Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

سختیوں اور مصیبتوں کے وقت پکارے جانے کے قابل اسی کی ذات ہے ۔ بےکس بےبس لوگوں کا سہارا وہی ہے گرے پڑے بھولے بھٹکے مصیبت زدہ اسی کو پکارتے ہیں ۔ اسی کی طرف لو لگاتے ہیں جیسے فرمایا کہ تمہیں جب سمندر کے طوفان زندگی سے مایوس کردیتے ہیں تو تم اسی کو پکارتے ہو اسکی طرف گریہ وزاری کرتے ہو اور سب کو بھول جاتے ہو ۔ اسی کی ذات ایسی ہے کہ ہر ایک بےقرار وہاں پناہ لے سکتا ہے مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبت اس کے سوا کوئی بھی دور نہیں کرسکتا ۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ حضور آپ کس چیز کی طرف ہمیں بلا رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا اللہ کی طرف جو اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں جو اس وقت تیرے کام آتا ہے جب تو کسی بھنور میں پھنسا ہوا ہو ۔ وہی ہے کہ جب تو جنگلوں میں راہ بھول کر اسے پکارے تو وہ تیری رہنمائی کردے تیرا کوئی کھو گیا ہو اور تو اس سے التجا کرے تو وہ اسے تجھ کو ملادے ۔ قحط سالی ہوگئی ہو اور تو اس سے دعائیں کرے تو وہ موسلا دھار مینہ تجھ پر برسادے ۔ اس شخص نے کہا یارسول اللہ مجھے کچھ نصیحت کیجئے ۔ آپ نے فرمایا کسی کو برا نہ کہو ۔ نیکی کے کسی کام کو ہلکا اور بےوقعت نہ سمجھو ۔ خواہ اپنے مسلمان بھائی سے بہ کشادہ پیشانی ملنا ہو گو اپنے ڈول سے کسی پیاسے کو ایک گھونٹ پانی کا دینا ہی ہو اور اپنے تہبند کو آدھی پنڈلی تک رکھ ۔ لمبائی میں زیادہ ٹخنے تک ۔ اس سے نیچے لٹکانے سے بچتا رہ ۔ اس لئے کہ یہ فخر و غرور ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے ( مسند احمد ) ایک روایت میں انکا نام جابر بن سلیم ہے ۔ اس میں ہے کہ جب حضور کے پاس آیا آپ ایک چادر سے گوٹ لگائے بیٹھے تھے جس کے پھندنے آپ کے قدموں پر گر رہے تھے میں نے آکر پوچھا کہ تم میں اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں؟ آپ نے اپنے ہاتھ سے خود اپنی طرف اشارہ کیا میں نے کہا یارسول اللہ میں ایک گاؤں کا رہنے والا آدمی ہوں ادب تمیز کچھ نہیں جانتا مجھے احکام اسلام کی تعلیم دیجئے ۔ آپ نے فرمایا کہ کسی چھوٹی سی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھ ، خواہ اپنے مسلمان بھائی سے خوش خلقی کے ساتھ ملاقات ہو ۔ اور اپنے ڈول میں سے کسی پانی مانگے والے کے برتن میں ذراسا پانی ڈال دینا ہی ہو ۔ اگر کوئی تیری کسی شرمناک بات کو جانتاہو اور وہ تجھے شرمندہ کرے تو تو اسے اس کی کسی ایسی بات کی عار نہ دلا تاکہ اجر تجھے ملے اور وہ گنہگار بن جائے ۔ ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانے سے پرہیز کر کیونکہ یہ تکبر ہے اور تکبر اللہ کو پسند نہیں اور کسی کو بھی ہرگز گالی نہ دینا ۔ حضرت طاؤس ایک بیمار کی بیمار پرسی کے لئے گئے اس نے کہا میرے لئے دعا کرو آپ نے فرمایا تم خود اپنے لئے دعا کرو بےقرار کی بےقراری کے وقت کی دعا اللہ قبول فرماتا ہے ۔ حضرت وہب فرماتے ہیں میں نے اگلی آسمانی کتاب میں پڑھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے میری عزت کی قسم جو شخص مجھ پر اعتماد کرے اور مجھے تھام لے تو میں اسے اسکے مخالفین سے بچالوں گا اور ضرور بچالوں گا چاہے آسمان وزمین وکل مخلوق اس کی مخالفت اور ایذاء دینے پر تلے ہوں ۔ اور جو مجھ پر اعتماد نہ کرے میری پناہ میں نہ آئے تو میں اسے مان وامان سے چلتا پھرتا ہونے کے باوجود اگر چاہوں گا تو زمین میں دھنسادوں گا ۔ اور اس کی کوئی مدد نہ کروں گا ۔ ایک بہت ہی عجیب واقعہ حافظ ابن عساکر نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے ۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ میں ایک خچر پر لوگوں کو دمشق سے زیدانی لے جایاکرتا تھا اور اسی کرایہ پر میری گذر بسر تھی ۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے خچر مجھ سے کرایہ پرلیا ۔ میں نے اسے سوار کیا اور چلا ایک جگہ جہاں دو راستے تھے جب وہاں پہنچے تو اس نے کہا اس راہ پر چلو ۔ میں نے کہا میں اس سے واقف نہیں ہوں ۔ سیدھی راہ یہی ہے ۔ اس نے کہا نہیں میں پوری طرح واقف ہوں ، یہ بہت نزدیک راستہ ہے ۔ میں اس کے کہنے پر اسی راہ پر چلا تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک لق ودق بیابان میں ہم پہنچ گئے ہیں جہاں کوئی راستہ نظر نہیں آتا ۔ نہایت خطرناک جنگل ہے ہر طرف لاشیں پڑی ہوئی ہیں ۔ میں سہم گیا ۔ وہ مجھ سے کہنے لگا ذرا لگام تھام لو مجھے یہاں اترنا ہے میں نے لگام تھام لی وہ اترا اور اپنا تہبند اونچا کرکے کپڑے ٹھیک کرکے چھری نکال کر مجھ پر حملہ کیا ۔ میں وہاں سے سرپٹ بھاگا لیکن اس نے میرا تعاقب کیا اور مجھے پکڑلیا میں اسے قسمیں دینے لگا لیکن اس نے خیال بھی نہ کیا ۔ میں نے کہا اچھا یہ خچر اور کل سامان جو میرے پاس ہے تو لے لے اور مجھے چھوڑ دے اس نے کہا یہ تو میرا ہو ہی چکا لیکن میں تجھے زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا میں نے اسے اللہ کا خوف دلایا آخرت کے عذابوں کا ذکر کیا لیکن اس چیز نے بھی اس پر کوئی اثر نہ کیا اور وہ میرے قتل پر تلا رہا ۔ اب میں مایوس ہوگیا اور مرنے کے لئے تیار ہوگیا ۔ اور اس سے منت سماجت کی کہ تم مجھے دو رکعت نماز ادا کرلینے دو ۔ اس نے کہا اچھا جلدی پڑھ لے ۔ میں نے نماز شروع کی لیکن اللہ کی قسم میری زبان سے قرآن کا ایک حرف نہیں نکلتا تھا ۔ یونہی ہاتھ باندھے دہشت زدہ کھڑا تھا اور جلدی مچا رہا تھا اسی وقت اتفاق سے یہ آیت میری زبان پر آگئی آیت ( اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ 62۝ۭ ) 27- النمل:62 ) یعنی اللہ ہی ہے جو بےقرار کی بےقراری کے وقت کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہے اور بےبسی بےکسی کو سختی اور مصیبت کو دور کردیتا ہے پس اس آیت کا زبان سے جاری ہونا تھا جو میں نے دیکھا کہ بیچوں بیچ جنگل میں سے ایک گھڑ سوار تیزی سے اپنا گھوڑا بھگائے نیزہ تانے ہماری طرف چلا آرہاہے اور بغیر کچھ کہے اس ڈاکو کے پیٹ میں اس نے اپنا نیزہ گھونپ دیا جو اس کے جگر کے آر پار ہوگیا اور وہ اسی وقت بےجان ہو کر گر پڑا ۔ سوار نے باگ موڑی اور جانا چاہا لیکن میں اس کے قدموں سے لپٹ گیا اور بہ الحاح کہنے لگا اللہ کے لئے یہ بتاؤ تم کون ہو؟ اس نے کہا میں اس کا بھیجا ہوا ہوں جو مجبوروں بےکسوں اور بےبسوں کی دعا قبول فرماتا ہے اور مصیبت اور آفت کوٹال دیتا ہے میں نے اللہ کا شکر کیا اور اپنا سامان اور خچر لے کر صحیح سالم واپس لوٹا ۔ اس قسم کا ایک واقعہ اور بھی ہے کہ مسلمانوں کے ایک لشکر نے ایک جنگ میں کافروں سے شکست اٹھائی اور واپس لٹے ۔ ان میں ایک مسلمان جو بڑے سخی اور نیک تھے ان کا گھوڑا جو بہت تیز رفتا تھا راستے میں اڑگیا ۔ اس ولی اللہ نے بہت کوشش کی لیکن جانور نے قدم ہی نہ اٹھایا ۔ آخر عاجز آکر اس نے کہا کیا بات ہے جو اڑ گیا ۔ ایسے ہی موقعہ کے لئے تو میں نے تیری خدمت کی تھی اور تجھے پیار سے پالا تھا ۔ گھوڑے کو اللہ نے زبان دی اس نے جواب دیا کہ وجہ یہ ہے کہ آپ میرا گھاس دانہ سائیس کو سونپ دیتے تھے اور وہ اس میں سے چرالیتا تھا مجھے بہت کم کھانے کو ملتا تھا اور مجھ پر ظلم کرتا تھا ۔ اللہ کے نیک بندے نے کہا اب سے میں تجھے اپنی گود ہی میں کھلایا کرونگا جانور یہ سنتے ہی تیزی سے لپکا اور انہیں جائے امن تک پہنچادیا ۔ حسب وعدہ اب سے یہ بزرگ اپنے اس جانور کو اپنی گود میں ہی کھلایا کرتا تھا ۔ لوگوں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی انہوں نے کسی سے واقعہ کہہ دیا جس کی عام شہرت ہوگئی اور لوگ ان سے یہ واقعہ سننے کے لئے دور دور سے آنے لگے ۔ شاہ روم کو جب اس کی خبر ملی تو انہوں نے چاہاکسی طرح ان کو اپنے شہر میں بلالے ۔ بہت کوشش کی مگر بےسود رہیں ۔ آخر میں انہوں نے ایک شخص بھیجا کہ کسی طرح حیلے بہانے کرکے ان کو بادشاہ تک پہنچادے ۔ یہ شخص پہلے مسلمان تھا پھر مرتد ہوگیا تھا بادشاہ کے پاس سے یہاں آیا ان سے ملا اپنا اسلام ظاہر کیا اور نہایت نیک بن کر رہنے لگایہاں تک کہ اس ولی کو اس پر پورا اعتماد ہوگیا اور اسے صالح اور دیندار سمجھ کر اس سے دوستی کر لی اور ساتھ ساتھ لے کر پھرنے لگے ۔ اس نے اپنا پورا رسوخ جماکر اپنی ظاہری دینداری کے فریب میں انہیں پھنسا کر بادشاہ کو اطلاع دی کہ فلاں وقت دریا کے کنارے ایک مضبوط جری شخص کو بھیجو میں انہیں وہاں لے کر آجاؤں گا اور اس شخص کی مدد سے اسکو گرفتار کرلوں گا ۔ یہاں سے انہیں فریب دے کر چلا اور وہاں پہنچایا دفعتا ایک شخص نمودار ہوا اور اس نے بزرگ پر حملہ کیا ادھر سے اس مرتد نے حملہ کیا اس نیک دل شخص نے اس وقت آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائیں اور دعا کی کہ اے اللہ اس شخص نے تیرے نام سے مجھے دھوکا دیا ہے میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ تو جس طرح چاہے مجھے ان دونوں سے بچالے ۔ وہیں جنگل سے دو درندے دھاڑتے ہوئے آتے دکھائی دئیے اور ان دونوں شخصوں کو انہوں نے دبوچ لیا اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے چل دئیے اور یہ اللہ کا بندہ وہاں سے صحیح وسالم واپس تشریف لے آیا رحمہ اللہ ۔ اپنی اس شان رحمت کو بیان فرما کر پھر جناب باری کی طرف ارشاد ہوتا ہے کہ وہی تمہیں زمین کا جانشیں بناتا ہے ۔ ایک ایک کے پیچھے آرہاہے اور مسلسل سلسلہ چلا جارہا ہے ۔ جیسے فرمان آیت ( اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ اَيُّھَا النَّاسُ وَيَاْتِ بِاٰخَرِيْنَ ٣٣؁ ) 4- النسآء:133 ) اگر وہ چاہے تو تم سب کو تو یہاں سے فنا کردے اور کسی اور ہی کو تمہارا جانشین بنادے جیسے کہ خو تمہیں دوسروں کا خلیفہ بنادیا ہے ۔ اور آیت میں ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ ١٦٥؀ۧ ) 6- الانعام:165 ) اس اللہ نے تمہیں زمینوں کا جانشین بنایا ہے اور تم میں سے ایک کو ایک پر درجوں میں بڑھا دیا ہے حضرت آدم علیہ السلام کو بھی خلیفہ کہا گیا وہ اس اعتبار سے کہ ان کی اولاد ایک دوسرے کی جانشین ہوگی جیسے کہ آیت ( وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ 30؀ ) 2- البقرة:30 ) کی تفسیر اور بیان گذر چکا ہے ۔ اس آیت کے اس جملے سے بھی یہی مراد ہے کہ ایک کے بعد ایک ، ایک زمانہ کے بعد دوسرا زمانہ ایک قوم کے بعد دوسری قوم پس یہ اللہ کی قدرت ہے اس نے یہ کیا کہ ایک مرے ایک پیدا ہو ۔ حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ان سے ان کی نسل پھیلائی اور دنیا میں ایک ایسا طریقہ رکھا کہ دنیا والوں کی روزیاں اور ان کی زندگیاں تنگ نہ ہوں ورنہ سارے انسان ایک ساتھ شاید زمین میں بہت تنگی سے گزارہ کرتے اور ایک سے ایک کو نقصانات پہنچتے ۔ پس موجودہ نظام الٰہی اس کی حکمت کا ثبوت ہے سب کی پیدائش کا ، موت کا آنے جانے کا وقت اس کے نزدیک مقرر ہے ۔ ایک ایک اس کے علم میں ہے اس کی نگاہ سے کوئی اوجھل نہیں ۔ وہ ایک دن ایسا بھی لانے والا ہے کہ ان سب کو ایک ہی میدان میں جمع کرے اور ان کے فیصلے کرے نیکی بدی کا بدلہ دے ۔ اپنی قدرتوں کو بیان فرماتا ہے کوئی ہے جو ان کاموں کو کرسکتا ہو؟ اور جب نہیں کرسکتا تو عبادت کے لائق بھی نہیں ہوسکتا ایسی صاف دلیلیں بھی بہت کم سوچی جاتی ہیں اور ان سے نصیحت بھی بہت کم لوگ حاصل کرتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

621یعنی وہی اللہ ہے جسے سختی کے وقت پکارا جاتا اور مصیبتوں کے وقت جس سے امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں اس کی طرف رجوع کرتا اور برائی کو وہی دور کرتا ہے۔ مزید ملاحظہ ہو سورة الا سراء۔67سورة النمل۔53622یعنی ایک امت کے بعد دوسری، ایک قوم کے بعد دوسری قوم اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل پیدا کرنا ہے۔ ورنہ اگر وہ سب کو ایک ہی وقت میں وجود بخش دیتا تو زمین تنگ ہونے کا شکوہ کرتی معیشت میں بھی دشواریاں پیدا ہوتیں اور سب کو ایک دوسرے کی ٹانگ کھنچنے میں ہی مصروف و سرگرداں رہتے۔ یعنی یکے بعد دیگرے انسانوں کو پیدا کرنا اور ایک کو دوسرے کا جانشین بنانا، یہ بھی اس کی کمال مہربانی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٥] یہ سوال اس لئے کیا گیا کہ مشر کیا مکہ کو خوب معلوم تھا کہ جب کسی کی جان پر بن جاتی ہے تو اس وقت کے معبود کسی کام نہیں آسکتے۔ لہذا وہ ایسے آڑے وقتوں میں صرف اکیلے اللہ کو مدد اور نجات کے لئے پکارتے تھے۔ ) تشریح کے لئے دیکھئے سورة انعام کی آیت نمبر ٤١ کا حاشیہ ( اور ان سے سوال یہ کیا جارہا ہے کہ جب تمہیں اپنے بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور اس وقت نجات کے لئے اللہ ہی کو پکارتے ہو پھر وہ تمہاری اس مصیبت کو دور بھی کردیتا ہے اس وقت نہ کوئی پتھر کا بت اس کو رفع کرسکتا ہے نہ کوئی دوسرا معبود۔ تو پھر اللہ کی عبادت میں تم انھیں اس کا شریک یا ہمسر کیوں بناتے ہو ؟- [٦٦] اس جملہ دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ ایک پشت یا نسل کے بعد۔ دوسری پشت یا نسل پہلی کی جانشین بن جاتی ہے تم اپنے اباؤ اجداد کے جانشین بنے اور تمہاری اولادیں تمہاری جانشین بنیں گی۔ اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا آیا ہے اور چلتا جائے گا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تمہیں زمین تصرف و اقتدار بخشتا ہے۔ اور تمہارے بعد یہ اقتدار کسی دوسرے کی طرف منتقل ہوجائے گا اور یہ سلسلہ ایسے ہی چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ ۔۔ : اس سے پہلے آفاق میں پائی جانے والی چیزوں کا ذکر تھا، جنھیں مشرکین بھی مانتے تھے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں، اب خود انسان کی ذات میں پائی جانے والی چند چیزوں کا ذکر ہے۔ ان میں سے پہلی یہ ہے کہ کیا تمہارے معبود بہتر ہیں یا وہ ذات پاک کہ جب تمام سہارے جواب دے جاتے ہیں اور تمہاری مجبوری اور بےچارگی آخری حد کو پہنچتی ہے تو تم بےاختیار اسے پکارتے ہو اور وہ تمہاری فریاد سنتا اور اسے قبول کرتا ہے ؟ ظاہر ہے اس کا جواب ان کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں کہ یقیناً وہی بہتر ہے۔ مشرکین عرب خود اس بات کو جانتے اور مانتے تھے کہ مصیبت کو ٹالنے والا حقیقت میں اللہ ہی ہے اور یہ بات صرف مشرکین عرب تک ہی محدود نہیں، بلکہ دنیا بھر کے مشرکین کا عام طور پر یہی حال ہے، کیونکہ یہ بات انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے، حتیٰ کہ روس کے دہریے، جو اللہ تعالیٰ کے منکر ہیں اور جنھوں نے باقاعدہ اللہ کے وجود اور اس کی عبادت کے خلاف مہم چلا رکھی ہے، ان پر بھی جب گزشتہ جنگ عظیم میں جرمن فوجوں کا نرغہ سخت ہوگیا، تو انھیں اللہ تعالیٰ کو پکارنے کی ضرورت محسوس ہوگئی تھی۔ اس لیے قرآن مجید یاد دلاتا ہے کہ جب تم پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو تم اللہ تعالیٰ کو پکارنے لگتے ہو، مگر جب وہ وقت ٹل جاتا ہے تو اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے لگتے ہو۔ دیکھیے سورة انعام (٤٠، ٤١) ، یونس (٢١، ٢٢) ، نحل (٥٣ تا ٥٥) اور بنی اسرائیل (٦٧) یہ حال مشرکین اور منکرین کا تھا، مگر تعجب ہمارے زمانے کے ان مسلمانوں پر ہے جو توحید کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن مصیبت تک میں اللہ کو نہیں پکارتے، بلکہ یا رسول اللہ یا غوث اعظم یا معین الدین اجمیری کشتی پار کر دے، جیسے نعرے لگاتے ہیں ۔- وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ : زمین کا جانشین بنانا دو طرح سے ہے، ایک یہ کہ وہ تمہیں ایک نسل کے بعد دوسری نسل کی صورت میں زمین میں لاتا ہے۔ اگر ایک ہی وقت میں سب کو پیدا کردیتا تو زمین تنگ ہوجاتی، رشتہ داریوں اور تعلقات کا سلسلہ قائم نہ ہوسکتا، سب لوگ باقی رہنے کی کوشش میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے رہتے، پھر یا تو ہر ایک کو صدیوں زمین پر جینا پڑتا، جہاں کوئی خوشی خالص نہیں ہے، یا چند ہی سالوں میں زمین کی آبادی کا یہ سلسلہ اپنی انتہا کو پہنچ جاتا۔ زمین کے جانشین بنانے کی دوسری صورت یہ ہے کہ وہ تمہیں ایک دوسرے کے بعد زمین میں سلطنت عطا کرتا ہے۔- قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ : ” قَلِيْلًا “ کا معنی ہے ” بہت کم۔ “ ” ما “ کے ساتھ اس کی تاکید سے معنی ہوگیا ” بہت ہی کم۔ “ یعنی پوری طرح نصیحت حاصل کرتے تو اللہ کے ساتھ شریک نہ بناتے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف ومسائل - اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ ، المضطر اضطرار سے مشتق ہے کسی ضرورت سے مجبور و بےقرار ہونے کو اضطرار کہا جاتا ہے اور وہ جبھی ہوتا ہے جب اس کا کوئی یارو مددگار اور سہارا نہ ہو۔ اس لئے مضطر وہ شخص ہے جو سب دنیا کے سہاروں سے مایوس ہو کر خالص اللہ تعالیٰ ہی کو فریاد رس سمجھ کر اس کی طرف متوجہ ہو۔ مضطر کی یہ تفسیر سدی، ذوالنون مصری، سہل بن عبداللہ وغیرہ سے منقول ہے (قرطبی) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے شخص کے لئے ان الفاظ سے دعا کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ اللھم رحمتک ارجوا فلا تکلنی الی نفسی طرفة عین واصلح لی شانی کلہ لا الہ الا انت (ترجمہ) یا اللہ میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں اس لئے مجھے ایک لحظہ کے لئے بھی میرے اپنے نفس کے حوالہ نہ کیجئے اور آپ ہی میرے سب کاموں کو درست کر دیجئے آپ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ (قرطبی)- مضطر کی دعا اخلاص کی بناء پر ضرور قبول ہوتی ہے :- امام قرطبی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مضطر کی دعا قبول کرنے کا ذمہ لے لیا ہے اور اس آیت میں اس کا اعلان بھی فرما دیا ہے جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ دنیا کے سب سہاروں سے مایوس اور علائق سے منقطع ہو کر صرف اللہ تعالیٰ ہی کو کار ساز سمجھ کر دعا کرنا سرمایہ اخلاص ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اخلاص کا بڑا درجہ ہے وہ جس کسی بندہ سے پایا جائے وہ مومن ہو یا کافر اور متقی ہو یا فاسق فاجر اس کے اخلاص کی برکت سے اس کی طرف رحمت حق متوجہ ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ حق تعالیٰ نے کفار کا حال ذکر فرمایا ہے کہ جب یہ لوگ دریا میں ہوتے ہیں اور کشتی سب طرف سے موجوں کی لپیٹ میں آجاتی ہے اور یہ گویا آنکھوں کے سامنے اپنی موت کھڑا دیکھ لیتے ہیں اس وقت یہ لوگ پورے اخلاص کے ساتھ اللہ کو پکارتے ہیں کہ اگر ہمیں اس مصیبت سے آپ نجات دیدیں تو ہم شکر گزار ہوں گے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول کرکے خشکی پر لے آتے ہیں تو یہ پھر شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ (الی قولہ) فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ اِذَا هُمْ يُشْرِكُوْنَ ، ایک صحیح حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ تین دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، ایک مظلوم کی دعا، دوسرے مسافر کی دعا، تیسرے باپ جو اپنی اولاد کے لئے بد دعا کرے۔ قرطبی نے اس حدیث کو نقل کر کے فرمایا کہ ان تینوں دعاؤں میں بھی وہی صورت ہے جو دعائے مضطر میں اوپر لکھی گئی ہے کہ جب کوئی مظلوم دنیا کے سہاروں اور مددگاروں سے مایوس ہو کر دفع ظلم کے لئے اللہ کو پکارتا ہے وہ بھی مضطر ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح مسافر حالت سفر میں اپنے خویش و عزیز اور ہمدردوں غمگساروں سے الگ بےسہارا ہوتا ہے۔ اس طرح باپ اولاد کے لئے اپنی فطرت اور پدری شفقت کی بنا پر کبھی بد دعا نہیں کرسکتا بجز اس کے کہ اس کا دل بالکل ٹوٹ جائے اور اپنے آپ کو مصیبت سے بچانے کے لئے اللہ کو پکارے۔ امام حدیث آجری نے حضرت ابوذر کی روایت سے نقل کیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حق تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ میں مظلوم کی دعا کو کبھی رد نہیں کروں گا اگرچہ وہ کسی کافر کے منہ سے ہو (قرطبی) اگر کسی مضطر یا مظلوم یا مسافر وغیرہ کو کبھی یہ محسوس ہو کہ اس کی دعا قبول نہیں ہوئی تو بدگمان اور مایوس نہ ہو بعض اوقات دعا قبول تو ہوجاتی ہے مگر کسی حکمت و مصلحت ربانی سے اس کا ظہور دیر میں ہوتا ہے۔ یا پھر وہ اپنے نفس کو ٹٹولے کہ اس کے اخلاص اور توجہ الی اللہ میں کمی کوتاہی رہی ہے۔ (واللہ اعلم)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ۝ ٠ۭ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۝ ٠ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ۝ ٦ ٢ۭ- جوب - والجواب يقال في مقابلة السؤال، - والسؤال علی ضربین :- طلب مقال، وجوابه المقال .- وطلب نوال، وجوابه النّوال .- فعلی الأول : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف 31] ،- وعلی الثاني قوله : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس 89] ، أي : أعطیتما ما سألتما .- ( ج و ب ) الجوب - جواب کا لفظ سوال کے مقابلہ میں بھی استعمال ہوتا ہے - اور سوال دو قسم پر ہے - ( 1) گفتگو کا طلب کرنا اس کا جواب گفتگو ہی ہوتی ہے (2) طلب عطا یعنی خیرات طلب کرنا اس کا جواب یہ ہے کہ اسے خیرات دے دی جائے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف 31] خدا کی طرف سے بلانے والے کی باٹ قبول کرو ۔ اور جو شخص خدا کی طرف بلانے والے کی باٹ قبول نہ کرے ۔ اور دوسرے معنی کے اعتبار سے فرمایا : : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس 89] ، کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی تو ہم ثابت قدم رہنا - الاضْطِرَارُ :- حمل الإنسان علی ما يَضُرُّهُ ، وهو في التّعارف حمله علی أمر يكرهه، وذلک علی ضربین :- أحدهما :- اضطرار بسبب خارج کمن يضرب، أو يهدّد، حتی يفعل منقادا، ويؤخذ قهرا، فيحمل علی ذلك كما قال : ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلى عَذابِ النَّارِ [ البقرة 126]- والثاني :- بسبب داخل وذلک إمّا بقهر قوّة له لا يناله بدفعها هلاك، كمن غلب عليه شهوة خمر أو قمار، وإمّا بقهر قوّة يناله بدفعها الهلاك، كمن اشتدّ به الجوع فَاضْطُرَّ إلى أكل ميتة، وعلی هذا قوله : فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ باغٍ وَلا عادٍ [ البقرة 173]- الاضطرار - کے اصل معنی کسی کو نقصان وہ کام پر مجبور کرنے کے ہیں اور عرف میں اس کا استعمال ایسے کام پر مجبور کرنے کے لئ ہوتا ہے جسے وہ ناپسند کرتا ہو ۔ اور اس کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ مجبوری کسی خارجی سبب کی بنا پر ہو مثلا مار پٹائی کی جائے یا دھمکی دی جائے حتی ٰ کہ وہ کسی کام کے کرنے پر رضا مند ہوجائے یا زبردستی پکڑکر اس سے کوئی کام کروایا جائے جیسے فرمایا : ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلى عَذابِ النَّارِ [ البقرة 126] پھر اس عذاب دوزخ کے بھگتنے کے لئے ناچار کردوں گا ۔- ۔ دوم یہ کہ وہ مجبوری کسی داخلی سبب کی بنا پر ہو اس کی دوقسمیں ہیں - (1) کسی ایسے جذبہ کے تحت وہ کام کرے جسے نہ کرنے سے اسے ہلاک ہونیکا خوف نہ ہو مثلا شراب یا قمار بازی کی خواہش سے مغلوب ہوکر انکا ارتکاب کرے - (2) کسی ایسی مجبوری کے تحت اس کا ارتکاب کرے جس کے نہ کرنے سے اسے جان کا خطرہ ہو مثلا بھوک سے مجبور ہوکر مردار کا گوشت کھانا ۔ چناچہ آیت کریمہ : فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ باغٍ وَلا عادٍ [ البقرة 173] ہاں جو ناچار ہوجائے بشرطیکہ خدا کی نافرمانی نہ کرے اور حد ( ضرورت ) سے باہر نہ نکل جائے ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - كشف - كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، ويقال : كَشَفَ غمّه . قال تعالی: وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام 17]- ( ک ش ف ) الکشف - كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، کا مصدر ہے جس کے معنی چہرہ وغیرہ سے پر دہ اٹھا نا کے ہیں ۔ اور مجازا غم وانداز ہ کے دور کرنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام 17] اور خدا تم کو سختی پہچائے تو اس کے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے ۔ - سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - خلف - والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر 39] ،- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔- قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ - تَّذْكِرَةُ- : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] ، أي : القرآن . وذَكَّرْتُهُ - التذکرۃ - جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ مراد قرآن پاک ہے ۔ ذَكَّرْتُهُ كذا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٢) یا وہ ذات جو بےقرار آدمی کی سنتا ہے جب وہ اپنی تکلیف دور کرانے کے لیے اس کو پکارتا ہے اور وہ اس کی مصیبت دور کردیتا ہے اور ایک قوم کی ہلاکت کے بعد پھر تمہیں کو زمین میں جانشین بناتا ہے، کیا اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی معبود یہ کام کرسکتا ہے ؟ مگر تم لوگ اس سے نصیحت نہیں حاصل کرتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ ط) - کہ تمہاری ایک نسل کے بعد دوسری نسل اس کی جانشین بنتی ہے اور یہ سلسلہ غیر منقطع طریقے سے اللہ تعالیٰ قائم رکھے ہوئے ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 76 مشرکین عرب خود اس بات کو جانتے اور مانتے تھے کہ مصیبت کو ٹالنے والا حقیقت میں اللہ ہی ہے چنانچہ قرآن مجید جگہ جگہ انہیں یاد دلاتا ہے کہ جب تم پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو تم خدا ہی سے فریاد کرتے ہو ، مگر جب وہ وقت ٹل جاتا ہے تو خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے لگتے ہو ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، الانعام ، حواشی 29 ۔ 41 ، جلد دوم یونس آیات 21 ۔ 22 ۔ حاشیہ 31 ۔ النحل حاشیہ 46 ، بنی اسرائیل حاشیہ 84 ، اور یہ بات صرف مشرکین عرب ہی تک محدود نہیں ہے ۔ دنیا بھر کے مشرکین کا بالعموم یہی حال ہے ، حتی کہ روس کے منکرین خدا جنہوں نے خدا پرستی کے خلاف ایک باقاعدہ مہم چلا رکھی ہے ، ان پر بھی جب گزشتہ جنگ عظیم میں جرمن فوجوں کا نرغہ سخت ہوگیا تو انہیں خدا کو پکارنے کی ضرورت محسوس ہوگئی تھی ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 77 اس کے دو معنی ہیں ۔ ایک یہ کہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل اور ایک قوم کے بعد دوسری قوم اٹھاتا ہے دوسرے یہ کہ تم کو زمین میں تصرف اور فرمانروائی کے اختیارات عطا کرتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani