بیان کیا جارہاہے کہ کل کائنات کار چلانے والا ، سب کا پیدا کرنے والا ، سب کو روزیاں دینے والا ، سب کی حفاظتیں کرنے والا ، تمام جہان کی تدبیر کرنے والا ، صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔ ان بلند آسمانوں کو چمکتے ستاروں کو اسی نے پیدا کیا ہے اس بھاری بوجھل زمین کو ان بلند چوٹیوں والے پہاڑوں کو ان پھیلے ہوئے میدانوں کو اسی نے پیدا کیا ہے ۔ کھیتیاں ، باغات ، پھل ، پھول ، دریا ، سمندر ، حیوانات ، جنات ، انسان ، خشکی اور تری کے عام جاندار اسی ایک کے بنائے ہوئے ہیں ۔ آسمانوں سے پانی اتارنے والا وہی ہے ۔ اسے اپنی مخلوق کو روزی دینے کا ذریعہ اسی نے بنایا ، باغات کھیت سب وہی اگاتا ہے ۔ جو خوش منظر ہونے کے علاوہ بہت مفید ہیں ۔ خوش ذائقہ ہونے کے علاوہ زندگی کو قائم رکھنے والے ہوتے ہیں ۔ تم میں سے یا تمہارے معبودان باطل میں سے کوئی بھی نہ کسی چیز کے پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے نہ کسی درخت اگانے کی ۔ بس وہی خالق و رازق ہے اللہ کی خالقیت اور اس کی روزی پہنچانے کی صفت کو مشرکین بھی مانتے تھے ۔ جیسے دوسری آیت میں بیان ہوا ہے کہ آیت ( وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ 87ۙ ) 43- الزخرف:87 ) یعنی اگر تو ان سے دریافت کرے کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یہی جواب دیں گے اللہ تعالیٰ نے الغرض یہ جانتے اور مانتے ہیں کہ خالق کل صرف اللہ ہی ہے ۔ لیکن ان کی عقلیں ماری گئی ہیں کہ عبادت کے وقت اوروں کو بھی شریک کرلیتے ہیں ۔ باوجودیکہ جانتے ہیں کہ نہ وہ پیدا کرتے ہیں اور نہ روزی دینے والے ۔ اور اس بات کا فیصلہ تو ہر عقلمند کرسکتا ہے کہ عبادت کے لائق وہی ہے جو خالق مالک اور رازق ہے ۔ اسی لئے یہاں اس آیت میں بھی سوال کیا گیا کہ معبود برحق کے ساتھ کوئی اور بھی عبادت کے لائق ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ مخلوق کو پیدا کرنے میں ، مخلوق کی روزی مہیا کرنے میں کوئی اور بھی شریک ہے؟ چونکہ وہ مشرک خالق رازق صرف اللہ ہی کو مانتے تھے ۔ اور عبادت اوروں کی کرتے تھے ۔ اس لئے ایک اور آیت میں فرمایا ۔ آیت ( اَفَمَنْ يَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا يَخْلُقُ ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ 17 ) 16- النحل:17 ) خالق اور غیر خالق یکساں نہیں پھر تم خالق اور مخلوق کو کیسے ایک کررہے ہو؟ یہ یاد رہے کہ ان آیات میں امن جہاں جہاں ہے وہاں یہی معنی ہیں کہ ایک تو وہ جو ان تمام کاموں کو کرسکے اور ان پر قادر ہو دوسرا وہ جس نے ان میں سے نہ تو کسی کام کو کیا ہو اور نہ کرسکتا کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟گو دوسری شق کو لفظوں میں بیان نہیں کیا لیکن طرز کلام اسے صاف کردیتا ہے ۔ اور آیت میں صاف صاف یہ بھی ہیکہ آیت ( ؤ اٰۗللّٰهُ خَيْرٌ اَمَّا يُشْرِكُوْنَ 59ۭ ) 27- النمل:59 ) کیا اللہ بہتر ہے یا جنہیں وہ شریک کرتے ہیں؟ آیت کے خاتمے پر فرمایا بلکہ ہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے شریک ٹھہرا رہے ہیں آیت ( اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَّقَاۗىِٕمًا يَّحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَيَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهٖ ۭ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ۭ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ Ḍۧ ) 39- الزمر:9 ) بھی اسی جیسی آیت ہے یعنی ایک وہ شخص جو اپنے دل میں آخرت کا ڈر رکھ کر اپنے رب کی رحمت کا امیدوار ہو کر راتوں کو نماز میں گزارتا ہو ۔ یعنی وہ اس جیسا نہیں ہوسکتا جس کے اعمال ایسے نہ ہوں ۔ ایک اور جگہ ہے عالم اور بےعلم برابر نہیں ۔ عقلمند ہی نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہیں ایک وہ جس کا سینہ اسلام کے لئے کھلا ہوا ہو ، اور وہ اپنے رب کی طرف سے نور ہدایت لئے ہو اور وہ اس جیسا نہیں ۔ جس کے دل میں اسلام کی طرف سے کراہت ہو اور سخت دل ہو اللہ نے خود اپنی ذات کی نسبت فرمایا ۔ اللہ نے آیت ( اَفَمَنْ هُوَ قَاۗىِٕمٌ عَلٰي كُلِّ نَفْسٍۢ بِمَا كَسَبَتْ ۚ وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَاۗءَ 33 ) 13- الرعد:33 ) یعنی وہ جو مخلوق کی تمام حرکات سکنات سے واقف ہو تمام غیب کی باتوں کو جانتا ہوں اس کی مانند ہے جو کچھ بھی نہ جانتا ہو؟ بلکہ جس کی آنکھیں اور کان نہ ہو جیسے تمہارے یہ بت ہیں ۔ فرمان ہے آیت ( وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَاۗءَ ۭ قُلْ سَمُّوْهُمْ ۭ اَمْ تُنَبِّــــــُٔـوْنَهٗ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْاَرْضِ 33 ) 13- الرعد:33 ) یہ اللہ کے شریک ٹھہرا رہے ہیں ان سے کہہ ذرا انکے نام تو مجھے بتاؤ پس ان سب آیتوں کا مطلب یہی ہے کہ اللہ نے اپنی صفیتں بیان فرمائی ہیں ۔ پھر خبر دی ہے کہ یہ صفات کسی میں نہیں ۔
6 0 1یہاں سے پچھلے جملے کی تشریح اور اس کے دلائل دئیے جا رہے ہیں کہ وہی اللہ پیدائش، رزق اور تدبیر وغیرہ میں متفرد ہے۔ کوئی اسکا شریک نہیں ہے۔ فرمایا آسمانوں کو اتنی بلندی اور خوبصورتی کے ساتھ بنانے والا، ان میں درخشاں کواکب، روشن ستارے اور گردش کرنے والے افلاک بنانے والا اسی طرح زمین اور آسمان سے بارش برسا کر اس کے ذریعے سے بارونق باغات اگانے والا کون ہے ؟ کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو زمین سے درخت ہی اگا کر دکھا دے ؟ ان سب کے جواب میں مشرکین بھی کہتے اور اعتراف کرتے تھے کہ یہ سب کچھ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، جیسا کہ قرآن میں دوسرے مقام پر ہے۔ (وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ۭ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ ۭ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ ) 29 ۔ العنکبوت :63) 6 0 2یعنی ان سب حقیقتوں کے باوجود کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی ہستی ایسی ہے، جو عبادت کے لائق ہو ؟ یا جس نے ان میں سے کسی چیز کو پیدا کیا ہو ؟ یعنی کوئی ایسا نہیں جس نے کچھ بنایا ہو یا عبادت کے لائق ہو۔ امن کا ان آیات میں مفہوم یہ ہے کہ کیا وہ ذات جو ان تمام چیزوں کو بنانے والی ہے۔ اس شخص کی طرح ہے جو ان میں سے کسی چیز پر قادر نہیں ؟ (ابن کثیر) 6 0 3اس کا دوسرا ترجمہ ہے کہ وہ لوگ اللہ کا ہمسر اور نظیر ٹھہراتے ہیں۔
[٦٠] اس آیت اور اس سے آگے تین چار آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدت کاملہ اور رحمت اور ربوبیت عامہ اور توحید پر چند ایسے دلائل کے انبار لگا دیا ہے جن میں سے اکثر دلائل کے مشرکین مکہ بھی معترف تھے۔ مثلاً سب سے پہلی دلیل تو یہی ہے کہ آسمانوں کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے اور زمین کا بھی۔ آسمان سے مینہ برستا ہے جسے زمین جذب کرتی ہے۔ تو اس کی قوت روئیدگی اپنا کام کرنا شروع کردیتی ہے۔ اس سے فصلیں، غلے، پھل دار درخت، پھول اور مویشیوں کے گھاس اور چارہ اگتا ہے۔ اس طرح روئے زمین پر جتنی بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق بس رہی ہے سب کی غذا کا سامان فراہم ہوجاتا ہے۔ کروڑوں اور اربوں کی تعداد میں صرف انسان ہیں جو صرف ایک نوع ہے۔ جبکہ جاندار اشیاء کی انواع کی تعداد لاکھوں تک جاپہنچتی ہے کچھ پانی کی مخلوق ہے۔ کچھ خشکی کی اور کچھ ہوائی مخلوق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کی روزی کا ایسا جامع اور مکمل انتطام فرما دیا ہے کہ سب جانداروں کو روزی مہیا ہو رہی ہے۔ اب بتلائیے کہ اس پورے نظام ربوبیت عامہ میں کوئی فرشتہ، کوئی نبی، کوئی ولی، کوئی بزرگ یا کوئی دوسرا معبود شریک ہے کہ اللہ کے علاوہ اس کی بھی عبادت کی جائے۔ عبادت تو انہتائی عاجزی اور تذلل کا نام ہے اور اسی کو سزاوار ہے۔ جو انتہائی درجہ میں کامل اور بااختیار ہو، ، کسی ناقض، عاجز یا محتاج مخلوق کی یہ مقام کیسے دیا جاسکتا ہے۔- [٦١] عدل کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کا معنی برابر ہوتا بھی اور برابر کا بدلہ بھی۔ پھر یہ لفظ لغت ذوی الاضداد سے ہے۔ یعنی اس کا معنی انصاف کرنا بھی ہے اور بےانصافی کرنا بھی۔ اس لحاظ سے اس جملہ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ مثلاً ایک تو ترجمہ سے ہی واضح ہے کہ جب ربوبیت عامہ کا پورے کا پورا نظام صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہو تو عبادت میں دوسروں کو اس میں شامل کرلینا کس قدر بےانصافی اور ظلم کی بات ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس اعتراف حقیقت کے باوجود یہ لوگ اپنے معبودوں کو اللہ کے برابر کا درجہ دیتے ہیں۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ راہ راست سے بڑھ جاتے ہیں یعنی اعتراف حقیقت کے باوجود اس کا نتیجہ غلط نکال رہے ہیں۔
اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۔۔ : ” حَدَاۗىِٕقَ “ ” حَدِیْقَۃٌ“ کی جمع ہے، جو اصل میں وہ باغ ہے جس کے گرد دیوار ہو، پھر ہر باغ کو ” حَدِیْقَۃٌ“ کہا جانے لگا۔ ” اَمَّنْ “ کے ” أَمْ “ سے پہلے ہمزہ استفہام والا ایک جملہ مقدر ہے، جو عبارت کے تسلسل سے سمجھ میں آرہا ہے : ” أَيْ أَشُرَکَاءُ ھُمْ خَیْرٌ أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ “ ” یعنی کیا ان کے شریک بہتر ہیں یا وہ اللہ جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا ؟ “ یہاں اللہ تعالیٰ نے پانچ آیات میں اپنی وہ صفات ذکر فرمائیں جو مشرکین مکہ بھی مانتے تھے کہ وہ اللہ کے سوا کسی میں نہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ ہر آیت میں چند صفات بیان کر کے فرماتے ہیں کہ جب یہ صفات صرف اللہ کی ہیں تو پھر کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہوسکتا ہے ؟ اس پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ صفات بیان فرمائیں کہ آسمانوں کا خالق وہ ہے اور زمین کا بھی، پھر آسمان سے بارش برسانے والا اور اس کے ساتھ زمین سے خوش ذائقہ اور خوش منظر باغات اگانے والا بھی وہی ہے۔ مشرکین یہ تینوں باتیں مانتے تھے، جیسا کہ فرمایا : (وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيْزُ الْعَلِيْمُ ) [ الزخرف : ٩ ] ” اور بلاشبہ اگر تو ان سے پوچھے کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو یقیناً ضرور کہیں گے کہ انھیں سب پر غالب، سب کچھ جاننے والے نے پیدا کیا ہے۔ “ آسمان و زمین ہی نہیں، خود ان کو پیدا کرنے والا بھی وہ اللہ ہی کو مانتے ہیں، فرمایا : (وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ ) [ الزخرف : ٨٧ ] ” اور یقیناً اگر تو ان سے پوچھے کہ انھیں کس نے پیدا کیا تو بلاشبہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، پھر کہاں بہکائے جاتے ہیں۔ “ اور فرمایا : (وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ) [ العنکبوت : ٦٣ ] ” اور یقیناً اگر تو ان سے پوچھے کہ کس نے آسمان سے پانی اتارا، پھر اس کے ساتھ زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کر دیاتو ضرور ہی کہیں گے کہ اللہ نے۔ “ مطلب یہ ہے کہ تم مانتے ہو کہ یہ سب کچھ کرنے والا وہ اکیلا ہے، کائنات کے اس سارے نظام میں نہ کوئی فرشتہ شریک ہے، نہ کوئی نبی و ولی اور نہ کوئی اور معبود، پھر اس کے ساتھ ان کی عبادت کرتے ہو جن کے متعلق مانتے ہو کہ نہ پیدا کرتے ہیں، نہ رزق دیتے ہیں، تو بتاؤ کیا اللہ کے ساتھ کوئی معبود ہوسکتا ہے جو نہ پیدا کرے نہ روزی دے ؟ اور فرمایا : (اَفَمَنْ يَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا يَخْلُقُ ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ) [ النحل : ١٧ ] ’ تو کیا وہ جو پیدا کرتا ہے، اس کی طرح ہے جو پیدا نہیں کرتا ؟ پھر کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ “ عرب کے مشرکین ہی نہیں، دنیا بھر کے مشرکین مانتے تھے اور آج بھی مانتے ہیں کہ کائنات کا خالق اور کائنات کے نظام کو چلانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، اس لیے قرآن مجید کے اس سوال کا کوئی ہٹ دھرم سے ہٹ دھرم شخص برائے بحث بھی یہ جواب نہیں دے سکتا تھا کہ ان کاموں میں ہمارے معبود شریک ہیں، اگر کوئی ایسا کہتا تو اس کی قوم کے ہزاروں آدمی اسے جھٹلا دیتے اور کہہ دیتے کہ تم غلط کہہ رہے ہو۔- مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَـرَهَا : یہ اس خیال کی تردید ہے جو انسان کے ذہن میں آجاتا ہے کہ زمین کو ہم بناتے ہیں، بیج ہم ڈالتے ہیں، پانی ہم دیتے ہیں، غرض یہ باغ اور کھیتیاں اگانے والے ہم ہیں۔ فرمایا، تمہارے بس ہی میں نہ تھا کہ تم ان باغات کے درخت اگاتے، یہ ہم ہیں جنھوں نے رونق اور خوبی والے یہ باغ اگائے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ ءَاَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَهٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ لَوْ نَشَاۗءُ لَجَعَلْنٰهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُوْنَ اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَ بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ ) [ الواقعۃ : ٦٣ تا ٦٧ ] ” پھر کیا تم نے دیکھا جو کچھ تم بوتے ہو ؟ کیا تم اسے اگاتے ہو، یا ہم ہی اگانے والے ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو ضرور اسے ریزہ ریزہ کردیں، پھر تم تعجب سے باتیں بناتے رہ جاؤ۔ کہ بیشک ہم تو تاوان ڈال دیے گئے ہیں۔ بلکہ ہم بےنصیب ہیں۔ “- ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ : نہیں، اللہ کی قسم نہیں۔- بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَ : ” يَّعْدِلُوْنَ “ ” عُدُوْلٌ“ سے ہے، جس کا معنی ہٹنا ہے، بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو راستے سے ہٹ رہے ہیں۔ یا ” عَدْلٌ“ سے ہے، جس کا معنی برابر کرنا ہے، بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو (دوسروں کو) اللہ کے برابر ٹھہراتے ہیں۔ پہلے جنھیں مخاطب کیا گیا تھا، یعنی : (وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۔۔ ) (اور تمہارے لیے آسمان سے پانی اتارا۔۔ ) اب انھیں غائب کے صیغے کے ساتھ ذکر فرمایا : (ۭ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَ ) (بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو راستے سے ہٹ رہے ہیں) اس سے ناراضی کا اظہار ہو رہا ہے کہ یہ لوگ خطاب کے قابل نہیں۔
خلاصہ تفسیر - (پچھلی آیت کے آخر میں فرمایا تھا اٰۗللّٰهُ خَيْرٌ اَمَّا يُشْرِكُوْنَ ، یعنی کیا اللہ بہتر ہے یا وہ بت وغیرہ جن کو یہ لوگ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں، یہ مشرکین کی بےوقوفی بلکہ کج فہمی پر نکیر تھی، آگے توحید کے دلائل کا بیان ہے، اے لوگو یہ بتلاؤ کہ) وہ ذات (بہتر ہے) جس نے آسمان اور زمین کو بنایا، اور اس نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ ہم نے رونق دار باغ اگائے (ورنہ) تم سے تو ممکن نہ تھا کہ تم ان (باغوں) کے درختوں کو اگا سکو (یہ سن کر اب بتلاؤ کہ) کیا اللہ کے ساتھ (شریک عبادت ہونے کے لائق) کوئی اور معبود ہے (مگر مشرکین پھر بھی نہیں مانتے) بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ (دوسروں کو) خدا کی برابر ٹھہراتے ہیں (اچھا پھر اور کمالات سن کر بتلاؤ کہ یہ بت بہتر ہیں) یا وہ ذات جس نے زمین کو (مخلوق کی) قرار گاہ بنایا اور اس کے درمیان درمیان نہریں بنائیں اور اس (زمین) کے (ٹھہرانے کے) لئے پہاڑ بنائے اور دو دریاؤں کے درمیان حد فاصل بنائی (جیسا سورة فرقان میں مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ آچکا ہے یہ سن کر اب بتلاؤ کہ) کیا اللہ کے ساتھ (خدائی کا شریک ہونے کے لائق) کوئی اور معبود ہے (مگر مشرکین نہیں مانتے) بلکہ ان میں زیادہ تو (اچھی طرح) سمجھتے بھی نہیں (اچھا پھر اور کمالات سن کر بتلاؤ کہ یہ بت بہتر ہیں) یا وہ ذات جو بیقرار آدمی کی دعا سنتا ہے جب وہ اس کو پکارتا ہے اور (اس کی) مصیبت کو دور کردیتا ہے اور تم کو زمین میں صاحب تصرف بناتا ہے (یہ سن کر اب بتلاؤ کہ) کیا اللہ کے ساتھ (شریک عبادت ہونے کے لائق) کوئی اور معبود ہے (مگر) تم لوگ بہت ہی کم یاد رکھتے ہو (اچھا پھر اور کمالات سن کر بتلاؤ کہ یہ بت بہتر ہیں) یا وہ ذات جو تم کو خشکی اور دریا کی تاریکیوں میں رستہ سوجھاتا ہے اور جو ہواؤں کو بارش سے پہلے بھیجتا ہے جو (بارش کی امید دلا کر (دلون کو) خوش کردیتی ہیں (یہ سن کر اب بتلاؤ) کیا اللہ کے ساتھ (شریک عبادت ہونے کے لائق) کوئی اور معبود ہے (ہرگز نہیں) بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے برتر ہے (اچھا پھر دوسرے کمالات و احسانات سن کر بتلاؤ کہ یہ بت بہتر ہیں) یا وہ ذات جو مخلوقات کو اول بار پیدا کرتا ہے پھر اس کو دوبارہ پیدا کر دے گا اور جو آسمان اور زمین سے ( پانی برسا کر اور نباتات نکال کر) تم کو رزق دیتا ہے (یہ سن کر اب بتلاؤ کہ) کیا اللہ کے ساتھ (شریک عبادت ہونے کے لائق) کوئی اور معبود ہے (اور اگر وہ یہ سن کر بھی کہیں کہ ہاں اور معبود بھی مستحق عبادت ہیں تو) آپ کہئے کہ (اچھا) تم (ان کے استحقاق عبادت پر) اپنی دلیل پیش کرو اگر تم (اس دعویٰ میں) سچے ہو۔
اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ٠ۚ فَاَنْۢبَتْنَا بِہٖ حَدَاۗىِٕقَ ذَاتَ بَہْجَۃٍ ٠ۚ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَـرَہَا ٠ۭ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ ٠ۭ بَلْ ہُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَ ٦٠ۭ - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - ماء - قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه :- أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو،- ( م ی ہ ) الماء - کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے - نبت - النَّبْتُ والنَّبَاتُ : ما يخرج من الأرض من النَّامِيات، سواء کان له ساق کا لشجر، أو لم يكن له ساق کالنَّجْم، لکن اختَصَّ في التَّعارُف بما لا ساق له، بل قد اختصَّ عند العامَّة بما يأكله الحیوان، وعلی هذا قوله تعالی: لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ 15] ومتی اعتبرت الحقائق فإنّه يستعمل في كلّ نام، نباتا کان، أو حيوانا، أو إنسانا، والإِنْبَاتُ يستعمل في كلّ ذلك . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس 27- 31]- ( ن ب ت ) النبت والنبات - ۔ ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنہ دار ہو جیسے درخت ۔ یا بےتنہ جیسے جڑی بوٹیاں لیکن عرف میں خاص کر نبات اسے کہتے ہیں ہیں جس کے تنہ نہ ہو ۔ بلکہ عوام تو جانوروں کے چاراہ پر ہی نبات کا لفظ بولتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ 15] تاکہ اس سے اناج اور سبزہ پیدا کریں ۔ میں نبات سے مراد چارہ ہی ہے ۔ لیکن یہ اپانے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر پڑھنے والی چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور بناتات حیوانات اور انسان سب پر بولاجاتا ہے ۔ اور انبات ( افعال ) کا لفظ سب چیزوں کے متعلق اسستعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس 27- 31] پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا ور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھے باغ ور میوے ور چارہ ۔ - حدق - حَدائِقَ ذاتَ بَهْجَةٍ [ النمل 60] ، جمع حدیقة، وهي قطعة من الأرض ذات ماء، سمّيت تشبيها بحدقة العین في الهيئة و حصول الماء فيها، وجمع الحَدَقَة حِدَاق وأحداق، وحَدَّقَ تحدیقا : شدّد النظر، وحَدَقُوا به وأَحْدَقُوا : أحاطوا به، تشبيها بإدارة الحدقة .- ( ح د ق ) الحدیقۃ ( مرغزار ) وہ قطعہ زمین جس میں پانی جمع ہو اور حیات و صورت اور پانی کے ہونے کی وجہ سے اسے حدقہ العین ( آنکھ کی پتلی ) کے ساتھ تشبیہ دے کر اس پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ اس کی جمع حدائق آتی ہے قرآن میں ہے فَجَعَلْناهُمْ أَحادِيثَ [ سبأ 19] سر سبز باغ ۔ اور حدقۃُ کی جمع حداق و احداق آتی ہے ۔ حدق النظر ۔ گھور دیکھنا نظر جما کر دیکھنا حدقوابہ واحدقوا ۔ انہوں نے اس کے گرد احاطہ کرلیا یہ معنی بھی حدقۃ العین کے گھمانے سے لئے گئے ہیں ۔- بهج - البَهْجَة : حسن اللون وظهور السرور، وفيه قال عزّ وجل : حَدائِقَ ذاتَ بَهْجَةٍ [ النمل 60] ، وقد بَهُجَ فهو بَهِيج، قال : وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ [ ق 7] ، ويقال : بَهِجٍ ، کقول الشاعر : ذات خلق بهج ولا يجيء منه بهوج، وقد ابْتَهَجَ بکذا، أي : سرّ به سرورا بان أثره علی وجهه، وأَبْهَجَهُ كذا .- ( ب ھ ج ) البھجۃ ۔ خوش نمائی ۔ فرحت و سرور کا ظہور ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَدائِقَ ذاتَ بَهْجَةٍ [ النمل 60] سر سبز باغ ۔ ( ک ) خوشمنا اور تروتازہ ہونا ۔ اور خوشنما چیز کو بھیج کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ [ ق 7] اور اس میں ہر طرح کی خوشنما چیزیں اگائیں ۔ اور بھیج بھی صیغہ صفت ہے شاعر نے کہا ہے ع ) اور اس سے بھوج بروزن فعول استعمال نہیں ہوتا ابتھج بکذا کسی چیز پر اس قدر خوش اور سرور ہونا کہ چہرہ پر خوشی کے آثار ظاہر ہوجائیں ۔ ابھجہ خوش کرنا ۔- شجر - الشَّجَرُ من النّبات : ما له ساق، يقال : شَجَرَةٌ وشَجَرٌ ، نحو : ثمرة وثمر . قال تعالی: إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] ، وقال : أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] ، وقال : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] ، لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] . وواد شَجِيرٌ: كثير الشّجر، وهذا الوادي أَشْجَرُ من ذلك، والشَّجَارُ الْمُشَاجَرَةُ ، والتَّشَاجُرُ : المنازعة . قال تعالی: حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] . وشَجَرَنِي عنه : صرفني عنه بالشّجار، وفي الحدیث : «فإن اشْتَجَرُوا فالسّلطان وليّ من لا وليّ له» «1» . والشِّجَارُ : خشب الهودج، والْمِشْجَرُ : ما يلقی عليه الثّوب، وشَجَرَهُ بالرّمح أي : طعنه بالرّمح، وذلک أن يطعنه به فيتركه فيه .