Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قدرت کاملہ کا ثبوت فرمان ہے کہ اللہ وہ ہے جو اپنی قدرت کاملہ سے مخلوقات کو بےنمونہ پیدا کرتا ہے ۔ پھر انہیں فنا کرکے دوبارہ پیدا کرے گا ۔ جب تم اسے پہلی دفعہ پیدا کرنے پر قادر مان رہے ہو تو دوبارہ کی پیدائش جو اس کے لیے بہت ہی آسان ہے اس پر قادر کیوں نہیں مانتے؟ آسمان سے بارش برسانا اور زمین سے اناج اگانا اور تمہاری روزی کا سامان آسمان اور زمین سے پیدا کرنا اسی کا کام ہے ۔ جیسے سورۃ طارق میں فرمایا پانی والے آسمان کی اور پھوٹنے والی زمین کی قسم ۔ اور آیت میں ہے ( يَعْلَمُ مَا يَـلِجُ فِي الْاَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاۗءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيْهَا ۭ وَهُوَ الرَّحِيْمُ الْغَفُوْرُ Ą۝ ) 34- سبأ:2 ) ، یعنی اللہ خوب جانتا ہے ہر اس چیز کو جو آسمان میں سما جائے اور جو زمین سے باہر اگ آئے ۔ اور جو آسمان سے اترے اور جو اس پر چڑھے ۔ پس آسمان سے مینہ برسانے والا اسے زمین میں ادھر اھر تک پہنچانے والا اور اسکی وجہ سے طرح طرح کے پھل پھول اناج گھاس پات اگانے والا وہی ہے جو تمہاری اور تمہارے جانوروں کی روزیاں ہیں ۔ یقینا یہ تمام چیزیں صاحب عقل کے لئے اللہ کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں ۔ اپنی ان قدرتوں کو اور اپنے ان گراں بہا احسانوں کو بیان فرما کر فرمایا کہ کیا اللہ کے ساتھ ان کاموں کا کرنے والا کوئی اور بھی ہے؟ جس کی عبادت کی جائے اگر تم اللہ کے سوا دوسروں کو معبود ماننے کے دعوے کو دلیل سے ثابت کرسکتے ہو تو وہ دلیل پیش کرو؟ لیکن چونکہ وہ محض بےدلیل ہیں اس لئے دوسری آیت میں فرمادیا کہ اللہ کے ساتھ جو دوسرے کو بھی پوجے جس کی کوئی دلیل بھی اس کے پاس نہ ہو وہ یقینا کافر ہے اور نجات سے محروم ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

641یعنی قیامت والے دن تمہیں دوبارہ زندگی عطا فرمائے گا۔ 642یعنی آسمان سے بارش نازل فرما کر، زمین سے اس کے چھپے خزانے (غلہ جات اور میوے) پیدا فرماتا ہے اور یوں آسمان و زمین کی برکتوں کو کھول دیتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٩] آغاز خلق اور اعادہ خلق کا مسئلہ بھی اپنے اندر اللہ کی ہزارہا قدرتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ اور انسان جتنا اس معاملہ میں غور کرتا ہے اس کی حیرانگی میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔ اس مسئلہ میں سب سے پہلا سوال یہ پیش آتا ہے کہ روح کیا چیز ہے جس پر زندگی کا مدار ہے۔ اور یہ سوال آج بھی ایسا پیچیدہ اور لاینمحل ہے جیسا کہ حضرت آدم کے وقت تھا۔ انسان نے یہ تو دریافت کرلیا کہ مثلاً انسان فلاں فلاں عناصر کا مرکب ہے اور انسان کے جسم میں ان عناصر کی مقدار اتنی اور اتنی ہوتی ہے۔ مگر انہی عناصر کو اسی مقدار کے مطابق ترکیب دے کر ایک زندہ انسان بن کھڑا کرنا انسان کی بساط سے باہر ہے۔ اور یہ مسئلہ غالباً تاقیامت لاینمحل ہی رہے گا۔ پھر یہ صرف ایک انسان کا مسئلہ نہیں بلکہ تمام جاندار اشیاء کا مسئلہ ہے۔ جس میں نباتات بھی شامل ہے۔ نباتات بھی جانداروں کی طرح بڑھتی ہے۔ پھلتی پھولتی ہے حتیٰ کہ احساس و شعور بھی رکھتی ہے۔ اس وقت تک روئے زمین پر نباتات کی تقریباً دو لاکھ انواع اور جاندار اشیاء کی تقریباً دس لاکھ انواع انسان کے علم میں آچکی ہیں۔ جو اپنی ساخت، عناصر اور تکیب کے لحاظ سے بالکل ایک دوسرے سے الگ ہیں اور جب سے انسان نے ان انواع کو جاننا شروع کیا اس وقت سے لے کر آج تک انسان کے علم میں یہ بات نہیں آسکی۔ کہ نباتات یا حیوانات کی کوئی نوع ارتقاء کی منزل طے کرکے اپنے سے کسی اعلیٰ جنس میں تبدیل ہوگئی ہو۔ بلکہ جس حال میں انسان نے اسے پہلے دن دیکھا تھا اسی حال میں بھی یہ آج بھی پائی جاتی ہے۔ جس سے ڈارون کے نظریہ کا از خود ابکال ہوجاتا ہے اگرچہ ڈارون کے نظریہ کے باطل ہونے کے اور بھی بیشمار دلائل موجود ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے نباتات کی اور حیوانات کی جس نوع کو جس طرح پہلے دن پیدا کیا تھا آج بھی وہ اسی صورت میں پائی جاتی ہے اور انسان کی تخلیق تو ایک بالکل خصوصی نوعیت رکھتی ہے۔ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے۔ (٣٨: ٧٥) - اور اعادہ خلق سے صرف یہ مراد نہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام انسانوں کو ان کی قبروں سے زندہ کرکے اٹھا کھڑا کرے گا۔ بلکہ اعادہ خلق سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر آن مردہ سے زیادہ اور زندہ سے مردہ پیدا کر رہا ہے۔ اور یہ نظام نباتات اور حیوانات کی تمام تر اقسام میں جاری وساری ہے۔ مثلاً ایک ننھے سے بیج کو لیجئے اس میں اس درخت کی وہ تمام تر خصوصیات سمو دی گئی ہیں جس کا وہ بیج ہے۔ جب اس بیج کو نشوونما کا موقع ملے گا تو اس میں وہ تمام تر خصوصیات مثلاً اس کا رنگ، اس کا مزا، اس کی بو، اس کا قد و قامت، اس کا پھل اسی درخت جیسا ہوگا جس کا وہ بیج تھا۔ اسی طرح کسی جاندار یا انسان کے نطفہ میں اس انسان کی شکل و صورت ہی منتقل نہیں ہوتی بلکہ اس کی عادات و خصائل تک منتقل ہوجاتی ہیں۔ رہا انسان کا اور جسم اور اس کے اندر پیچیدہ مشینری، اس کا عصبی، عضلاتی، لحمی اور ہڈیوں کی پیدائش کا نظام یہ سب چیزیں اس انسان کے نطفہ میں ایک خوردبینی۔۔ کی شکل میں منتقل ہوجاتی ہیں۔ اور جب اسے نشوونما کا موقعہ میسر آتا ہے تو یہ سب چیزیں عملی طور پر وجود میں آجاتی ہیں کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ ایک جاندار کے جرثومہ میں کسی دوسرے جرثومہ کے خواہش منتقل ہوجائیں۔ یا مثلاً کسی عورت کے رحم میں اونٹ کا جرثومہ چلا جائے تو اس کے ہاں اونٹ کا بچہ پیدا ہوجائے اللہ کا اعادہ خلق کا نظام آغاز خلق سے بھی زیادہ پیچیدہ اور حیران کن ہے۔ اب غور فرمائیے کہ اس آغاز خلق اور اعادہ خلق کے نظام میں اللہ کے علاوہ کسی فرشتے، کسی نبی، کسی ولی، کسی جن، کسی پیروفقیر، یا کسی سیارے یا بت کا عمل دخل ہے ؟ اگر نہیں تو پھر عبادت کے مستحق کیسے ہوسکتے ہیں ؟- [٧٠] تمام نباتات اور حیوانات کی ضروریات زندگی اگرچہ زمین ہی سے وابستہ ہیں۔ تاہم ان کی خوراک، پیدائش میں بہت سے دوسرے عوامل بھی کام کرتے ہیں۔ سب سے بڑا عامل تو زمین کی قوت روئیدگی ہے۔ مٹی کی تاریکی میں ہی بیج کی نشوونما شروع ہونے لگتی ہے۔ دوسرا عامل سورج ہے۔ جس کی گرمی سے سطح سمندر سے آبی بخارات اٹھتے ہیں۔ تیسری عامل ہوائیں ہیں جو ان آبی بخارات کی سمت موڑتی ہیں۔ چوتھا عامل پہاڑوں کی بلندی یا کسی بلند طبقہ کی ٹھنڈک ہے جو پھر سے ان آبی بخارات کو پانی کے قطروں کی شکل میں تبدیل کردیتا ہے۔ پھر اسی پانی کے ساتھ زمین کی قوت روئیدگی ملتی ہے۔ تب جاکر نباتات اگتی ہے اور انسان اور حیوانات کو رزق میسر آتا ہے۔ غور فرمائیے کہ ان سمدنروں، اس سورج، ان ہواؤں، ان پہاڑوں اور اس زمین کی پیدائش میں اللہ کے سوا کسی دوسرا ہستی کا کچھ عمل دخل ہے ؟ اب اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بارش فلاں سیارے کے فلاں نچھتر میں داخل ہونے پر یا اس سیارے کی روح کے مجسمے یا بت کی قربانی یا نذرانہ دینے سے ہوتی ہے تو اسے کوئی تجرباتی مشاہداتی یا نقلی دلیل پیش کرنا چاہئے۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے تو اللہ رزاقیت میں دوسرے کیسے شامل ہوسکتے ہیں۔ اور لوگوں کے داتا کیسے بن سکتے ہیں ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَمَّنْ يَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ : یہ سادہ سی بات، جسے ایک جملے میں بیان کردیا گیا ہے، اپنے اندر ایسی تفصیلات رکھتی ہے کہ آدمی ان کی گہرائی میں جتنی دور تک اترتا جاتا ہے اتنے ہی وجود الٰہ اور وحدت الٰہ کے شواہد اسے ملتے چلے جاتے ہیں۔ پہلے تو بجائے خود تخلیق ہی کو دیکھیے، انسان کا علم آج تک یہ راز نہیں پاسکا ہے کہ زندگی کیسے اور کہاں سے آتی ہے ؟ اس وقت تک مسلّم سائنٹفک حقیقت یہی ہے کہ بےجان مادے کی محض ترکیب سے خود بخود جان پیدا نہیں ہوسکتی۔ حیات کی پیدائش کے لیے جتنے عوامل درکار ہیں ان سب کا ٹھیک تناسب کے ساتھ بالکل اتفاقاً جمع ہو کر زندگی کا آپ سے آپ وجود میں آجانا دہریوں کا ایک غیر علمی مفروضہ تو ضرور ہے، لیکن اگر ریاضی کے قانون بخت و اتفاق کو اس پر منطبق کیا جائے تو اس کے وقوع کا امکان صفر سے زیادہ نہیں نکلتا۔ اب تک تجربی طریقے پر سائنس کے معملوں میں بےجان مادے سے جاندار مادہ پیدا کرنے کی جتنی بھی کوششیں کی گئی ہیں، تمام ممکن تدابیر استعمال کرنے کے باوجود سب قطعی ناکام ہوچکی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ جو چیز معلوم کی جاسکی ہے وہ صرف وہ مادہ ہے جسے اصطلاح میں ” ڈی۔ این۔ اے “ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ مادہ ہے جو زندہ خلیوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ جوہر حیات تو ضرور ہے مگر خود جاندار نہیں۔ زندگی اب بھی بجائے خود ایک معجزہ ہی ہے، جس کی کوئی علمی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جاسکی ہے کہ یہ ایک خالق کے امر و ارادہ اور منصوبے کا نتیجہ ہے۔ اس کے بعد آگے دیکھیے، زندگی محض ایک مجرد صورت میں نہیں، بلکہ بیشمار متنوّع صورتوں میں پائی جاتی ہے۔ اس وقت تک روئے زمین پر حیوانات کی تقریباً ١٠ لاکھ اور نباتات کی تقریباً ٢ لاکھ انواع کا پتا چلا ہے، یہ لکھوکھہا انواع اپنی ساخت اور نوعی خصوصیات میں ایک دوسرے سے ایسا واضح اور قطعی امتیاز رکھتی ہیں اور قدیم ترین معلوم زمانے سے اپنی اپنی صورت نوعیہ کو اس طرح مسلسل برقرار رکھتی چلی آرہی ہیں کہ ایک خدا کے تخلیقی منصوبے کے سوا زندگی کے اس عظیم تنوع کی کوئی اور معقول توجیہ کردینا کسی ڈارون کے بس کی بات نہیں ہے۔ آج تک کہیں بھی دو نوعوں کے درمیان کی کوئی ایک کڑی بھی نہیں مل سکی ہے جو ایک نوع کی ساخت اور خصوصیات کا ڈھانچہ توڑ کر نکل آئی ہو اور ابھی دوسری نوع کی ساخت اور خصوصیات تک پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہو۔ متحجرات کا پورا ریکارڈ اس کی نظیر سے خالی ہے اور موجودہ حیوانات میں بھی یہ خنثیٰ مشکل کہیں نہیں ملا ہے۔ آج تک کسی نوع کا جو فرد بھی ملا ہے، اپنی پوری صورت نوعیہ کے ساتھ ہی ملا ہے اور ہر وہ افسانہ جو کسی مقصود کڑی کے بہم پہنچ جانے کا وقتاً فوقتاً سنا دیا جاتا ہے، تھوڑی مدت بعد حقائق اس کی ساری پھونک نکال دیتے ہیں۔ اس وقت یہ حقیقت اپنی جگہ بالکل اٹل ہے کہ ایک صانع، حکیم، ایک الخالق، الباری، المصور ہی نے زندگی کو یہ لاکھوں متنوّع صورتیں عطا کی ہیں۔- یہ تو ہے ابتدائے خلق کا معاملہ، اب ذرا اعادۂ خلق پر غور کیجیے۔ خالق نے ہر نوع حیوانی اور نباتی کی ساخت و ترکیب میں وہ حیرت انگیز نظام العمل رکھ دیا ہے جو اس کے بیشمار افراد میں سے بیحد و حساب نسل ٹھیک اسی کی صورت نوعیہ اور مزاج و خصوصیات کے ساتھ نکالتا چلا جاتا ہے اور کبھی جھوٹوں بھی ان کروڑ ہا کروڑ چھوٹے چھوٹے کارخانوں میں یہ بھول چوک نہیں ہوتی کہ ایک نوع کا کوئی کارخانۂ تناسل کسی دوسری نوع کا ایک نمونہ نکال کر پھینک دے۔ جدید علم تناسل کے مشاہدات اس معاملے میں حیرت انگیز حقائق پیش کرتے ہیں۔ ہر پودے میں یہ صلاحیت رکھ دی گئی ہے کہ اپنی نوع کا سلسلہ آگے کی نسلوں تک جاری رکھنے کے لیے ایسا مکمل انتظام کرے جس سے آنے والی نسل اس کی نوع کی تمام امتیازی خصوصیات کی حامل ہو اور اس کا ہر فرد دوسری تمام انواع کے افراد سے اپنی صورت نوعیہ میں ممیز ہو۔ یہ بقائے نوع اور تناسل کا سامان ہر پودے کے ایک خلیے کے ایک حصہ میں ہوتا ہے، جسے بمشکل انتہائی طاقت ور خوردبین کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ چھوٹا سا انجینئر پوری صحت کے ساتھ پودے کے سارے نشو و نما کو حتماً اسی راستے پر ڈالتا ہے جو اس کی اپنی صورت نوعیہ کا راستہ ہے۔ اسی کی بدولت گیہوں کے ایک دانے سے آج تک جتنے پودے بھی دنیا میں کہیں پیدا ہوئے ہیں، انھوں نے گیہوں ہی پیدا کیا ہے۔ کسی آب و ہوا یا کسی ماحول میں یہ حادثہ رونما نہیں ہوا کہ دانۂ گندم کی نسل سے کوئی ایک ہی دانۂ جو پیدا ہوتا۔ ایسا ہی معاملہ حیوانات اور انسان کا بھی ہے کہ ان میں سے کسی کی تخلیق بھی بس ایک دفعہ ہو کر نہیں رہ گئی، بلکہ ناقابل تصور وسیع پیمانے پر ہر طرف اعادۂ خلق کا ایک عظیم کارخانہ چل رہا ہے جو ہر نوع کے افراد سے پیہم اسی نوع کے بیشمار افراد وجود میں لاتا چلا جا رہا ہے۔ اگر کوئی شخص توالدو تناسل کے اس خوردبینی تخم کو دیکھے جو تمام نوعی امتیازات اور موروثی خصوصیات کو اپنے ذرا سے وجود کے بھی محض ایک حصے میں لیے ہوئے ہوتا ہے اور پھر اس انتہائی نازک اور پیچیدہ عضوی نظام اور بےانتہا لطیف و پر پیچ عملیات کو دیکھے کہ جن کی مدد سے ہر نوع کے ہر فرد کا تخم تناسل اسی نوع کا فرد وجود میں لاتا ہے، تو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی تصوّر نہیں کرسکتا کہ ایسا نازک اور پیچیدہ نظام العمل کبھی خود بخود بن سکتا ہے اور پھر مختلف انواع کے اربوں ملین افراد میں آپ سے آپ ٹھیک چلتا بھی رہ سکتا ہے۔ یہ چیز نہ صرف اپنی ابتدا کے لیے ایک صانع حکیم چاہتی ہے، بلکہ ہر آن اپنے درست طریقہ پر چلتے رہنے کے لیے بھی ایک ناظم و مدبّر اور ایک حی و قیوم کی طالب ہے جو ایک لحظہ کے لیے بھی ان کارخانوں کی نگرانی و راہ نمائی سے غافل نہ ہو۔ یہ حقائق ایک دہریے کے انکار خدا کی بھی اسی طرح جڑ کاٹ دیتے ہیں جس طرح ایک مشرک کے شرک کی۔ کون احمق یہ گمان کرسکتا ہے کہ خدائی کے اس کام میں کوئی فرشتہ یا جن یا نبی یا ولی ذرہ برابر بھی کوئی حصہ رکھتا ہے، اور کون صاحب عقل آدمی تعصب سے پاک ہو کر یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سارا کارخانۂ خلق و اعادۂ خلق اس کمال حکمت و نظم کے ساتھ اتفاقاً شروع ہوا اور آپ سے آپ چلے جا رہا ہے۔ (تفہیم القرآن)- وَمَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ : رزق دینے کا معاملہ بھی اتنا سادہ نہیں ہے جتنا سرسری طور پر کوئی شخص ان مختصر الفاظ کو پڑھ کر محسوس کرتا ہے۔ اس زمین پر لاکھوں انواع حیوانات کی اور لاکھوں ہی نباتات کی پائی جاتی ہیں۔ جن میں سے ہر ایک کے اربوں افراد موجود ہیں اور ہر ایک کی غذائی ضروریات الگ ہیں۔ خالق نے ان میں سے ہر نوع کی غذا کا سامان اس کثرت سے اور ہر ایک کی دسترس کے اس قدر قریب فراہم کیا ہے کہ کسی نوع کے افراد بھی یہاں غذا پانے سے محروم نہیں رہ جاتے، اور پھر اس انتظام میں زمین اور آسمان کی اتنی مختلف قوتیں مل جل کر کام کرتی ہیں جن کا شمار مشکل ہے۔ گرمی، روشنی، ہوا، پانی اور زمین کے مختلف اقسام کے مادوں کے درمیان اگر ٹھیک تناسب کے ساتھ تعاون نہ ہو تو غذا کا ایک ذرّہ بھی وجود میں نہیں آسکتا۔ کون شخص تصور کرسکتا ہے کہ یہ حکیمانہ انتظام ایک مدبر کی تدبیر اور سوچے سمجھے منصوبے کے بغیر یوں ہی اتفاقاً ہوسکتا تھا ؟ اور کون اپنے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے یہ خیال کرسکتا ہے کہ اس انتظام میں کسی جنّ ، فرشتے یا کسی بزرگ کی روح کا کوئی عمل دخل ہے ؟ (تفہیم القرآن)- قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ : یعنی اس چیز کی کوئی دلیل لاؤ کہ اللہ کے سوا یا اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہے۔ ظاہر ہے اس پر ان کے پاس کوئی دلیل ہے ہی نہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَمَنْ يَّدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ ۙ لَا بُرْهَانَ لَهٗ بِهٖ ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ ۭ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ ) [ المؤمنون : ١١٧ ]” اور جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے، جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں تو اس کا حساب صرف اس کے رب کے پاس ہے۔ بیشک حقیقت یہ ہے کہ کافر فلاح نہیں پائیں گے۔ “ تو جب تمہارے پاس اس کی کوئی دلیل ہی نہیں تو یہ بات تمہاری سمجھ میں کیسے آتی ہے کہ پیدا کرنا، رزق دینا اور دوسرے یہ تمام کام تو اللہ کے ہوں، مگر عبادت اس کے سوا یا اس کے ساتھ کسی اور کی کی جائے ؟ ” بُرَھَانَکُم “ (اپنی دلیل) اس لیے فرمایا کہ فی الواقع تو کوئی دلیل نہیں، تم نے اگر کوئی دلیل بنا رکھی ہے تو پیش کرو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - ربط آیات : اوپر نبوت کے بعد توحید کا ذکر ہوچکا، آگے معاد یعنی قیامت اور آخرت کا ذکر ہے جس کی طرف دلائل توحید میں اس قول سے اجمالی اشارہ بھی ہوا ہے (ثُمَّ يُعِيْدُهٗ ) اور چونکہ کفار اس کی تکذیب کی ایک وجہ یہ بھی قرار دیتے تھے کہ قیامت کا معین وقت پوچھنے پر بھی نہیں بتلایا جاتا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ یعنی وہ عدم تعیین کو عدم وقوع کی دلیل بناتے تھے اس لئے اس مضمون کو اس بات سے شروع کیا ہے کہ علم غیب اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے فرمایا قُلْ لَّا يَعْلَمُ الخ (جس میں ان کے شبہ کا جواب بھی ہوگیا) قیامت کی تعیین کا علم اللہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ پھر ان کے شک و انکار پر تشنیع ہے (بَلِ ادّٰرَكَ ) پھر ان کے ایک انکاری قول کی نقل ہے (وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا) پھر اس انکار پر تہدید ہے (قُلْ سِيْرُوْا) پھر اس انکار پر آپ کی تسلی ہے وَلَا تَحْزَنْ پھر اس تہدید کے متعلق ان کے ایک شبہ کا جواب ہے (وَيَقُوْلُوْنَ الخ) پھر تہدید کی تاکید ہے وَاِنَّ رَبَّكَ لَيَعْلَمُ الخ جیسا تقریر ترجمہ سے ظاہر ہوگا۔- (یہ لوگ جو قیامت کا وقت نہ بتلانے سے اس کے عدم وقوع پر استدلال کرتے ہیں اس کے جواب میں) آپ کہہ دیجئے کہ (یہ استدلال غلط ہے کیونکہ اس سے زیادہ سے زیادہ اتنا لازم آیا کہ مجھ سے اور تم سے اس تعیین کا علم غائب رہا سو اس میں اسی کی کیا تخصیص ہے غیب کی نسبت تو قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ) جتنی مخلوقات آسمانوں اور زمین (یعنی عالم) میں موجود ہیں (ان میں سے) کوئی بھی غیب کی بات نہیں جانتا، بجز اللہ تعالیٰ کے اور (اسی وجہ سے) ان (مخلوقات) کو یہ خبر (بھی) نہیں کہ وہ کب دوبارہ زندہ کئے جاویں گے (یعنی اللہ تعالیٰ کو تو بےبتلائے سب معلوم ہے اور کسی کو بےبتلائے کچھ بھی معلوم نہیں مگر دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے امور جن کا پہلے سے علم نہیں ہوتا واقع ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کا علم نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ چیز موجود ہی نہیں۔ بلکہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی حکمت سے بعض علوم کا پردہ غیب میں رکھنا منظور ہے قیامت کی تعیین بھی انہی امور میں ہے اسی لئے مخلوق کو اس کا علم نہیں دیا گیا مگر اس سے عدم وقوع کیسے لازم آ گیا اور یہ عدم علم بالتعیین تو سب میں امر مشترک ہے لیکن ان کفار منکرین میں صرف یہی نہیں کہ وہ بالتعیین قیامت کو نہیں مانتے) بلکہ (اس سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ) آخرت کے بارے میں (خود) ان کا (نفس) علم (بالوقوع ہی) نیست ہوگیا (یعنی خود اس کے وقوع ہی کا علم نہیں جو تعیین کے علم نہ ہونے سے بھی اشد ہے) بلکہ (اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ) یہ لوگ اس (کے وقوع) سے شک میں ہیں، بلکہ (اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ) یہ اس سے اندھے بنے ہوئے ہیں (یعنی جیسے اندھے کو راستہ نظر نہیں آتا اس لئے مقصود تک پہنچنا مستبعد ہے اسی طرح تصدیق بالاخرت کا جو ذریعہ ہے یعنی دلائل صحیحہ یہ لوگ انتہائی عناد کی وجہ سے ان دلائل میں غور تامل ہی نہیں کرتے اس لئے وہ دلائل ان کو نظر نہیں آتے جس سے مطلوب تک پہنچ جانے کی امید ہوتی۔ پس یہ شک سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ شک والا بعض اوقات دلائل میں نظر کر کے رفع شک کرلیتا ہے اور یہ نظر بھی نہیں کرتے) اور (اس تشنیع علی الکفار کے بعد آگے ان کا ایک انکاری قول نقل فرماتے ہیں کہ) یہ کافر یوں کہتے ہیں کہ کیا ہم لوگ جب (مر کر) خاک ہوگئے اور (اسی طرح) ہمارے بڑے بھی تو کیا (پھر) ہم (زندہ کر کے قبروں سے) نکالے جاویں گے اس کا تو ہم سے اور ہمارے بڑوں سے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے) پہلے سے وعدہ ہوتا چلا آیا ہے (کیونکہ تمام انبیاء کا یہ قول مشہور ہے لیکن نہ آج تک ہوا اور نہ کسی نے بتلایا کہ کب ہوگا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ) یہ بےسند باتیں ہیں جو اگلوں سے نقل ہوتی چلی آئی ہیں آپ کہہ دیجئے کہ (جب اس کے امکان پر دلائل عقلیہ اور وقوع پر دلائل نقلیہ جا بجا بار بار تم کو سنا دیئے گئے ہیں تو تم کو تکذیب سے باز آنا چاہئے ورنہ جو اور مکذبین کا حال ہوا ہے کہ عذاب میں گرفتار ہوئے وہی تمہارا حال ہوگا اگر ان کی حالت میں کچھ شبہ ہو تو) تم زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ مجرمین کا انجام کیا ہوا ( کیونکہ ان کے ہلاک ہونے اور عذاب آنے کے آثار اب تک باقی تھے) اور (اگر باوجود ان مواعظ بلیغہ کے پھر مخالفت پر کمربستہ رہیں تو) آپ ان پر غم نہ کیجئے اور جو کچھ یہ شرارتیں کر رہے ہیں اس سے دل تنگ نہ ہوجائے ( کہ اور انبیاء کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا ہے) اور (قُلْ سِيْرُوْا الخ میں اور اس کے امثال دوسری آیات میں جو ان کو وعید عذاب سنائی جاتی ہے تو چونکہ دل میں تصدیق نہیں اس لئے) یہ لوگ (بےباکانہ) یوں کہتے ہیں کہ یہ وعدہ (عذاب و قہر کا) کب ہوگا اگر تم سچے ہو (تو بتلاؤ) آپ کہہ دیجئے کہ عجب نہیں کہ جس عذاب کی تم جلدی مچا رہے ہو اس میں سے کچھ تمہارے پاس ہی آ لگا ہو اور (اب تک جو دیر ہو رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ) آپ کا رب لوگوں پر (اپنا) بڑا فضل رکھتا ہے (اس رحمت عامہ کی وجہ سے قدرے مہلت دے رکھی ہے) و لیکن اکثر آدمی (اس بات پر) شکر نہیں کرتے (کہ تاخیر کو غنیمت سمجھیں اور اس مہلت میں حق کی طلب کریں اور اس کو قبول کرلیں کہ عذاب سے نجات ابدی حاصل ہو بلکہ بالعکس انکار اور بطور استہزاء کے جلد بازی کرتے ہیں) اور (یہ تاخیر چونکہ بمصلحت ہے اس لئے یہ نہ سمجھیں کہ ان افعال کی کبھی سزا ہی نہ ہوگی کیونکہ) آپ کے رب کو سب خبر ہے جو کچھ ان کے دلوں میں مخفی ہے اور جس کو وہ علانیہ کرتے ہیں اور (یہ صرف علم خداوندی ہی نہیں بلکہ دفتر خداوندی میں لکھا ہوا ہے جس میں کچھ ان ہی کے افعال کی تخصیص نہیں بلکہ) آسمان اور زمین میں ایسی کوئی مخفی چیز نہیں جو لوح محفوظ میں نہ ہو (اور دفتر خداوندی یہی لوح محفوظ ہے اور جب مخفی چیزیں جن کو کوئی نہیں جانتا اس میں موجود ہیں تو ظاہر چیزیں تو بدرجہ اولی موجود ہیں۔ غرض ان کے اعمال بد کی اللہ تعالیٰ کو خبر ہے اور آسمانی دفتر میں بھی محفوظ ہیں اور وہ اعمال خود سزا کے مقتضی بھی ہیں اور سزا کے واقع ہونے پر سب انبیاء (علیہم السلام) کی دی ہوئی اخبار صادقہ بھی متفق ہیں۔ پھر یہ سمجھنے کی کیا گنجائش ہے کہ سزا نہ ہوگی، البتہ دیر ہونا ممکن ہے چناچہ بعض سزائیں ان منکرین کو دنیا میں بھی ہوئیں جیسے قحط، قتل و قید وغیرہ اور کچھ قبر و برزخ میں ہوں گی جو کچھ دور نہیں، اور کچھ آخرت میں ہوں گی۔- معارف ومسائل - قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہے کہ آپ لوگوں کو بتلا دیں کہ جتنی مخلوق آسمانوں میں ہے جیسے فرشتے اور جتنی مخلوق زمین میں ہے جیسے بنی آدم اور جنات وغیرہ ان میں سے کوئی بھی غیب کو نہیں جانتا۔ بجز اللہ تعالیٰ کے آیت مذکورہ نے پوری وضاحت اور صراحت کے ساتھ یہ بتلایا ہے کہ علم غیب اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفت ہے جس میں کوئی فرشتہ یا نبی و رسول بھی شریک نہیں ہو سکتا۔ اس مسئلہ کی ضروری تفصیل سورة انعام کی آیت نمبر 59 کے تحت صفحہ 352 جلد 3 پر آ چکی ہے۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر احقر کا ایک مستقل رسالہ بنام کشف الریب عن علم الغیب احکام القرآن (عربی) کا جزء بن کر شائع ہوچکا ہے۔ اہل علم اس کی مراجعت فرما سکتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمَّنْ يَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ وَمَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ۭ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۝ ٠ۭ قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝ ٦٤- بدأ - يقال : بَدَأْتُ بکذا وأَبْدَأْتُ وابْتَدَأْتُ ، أي : قدّمت، والبَدْءُ والابتداء : تقدیم الشیء علی غيره ضربا من التقدیم . قال تعالی: وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسانِ مِنْ طِينٍ [ السجدة 7] - ( ب د ء ) بدء ات - بکذا وابتدءات میں نے اسے مقدم کیا ۔ اس کے ساتھ ابتدا کی ۔ البداء والابتداء ۔ ایک چیز کو دوسری پر کسی طور مقدم کرنا قرآن میں ہے وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ ( سورة السجدة 7) اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا ۔ - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - عود - الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] - ( ع و د ) العود ( ن)- کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - هيت - هيت - هَيْتَ : قریب من هلمّ ، وقرئ : هَيْتَ لَكَ- «2» : أي : تهيّأت لك، ويقال : هَيْتَ به وتَهَيَّتْ : إذا قالت : هَيْتَ لك . قال اللہ تعالی:- وَقالَتْ هَيْتَ لَكَ- [يوسف 23] .- يقال : هَاتِ ، وهَاتِيَا، وهَاتُوا . قال تعالی:- قُلْ هاتُوا بُرْهانَكُمْ [ البقرة 111] قال الفرّاء : ليس في کلامهم هاتیت، وإنما ذلک في ألسن الحیرة «3» ، قال : ولا يقال لا تهات . وقال الخلیل «4» : المُهَاتَاةُ والهتاءُ مصدر هات .- ( ھ ی ت ) ھیت - ( ھ ی ت ) ھیت اور ھلم کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں اور آیت وقالتْ هَيْتَ لَكَ [يوسف 23] کہنے لگی ( یوسف ) چلا آؤ ۔ میں ایک قرات ھیت لک بھی ہے جس کے معنی تھیات لک کے ہیں ییعنی میں تیرے لئے تیار ہوں اور ھیت بہ وتھیت کے معنی ھیت لک کہنے کے ہیں ھات ( اسم فعل ) لاؤ تثنیہ اور جمع کے لئے ھائتا وھا تو ا ۔ آتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ قُلْ هاتُوا بُرْهانَكُمْ [ البقرة 111]( اے پیغمبر ) ان سے تم کہدو کہ ۔۔۔۔۔ دلیل پیش کرو ۔ افتراء کا کہنا ہے کہ کلام عرب میں ھاتیت مستعمل نہیں ہے یہ صرف اہل حیرہ کی لغت ہے اور اس سے لالھات ( فعل نہیں ) استعمال نہیں ہوتا ۔ خلیل نے کہا ہے کہ المھاتاہ والھتاء ( مفاعلہ سے ) سات صیغہ امر ہے ۔ ھیھات یہ کلمہ کسی چیز کے بعید ازقیاس ہو نیکو کو بتانے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس میں ھیھات ھیھات اور ھیھاتا تین لغت ہیں اور اسی سے قرآن پاک میں ہے : ۔ هَيْهاتَ هَيْهاتَ لِما تُوعَدُونَ [ المؤمنون 36] جس بات کا تم وعدہ کیا جاتا ہے ( بہت ) لبیدا اور ( بہت ) بعید ہے ۔ زجاج نے ھیھات کے معنی البعد کئے ہیں دوسرے اہل لغت نے کہا ہے کہ زجاج کو ( لما ) کے لام کی وجہ سے غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ اس کی اصل بعد الامر وا الوعد لما توعدون ہے اور اس میں ایک لغت ھیھات بھی ہے ۔ الفسوی نے کہا ہے کہ ھیھات کسرہ تا کے ساتھ ھیھات ( بفتح تاء ) کی جمع ہے ۔- بره - البُرْهَان : بيان للحجة، وهو فعلان مثل :- الرّجحان والثنیان، وقال بعضهم : هو مصدر بَرِهَ يَبْرَهُ : إذا ابیضّ ، ورجل أَبْرَهُ وامرأة بَرْهَاءُ ، وقوم بُرْهٌ ، وبَرَهْرَهَة «1» : شابة بيضاء .- والبُرْهَة : مدة من الزمان، فالبُرْهَان أوكد الأدلّة، وهو الذي يقتضي الصدق أبدا لا محالة، وذلک أنّ الأدلة خمسة أضرب :- دلالة تقتضي الصدق أبدا .- ودلالة تقتضي الکذب أبدا .- ودلالة إلى الصدق أقرب .- ودلالة إلى الکذب أقرب .- ودلالة هي إليهما سواء .- قال تعالی: قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة 111] ، قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء 24] ، قَدْ جاءَكُمْ بُرْهانٌ مِنْ رَبِّكُمْ [ النساء 174] .