Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

کائنات کے مظاہر اللہ تعالیٰ کی صداقت٭٭ زمین کو اللہ تعالیٰ نے ٹھہری ہوئی اور ساکن بنایا تاکہ دنیا آرام سے اپنی زندگی بسر کرسکے اور اس پھیلے ہوئے فرش پر راحت پاسکے ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اللہ الذی جعل لکم الأرض قرارا الخ ) ، اللہ تعالیٰ نے زمین کو تمہارے لئے ٹھہری ہوئی ساکن بنایا اور آسمان کو چھت بنایا ۔ اس نے زمین پر پانی کے دریا بہادئیے جوادھر ادھربہتے رہتے ہیں اور ملک ملک پہنچ کر زمین کو سیراب کرتے ہیں تاکہ زمین سے کھیت باغ وغیرہ اگیں ۔ اس نے زمین کی مضبوطی کے لئے اس پر پہاڑوں کی میخیں گاڑھ دیں تاکہ وہ تمہیں متزلزل نہ کرسکے ٹھہری رہے ۔ اسکی قدرت دیکھو کہ ایک کھاری سمندر ہے اور دوسرا میٹھا ہے ۔ دونوں بہہ رہے ہیں بیچ میں کوئی روک آڑ پردہ حجاب نہیں لیکن قدرت نے ایک کو ایک سے الگ کر رکھا ہے اور نہ کڑوا میٹھے میں مل سکے نہ میٹھاکرڑوے میں ۔ کھاری اپنے فوائد پہنچاتا رہے میٹھا اپنے فوائد دیتا رہے اس کا نتھرا ہوا خوش ذائقہ مسرورکن خوش ہضم پانی لوگ پئیں اپنے جانوروں کو پلائیں کھتیاں باڑیاں باغات وغیرہ میں یہ پانی پہنچائیں نہائیں دھوئیں وغیرہ ۔ کھاری پانی اپنی فوائد سے لوگوں کو سود مند کرے یہ ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے تاکہ ہوا خراب نہ ہو ۔ اور اس آیت میں بھی ہے ان دونوں کا بیان موجود ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ 53؀ ) 25- الفرقان:53 ) یعنی ان دونوں سمندروں کا جاری کرنے والا اللہ ہی ہے اور اسی لئے ان دونوں کے درمیاں حد فاصل قائم کر رکھی ہے ۔ یہاں یہ قدرتیں اپنی جتاکر ۔ پھر سوال کرتا ہے کہ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی ایسا ہے جس نے یہ کام کئے ہوں یا کرسکتاہو؟ تاکہ وہ بھی لائق عبادت سمجھا جائے ۔ اکثر لوگ محض بےعلمی سے غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں ۔ عبادتوں کے لائق صرف وہی ایک ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

611یعنی ساکن اور ثابت، نہ ہلتی ہے، نہ ڈولتی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین پر رہنا ممکن ہی نہ ہوتا زمین پر بڑے بڑے پہاڑ بنانے کا مقصد بھی زمین کو حرکت کرنے سے اور ڈولنے سے روکنا ہی ہے۔ 612اس کی تشریح کے لئے دیکھیں (وَهُوَ الَّذِيْ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ ۚ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا) 25 ۔ الفرقان :53) کا حاشیہ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٢] اس ایک جملہ کے اندر اللہ تعالیٰ کی کئی قدرتیں سمٹ کر آگئی ہیں ہیں۔ یہ بات تو ہزار ہا ہزار سال پہلے انسان کے علم میں آچکی تھی کہ ہمارا یہ عظیم الجثہ کرہ زمین گول ہے اور فضائے بسیط میں معلق ہے۔ زمین کا اکثر حصہ سمندر ہے۔ اور زمین کے گول ہونے کے باوجو ود پانی اس سے گر نہیں جاتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر کرہ سماوی کی طرح ہماری زمین میں بھی کشش ثقل موجود ہے۔ جس کی وجہ سے اشیاء زمین پر از خود گر تو سکتی ہیں مگر خود بخود کسی طاقت کے استعمال کے بغیر اوپر نہیں اٹھ سکتیں ماسوائے گیسوں اور ابخرات آبی کے کہ ان کا کرہ ہی زمین سے اوپر ہے۔ اگر کوئی گیس جو عام ہوا سے ہلکی ہوگی زمین سے بھی نکلے گا تو از خود اوپر اٹھ جائے گی۔ یہ عجائبات ہی کیا کم تھے اب مزید علم ہیئت کی تحقیقات نے ان عجائبات میں بےپناہ اضافہ کردیا ہے۔ مثلاً ایک یہ کہ ہماری زمین سورج کے سامنے رہتے ہوئے اپنے محور کے گرد تقریباً ایک ہزارمیل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے۔ اور اس کا چکر ایک دن رات یا ٢٤ گھنٹوں میں پورا ہوتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ ہماری زمین سورج سے ٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل دور ہے اور اس کے گرد بھی ایک سال میں ایک گردش پوری کرتی ہے تو یا سورج کے گرد اس کی گردش کی رفتار چھیاسٹھ ہسار چھ سو میل فی گھنٹہ ہے۔ ان دون قسم کی گردشوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس قدر جکڑ رکھا ہے کہ ہم مسحوس تک نہیں کرسکتے اور آرام سے اس پر چلتے پھرتے اور زندگی بسر کرتے ہیں۔ زمین کے جائے قرار ہونے کا ایک مفہوم یہ ہوا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے کہ ہماری زمین پہلی ان گردشوں کی وجہ سے ( ہچکولے کھاتی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کی مختلف اطراف میں پہاڑ ایسی مناسبت سے رکھ دیئے کہ ہچکولے کھانا بند ہوگئی اور انسان اور دوسری تمام اشیاء کے لئے قرار بن گئی۔ اس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اگر زمین ہمیشہ سورج کے سامنے رہتی تو زمین کے نصف حصہ پر تو ہمیشہ دن ہی چڑھا رہتا اور باقی نصف پر ہمیشہ رات ہی رہتی۔ اس طرح پوری کی پوری زمین نباتات اور سب جانداروں کے لئے بالکل ناکارہ ثابت ہوتی۔ اس لئے کہ نباتات اور جانداروں کی زندگی اور نشوونما کے لئے جیسے دن کی ضرورت ہے ویسے ہی رات کی بھی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر رات اور دن کا نظام قائم فرما کر اسے تمام مخلوق کے لئے جائے قرار بنادیا اور اس کا چوتھا پہلو یہ ہے کہ زمین سے سورج کا فاصلہ اگر موجودہ فاصلہ سے کم ہوتا تو تمام مخلوق گرمی کی شدت اور تپش سے مرجھا جاتی اور بالاخر ختم یا تباہ ہوجاتی اور اگر یہ فاصلہ زیادہ ہوتا تو اتنی زیادہ سردی ہوتی کہ تمام تر مخلوق سردی سے ٹھٹھر جاتی اور بالاخر تباہ یا ہلاک ہوجاتی۔ اس طرح بھی یہ زمین مخلوق کے لئے جائے قرار نہ بن سکتی تھی۔ اس کا پانچواں پہلو یہ ہے کہ ہماری زمین سورج کے گرد ٦٦ ڈگری درجے کا زاویہ بنتے ہوئے گھوم رہی ہے۔ جس سے ایک تو دن اور رات کے اوقات میں بتدریج تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ کبھی دن بڑے ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور راتیں بتدریج چھوٹی ہوتی جاتی ہیں۔ اور کبھی اس کے برعکس معاملہ شروع ہوجاتا ہے پھر اس بنا پر موسموں میں تبدیلی آتی ہے کبھی موجسم گرما ہوتا ہے، کبھی سرما، کبھی بہار، کبھی خزاں اور کبھی برسات اور ان موسموں کا مختلف قسم کی اجناس، غلے اور پھل دار درختوں کے پیدا ہونے، ان کی نشوونما اور فصلوں اور پھلوں کے پکنے سے گہرا تعلق ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ نظام قائم نہ فرماتے تو پھر اس زمین پر بسنے والوں کے لئے خوراک کا مسئلہ نہایت پریشان کن صورت اختیار کرسکتا تھا۔ اس صورت میں یہ زمین ہمارے لئے جائے قرار نہیں بن سکتی تھی اور اس کا چھٹا پہلو یہ ہے کہ ہماری زمین سے اوپر پانچ چھ سو میل کی بلندی تک کثیف ہوا کا کرہ بنا کر زمین کو آفات سماوی یا فضاوی سے محفوظ بنادیا گیا ہے۔ موجودہ تحقیق کے مطابق تقریباً دو کروڑ شہاب ثاقب روزانہ ٣٠ میل فی سیکنڈ کی برق رفتاری سے ہماری زمین کا رخ کرتے ہوئے گرتے ہیں۔ جب وہ اس کرہ ہوائی میں پہنچتے ہیں تو انھیں آگ لگ جاتی ہے اور وہیں ختم ہوجاتے ہیں۔ پھر بعض اوقات کوئی بڑی زیادہ جسامت والا شہاب زمین پر گر بھی پڑتا ہے اور زمین کے گرد گہرا گڑھا ڈال دیتا ہے لیکن ایسا کبی کبھار ہوتا ہے جیسا اللہ کو منظور ہوتا ہے۔ عام حالات میں ہم ان سے محفوظ رہتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ زمین کے گرد کرہ ہوائی کا یہ نطام نہ فرماتے تو زمین کبھی محفوظ جائے قرار نہیں بن سکتی تھی۔ غرض اس مسئلہ کے اتنے زیادہ پہلو ہیں کہ جتنا بھی ان میں غور کیا جائے مزید پہلو سامنے آتے جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا اس نظام کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی اور معبود کا بھی کچھ دخل ہے خواہ یہ دخل کتنا ہی معمول ہو ؟ اور اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے تو پھر دوسروں کو اللہ کی عبادت میں کیسے شریک بنایا جاسکتا ہے ؟۔- [٦٣] نہروں سے مراد تمام ندی، نالے اور دریا وغیرہ ہیں انھیں ایک تو بارش سے پانی مہیا ہوتا ہے بارش کا کچھ پانی زمین اپنے اندر جذب کرلیتی ہے باقی زائد پانی ندی نالوں کی طرف رخ کرلیتا ہے۔ اور ان کا سب سے بڑا منبع پہاڑ اور پہاڑوں کے درمیان چشمے ہیں سردیوں میں پہاڑوں پر برف جم جاتی ہے جو گرمیوں میں پگھل کر پہلے ندی نالوں کی اور پھر دریاؤں کی صورت اختیار کرلیتی ہے یا یہ پانی پہلے سے بنے ہوئے ندی نالوں کا رخ اختیار کرلیتا ہے۔ انھیں کے ذریعہ ان علاقوں میں سیرابی ہوتی ہے۔ جہاں بارش کم ہوتی ہے یا وقت پر نہیں ہوتی۔ اور نہروں کا بالخصوص ذکر اس لئے فرمایا کہ تمام نباتات اور جانداروں کی زندگی اور نشوونما کا دارومدار پانی پر ہے۔ ہوا کے بعد پانی میں ایسی اہم چیز ہے جس کے بغیر کوئی چیز اپنی زندگی باقی نہیں رکھ سکتی۔- [٦٤] اس کی تشریح کے لئے سورة فرقان کی آیت نمبر ٥٣ کی حاشیہ نمبر ٦٦ ملاحظہ فرمائیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا : یا کون ہے جس نے زمین کو ٹھہرنے کی جگہ بنایا۔ مفسر عبدالرحمان کیلانی (رض) لکھتے ہیں : ” اس ایک جملے میں اللہ تعالیٰ کی کئی قدرتیں سمٹ کر آگئی ہیں۔ یہ بات تو ہزاروں سال پہلے انسان کے علم میں آچکی تھی کہ ہمارا یہ عظیم الجثہ کرۂ زمین گول ہے اور فضا میں معلق ہے۔ زمین کا اکثر حصہ سمندر ہے اور زمین کے گول ہونے کے باوجود پانی اس سے گر نہیں جاتا۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر آسمانی کرہ کی طرح ہماری زمین میں بھی کشش ثقل موجود ہے، جس کی وجہ سے اشیاء زمین پر از خود گر تو سکتی ہیں مگر خود بخود کسی طاقت کے استعمال کے بغیر اوپر نہیں اٹھ سکتیں، ماسوائے گیسوں اور آبی بخارات کے کہ ان کا کرّہ ہی زمین سے اوپر ہے۔ اگر کوئی گیس جو عام ہوا سے ہلکی ہو، زمین سے بھی نکلے گی تو از خود اوپر اٹھ جائے گی۔ یہ عجائبات ہی کیا کم تھے کہ اب مزید علم ہیئت کی تحقیقات نے ان عجائبات میں بےپناہ اضافہ کردیا ہے، مثلاً یہ کہ ہماری زمین سورج کے سامنے رہتے ہوئے اپنے محور کے گرد تقریباً ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے اور اس کا چکر ایک دن رات یا ٢٤ گھنٹوں میں پورا ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ ہماری زمین سورج سے ٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل دور ہے اور اس کے گرد بھی ایک سال میں ایک گردش پوری کرتی ہے، تو گویا سورج کے گرد اس کی گردش کی رفتار چھیاسٹھ ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ ہے۔ ان دونوں قسم کی گردشوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس قدر جکڑ رکھا ہے کہ ہم محسوس تک نہیں کرسکتے، بلکہ آرام سے اس پر چلتے پھرتے اور زندگی بسر کرتے ہیں۔ زمین کے جائے قرار ہونے کا ایک مفہوم یہ ہوا اور صحیح احادیث میں وارد ہے کہ ہماری زمین پہلے ان گردشوں کی وجہ سے ہچکولے کھاتی تھی، تو اللہ تعالیٰ نے اس کی مختلف اطراف میں پہاڑ ایسی مناسبت سے رکھ دیے کہ ہچکولے کھانا بند ہوگئی اور دوسری تمام اشیاء کے لیے قرار بن گئی۔ اس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اگر زمین ہمیشہ سورج کے سامنے رہتی تو زمین کے نصف حصہ پر تو ہمیشہ دن چڑھا رہتا اور باقی نصف پر ہمیشہ رات ہی رہتی، اس طرح پوری کی پوری زمین نباتات اور سب جانداروں کے لیے بالکل ناکارہ ثابت ہوتی۔ اس لیے کہ نباتات اور جانداروں کی زندگی اور نشو و نما کے لیے جیسے دن کی ضرورت ہے ویسے ہی رات کی بھی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر رات اور دن کا نظام قائم فرما کر اسے تمام مخلوق کے لیے جائے قرار بنادیا۔ اس کا چوتھا پہلو یہ ہے کہ زمین سے سورج کا فاصلہ اگر موجودہ فاصلے سے کم ہوتا تو تمام مخلوق گرمی کی شدت اور تپش سے مرجھا جاتی اور بالآخر ختم یا تباہ ہوجاتی اور اگر یہ فاصلہ زیادہ ہوتا تو اتنی زیادہ سردی ہوتی کہ تمام تر مخلوق سردی سے ٹھٹھر جاتی اور بالآخر تباہ یا ہلاک ہوجاتی۔ اس طرح بھی یہ زمین مخلوق کے لیے جائے قرار نہ بن سکتی تھی۔ اس کا پانچواں پہلو یہ ہے کہ ہماری زمین سورج کے گرد ٧٧ ڈگری کا زاویہ بناتے ہوئے گھوم رہی ہے، جس سے ایک تو دن اور رات کے اوقات میں بتدریج تبدیلی ہوتی رہتی ہے، کبھی دن بڑے ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور راتیں بتدریج چھوٹی ہوتی جاتی ہیں اور کبھی اس کے برعکس معاملہ شروع ہوجاتا ہے، پھر اس بنا پر موسموں میں تبدیلی آتی ہے، کبھی موسم گرما ہوتا ہے کبھی سرما، کبھی بہار، کبھی خزاں اور کبھی برسات اور ان موسموں کا مختلف قسم کی اجناس، غلے اور پھل دار درختوں کے پیدا ہونے، ان کی نشو و نما اور فصلوں اور پھلوں کے پکنے سے گہرا تعلق ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ نظام قائم نہ فرماتے تو پھر اس زمین پر بسنے والوں کے لیے خوراک کا مسئلہ نہایت پریشان کن صورت اختیار کرسکتا تھا۔ اس صورت میں یہ زمین ہمارے لیے جائے قرار نہ بن سکتی تھی اور اس کا چھٹا پہلو یہ ہے کہ ہماری زمین سے اوپر پانچ چھ سو میل کی بلندی تک کثیف ہوا کا کرہ بنا کر زمین کو آفات سماوی یا فضائی سے محفوظ بنادیا گیا ہے۔ موجودہ تحقیق کے مطابق تقریباً دو کروڑ شہاب ثاقب روزانہ ٣٠ میل فی سیکنڈ کی برق رفتاری سے ہماری زمین کا رخ کرتے ہوئے گرتے ہیں۔ جب وہ اس کرۂ ہوائی میں پہنچتے ہیں تو انھیں آگ لگ جاتی ہے اور وہیں ختم ہوجاتے ہیں۔ پھر بعض اوقات زیادہ بڑی جسامت والا شہاب زمین پر گر بھی پڑتا ہے اور زمین میں گہرا گڑھا ڈال دیتا ہے، لیکن ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے، جیسا اللہ کو منظور ہوتا ہے، عام حالات میں ہم ان سے محفوظ رہتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ زمین کے گرد کرۂ ہوائی کا یہ انتظام نہ فرماتے تو زمین کبھی محفوظ جائے قرار نہیں بن سکتی تھی۔ غرض اس مسئلہ کے اتنے زیادہ پہلو ہیں کہ جتنا بھی ان میں غور کیا جائے مزید پہلو سامنے آتے جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا اس نظام کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی اور معبود کا بھی کچھ دخل ہے، خواہ یہ دخل کتنا ہی معمولی ہو ؟ اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے تو پھر دوسروں کو اللہ کی عبادت میں کیسے شریک بنایا جاسکتا ہے ؟ “ (تیسیر القرآن)- وَّجَعَلَ خِلٰلَهَآ اَنْهٰرًا : نہروں سے مراد تمام ندی نالے اور دریا وغیرہ ہیں، انھیں ایک تو بارش سے پانی مہیا ہوتا ہے، بارش کا کچھ پانی زمین اپنے اندر جذب کرلیتی ہے، باقی زائد پانی ندی نالوں کی طرف رخ کرلیتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا منبع پہاڑ اور پہاڑوں کے درمیان چشمے ہیں۔ سردیوں میں پہاڑوں پر برف جم جاتی ہے جو گرمیوں میں پگھل کر پہلے ندی نالوں کی اور پھر دریاؤں کی صورت اختیار کرلیتی ہے، یا یہ پانی پہلے سے بنے ہوئے ندی نالوں کا رخ اختیار کرلیتا ہے۔ انھی کے ذریعے سے ان علاقوں میں سیرابی ہوتی ہے جہاں بارش کم ہوتی ہے، یا وقت پر نہیں ہوتی اور نہروں کا بالخصوص ذکر اس لیے فرمایا کہ تمام نباتات اور جانداروں کی زندگی اور نشو و نما کا دارومدار پانی پر ہے۔ ہوا کے بعد پانی ایسی اہم چیز ہے جس کے بغیر کوئی چیز اپنی زندگی باقی نہیں رکھ سکتی۔ (کیلانی)- وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة فرقان (٥٣) ۔- بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ : یعنی اکثر مشرکین حق کا علم نہیں رکھتے، اس لیے اللہ کے ساتھ شریک بناتے ہیں۔ اکثر اس لیے فرمایا کہ کچھ ایسے بھی ہیں جو حق کا علم رکھتے ہیں، مگر عناد کی وجہ سے اسے قبول نہیں کرتے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّجَعَلَ خِلٰلَہَآ اَنْہٰرًا وَّجَعَلَ لَہَا رَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا۝ ٠ۭ ءَاِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۝ ٠ۭ بَلْ اَكْثَرُہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٦١ۭ- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - قرار - قَرَّ في مکانه يَقِرُّ قَرَاراً ، إذا ثبت ثبوتا جامدا، وأصله من القُرِّ ، وهو البرد، وهو يقتضي السّكون، والحرّ يقتضي الحرکة، وقرئ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [ الأحزاب 33] «1» قيل «2» : أصله اقْرِرْنَ فحذف إحدی الرّاء ین تخفیفا نحو : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ [ الواقعة 65] ، أي : ظللتم . قال تعالی: جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَراراً [ غافر 64] - ( ق ر ر ) قرر - فی مکانہ یقر قرار ا ( ض ) کے معنی کسی جگہ جم کر ٹھہر جانے کے ہیں اصل میں یہ فر سے ہے جس کے معنی سردی کے ہیں جو کہ سکون کو چاہتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [ الأحزاب 33 اور اپن گھروں میں ٹھہری رہو ۔ میں ایک قرات وقرن فی بیوتکن ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں اقررن ہے ایک راء کو تخفیف کے لئے خلاف کردیا گیا ہے جیسا کہ آیت ؛ فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ [ الواقعة 65] ، ہے اور ایک ) لام کو تخفیفا حذف کردیا گیا ہے ۔ القرار ( اسم ) ( ٹھہرنے کی جگہ ) قرآن میں ہے : جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَراراً [ غافر 64]( جس نے ) زمین کو قرار لگا دبنا یا - خل ( درمیان)- الخَلَل : فرجة بين الشّيئين، وجمعه خِلَال، کخلل الدّار، والسّحاب، والرّماد وغیرها، قال تعالیٰ في صفة السّحاب : فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلالِهِ [ النور 43] ، فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء 5] ، قال الشاعر :- 143-- أرى خلل الرّماد ومیض جمر - وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] ، أي : سعوا وسطکم بالنّميمة والفساد .- ( خ ل ل ) الخلل - ۔ دو چیزوں کے درمیان کشاد گی اور فاصلہ کو کہتے ہیں مچلا بادل اور گھروں کے درمیا کا فاصلہ یا راکھ وغیرہ کا اندرونی حصہ اس کی جمع خلال ہے ۔ چناچہ بادل کے متعلق فرمایا : فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء 5] تم دیکھتے ہو کہ اس کے بیچ میں سے بارش برسنے لگتی ہے ۔ اور گھروں کے متعلق فرمایا : اور وہ شہروں کے اندر پھیل گئے ۔ شاعر نے کہا ہے میں راکھ کے اندر آگ کے انگارے کی چمک دیکھتا ہوں ۔ اور آیت کریمہ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] اور تم میں دوڑے دوڑے پھرتے ۔ یعنی چغل خواری اور اور فساد سے تمہارے درمیان فتنہ انگیزی کی کوشش کرتے ۔- نهر - النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] ، - ( ن ھ ر ) النھر - ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔- رسا - يقال : رَسَا الشیء يَرْسُو : ثبت، وأَرْسَاهُ غيره، قال تعالی: وَقُدُورٍ راسِياتٍ- [ سبأ 13] ، وقال : رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات 27] ، أي : جبالا ثابتات، وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات 32] ،- ( ر س و )- رسا الشئی ۔ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں اور ارسٰی کے معنی ٹھہرانے اور استوار کردینے کے ۔ قرآن میں ہے : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] اور بڑی بھاری بھاری دیگیں جو ایک پر جمی رہیں ۔ رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات 27] اور انچے انچے پہاڑ یہاں پہاڑوں کو بوجہ ان کے ثبات اور استواری کے رواسی کہا گیا ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا :- وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات 32] اور پہاڑوں کو ( اس میں گاڑ کر ) پلادیا ۔ - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - بحر - أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته - المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر :- 39-- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب - «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ- [ الروم 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره .- ( ب ح ر) البحر - ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ - حجز - الحَجْزُ : المنع بين الشيئين بفاصل بينهما، يقال : حَجَزَ بينهما . قال عزّ وجل : وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حاجِزاً [ النمل 61] ، والحِجَاز سمّي بذلک لکونه حاجزا بين الشام والبادية، قال تعالی: فَما مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حاجِزِينَ [ الحاقة 47] ، فقوله : حاجِزِينَ صفة لأحد في موضع الجمع، والحِجَاز حبل يشدّ من حقو البعیر إلى رسغه، وتصوّر منه معنی الجمع، فقیل : احتجز فلان عن کذا واحتجز بإزاره، ومنه : حُجْزَة السراویل، وقیل : إن أردتم المحاجزة فقبل المناجزة «1» ، أي : الممانعة قبل المحاربة، وقیل : حَجَازيك، أي : احجز بينهم .- ( ح ج ز ) الحجز ( ن ض ) کے معنی دو چیزوں کے درمیان روک اور حد فاصل بنانے کے ہیں کہا جاتا ہے حجز بینھما دان کے درمیان حد ۔ فاصل قائم کردی جیسے فرمایا : وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حاجِزاً [ النمل 61] اور ( کس نے ) دو دریاؤں کے بیچ اوٹ بنادی ۔ اور ھجاز کو بھی اسی لئے کہا جاتا ہے کہ شام اور بادیہ کے درمیان حائل ہے ۔ اور آیت کریمہ : فَما مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حاجِزِينَ [ الحاقة 47] پھر تم میں سے کوئی ( ہمیں ) اس سے روکنے والا نہیں ہے ۔ میں حاجزین احد کی صفت ہے کیونکہ احد کا لفظ معنی جمع ہے ۔ نیز حجانہ اس رسی کو کہتے ہیں جو اونٹ کی کلائی میں ڈال کر اسے اس کی کمر کے ساتھ باند دیتے ہیں ( تاکہ ہل نہ سکے ) پھر حجز میں معنی منع کے پیش نظر احتجز فلان عن کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے رک جانیکے ہیں اھتجز بازارہٰ تہبند باندھنا ۔ اسی سے حجزۃ السرا ویل ہے جس کے معنی انار بند کے نیضہ کے ہیں مشہور محاورہ ہے ۔ ان ارد تم المحاجزۃ فقبل المناجزۃ یعنی ایک دوسرے کو روکنے اور صلح کا موقعہ لڑائی سے قبل ہوتا ہے ۔ حجازیک یعنی ان کے درمیان حائل ہو جائے - كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦١) اور یہ بتاؤ کہ یہ بت بہتر ہیں یا وہ ذات جس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اس کے درمیان نہریں جاری کیں اور زمین کے ٹھہرانے کے لیے میخوں کی طرح مضبوط پہاڑ بنائے اور شیریں اور تلخ دو دریاؤں کے درمیان ایک حد بنائی جس کی بنا پر ایک دوسرے کا پانی ایک دوسرے سے نہیں ملتا اب بتاؤ کہ کیا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور معبود کی یہ کارگزاریاں ہیں بلکہ ان میں اکثر تو اس چیز کی تصدیق ہی نہیں کرتے اچھا اور سن کر بتاؤ کہ یہ بت بہتر ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ط) ” - کیا کوئی ایسی دوسری ہستی تمہاری نظر میں ہے جو ان کاموں میں اللہ کے ساتھ شریک ہو ؟- (بَلْ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ) ” - تاویل خاص کے اعتبار سے ان آیات کے مخاطبینِ اوّلین مشرکین مکہّ تھے اور ان کے پاس ان پے در پے سوالات کا ایک ہی جواب تھا ‘ اور وہ یہ کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے اس حوالے سے ان کے خیالات ‘ نظریات اور عقائد کے بارے میں جاننا ضروری ہے اور یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ان کے شرک کی صورت اور نوعیت کیا تھی ؟ چناچہ اس سلسلے میں یہ بات بہت اہم ہے کہ مشرکین مکہ اللہ کو معبود بھی مانتے تھے اور اس کو اس کائنات کا خالق بھی تسلیم کرتے تھے۔ البتہ کچھ شخصیات (جن کے ُ بت انہوں نے بنا رکھے تھے) کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ وہ اللہ کے لاڈلے ‘ چہیتے اور مقربین ہیں اور وہ اللہ کے ہاں ان کی سفارش کریں گے : (ھٰٓؤُلَآءِ شُفَعَآؤُ نَا عِنْدَ اللّٰہِ ط) (یونس : ١٨) ۔ بس ان کا شرک اس سے زائد کچھ نہیں تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 74 زمین کا اپنی بے حد و حساب مختلف النوع آبادی کے لیے جائے قرار ہونا بھی کوئی سادہ سی بات نہیں ہے ۔ اس کرہ خاکی کو جن حکیمانہ مناسبتوں کے ساتھ قائم کیا گیا ہے ان کی تفصیلات پر آدمی غور کرے تو اس کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مناسبتیں ایک حکیم و دانا قادر مطلق کی تدبیر کے بغیر قائم نہ ہوسکتی تھیں ، یہ کرہ فضائے بسیط میں معلق ہے ، کسی چیز پر ٹکا ہوا نہیں ہے ، مگر اس کے باوجود اس میں کوئی اضطراب اور اہتزاز نہں ہے ، اگر اس میں ذرا سا بھی اہتزاز ہوتا جس کے خطرناک نتائک کا ہم کبھی زلزلہ آجانے سے بآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں ، تو یہاں کوئی آبادی ممکن نہ تھی ، یہ کرہ باقاعدگی کے ساتھ سورج کے سامنے آتا اور چھپتا ہے جس سے رات اور دن کا اختلاف رونما ہوتا ہے ، اگر اس کا ایک ہی رخ ہر وقت سورج کے سامنے رہتا اور دوسرا رخ ہر وقت چھپا رہتا تو یہاں کوئی آبادی ممکن نہ ہوتی کیونکہ ایک رخ کو سردی اور بے نوری نباتات اور حیوانات کی پیدائش کے قابل نہ رکھتی اور دوسرے رخ کو گرمی کی شدت بے آب و گیاہ اور غیر آباد بنا دیتی ۔ اس کرہ پر پانچ سو میل کی بلندی تک ہوا کا ایک کثیف ردا چرھا دیا گیا ہے جو شہابوں کی خوفناک بم باری سے اسے بچائے ہوئے ہے ۔ ورنہ روزانہ دو کروڑ شہاب ، جو 30 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین کی طرف گرتے ہیں ، یہاں وہ تباہی مچاتے ہیں کہ کوئی انسان ، حیوان یا درخت جیتا نہ رہ سکتا تھا ، یہی ہوا درجہ حرارت کو قابو میں رکھتی ہے ، یہی سمندروں سے بادل اٹھاتی اور زمین کے مختلف حصوں تک آب رسانی کی خدمت انجام دیتی ہے اور یہی انسان اور حیوان اور نباتات کی زندگی کو مطلوبہ گیسیں گراہم کرتی ہے ، یہ نہ ہوتی تب بھی زمین کسی آبادی کے لیے جائے قرار نہ بن سکتی ، اس کرے کی سطح سے بالکل متصل وہ معدنیات اور مختلف قسم کے کیمیاوی اجزاء بڑے پیمانے پر فراہم کردیے گئے ہیں جو نباتی ، حیوانی اور انسانی زندگی کے لیے مطلوب ہیں ، جس جگہ بی یہ سرو سامان مفقود ہوتا ہے وہاں کی زمین کسی زندگی کو سہارنے کے لائق نہیں ہوتی ، اس کرے پر سمندروں ، دریاؤں ، جھیلوں ، چشموں اور زیر زمین سوتوں کی شکل میں پانی کا بڑا عظیم الشان ذخیرہ فراہم کردیا گیا ہے ، اور پہاڑوں پر بھی اس کے بڑے بڑے ذخائر کو منجمد کرنے اور پھر پگھلا کر بہانے کا انتظام کیا گیا ہے ، اس تدبیر کے بغیر یہاں کسی زندگی کا امکان نہ تھا ، پھر اس پانی ، ہوا اور تمام ان اشیاء کو جو زمین پر پائی جاتی ہیں ، سمیٹے رکھنے کے لیے اس کرے میں نہایت ہی مناسب کشش رکھ دی گئی ہے ، یہ کشش اگر کم ہوتی تو ہوا اور پانی ، دونوں کو نہ روک سکتی اور درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوتا کہ زندگی یہاں دشوار ہوجاتی ، یہ کشش اگر زیادہ ہوتی تو ہوا بہت کثیف ہوجاتی ، اس کا دباؤ بہت بڑھ جاتا ، بخارات آبی کا اٹھنا مشکل ہوتا اور بارشیں نہ ہوسکتیں ، سردی زیادہ ہوتی ، زمین کے بہت کم رقبے آبادی کے قابل ہوتے ، بلکہ کشش ثقل بہت زیادہ ہونے کی صورت انسان اور حیوانات کی جسامت بہت کم ہوتی اور ان کا وزن اتنا زیادہ ہوتا کہ نقل و حرکت بھی ان کے لیے مشکل ہوتی ، علاوہ بریں اس کرے کو سورج سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے جو آبای کے لیے مناسب ترین ہے ۔ اگر اس کا فاصلہ زیادہ ہوتا تو سورج سے اس کو حرارت کم ملتی ، سردی بہت زیادہ ہوتءی تو موسم بہت لمبے ہوتے ، اور مشکل ہی سے یہ آبادی کے قابل ہوتا ، اور اگر فاصلہ کم ہوتا تو اس کے برعکس گرمی کی زیادتی اور دوسری بہت سی چیزیں مل جل کر اسے انسان جیسی مخلوق کی سکونت کے قابل نہ رہنے دیتیں ۔ ہپ صرف چند وہ مناسبتیں ہیں جن کی بدولت زمین اپنی موجودہ آبادی کے لیے جائے قرار بنی ہے ، کوئی شخص عقل رکھتا ہو اور ان امور کو نگاہ میں رکھ کر سوچے تو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی نہ یہ تصور کرسکتا ہے کہ کسی خالق حکیم کی منصوبہ سازی کے بغیر یہ مناسبتیں محض ایک حادثہ کے نتیجے میں خود بخود قائم ہوگئی ہیں ، اور نہ یہ گمان کرسکتا ہے کہ اس عظیم الشان تخلیقی منصوبے کو بنانے اور رو بعمل لانے میں کسی دیوی دیوتا ، یا جن ، یا نبی و ولی یا فرشتے کا کوئی دخل ہے ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 75 یعنی میٹھے اور کھاری پانی کے ذخیرے جو اسی زمین پر موجود ہیں ، مگر باہم خلط ملط نہیں ہوتے ، زیر زمین پانی کی سوتیں بسا اوقات ایک ہی علاقے مٰں کھاری پانی الگ اور میٹھا پانی الگ لیکر چلتی ہیں ، کھاری پانی کے سمندر تک میں بعض مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے رواں ہوتے ہیں اور ان کی دھار سمندر کے پانی سے اس طرح الگ ہوتی ہے کہ بحری مسافر اس میں سے پینے کے لیے پانی حاصل کرسکتے ہیں ۔ ( تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، سورہ الفرقان ، حاشیہ 68 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

31: جہاں دو دریا یا دو سمندر ملتے ہیں، وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا یہ کرشمہ دکھایا ہے کہ دونوں کے پانی آپس میں ملتے نہیں ہیں، بلکہ دور تک دونوں دریا ساتھ ساتھ بہنے کے باوجود الگ الگ نظر آتے ہیں، گویا ان کے درمیان ایک آڑ کھڑی کردی گئی ہے۔