- ( ش ج ر ) الشجر - ( درخت وہ نبات جس کا تنہ ہو ۔ واحد شجرۃ جیسے ثمر و ثمرۃ ۔ قرآن میں ہے : إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کررہے ہیں ۔ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، تھوہر کے درخت سے إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] بلاشبہ تھوہر کا درخت گنجان درختوں والی وادی ۔ بہت درختوں والی جگہ ۔ ھذا الوادی اشجر من ذالک اس وادی میں اس سے زیادہ درخت ہیں ۔ الشجار والمشاجرۃ والتشاجر باہم جھگڑنا اور اختلاف کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] اپنے تنازعات میں ۔ شجرنی عنہ مجھے اس سے جھگڑا کرکے دور ہٹا دیا یا روک دیا حدیث میں ہے ۔ (189) فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ اگر تنازع ہوجائے تو جس عورت کا ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے الشجار ۔ ہودہ کی لکڑی چھوٹی پالکی ۔ المشجر لکڑی کا اسٹینڈ جس پر کپڑے رکھے یا پھیلائے جاتے ہیں ۔ شجرہ بالرمح اسے نیزہ مارا یعنی نیزہ مار کر اس میں چھوڑ دیا ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - عدل - العَدَالَةُ والمُعَادَلَةُ : لفظٌ يقتضي معنی المساواة، ويستعمل باعتبار المضایفة، والعَدْلُ والعِدْلُ يتقاربان، لکن العَدْلُ يستعمل فيما يدرک بالبصیرة كالأحكام، وعلی ذلک قوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، والعِدُل والعَدِيلُ فيما يدرک بالحاسّة، کالموزونات والمعدودات والمکيلات، فالعَدْلُ هو التّقسیط علی سواء، وعلی هذا روي : «بالعَدْلِ قامت السّموات والأرض» «5» تنبيها أنه لو کان رکن من الأركان الأربعة في العالم زائدا علی الآخر، أو ناقصا عنه علی مقتضی الحکمة لم يكن العالم منتظما .- والعَدْلُ ضربان :- مطلق : يقتضي العقل حسنه، ولا يكون في شيء من الأزمنة منسوخا، ولا يوصف بالاعتداء بوجه، نحو : الإحسان إلى من أحسن إليك، وكفّ الأذيّة عمّن كفّ أذاه عنك .- وعَدْلٌ يُعرَف كونه عَدْلًا بالشّرع، ويمكن أن يكون منسوخا في بعض الأزمنة، کالقصاص وأروش الجنایات، وأصل مال المرتدّ. ولذلک قال : فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] ، وقال : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] ، فسمّي اعتداء وسيئة، وهذا النحو هو المعنيّ بقوله : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ- [ النحل 90] ، فإنّ العَدْلَ هو المساواة في المکافأة إن خيرا فخیر، وإن شرّا فشرّ ، والإحسان أن يقابل الخیر بأكثر منه، والشرّ بأقلّ منه، ورجلٌ عَدْلٌ: عَادِلٌ ، ورجالٌ عَدْلٌ ، يقال في الواحد والجمع، قال الشاعر : 311-- فهم رضا وهم عَدْلٌ«1» وأصله مصدر کقوله : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ- [ الطلاق 2] ، أي : عَدَالَةٍ. قال تعالی: وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] ، وقوله : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] ، فإشارة إلى ما عليه جبلّة النّاس من المیل، فالإنسان لا يقدر علی أن يسوّي بينهنّ في المحبّة، وقوله : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً- [ النساء 3] ، فإشارة إلى العَدْلِ الذي هو القسم والنّفقة، وقال : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] ، وقوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، أي : ما يُعَادِلُ من الصّيام الطّعام، فيقال للغذاء : عَدْلٌ إذا اعتبر فيه معنی المساواة . وقولهم :«لا يقبل منه صرف ولا عَدْلٌ» «2» فالعَدْلُ قيل : هو كناية عن الفریضة، وحقیقته ما تقدّم، والصّرف : النّافلة، وهو الزّيادة علی ذلک فهما کالعَدْلِ والإحسان . ومعنی أنه لا يقبل منه أنه لا يكون له خير يقبل منه، وقوله : بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] ، أي : يجعلون له عَدِيلًا فصار کقوله : هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] ، وقیل : يَعْدِلُونَ بأفعاله عنه وينسبونها إلى غيره، وقیل : يَعْدِلُونَ بعبادتهم عنه تعالی، وقوله : بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] ، يصحّ أن يكون من قولهم : عَدَلَ عن الحقّ : إذا جار عُدُولًا، وأيّام مُعْتَدِلَاتٌ: طيّبات لِاعْتِدَالِهَا، وعَادَلَ بين الأمرین : إذا نظر أيّهما أرجح، وعَادَلَ الأمرَ : ارتبک فيه، فلا يميل برأيه إلى أحد طرفيه، وقولهم : ( وضع علی يدي عَدْلٍ ) فمثل مشهور «1» .- ( ع د ل ) العدالۃ والمعادلۃ - کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں اور معنی اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکام شرعیہ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] او عدل ذلک صیاما یا اس کے برابر روزے رکھنا اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لئے بولے جاتے ہیں جن کا اور اک حواس ظاہرہ سے ہوتا ہے جیسے وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں چناچہ اسی معنی میں مروی ہے بالعدل قامت السموت والاارض کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں یعنی اگر عناصر اربعہ جن کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عنصر میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظام کائنات قائم نہیں رہ سکتا ،- العدل دو قسم پر ہے - عدل مطلق - جو عقلا مستحن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے مثلا کیسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایزا رسانی باز رہنا قغیرہ ۔ - دوم عدل شرعی - جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے جیسے قصاص جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ چناچہ آیات : ۔ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ۔ واپس ہی تم اس پر کرو ۔ وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں عدل کے یہی معنی مراد کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 303 ) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں ۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے چناچہ آیت : ۔ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق 2] اور اپنے میں سے دو منصب مردوں کو گواہ بنالو میں عدل کے معنی عدالہ ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہر گز برابری نہیں کرسکو گے ۔ میں انسان کے طبعی میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء 3] اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے ۔ میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابر ی مرادی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] اس کے برابر روزے رکھنا ۔ میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوت کے معنی ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور ( 33 ) لایقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنی وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے لہذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں اور لایقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اسکے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت : ۔ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ آیت : ۔ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] کے ہم معنی ہوگی بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ افعال الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہوسکتی ہے یعنی اس کے معنی یعدلون بہ کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنی حق سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں ۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔
(٦٠) آپ ان کفار مکہ سے فرمائیے کہ اچھا بتاؤ کیا ان بتوں کی جن کو تم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو پرستش بہتر ہے یا اس ذات کی عبادت وفرمانبرداری بہتر ہے جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا اور پھر اس پانی سے پھل دار باغ اگائے، جن کی باڑ کھجور کے درختوں اور دوسرے درختوں سے ہو رہی ہے تمہاری قدرت سے تو یہ چیز باہر ہے کہ تم ان باغوں کے درخت اگا سکو اب سوچ کر ذرا بتاؤ تو سہی کہ کیا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور معبود نے یہ چیزیں اگائی ہیں ؟ بلکہ ایسے بدتمیز ہیں کہ بتوں کو عبادت میں اللہ تعالیٰ کے برابر ٹھہراتے ہیں۔
(مَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُنْبِتُوْا شَجَرَہَا ط) ” ّ متجسسانہ سوالات ( ) کا یہ انداز بہت مؤثر ہے۔ علامہ اقبالؔ ؔ نے اپنے ان اشعار میں یہی مضمون بالکل اسی انداز میں پیش کیا ہے : - پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون - کون دریاؤں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب ؟- کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار - خاک یہ کس کی ہے ؟ کس کا ہے یہ نور آفتاب ؟- کہ اللہ ہی ہواؤں کو چلاتا ہے ‘ بارش برساتا ہے ‘ موسموں کو سازگار بناتا ہے ‘ اناج اگاتا ہے ‘ غرض تمام امور اسی کے حکم اور اسی کی قدرت سے انجام پاتے ہیں۔ اللہ کی قدرت کاملہ کے بیان کا یہی انداز سورة الواقعہ میں بھی ملتا ہے۔- (ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ط) ” - کیا ان سارے کاموں میں اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ بھی شریک ہے ؟
سورة النمل حاشیہ نمبر : 73 مشرکوں میں سے کوئی بھی اس سوال کا یہ جواب نہ دے سکتا تھا کہ یہ کام اللہ کے سوا کسی اور کے ہیں ، یا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی ان میں شریک ہے ، قرآن مجید دوسرے مقامات پر کفار مکہ اور مشرکین عرب کے متعلق کہتا ہے: وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ، اور اگر ان سے پوچھو کہ خود انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے ( الزخرف ، آیت 87 ) وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ، اور اگر ان سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا اور مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلا اٹھایا تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ( العنکبوت ، آیت 63 ) قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ الی قولہ وَمَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ ۭ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ ، ان سے پوچھو کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون جاندار کو بے جان میں سے اور بے جان کو جاندار میں سے نکالتا ہے؟ کون اس نظام عالم کی تدبیر کر رہا ہے ، وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ ( یونس ، آیت 31 ) عرب کے مشرکین ہی نہیں ، دنیا بھر کے مشرکین بالعموم یہی مانتے تھے اور آج بھی مانتے ہیں کہ کائنات کا خالق اور نظام کائنات کا مدبر اللہ تعالی ہی ہے ، اس لیے قرآن مجید کے اس سوال کا یہ جواب ان میں سے کوئی شخص ہٹ دھرمی کی بنا پر برائے بحث بھی نہ دے سکتا تھا کہ ہمارے معبود خدا کے ساتھ ان کاموں میں شریک ہیں ، کیونکہ اگر وہ ایسا کہتا تو اس کی اپنی ہی قوم کے ہزارہا آمی اس کو جھٹلا دیتے اور صاف کہتے کہ ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے ۔ اس سوال اور اس کے بعد کے سوالات میں صرف مشرکین ہی کے شرک کا ابطال نہیں ہے بلکہ دہریوں کی دہریت کا ابطال بھی ہے ۔ مثلا اسی پہلے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ یہ بارش برسانے والا اور اس کے ذریعہ سے ہر طرح کی نباتات اگانے والا کون ہے؟ اب غور کیجیے ، زمین میں اس مواد کا ٹھیک سطح پر یا سطح سے متصل موجود ہونا جو بے شمار مختلف اقسام کی نباتی زندگی کے لیے درکار ہے ، اور پانی کے اندر ٹھیک وہ اوصاف موجود ہونا جو حیوانی اور نباتی زندگی کی ضروریات کے مطابق ہیں اور اس پانی کا پے در پے سمندروں سے اٹھایا جانا اور زمین کے مختلف حصوں میں وقتا فوقتا ایک باقاعدگی کے ساتھ برسایا جانا ، اور زمین ، ہوا ، پانی اور درجہ حرارت وغیرہ مختلف قوتوں کے درمیان ایسا متناسب تعاون قائم کرنا کہ اس سے نباتی زندگی کو نشو ونما نصیب ہو اور وہ ہر طرح کی حیوانی زندگی کے لیے اس کی بے شمار ضروریات پوری کرے ، کیا یہ سب کچھ ایک حکیم کی منصوبہ بندی اور دانشمندانہ تدبیر اور غالب قدرت و ارادہ کے بغیر جو خود بخود اتفاقا ہوسکتا ہے ، اور کیا یہ ممکن ہے کہ یہ اتفاق حادثہ مسلسل ہزار ہا برس بلکہ لاکھوں کروڑوں برس تک اسی باقاعدگی سے رونما ہوتا چلا جائے؟ صرف ایک ہٹ دھرم آدمی ہی جو تعصب میں اندھا ہوچکا ہو ، اسے ایک امر اتفاقی کہہ سکتا ہے ، کسی راستی پسند عاقل انسان کے لیے ایسا لغو دعوی کرنا اور ماننا ممکن نہیں ہے ۔
30: واضح رہے کہ کفار مکہ یہ بات مانتے تھے کہ اس کائنات کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، مگر ساتھ ہی وہ کہتے تھے کہ اس نے کائنات کے انتظام کے بہت سے شعبے دوسرے خداؤں کو سونپ دئیے ہیں، اس لیے ان کی عبادت کرنی چاہئے۔