5 7 1یعنی پہلے ہی اس کی بابت یہ اندازہ یعنی تقدیر الٰہی میں تھا وہ انہی پیچھے رہ جانے والوں میں ہوگی جو عذاب سے دو چار ہونگے۔
فَاَنْجَيْنٰهُ وَاَهْلَهٗٓ اِلَّا امْرَاَتَهٗ ۔۔ : اس کی تفصیل سورة ہود (٨١ تا ٨٣) میں ملاحظہ فرمائیں۔ اس سورت میں موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد تین انبیاء سلیمان، صالح اور لوط ( علیہ السلام) کے حالات کا ذکر ہوا ہے اور ان کے حالات میں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات میں مشابہت کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور پایا جاتا ہے۔ مثلاً سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ سبا کو پیغام بھیجا تھا کہ اگر تم مطیع فرمان بن کر حاضر ہوجاؤ تو بہتر، ورنہ ہم ایسے لشکر سے تم پر حملہ کریں گے جس کے مقابلے کی تم تاب نہ لا سکو گے۔ چناچہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین مکہ پر ایسا ہی لشکر لائے تھے۔ صالح (علیہ السلام) کو ان کی قوم نے بلوے کی صورت میں شب خون مار کر قتل کرنا چاہا، لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں نجات دے دی۔ قریش مکہ نے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی سلوک کرنا چاہا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کی سازش سے بال بال بچا لیا۔ لوط (علیہ السلام) کی قوم کو ان کی قوم نے شہر سے نکال دینے کی دھمکیاں دیں، جب کہ قریش مکہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عملاً شہر سے نکل جانے پر مجبور کردیا۔ (کیلانی)- 3 ابو حیان اندلسی نے فرمایا کہ لوط (علیہ السلام) کے قصے سے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ پورے قرآن میں لوط (علیہ السلام) کے انھیں اس بےحیائی سے روکنے ہی کا ذکر ہے، توحید کی دعوت کا ذکر نہیں، اس کی وجہ یا تو یہ ہوسکتی ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتے ہوں، لیکن اس برے کام کی ایجاد اور اپنے رسول کو جھٹلانے کی وجہ سے ان پر عذاب آیا ہو، جیسا کہ سورة شعراء میں ہے : (كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِۨ الْمُرْسَلِيْنَ ) [ الشعراء : ١٦٠ ]” لوط کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔ “ یا یہ وجہ ہے کہ وہ تھے تو مشرک لیکن جب لوط (علیہ السلام) نے دیکھا کہ وہ بہیمیت میں بلکہ اس سے بھی نیچے درجے میں گر چکے ہیں، تو ضروری سمجھا کہ پہلے انھیں انسانیت کے رتبے کی دعوت دی جائے، پھر توحید کی دعوت دی جائے۔ (البحر المحیط)
فَاَنْجَيْنٰہُ وَاَہْلَہٗٓ اِلَّا امْرَاَتَہٗ ٠ۡقَدَّرْنٰہَا مِنَ الْغٰبِرِيْنَ ٥٧- أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- غبر - الْغَابِرُ : الماکث بعد مضيّ ما هو معه . قال :إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الشعراء 171] ، يعني : فيمن طال أعمارهم، وقیل : فيمن بقي ولم يسر مع لوط . وقیل : فيمن بقي بعد في العذاب، وفي آخر : إِلَّا امْرَأَتَكَ كانَتْ مِنَ الْغابِرِينَ [ العنکبوت 33] ، وفي آخر : قَدَّرْنا إِنَّها لَمِنَ الْغابِرِينَ [ الحجر 60]- ( غ ب ر ) الغابر - اسے کہتے ہیں جو ساتھیوں کے چلے جانے کے بعد پیچھے رہ جائے چناچہ آیت کریمہ :إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الشعراء 171] مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی ۔ کی تفسیر میں بعض نے اس سے پیغمبر کے مخالفین لوگ مراد لئے ہیں جو ( سدوم میں ) پیچھے رہ گئے تھے اور لوط (علیہ السلام) کے ساتھ نہیں گئے تھے بعض نے عذاب الہی میں گرفتار ہونیوالے لوگ مراد لئے ہیں ۔ علاوہ ازیں ایک مقام پر :إِلَّا امْرَأَتَكَ كانَتْ مِنَ الْغابِرِينَ [ العنکبوت 33] بجز ان کی بیوی کے کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں ہوگی ۔ اور دوسرے مقام پر : قَدَّرْنا إِنَّها لَمِنَ الْغابِرِينَ [ الحجر 60] ، اس کے لئے ہم نے ٹھہرا دیا ہے کہ وہ پیچھے رہ جائے گی ۔
(٥٧) چناچہ ہم نے حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کی دونوں صاحبزادیوں کو اس عذاب سے بچا لیا سوائے ان کی منافقہ بیوی کے کہ ہم نے اس کو ان ہی لوگوں میں تجویز کر رکھا تھا جو عذاب میں رہ گئے تھے۔
سورة النمل حاشیہ نمبر : 70 یعنی پہلے ہی حضرت لوط کو ہدایت کردی گئی تھی کہ وہ اس عورت کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں کیونکہ اسے اپنی قوم کے ساتھ ہی تباہ ہونا ہے ۔