانے کے بجائے محض شہوت رانی کے لیے مردوں کے پاس جاتے ہو اور اس کی وجہ یہ نہیں کہ شہوت پوری کرنے کے لیے عورتیں کافی نہیں بلکہ تم ایسے لوگ ہو جو علم کے بجائے جہل کے اسیر ہو اور اس فعل بد کے انجام سے جاہل ہو کہ دنیا اور آخرت میں اس کا وبال کتنا خوف ناک ہے۔ دنیا میں چند ہی سالوں میں تمہاری نسل ختم ہوجائے گی اور تمہاری عورتوں میں بدکاری پھیل جائے گی۔ جہالت کا ایک معنی سفاہت اور حماقت بھی ہے، کوئی گالی گلوچ اور بےہودہ حرکتیں کرنے لگے تو کہتے ہیں، وہ جہالت پر اتر آیا ہے، جیسے فرمایا : (وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا ) [ الفرقان : ٦٣ ] ” اور جب جاہل لوگ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام ہے۔ “ مطلب یہ کہ مردوں کے پاس جانا تمہاری کوئی حقیقی ضرورت نہیں، محض سفاہت و حماقت ہے جس کی وجہ سے تم یہ کام کر رہے ہو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَہْوَۃً مِّنْ دُوْنِ النِّسَاۗءِ۝ ٠ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْـہَلُوْنَ۝ ٥٥- رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - شها - أصل الشَّهْوَةِ : نزوع النّفس إلى ما تریده، وذلک في الدّنيا ضربان : صادقة، وکاذبة، فالصّادقة : ما يختلّ البدن من دونه كشهوة الطّعام عند الجوع، والکاذبة : ما لا يختلّ من - دونه، وقد يسمّى الْمُشْتَهَى شهوة، وقد يقال للقوّة التي تَشْتَهِي الشیء : شهوة، وقوله تعالی:- زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران 14] ، يحتمل الشّهوتین، وقوله : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم 59] ، فهذا من الشّهوات الکاذبة، ومن الْمُشْتَهِيَاتِ المستغنی عنها، وقوله في صفة الجنّة : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت 31] ، وقوله : فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ- [ الأنبیاء 102] ، وقیل : رجل شَهْوَانٌ ، وشَهَوَانِيٌّ ، وشیء شَهِيٌّ.- ( ش ھ و ) الشھوہ - کے معنی ہیں نفس کا اس چیز کی طرف کھینچ جاتا جسے وہ چاہتا ہے و خواہشات دنیوی دوقسم پر ہیں صادقہ اور کاذبہ سچی خواہش وہ ہے جس کے حصول کے بغیر بدن کا نظام مختل ہوجاتا ہے جیسے بھوک کے وقت کھانے کی اشتہا اور جھوٹی خواہش وہ ہے جس کے عدم حصول سے بدن میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی ۔ پھر شھوۃ کا لفظ کبھی اس چیز پر بولاجاتا ہے ۔ جس کی طرف طبیعت کا میلان ہو اور کبھی خود اس قوت شہویہ پر اور آیت کریمہ ؛زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران 14] لوگوں کو ان کی خواہشوں کی چیزیں ( بڑی ) زینت دار معلوم وہوتی ہیں۔ میں شہو ات سے دونوں قسم کی خواہشات مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم 59] اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے ۔ میں جھوٹی خواہشات مراد ہیں یعنی ان چیزوں کی خواہش جن سے استغناء ہوسکتا ہو ۔ اور جنت کے متعلق فرمایا : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت 31] اور وہاں جس ( نعمت کو تمہارا جی چاہے گا تم کو ملے گا ۔ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ [ الأنبیاء 102] اور جو کچھ ان جی چاہے گا اس میں ۔۔۔ رجل شھوان وشھوانی خواہش کا بندہ شمئ لذیز چیز ۔ مرغوب شے ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] - ما بالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- جهل - الجهل علی ثلاثة أضرب :- الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام .- والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه .- والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67]- ( ج ھ ل ) الجھل - ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے - ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔- ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ - ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٥) کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو تم حکم الہی کے بارے میں جہالت کر رہے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 69 جہالت کا لفظ یہاں حماقت اور سفاہت کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ اردو زبان میں بھی ہم گالی گلوچ اور بیہودہ حرکات کرنے والے کو کہتے ہیں کہ وہ جہالت پر اتر آیا ہے ۔ اسی معنی میں یہ لفظ عربی زبان میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا ( الفرقان 63 ) لیکن اگر اس لفظ کو بے علمی ہی کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم اپنی ان حرکات کے برے انجام کو نہیں جانتے ، تم یہ تو جانتے ہو کہ یہ ایک لذت نفس ہے جو تم حاصل کر رہے ہو ، مگر تمہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ اس انتہائی مجرمانہ اور گھناؤنی لذت چشی کا کیسا سخت خمیازہ تمہیں عنقریب بھگتنا پڑے گا ۔ خدا کا عذاب تم پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار کھڑا ہے اور تم ہو کہ انجام سے بے اخبر اپنے اس گندے کھیل میں منہمک ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani