5 6 1بطور طنز اور استہزاء کے کہا۔
[٥٥] بجائے اس کے کہ وہ حصرت لوط (علیہ السلام) کی نصیحت پر کچھ اپنی اصلاح کرتے وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے۔ لوط (علیہ السلام) اور ان کے متبین کو از راہ تمسخر پاکبازی کا طعنہ دین۔ پھر انھیں اپنے شہر سے نکال دینے کی دھمکی بھی دینے لگے کہ تم جیسے پاکباز ہم گندے لوگوں میں کیونکر رہ سکتے ہیں۔ لہذا تمہاری عافیت اسی میں ہے کہ یہاں سے چلے جاؤ۔
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖٓ ۔۔ : لوط (علیہ السلام) کی بہترین نصیحت کا جواب ان کے پاس جہالت کے سوا کچھ نہ تھا اور انھوں نے ثابت کردیا کہ لوط (علیہ السلام) جو انھیں ” قَومٌ تَجْھَلُوْن “ کہہ رہے تھے، درست ہی کہہ رہے تھے۔ چناچہ انھوں نے اتنی سنجیدہ بات کا جواب استہزا اور تمسخر کے ساتھ دیا، جو جاہلوں کا کام ہے، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تھا : اَعُوْذُ باللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ ) [ البقرۃ : ٦٧ ] ” میں اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں کہ میں جاہلوں سے ہوجاؤں۔ “ مزید دیکھیے سورة اعراف (٨٢) ۔
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَخْرِجُوْٓا اٰلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْيَتِكُمْ ٠ۚ اِنَّہُمْ اُنَاسٌ يَّتَطَہَّرُوْنَ ٥٦- جوب - والجواب يقال في مقابلة السؤال، - والسؤال علی ضربین :- طلب مقال، وجوابه المقال .- وطلب نوال، وجوابه النّوال .- فعلی الأول : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف 31] ،- وعلی الثاني قوله : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس 89] ، أي : أعطیتما ما سألتما .- ( ج و ب ) الجوب - جواب کا لفظ سوال کے مقابلہ میں بھی استعمال ہوتا ہے - اور سوال دو قسم پر ہے - ( 1) گفتگو کا طلب کرنا اس کا جواب گفتگو ہی ہوتی ہے (2) طلب عطا یعنی خیرات طلب کرنا اس کا جواب یہ ہے کہ اسے خیرات دے دی جائے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف 31] خدا کی طرف سے بلانے والے کی باٹ قبول کرو ۔ اور جو شخص خدا کی طرف بلانے والے کی باٹ قبول نہ کرے ۔ اور دوسرے معنی کے اعتبار سے فرمایا : : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس 89] ، کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی تو ہم ثابت قدم رہنا - خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - طهر - والطَّهَارَةُ ضربان :- طَهَارَةُ جسمٍ ، وطَهَارَةُ نفسٍ ، وحمل عليهما عامّة الآیات . يقال : طَهَّرْتُهُ فَطَهُرَ ، وتَطَهَّرَ ، وَاطَّهَّرَ فهو طَاهِرٌ ومُتَطَهِّرٌ. قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] ، أي : استعملوا الماء، أو ما يقوم مقامه، قال : وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] ،- ( ط ھ ر ) طھرت - طہارت دو قسم پر ہے - ۔ طہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے : ۔ طھرتہ فطھروتطھر واطھر فھو طاھر ومتطھر - میں نے اسے پاک کیا چناچہ وہ پاک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہاکر پاک ہوجایا کرو ۔ یعنی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ۔
(٥٦) ان کی قوم کو سوائے اس کے اور کوئی جواب نہ بن پڑا کہ تم لوط (علیہ السلام) اور ان کی دونوں صاحبزادیوں یعنی زعوراء اور ریثاء کو اس بستی سدوم سے نکال دو ، کیوں کہ یہ لوگ مردوں سے شہوت رانی کے بارے میں بڑے پاک صاف بنتے ہیں۔