- ( ب ر ہ ) البرھان - کے معنی دلیل اور حجت کے ہیں اور یہ ( رحجان وثنیان کی طرح فعلان کے وزن پر ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ برہ یبرہ کا مصدر ہے جس کے معنی سفید اور چمکنے کے ہیں صفت ابرہ مونث برھاء ج برۃ اور نوجوان سپید رنگ حسینہ کو برھۃ کہا جاتا ہے البرھۃ وقت کا کچھ حصہ لیکن برھان دلیل قاطع کو کہتے ہیں جو تمام دلائل سے زدر دار ہو اور ہر حال میں ہمیشہ سچی ہو اس لئے کہ دلیل کی پانچ قسمیں ہیں ۔ ( 1 ) وہ جو شخص صدق کی مقتضی ہو ( 2 ) وہ جو ہمیشہ کذب کی مقتضی ہو ۔ ( 3) وہ جو اقرب الی الصدق ہو ( 4 ) جو کذب کے زیادہ قریب ہو ( 5 ) وہ جو اقتضاء صدق وکذب میں مساوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة 111] اے پیغمبر ان سے ) کہدو کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء 24] کہو کہ اس بات پر ) اپنی دلیل پیش کرویہ ( میری اور ) میرے ساتھ والوں کی کتاب بھی ہے - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٤) اور بتاؤ کہ یہ بت بہتر ہیں یا وہ ذات جو نطفہ سے مخلوقات کو پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر اس کو مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرے گا اور جو کہ آسمان سے تمہارے لیے پانی برساتا اور زمین سے نباتات اگاتا ہے کیا اللہ جل شانہ کے علاوہ اور کسی کی جرأت ہے کہ ایسا کرسکے (اور اگر اب بھی نہ مانیں) تو آپ فرما دیجیے کہ اپنی دلیل پیش کرو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو کہ اللہ کے علاوہ اور بھی معبود اور مشکل کشا ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 80 یہ سادہ سی بات جس کو ایک جملے میں بیان کردیا گیا ہے اپنےا ندر ایسی تفصیلات رکھتی ہے کہ آدمی ان کی گہرائی میں جتنی دور تک اترتا جاتا ہے اتنے ہی وجود الہ اور وحدت الہ کے شواہد اسے ملتے چلے جاتے ہیں ، پہلے تو بجائے خود تخلیق ہی کو دیکھیے ۔ انسان کا علم آج تک یہ راز نہیں پاسکا ہے کہ زندگی کیسے اور کہاں سے آتی ہے ، اس وقت تک مسلم سائنٹفک حقیقت یہی ہے کہ بے جان مادے کی محض ترکیب سے خود بخود جان پیدا نہیں ہوسکتی ، حیات کی پیدائش کے لیے جتنے عوامل درکار ہیں ان سب کا ٹھیک تناسب کے ساتھ بالکل اتفاقا جمع ہوکر زندگی کا آپ سے آپ وجود میں آجانا دہریوں کا ایک غیر علمی مفروضہ تو ضرور ہے ، لیکن اگر ریاضی کے قانون بخت و اتفاق ( ) کو اس پر منطبق کیا جائے تو اس کے وقوع کا امکان صفر سے زیادہ نہیں نکلتا ، اب تک تجربی طریقے پر سائنس کے معملوں ( ) میں بے جان مادے سے جاندار مادہ پیدا کرنے کی جتنی کوششیں بھی کی گئی ہیں تمام ممکن تدابیر استعمال کرنے کے باوجود وہ سب قطعی ناممکن ہوچکی ہیں ، زیادہ سے زیادہ جو چیز پیدا کی جاسکی ہے وہ صرف وہ مادہ ہے جسے اصطلاح میں ( . . ) کہا جاتا ہے ۔ یہ وہ مادہ ہے جو زندہ خلیوں میں پایا جاتا ہے ۔ یہ جوہر حیات تو ضرور ہے مگر خود جاندار نہیں ہے ۔ زندگی اب بھی بجائے خود ایک معجزہ ہی ہے جس کی کوئی علمی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جاسکی ہے کہ یہ ایک خالق کے امر و ارادہ اور منصوبے کا نتیجہ ہے ۔ اس کے بعد آگے دیکھیے ۔ زندگی محض ایک مجرد صورت میں نہیں بلکہ بے شمار متنوع صورتوں میں پائی جاتی ہے ، اس وقت تک روئے زمین پر حیوانات کی تقریبا 10 لاکھ اور اور نباتات کی تقریبا دو لاکھ انواع کا پتہ چلا ہے ۔ یہ لکوکھا انواع اپنی ساخت اور نوعی خصوصیات میں ایک دوسرے سے ایسا واضح اور قطعی امتیاز رکھتی ہیں ، اور قدیم ترین معلوم زمانے سے اپنی اپنی صورت نوعیہ کو اس طرح مسلسل برقرار رکھتی چلی آرہی ہیں کہ ایک خدا کے تخلیقی منصوبے ( ) کے سوا زندگی کے اس عظیم تنوع کی کوئی اور معقول توجیہ کردینا کسی ڈارون کے بس کی بات نہیں ہے ۔ آج تک کہیں بھی دو نوعوں کے درمیان کی کوئی ایک کڑی بھی نہیں مل سکی ہے جو ایک نوع کی ساخت اور خصوصیات کا ڈھانچہ توڑ کر نکل آئی ہو اور ابھی دوسری نوع کی ساخت اور خصوصیات تک پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہو ۔ متحجرات ( ) کا پورا ریکارڈ اس کی نظیر سے خالی ہے اور موجودہ حیوانات میں بھی یہ خنثی مشکل کہیں نہیں ملا ہے ۔ آج تک کسی نوع کا جو فرد بھی ملا ہے اپنی پوری صورت نوعیہ کے ساتھ ہی ملا ہے ، اور ہر وہ افسانہ جو کسی مفقود کڑی کے ہم پہنچ جانے کا وقتا فوقتا سنا دیا جاتا ہے ۔ تھوڑی مدت بعد حقائق اس کی ساری پھونک نکال دیتے ہیں ۔ اس وقت تک یہ حقیقت اپنی جگہ بالکل اٹل ہے کہ ایک صانع حکیم ، ایک خالق الباری المصور ہی نے زندگی کو یہ لاکھوں متنوع صورتیں عطا کی ہیں ۔ یہ تو ہے ابتدائے خلق کا معاملہ ۔ اب ذرا عادۃ خلق پر غور کیجیے ۔ خالق نے ہر نوع حیوانی اور نباتی کی ساخت و ترکیب میں وہ حیرت انگیز نظام العمل ( ) رکھ دیا ہے جو اس کے بے شمار افراد میں سے بے حد و حساب نسل ٹھیک کارخانوں میں یہ بھول چوک نہیں ہوتی کہ ایک نوع کا کوئی کارخانہ چلا جاتا ہے اور کبھی جھوٹوں بھی ان کروڑ ہا کروڑ چھوٹے چھوٹے کارخانوں میں یہ بھول چوک نہیں ہوتی کہ ایک نوع کا کوئی کارخانہ تناسل کسی دوسری نوع کا ایک نمونہ نکال کر پھینک دے ۔ جدید علم تناسل ( ) کے مشاہدات اس معاملے میں حیرت انگیز حقائق پیش کرتے ہیں ۔ ہر پودے میں یہ صلاحیت رکھی گئی ہے کہ اپنی نوع کا سلسلہ آگے کی نسلوں تک جاری رکھنے کا ایسا مکمل انتظام کرے جس سے آنے والی نسل اس کی نوع کی تمام امتیازی خصوصیات کی حامل ہو اور اس کا ہر فرد دوسری تمام انواع کے افراد سے اپنی صورت نوعیہ میں ممیز ہو ۔ یہ بقائے نوع اور تناسل کا سامان ہر پودے کے ایک خلیے ( ) کے ایک حصہ میں ہوتا ہے جسے بمشکل انتہائی طاقت ور خوردبین سے دیکھا جاسکتا ہے ۔ یہ چھوٹا سا انجینیر پوری صحت کے ساتھ پودے کے سارے نشوونما کو حتما اسی راستے پر ڈالتا ہے جو اس کی اپنی صورت نوعیہ کا راستہ ہے ۔ اسی کی بدولت گیہوں کے ایک دانہ سے آج تک جتنے پودے بھی دنیا میں کہیں پیدا ہوئے ہیں انہوں نے گہیوں ہی پیدا کیا ہے ، کسی آب و ہوا اور کسی ماحول میں یہ حادثہ کبھی رونما نہیں ہوا کہ دانہ گندم کی نسل سے کوئی ایک ہی دانہ جو پیدا ہوجاتا ، ایسا ہی معاملہ حیوانات اور انسان کا بھی ہے کہ ان میں سے کسی کی تخلیق بھی بس ایک دفعہ ہوکر نہیں رہ گئی ہے بلکہ ناقابل تصور وسیع پیمانے پر ہر طرف اعادۃ خلق کا ایک عظیم کارخانہ چل رہا ہے جو ہر نوع کے افراد سے پیہم اسی نوع کے بے شمار افراد وجود میں لاتا چلا جارہا ہے ۔ اگر کوئی شخص توالد و تناسل کے اس خورد بینی تخم کو دیکھے جو تمام نوعی امتیازات اور موروثی خصوصیات کو اپنے ذرا سے وجود کے بھی محض ایک حصے میں لیے ہوئے ہوتا ہے ، اور پھر اس انتہائی نازک اور پیچیدہ عضوی نظام اور بے انتہا لطیف و پر پیچ عملیات ( ) کو دیکھے جن کی مدد سے ہر نوع کے ہر فرد کا تخم تناسل اسی نوع کا فرد وجود میں لاتا ہے ، تو اہ ایک لمحہ کے لیے بھی یہ تصور نہیں کرسکتا کہ ایسا نازک اور پیچیدہ نظام العمل کبھی خود بخود بن سکتا ہے اور پھر مختلف انواع کے اربوں ملین افراد میں آپ سے آپ ٹھیک چلتا بھی رہ سکتا ہے ۔ یہ چیز نہ صرف اپنی ابتدا کے لیے ایک صانع حکیم چالہتی ہے ، بلکہ ہر آن اپنے درست طریقہ پر چلتے رہنے کے لیے بھی ایک نظام و مدبر اور ایک حی و قیوم کی طلاب ہے جو ایک لحظہ کے لیے بھی ان کارخانوں کی نگرانی و رہنمائی سے غافل نہ ہو ۔ یہ حقائق ایک دہریے کے انکار خدا کی بھی اسی طرح جڑ کاٹ دیتے ہیں جس طرح ایک مشرک کے شرک کی ، کون احمق یہ گمان کرسکتا ہے کہ خدا کے اس کام میں کوئی فرشتہ یا جن یا نبی یا ولی ذرہ برابر بھی کوئی حصہ رکھتا ہے ، اور کون صاحب عقل آدمی تعصب سے پاک ہوکر یہ کہہ سکتا ہے کہ سارا کارخانہ خلق و اعادۃ خلق اس کمال حکمت و نظم کے ساتھ اتفاقا شروع ہوا اور آپ سے آپ چلے جارہا ہے ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 81 رزق دینے کا معاملہ بھی اتنا سادہ نہیں ہے جتنا سرسری طور پر ان مختصر سے الفاظ کو پڑھ کر کوئی شخص محسوس کرتا ہے ۔ اس زمین پر لاکھوں انواع حیوانات کی اور لاکھوں ہی نباتات کی پائی جاتی ہیں جن میں سے ہر ایک کے اربوں افراد موجود ہیں اور ہر ایک کی غذائی ضروریات الگ ہیں ۔ خالق نے ان میں سے ہر نوع کی غذا کا سامان اس کثرت سے اور ہر ایک کی دسترس کے اس قدر قریب فراہم کیا ہے کہ کسی نوع کے افراد بھی یہاں غذا پانے سے محروم نہیں رہ جاتے ۔ پھر اس انتظام میں زمین اور آسمان کی اتنی مختلف قوتیں مل جل کر کام کرتی ہیں جن کا شمار مشکل ہے ، گرمی ، روشنی ، ہوا ، پانی ، اور زمین کے مختلف الاقسام مادوں کے درمیان اگر ٹھیک تناسب کے ساتھ تعاون نہ ہو تو غذا کا ایک ذرہ بھی وجود میں نہیں آسکتا ۔ کون شخص تصور کرسکتا ہے کہ یہ حکیمانہ انتظام ایک مدبر کی تدبیر اور سوچے سمجھے منصوبے کے بغیر یونہی اتفاقا ہوسکتا تھا ؟ اور کون اپنے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے یہ خیال کرسکتا ہے کہ اس انتظام میں کسی جن یا فرشتے یا کسی بزرگ کی روح کا کوئی دخل ہے؟ سورة النمل حاشیہ نمبر : 82 یعنی یا تو اس بات پر دلیل لاؤ کہ ان کاموں میں واقعی کوئی اور بھی شریک ہے ، یا نہیں تو پھر کسی معقول دلیل سے یہی بات سمجھا دو کہ یہ سارے کام تو ہوں صرف ایک اللہ کے مگر بندگی و عبادت کا حق پہنچے اس کے سوا کسی اور کو یا اس کے ساتھ کسی اور کو بھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani