Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ کے سوا کوئی غیب داں نہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ وہ سارے جہاں کو معلوم کرادیں کہ ساری مخلوق آسمان کی ہو یا زمین کی غیب کے علم سے خالی ہے بجز اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کے کوئی اور غیب کا جاننے والا نہیں ۔ یہاں استثناء منقطع ہے یعنی سوائے اللہ کے کوئی انسان جن فرشتہ غیب دان نہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ 59؀ ) 6- الانعام:59 ) یعنی غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہے جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ اور فرمان ہے آیت ( اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ 34؀ۧ ) 31- لقمان:34 ) اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش برساتا ہے وہی مادہ کے پیٹ کے بچے سے واقف ہے ۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا نہ کسی کو یہ خبر کہ وہ کہاں مرے گا ؟ علیم وخبیر صرف اللہ ہی ہے ۔ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں ۔ مخلوق تو یہ بھی نہیں جانتی کہ قیامت کب آئے گی ۔ آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والوں میں سے ایک بھی واقف نہیں کہ قیامت کا دن کون سا ہے؟ جیسے فرمان ہے آیت ( ثَقُلَتْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ١٨٧؁ ) 7- الاعراف:187 ) سب پر یہ علم مشکل ہے اور بوجھل ہے وہ تو اچانک آجائے گی ۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمان ہے جو کہے کہ حضور کل کائنات کی بات جانتے تھے اس نے اللہ تبارک وتعالیٰ پر بہتان عظیم باندھا اس لئے کہ اللہ فرماتا ہے زمین وآسمان والوں میں سے کوئی بھی غیب کی بات جاننے والا نہیں ۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ستاروں میں تین فائدے رکھے ہیں ۔ آسمان کی زینت بھولے بھٹکوں کی رہبری اور شیطانوں کی مار ۔ کسی اور بات کا ان کیساتھ عقیدہ رکھنا اپنی رائے سے بات بنانا اور خود ساختہ تکلیف اور اپنی عاقبت کے حصہ کو کھونا ہے ۔ جاہلوں نے ستاروں کے ساتھ علم نجوم کو معلق رکھ کر فضول باتیں بنائی ہیں کہ اس ستارے کے وقت جو نکاح کرے یوں ہوگا فلاں ستارے کے موقعہ پر سفر کرنے سے یہ ہوتا ہے فلاں ستارے کے وقت جو تولد ہوا وہ ایسا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب ڈھکو سلے ہیں انکی بکواس کے خلاف اکثر ہوتا رہتا ہے ہر ستارے کے وقت کالا گورا ٹھنگنا لمبا خوبصورت بد شکل پیدا ہوتا ہی رہتا ہے ۔ نہ کوئی جانور غیب جانے نہ کسی پرند سے غیب حاصل ہوسکے نہ ستارے غیب کی رہنمائی کریں ۔ سنو اللہ کا فیصلہ ہوچکا ہے کہ آسمان و زمیں کی کل مخلوق غیب سے بےخبر ہے ۔ انہیں تو اپنے جی اٹھنے کا وقت بھی نہیں معلوم ہے ( ابن ابی حاتم ) سبحان اللہ حضرت قتادہ کا یہ قول کتنا صحیح کس قدر مفید اور معلومات سے پر ہے ۔ فرماتا ہے بات یہ ہے کہ ان کے علم آخرت کے وقت کے جاننے سے قاصر ہیں عاجز ہوگئے ہیں ۔ ایک قرأت میں بل ادرک ہے یعنی سب کے علم آخرت کا صحیح وقت نہ جاننے میں برابر ہیں ۔ جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ میرا اور تیرا دونوں کا علم اس کے جواب سے عاجز ہے ۔ پس یہاں بھی فرمایا کہ آخرت سے ان کے علم غائب ہیں ۔ چونکہ کفار اپنے رب سے جاہل ہیں اس لئے آخرت کے بھی منکر ہیں ۔ وہاں تک ان کے علم پہنچتے ہی نہیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آخرت میں ان کو علم حاصل ہوگا لیکن بےسود ۔ جیسے اور جگہ بھی ہیں کہ جس دن یہ ہمارے پاس پہنچے گے بڑے ہی دانا وبینا ہوجائیں گے ۔ لیکن آج ظالم کھلی گمراہی میں ہونگے ۔ پھر فرماتا ہے کہ بلکہ یہ تو شک ہی میں ہیں اس سے مراد کافر ہے جیسے فرمان ہے آیت ( وَعُرِضُوْا عَلٰي رَبِّكَ صَفًّا 48؀ ) 18- الكهف:48 ) یعنی یہ لوگ اپنے رب کے سامنے صف بستہ پیش کئے جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہم نے جس طرح تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اب ہم تمہیں دوبارہ لے آئے ہیں لیکن تم تو یہ سمجھتے رہے کہ قیامت تو کوئی چیز ہی نہیں ۔ مراد یہ ہے کہ تم میں سے کافر یہ سمجھتے رہیں ۔ گو مندرجہ بالا آیات بھی گو ضمیر جنس کی طرف لوٹتی ہے لیکن مراد کفار ہی ہیں اسی لیے آخر میں فرمایا کہ یہ تو اس سے اندھاپے میں ہیں ، نابینا ہو رہے ہیں ، آنکھیں بند کر رکھی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

651یعنی جس طرح مذکورہ معاملات میں اللہ تعالیٰ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی طرح غیب کے علم میں بھی وہ متفرد ہے۔ اس کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ نبیوں اور رسولوں کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ وحی اور الہام کے ذریعے سے انھیں بتلا دیتا ہے اور جو علم کسی کے بتلانے سے حاصل ہو، اس کے عالم کو عالم الغیب نہیں کہا جاتا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جو شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئندہ کل پیش آنے والے حالات کا علم رکھتے ہیں، اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا اس لئے کہ وہ تو فرما رہا ہے کہ آسمان و زمین میں غیب کا علم صرف اللہ کو ہے (صحیح بخاری) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ستارے تین مقاصد کے لیے بنائے ہیں۔ آسمان کی زینت، رہنمائی کا ذریعہ اور شیطان کو سنگسار کرنا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے احکام سے بیخبر لوگوں نے ان سے غیب کا علم حاصل کرنے (کہانت) کا ڈھونگ رچا لیا ہے۔ مثلا کہتے ہیں جو فلاں فلاں ستارے کے وقت نکاح کرے گا تو یہ یہ ہوگا فلاں فلاں ستارے کے وقت سفر کرے گا تو ایسا ایسا ہوگا۔ فلاں فلاں ستارے کے وقت پیدا ہوگا تو ایسا ایسا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ ان کے قیاسات کے خلاف اکثر ہوتا رہتا ہے۔ ستاروں، پرندوں اور جانوروں سے غیب کا علم کس طرح حاصل ہوسکتا ہے ؟ جبکہ اللہ کا فیصلہ تو یہ ہے کہ آسمان و زمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧١] غیب سے مراد ایک تو ایسی چیزیں ہیں جو کسی خاص انسان کے علم یا مشاہدہ میں نہ آئی ہوں۔ پھر جب وہ اس کے علم میں آجائیں گی تو اس کے لئے غیب نہ رہیں گی۔ مثلاً سڑک پر ایک بس اور کار کا حادثہ ہوگیا جس میں چار آدمی مرگئے۔ پھر جب اسے اس کا علم ہوجائے گا یا وہ خود مشاہدہ کرلے گا تو یہ واقعہ اس کے لئے غیب نہ رہا۔ ایسی خبریں ماضی کی بھی ہوسکتی ہیں۔ حال کی بھی جو کسی کو معلوم ہوتی ہیں اور کسی کے لئے غیب کا درجہ رکھتی ہیں۔ البتہ مستقبل کی خبریں سب کے لئے غیب ہوتی ہیں۔ دوسری قسم یہ ہے کہ جتنے علوم انسان دریافت کرچکا ہے یا جس حد تک دریافت کرچکا ہے۔ وہ سب انسان کے لئے علم الشہادۃ ہیں اور جن علوم تک انسان کی رسائی ہو ہی نہیں ہوسکتی یا نہیں ہوسکی۔ وہ اس کے لئے علم غیب ہیں۔ تیسری قسم ان اشیاء کا علم ہے جن تک انسان کی رسائی نہ پہلے کبھی ہوئی اور نہ آئندہ کبھی ہوسکے گی اور کتاب و سنت کی تصریح کے مطابق یہ پانچ چیزیں ہیں۔ (١) کل کیا کچھ ہونے والا ہے اور فلاں شخص کل کیا کچھ کرے گا، (٢) موت کب آئے اور کہاں آئے گی۔ (٣) رحم مادر میں تغیرات کیونکر واقع ہوتے ہیں۔ (٤) نفع رساں بارش کب ہوگی اور (٥) قیامت کب آئے گی۔ (٣١: ٣٤) ان چیزوں کا علم صرف اللہ کو ہوتا ہے۔- ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ غیب کا علم صرف اللہ کو ہے۔ البتہ اس علم میں سے جتنا وہ انسانی ہدایت کے لئے ضروری سمجھتا ہے اس سے اپنے انبیاء کو مطلع کردیتا ہے۔ جیسے قیامت، بعث بعد الموت، جنت و دوزخ اور روز قیامت کے احوال اور ی سے ہی ماضی کے حالات جیسے شرعی اصطلاح میں تذکیر۔۔ اللہ کہتے ہیں۔ انبیاء و اقوام کے حالات اور بعض مستقبل کے متعلق پیشین گوئیاں اور بشارات۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انبیاو کی زبان سے بار بار یہ اعلان کروایا کہ اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ ایک مقام پر فرمایا : اے نبی کہہ دو کہ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں بہت بھلائیاں اکٹھی کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی (٧: ١٨٨ ( اور انبیا پر چونکہ بموجب تصریح احادیث صحیحہ ابتلا کا دور آتا ہے تو جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء بھی اتنا ہی غیب کا علم جانتے ہیں۔ جتنا اللہ انھیں بتلا دیتا ہے۔- علم غیب کو اللہ تعالیٰ کا سے مخصوص رکھا اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اور اس کی وجہ ہے کہ الوہیت اور علم غیب ماننے میں ایک گہرا تعلق ہے۔ قدیم زمانے سے لے کر آج تک انسان نے جس ہستی میں الوہیت کے کسی شائبہ کا گمان کیا ہے اس کے متعلق یہ ضرور خیال کیا ہے ہے کہ اس پر سب کچھ روشن ہے اور کوئی چیز اس پر پوشیدہ نہیں رہتی۔ آپ نے اکثر اولیاء اللہ کے تذکروں میں پڑھا یا سنا ہوگا کہ پیر اپنے مریدوں کے حالات سے آگاہ ہوتا ہے۔ پھر ایسے بیشمار واقعات بھی ان تذکروں میں پائے جاتے ہیں۔ ایسے سب قصے اس لئے گھڑے جاتے ہیں کہ ان پیروں میں الوہیت کی صفات کو تسلیم کیا جائے اگرچہ زبان سے ان کا اقرار نہ کیا جائے۔ گویا کسی کے متعلق ایسا عقیدہ رکھنا ہی شرک کی سب سے بڑی بنیاد ہے۔ کوئی بزرگ یا پیر خواہ زندہ ہو یا فوت ہوچکا ہو کسی کی فریاد تو اسی صورت میں سن سکتا ہے اور اس کی حاجت روائی اور مشکل کشائی اسی صورت میں کرسکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنے مریدوں کے احوال سے آگاہ ہو پھر اس کے بعد امور کائنات میں کچھ تصرف بھی رکھتا ہو۔ - پھر جس طرح اللہ تعالیٰ کی بعض دوسری صفات مثلاً خلاقیت اور رزاقیت ناقابل تقسیم و تجزیہ ہیں۔ اس طرح علم غیب بھی ناقابل تقسیم و تجزیہ ہیں۔ یعنی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فلاں بزرگ اپنے تمام مریدوں کے حالات سے یا اپنے علاقہ یا شہر کے حالات سے پوری طرح باخبر ہے اور ان کے غیب کے حالات بھی جانتا ہے۔ یا فلاں ہستی اس علاقہ کی زمین کے مدفوں خزانوں کو جانتی ہے، ایسی تمام باتیں شرک میں داخل ہیں۔- [٧٢] آیت کے اس جملہ سے یہ معلوم ہوا کہ اس آیت میں صرف ان ہستیوں کے علم غیب جاننے کی تردید مقصود ہے۔ جن پر بعث بعدالموت کا مرحلہ پشی آنے والا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس سے مراد نہ بت ہوسکتے ہیں نہ حجر و شجر نہ شمس و قمر اور نہ فرشتے۔ ان سے مراد صرف وہی بزرگ ہوسکتے ہیں جن میں کسی نہ کسشی رنگ الوہیت کی کوئی صفت اور بالخصوص علم الغیب تسلیم کیا جاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔۔ : ” الْغَيْبَ “ ” غَابَ یَغِیْبُ “ کا مصدر ہے، اکثر غائب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، مراد وہ چیزیں ہیں جو نہ حواس خمسہ سے معلوم ہو سکیں اور نہ عقل ان کا ادراک کرسکے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی بھی معبود کی عبادت، اس سے فریاد کرنے اور اسے مشکل کشا یا حاجت روا سمجھنے کی ابتدا اس بات سے ہوتی ہے کہ اسے عالم الغیب سمجھ لیا جاتا ہے۔ ورنہ اگر عقیدہ یہ ہو کہ میرے تمام احوال سے میرے مالک کے سوا کوئی واقف ہی نہیں، تو وہ کسی غیر کو کیوں پکارے گا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ یہ اعلان کرنے کا حکم دیا کہ کوئی آسمان میں ہے یا زمین میں، اللہ کے سوا غیب کوئی نہیں جانتا۔- 3 اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کو غیب کی بعض باتوں کی اطلاع دیتا ہے، مگر اس سے وہ عالم الغیب نہیں بن جاتے، کیونکہ انھیں اتنی ہی بات معلوم ہوتی ہے جتنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتائی جاتی ہے، جیسا کہ فرمایا : (عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰي غَيْبِهٖٓ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّهِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا) [ الجن : ٢٦ تا ٢٨ ] ”(وہ) غیب کو جاننے والا ہے، پس اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ مگر کوئی رسول، جسے وہ پسند کرلے تو بیشک وہ اس کے آگے اور اس کے پیچھے پہرا لگا دیتا ہے۔ تاکہ جان لے کہ انھوں نے واقعی اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے ہیں اور اس نے ان تمام چیزوں کا احاطہ کر رکھا ہے جو ان کے پاس ہیں اور ہر چیز کو گن کر شمار کر رکھا ہے۔ “ یہی وجہ ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) کو مصر سے قمیص کی روانگی کے ساتھ ہی یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو آگئی، مگر چند میل کے فاصلے پر کنویں میں پڑے ہوئے یوسف (علیہ السلام) کی خبر نہ ہوسکی اور سال ہا سال تک رونے کی وجہ سے آنکھیں سفید ہوگئیں، مگر علم اس وقت ہوا جب اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے معراج کروا دیا، مگر جوتوں پر لگی گندگی کا علم اسی وقت ہوا جب جبریل (علیہ السلام) نے آکر نماز میں بتایا۔ اگر بعض باتیں معلوم ہونے سے کوئی عالم الغیب بن جاتا ہو تو ہم میں سے ہر شخص عالم الغیب ہوگا، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتانے سے ہمیں بھی غیب کی کئی باتوں کا علم ہے۔- 3 اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی جو صفات بیان ہوئی ہیں وہ سوال کے انداز میں بیان ہوئی ہیں، کیونکہ مشرکین بھی مانتے تھے کہ پیدا کرنا، بارش اتارنا، رزق دینا اور دوسری صفات صرف اللہ تعالیٰ کی ہیں۔ علم کے متعلق چونکہ مشرکین یہ نہیں مانتے تھے، بلکہ غیر اللہ کو پکارتے ہی اس لیے تھے کہ سمجھتے تھے کہ وہ ہمارے حال سے واقف ہیں اور ہماری فریاد سن رہے ہیں، حالانکہ اکیلے اللہ تعالیٰ کو خالق ماننے کا مطلب یہی ہے کہ اپنی مخلوق کا پورا علم بھی وہی رکھتا ہے، فرمایا : (اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ۭ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ) [ الملک : ١٤ ] ” کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا ہے اور وہی تو ہے جو نہایت باریک بین ہے، کامل خبر رکھنے والا ہے۔ “ جس نے پیدا ہی نہیں کیا اسے اللہ کی مخلوق کے جملہ احوال کا علم کیسے ہوسکتا ہے ؟ مگر آج کل بھی بعض کلمہ گو حضرات انبیاء، اولیاء اور پیروں فقیروں کو اس عقیدے کے ساتھ پکارتے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں، بلکہ صاف کہتے ہیں کہ وہ کون سی بات ہے جو ان سے مخفی ہے اور اس کے لیے انھوں نے بیشمار کہانیاں گھڑ رکھی ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے سوالیہ انداز کے بجائے صاف لفظوں میں کہہ دینے کا حکم فرمایا کہ اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔- 3 جب انبیاء و اولیاء غیب نہیں جانتے تو کاہن، رمال، جفار، جوتشی، جعلی استخارے کر کے آئندہ کی خبریں بتانے والے اور چوریاں بتانے والے عالم الغیب کیسے ہوسکتے ہیں ؟ یہ سب لوگ جھوٹے و دغا باز ہیں۔ آسمان سے سنی ہوئی کوئی بات سچی نکل آتی ہے تو وہ اس کے ساتھ اپنے جھوٹ کا بازار چمکاتے رہتے ہیں۔- 3 اگر اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب ہوتا تو اس کے سب سے زیادہ لائق ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم غیب عطائی تھا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ” مَا کَانَ وَ مَا یَکُوْنُ “ کا علم عطا فر دیا تھا، فرق صرف ذاتی اور عطائی کا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اپنی کسی صفت میں برابر کا شریک بنا لے۔ دیکھیے سورة روم (٢٨) اور سورة نحل (٧١) کی تفسیر۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس دعویٰ کے لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ” مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ “ ( جو ہوچکا اور جو ہوگا) کا سارا علم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے دیا تھا، یہ واضح کرنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ علم کب عطا فرمایا۔ اگر کہا جائے کہ نبوت ملنے سے پہلے یا وفات سے پہلے کسی وقت آپ کو یہ علم عطا ہوگیا تھا تو جبریل (علیہ السلام) کی آمد اور وحی کے نزول کا سلسلہ عبث ٹھہرتا ہے اور اگر کہا جائے کہ وفات سے پہلے تو آپ عالم الغیب نہیں تھے، البتہ وفات کے وقت عالم الغیب ہوگئے تھے، تو وہ احادیث اس کا رد کرتی ہیں جن میں فرشتوں کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہنے کا ذکر ہے کہ ( إِنَّکَ لَا تَدْرِيْ مَا أَحْدَثُوْا بَعْدَکَ ) [ بخاري : ٤٦٢٥ ] ” تم نہیں جانتے انھوں نے تمہارے بعد کیا نئے کام کیے تھے۔ “ اور جن میں شفاعت کے لیے عرش کے نیچے سجدے کی حالت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ محامد سکھانے کا ذکر ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے پہلے معلوم نہیں ہوں گے۔ (دیکھیے بخاری : ٧٥١٠)- 3 الغرض، یہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ عالم الغیب اللہ کے سوا کوئی نہیں، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے غیب کی کسی بات کی اطلاع دے دے، لیکن جمیع ” مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ “ کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، چناچہ فرمایا : (وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ) [ الأنعام : ٥٩] ” اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں، انھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ “ اور فرمایا : (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ) [ لقمان : ٣٤ ] ” بیشک اللہ، اسی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہ بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ “ اور فرمایا : (يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ) [ البقرۃ : ٢٥٥ ] ” وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرتے مگر جتنا وہ چاہے۔ “- قرآن مجید نے اللہ کے سوا کسی سے علم الغیب کی صرف مطلق اور عام نفی ہی نہیں فرمائی بلکہ انبیاء ( علیہ السلام) اور خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں صاف تصریح فرمائی ہے کہ وہ عالم الغیب نہیں ہیں، انھیں غیب کا علم اتنا ہی دیا گیا ہے جس کی رسالت کے لیے ضرورت تھی۔ پہلے انبیاء کے متعلق دیکھیے، آدم (علیہ السلام) کا قصہ۔ [ طٰہٰ : ١٢٠ تا ١٢٢ ] نوح (علیہ السلام) کا قصہ۔ [ ھود : ٣١ تا ٣٦ اور ٤٥ تا ٤٧ ] ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ۔ [ الشعراء : ٦٩ تا ٨٦ ] لوط (علیہ السلام) کا قصہ۔ [ ھود : ٧٧ تا ٨٣ ] یعقوب (علیہ السلام) کا قصہ۔ [ یوسف : ٨٣، ٨٤] سلیمان (علیہ السلام) کا قصہ۔ [ النمل : ٢٠ تا ٢٨] موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ۔ [ الأعراف : ١٤٣۔ طٰہٰ : ٢١ اور ٦٤ تا ٦٨ اور ٨٣ تا ٨٦۔ النمل : ١٠۔ القصص : ٢٠] زکریا (علیہ السلام) کا قصہ۔ [ مریم : ٢ تا ١٠۔ آل عمران : ٣٧ تا ٤٧ ] داؤد (علیہ السلام) کا قصہ۔ [ صٓ : ٢٢ تا ٢٥ ] فرشتے بھی غیب نہیں جانتے۔ [ البقرۃ : ٣١ تا ٣٣ ] اور جن بھی غیب نہیں جانتے ہیں۔ [ سبا : ١٢ تا ١٤ ] ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے تین زمانے ہیں، نبوت سے پہلے کا زمانہ۔ نبوت کا زمانہ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد کا زمانہ۔ نبوت سے پہلے زمانے کے متعلق قرآن مجید نے تصریح فرمائی کہ آپ کو ان باتوں کا علم نہ تھا۔ دیکھیے سورة شوریٰ (٥٢) ، قصص (٤٤ تا ٤٦، ٤٨) اور ہود (٤٩) ۔- نبی بننے سے فوت ہونے تک کے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گزشتہ و آئندہ کے بیشمار واقعات اور علوم عطا فرمائے، مگر اللہ کے علم سے آپ کے علم کی کوئی نسبت نہیں، جیسا کہ خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے علم کی اللہ تعالیٰ کے علم سے نسبت کی مثال سمندر اور چڑیا کی چونچ کے قطرے کی مثال دے کر سمجھائی۔ [ دیکھیے بخاري : ٤٧٢٥ ] ام المومنین عائشہ (رض) نے فرمایا : ( مَنْ حَدَّثَکَ أَنَّہُ یَعْلَمُ الْغَیْبَ فَقَدْ کَذَبَ ) [ بخاري، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ : ( عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ أحدا ) ۔۔ : ٧٣٨٠، ٤٨٥٥ ] ” جو شخص تجھے یہ کہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب جانتے تھے اس نے جھوٹ کہا۔ “ اب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے چند واقعات اختصار کے ساتھ ملاحظہ ہوں جن سے آپ کے عالم الغیب ہونے کی نفی ہوتی ہے : 1 عائشہ (رض) سے متعلق واقعۂ افک۔ دیکھیے سورة نور (١٦ تا ٢٦) اور صحیح بخاری میں حدیث افک (٤١٤١) ۔ 2 شہد حرام کرنے کا واقعہ۔ دیکھیے سورة تحریم (١ تا ٤) اور صحیح بخاری (٤٩١٢) ۔ 3 اللہ نے آپ سے کچھ پیغمبروں کا حال بیان فرمایا، کچھ کا نہیں۔ دیکھیے سورة نساء (١٦٤) ۔ 4 آپ کو قیامت کے وقت کا علم نہیں۔ دیکھیے سورة احزاب (٦٣) ، شوریٰ (١٧) ، اعراف (١٨٧) ، طٰہٰ (١٥) ، نمل (٦٥) ، لقمان (٣٤) ، حٰم السجدہ (٤٧) ، زخرف (٨٥) اور ملک (٢٥، ٢٦) ۔ 5 اللہ کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ دیکھیے مدثر (٣١) ۔ 6 عبداللہ بن ام مکتوم نابینا صحابی کا واقعہ۔ دیکھیے سورة عبس (١ تا ١٢) ۔ 7 اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ مدینہ اور اس کے ارد گرد کچھ منافق ہیں، نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، تو انھیں نہیں جانتا، ہم انھیں جانتے ہیں۔ دیکھیے سورة توبہ (١٠١) ۔ 8 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور جبریل (علیہ السلام) سے بار بار پوچھنا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمانا کہ سدرۃ المنتہیٰ کو ایسے رنگوں نے ڈھانپ لیا کہ میں نہیں جانتا وہ کیا تھے ؟ [ دیکھیے بخاري، الصلاۃ، باب کیف فرضت الصلاۃ في الإسراء : ٣٤٩ ] 9 فتح مکہ کے موقع پر آپ پردے کے پیچھے غسل کر رہے تھے کہ ام ہانی (رض) حاضر ہوئیں، اس نے سلام کہا تو آپ نے فرمایا : ” کون ہے ؟ “ بتایا کہ ام ہانی ہوں۔ [ دیکھیے بخاري، الغسل، باب التستر فی الغسل عند الناس : ٢٨٠ ] 0 ایک سفر میں عائشہ (رض) کا ہار گم ہوگیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور لوگ آپ کے ساتھ اس کی تلاش کے لیے ٹھہر گئے۔ بعد میں اس اونٹ کو کھڑا کیا جس پر عائشہ (رض) سو رہی تھیں تو ہار اس کے نیچے سے مل گیا۔ [ دیکھیے بخاري، التیمم، باب : ٣٣٤ ]- مرض الموت میں جب آپ کا مرض بڑھ گیا تو آپ بار بار بےہوش ہو کر ہوش میں آتے تو فرماتے : ” لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے ؟ “ عرض کیا جاتا، نہیں تین بار ایسا ہوا۔ [ دیکھیے بخاري، الأذان، باب أن جعل الإمام لیؤتم بہ : ٦٨٧ ] ستر صحابہ کو مشرکین کی ایک جماعت کی طرف بھیجا، انھوں نے ان کو شہید کردیا، آپ سخت غمگین ہوئے۔ [ دیکھیے بخاري، الوتر، باب القنوت قبل الرکوع و بعدہ : ١٠٠٢ ] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوئے رہے، ابوبکر و عمر (رض) اور دوسرے صحابہ بھی سوئے رہے، سورج پوری طرح نکل آیا تو صبح کی نماز بعد میں پڑھی۔ [ دیکھیے مسلم، المساجد، باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ۔۔ : ٦٨٠ ] مسجد میں جھاڑو دینے والی عورت فوت ہوگئی اور جنازے کے بعد دفن کردی گئی، تو آپ نے فرمایا : ” تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا۔ “ پھر آپ نے فرمایا : ” مجھے اس کی قبر بتاؤ۔ “ [ دیکھیے بخاري، الصلاۃ، باب کنس المسجد : ٤٥٨ ] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں اپنے گھر جاتا ہوں، وہاں مجھے میرے بستر پر کھجور پڑی ہوئی ملتی ہے، میں اسے کھانے کے لیے اٹھا لیتا ہوں، لیکن پھر یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں یہ صدقہ کی کھجور نہ ہو تو میں اسے پھینک دیتا ہوں۔ “ [ دیکھیے بخاري، اللقطۃ، باب إذا وجد - تمرۃ ۔۔ : ٢٤٣١ ]- آپ نے فرمایا : ” مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی، پھر بھلا دی گئی۔ “ [ دیکھیے بخاري، فضل لیلۃ القدر، باب التماس لیلۃ القدر۔۔ : ٢٠١٦ ] بنوعکل اور عرینہ کے لوگوں کا واقعہ جنھیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹوں کے ساتھ رہ کر دودھ اور پیشاب پینے کا حکم دیا اور وہ تندرست ہونے پر آپ کے چرواہے کو قتل کرکے اونٹنیاں ہانک کرلے گئے۔ [ دیکھیے بخاري، الجہاد والسیر، باب إذا حرق المشرک۔۔ : ٣٠١٨، ٢٣٣ ] یہودی عورت کا بکری کے گوشت میں زہر ملانے کا واقعہ۔ [ دیکھیے بخاري، الھبۃ و فضلھا، باب قبول الھدیۃ من المشرکین : ٢٦١٧ ] ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس آدمیوں کو جاسوسی کے لیے روانہ کیا، ان کا سردار عاصم بن ثابت انصاری (رض) کو بنایا۔ سات شہید ہوگئے، تین بچ گئے، انھوں نے دعا کی : ” یا اللہ ہماری خبر ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچا دے۔ “ بعد میں باقی دو بھی شہید ہوگئے اور خبیب (رض) قیدی بن گئے، پھر ان کو بھی شہید کردیا گیا۔ [ دیکھیے بخاري، الجھاد والسیر، باب ھل یستأسر الرجل ؟۔۔ : ٣٠٤٥ ] مزید واقعات محترم ارشاد اللہ مان کی کتاب ” تلاشِ حق “ میں دیکھیں، انھوں نے یہاں اٹھتر (٧٨) واقعات نقل کیے ہیں۔- رہا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد کا زمانہ، تو کئی احادیث سے ثابت ہے کہ آپ قیامت کے دن بھی عالم الغیب نہیں ہوں گے۔ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَأَیُّھَا النَّاسُ ، إِنَّکُمْ مَحْشُوْرُوْنَ إِلَی اللّٰہِ حُفَاہً عُرَاۃً غُرْلًا، ثُمَّ قَالَ : (كَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهٗ ۭ وَعْدًا عَلَيْنَا ۭ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْن) إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ ثُمَّ قَالَ : أَلَا وَإِنَّ أَوَّلَ الْخَلَاءِقِ یُکْسٰی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِبْرَاھِیْمُ ، أَلَا وَإِنَّہُ یُجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِيْ فَیُؤْخَذُ بِھِمْ ذَات الشِّمَالِ فَأَقُوْلُ یَا رَبِّ أُصَیْحَابِيْ ، فَیُقَالُ ، إِنَّکَ لَا تَدْرِيْ مَا أَحْدَثُوْا بَعْدَکَ ، فَأَقُوْلُ کَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ : (وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ ) فَیُقَالُ : إِنَّ ھٰؤُلَاءِ لَمْ یَزَالُوْا مُرْتَدِّیْنَ عَلٰی أَعْقَابِھِمْ مُنْذُ فَارَقْتَھُمْ ) [ بخاري، التفسیر، باب : ( و کنت علیہم شھیدا ما دمت فیھم۔۔ ) : ٤٦٢٥ ] ” اے لوگو تم اللہ کے سامنے ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بےختنہ جمع کیے جاؤ گے۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی : (كَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهٗ ۭ وَعْدًا عَلَيْنَا ۭ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْن) [ الأنبیاء : ١٠٤ ] ” جس طرح ہم نے پہلی پیدائش کی ابتدا کی (اسی طرح) ہم اسے لوٹائیں گے۔ یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے، یقیناً ہم ہمیشہ (پورا) کرنے والے ہیں۔ “ پھر فرمایا : ” سنو سب سے پہلے قیامت کے دن ابراہیم (علیہ السلام) کو کپڑے پہنائے جائیں گے۔ سن لو میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے، فرشتے ان کو پکڑ کر بائیں طرف والوں (یعنی دوزخیوں) میں لے جائیں گے۔ میں عرض کروں گا : ” اے رب یہ تو میرے امتی ہیں۔ “ ارشاد ہوگا : ” تم نہیں جانتے، انھوں نے تمہارے بعد کیا کام کیے۔ “ تو اس وقت میں وہی کہوں گا جو اللہ کے نیک بندے عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : (وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ ) [ المائدۃ : ١١٧ ] ” اور میں ان پر گواہ تھا جب تک میں ان میں رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر نگران تھا۔ “ ارشاد ہوگا : ” یہ لوگ اپنی ایڑیوں کے بل اسلام سے پھرتے رہے جب تو ان سے جدا ہوا۔ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( فَأَسْتَأْذِنُ عَلٰی رَبِّيْ فَیُؤْذَنُ لِيْ فَأَقُوْمُ بَیْنَ یَدَیْہِ فَأَحْمَدُہُ بِمَحَامِدَ لَا أَقْدِرُ عَلَیْہِ الْآنَ ، یُلْھِمُنِیْہِ اللّٰہُ تَعَالٰی ) [ مسلم، الإیمان، باب أدنٰی أھل الجنۃ منزلۃ فیھا : ٣٢٦؍١٩٣ ] ”(قیامت کے روز جب سب لوگ میرے پاس آئیں گے تو) میں اپنے رب سے اجازت مانگوں گا، مجھے اجازت دے دی جائے گی تو میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوجاؤں گا اور اللہ کی ایسی حمدو ثنا کروں گا کہ آج میں اس پر قادر نہیں، اس وقت وہ حمد اللہ تعالیٰ مجھے القا کرے گا۔ “ ۭ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ : اس سے معلوم ہوا کہ علم غیب کی نفی ان سے نہیں کی جا رہی جو قیامت کے دن اٹھائے نہیں جائیں گے، مثلاً بت یا حجر و شجر، یا شمس و قمر، یا فرشتے، بلکہ ان لوگوں سے کی جا رہی ہے جو قیامت کو اٹھائے جائیں گے، خواہ وہ پیغمبر ہوں یا صدیق، یا شہداء، یا صالحین، فرمایا، علم غیب تو کجا انھیں یہ بھی شعور نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللہُ۝ ٠ۭ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ۝ ٦٥- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - شعور - الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا .- شعور - حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔- أَيَّانَ- عبارة عن وقت الشیء، ويقارب معنی متی، قال تعالی: أَيَّانَ مُرْساها [ الأعراف 187] ، أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ [ الذاریات 12] من قولهم : أي، وقیل : أصله : أيّ أوان، أي :- أيّ وقت، فحذف الألف ثم جعل الواو ياء فأدغم فصار أيّان . و :- ( ایان ) ایان - ( کب ) کسی شے کا وقت دریافت کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ قریب قریب متی) کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ أَيَّانَ مُرْساها [ الأعراف 187] کہ اس ( قیامت ) کا وقوع کب ہوگا ۔ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ( سورة النحل 21) ان کو بھی یہ معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ ( سورة الذاریات 12) کہ جزا کا دن کب ہوگا ۔ لفظ ایان دراصل امی سے مشتق ہے اور بعض کے نزدیک اس کی اصل ائ اوان ہے جس کے معنی ہیں کونسا وقت ، ، الف کو حذف کرکے واؤ کو یاء اور پھر اسے یاء میں ادغام کرکے ایان بنا لیا گیا ہے ۔ - بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] ،- فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس «3» ، وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] ، وقالعزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] ، أي : توجههم ومضيّهم .- ( ب ع ث ) البعث - ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا رکی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے - پس بعث دو قسم پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا - دوم بعث الہی - یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] کہہ و کہ ) اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٥) آپ فرما دیجیے کہ فرشتے ہوں یا انسان سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی بھی غییب کی بات نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی اور ان کفار پر عذاب کس وقت نازل ہوگا اور ان مخلوقات کو تو یہ بھی خبر نہیں کہ وہ قبروں سے کس وقت دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ ) ” - یعنی وہ لوگ جو فوت ہوچکے ہیں ‘ چاہے وہ اولیاء اللہ ہوں یا کوئی اور ‘ اس دنیا سے جانے کے بعد وہ عالم برزخ میں ہیں اور وہاں انہیں کچھ معلوم نہیں کہ انہیں کب دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 83 اوپر تخلیق ، تدبیر اور رزاقی کے اعتبار سے اللہ تعالی کے الہ واحد ( یعنی اکیلے خدا اور اکیلے مستحق عبادت ) ہونے پر استدلال کی گیا تھا ۔ اب خدائی کی ایک اور اہم صفت ، یعنی علم کے لحاظ سے بتایا جارہا ہے کہ اس میں بھی اللہ تعالی لاشریک ہے ، آسمان و زمین میں جو بھی مخلوقات ہیں ، خواہ فرشتے ہوں یا جن یا انبیاء اور اولیاء یا دوسرے انسان اور غیر انسان ، سب کا علم محدود ہے ، سب سے کچھ نہ کچھ پوشیدہ ہے ۔ سب کچھ جاننے والا اگر کوئی ہے تو وہ صرف اللہ تعالی ہے جس سے اس کائنات کی کوئی چیز اور کوئی بات پوشیدہ نہیں ، جو ماضی و حال اور مستقبل سب کو جانتا ہے ۔ غیب کے معنی مخفی ، پوشیدہ اور مستور کے ہیں ۔ اصطلاحا اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو معلوم نہ ہو ، جس تک ذرائع معلومات کی رسائی نہ ہو ۔ دنیا میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو فردا فردا بعض انسانوں کے علم میں ہیں اور بعض کے علم میں نہیں ہیں ، اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو بحیثیت مجموعی پوری نوع انسانی کے علم میں نہ کبھی تھیں نہ آج ہیں نہ آئندہ کبھی آئیں گی ، ایسا ہی معاملہ جنوں اور فرشتوں اور دوسری مخلوقات کا ہے کہ بعض چیزیں ان میں سے کسی سے مخفی اور کسی کو معلوم نہیں ، اور بے شمار چیزیں ایسی ہیں جو ان سب سے مخفی ہیں اور کسی کو بھی معلوم نہیں ۔ یہ تمام اقسام کے غیب صرف ایک ذات پر روشن ہیں اور وہ اللہ تعالی کی ذات ہے اس کے لیے کوئی چیز غیب نہیں ، سب شہادت ہی شہادت ہے ۔ اس حقیقت کو بیان کرنے میں سوال کا وہ طریقہ اختیار نہیں کیا گیا جو اوپر تخلیق و تدبیر کائنات اور رزاقی کے بیان میں اختیار کیا گیا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان صفات کے آثار تو بالکل نمایاں ہیں جنہیں ہر شخص دیکھ رہا ہے ، اور ان کے بارے میں کفار و مشرکین تک یہ مانتے تھے اور مانتے ہیں کہ یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں ، اس لیے وہاں طرز استدلال ءیہ تھا کہ جب یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں اور کوئی ان میں اس کا شریک نہیں ہے تو پھر خدائی میں تم نے دوسروں کو کیسے شریک بنالیا اور عبادت کے مستحق وہ کس بنا پر ہوگئے؟ لیکن علم کی صفت اپنے اپنے کوئی محسوس آثار نہیں رکھتی جن کی طرف اشارہ کیا جاسکے ۔ یہ معاملہ صرف غور و فکر ہی سے سمجھ میں آسکتا ہے ۔ اس لیے اس کو سوال کے بجائے دعوے کے انداز میں پیش کیا گیا ہے ، اب یہ ہر صاحب عقل کا کام ہے کہ وہ اپنی جگہ اس امر پر غور کرے کہ فی الحقیقت کیا یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا عالم الغیب ہو؟ یعنی تمام ان احوال اور اشیاء اور حقائق کا جاننے والا ہو جو کائنات میں کبھی تھیں ، یا اب ہیں ، یا آئندہ ہوں گی ، اور اگر کوئی دوسرا عالم الغیب نہیں ہے اور نہیں ہوسکتا تو پھر کیا یہ بات عقل میں آتی ہے کہ جو لوگ پوری طرح حقائق اور احوال سے واقف ہی نہیں ہیں ان میں سے کوئی بندوں کا فریاد رس اور حاجت روا اور مشکل کشا ہوسکے؟ الوہیت اور علم غیب کے درمیان ایک ایسا گہرا تعلق ہے کہ قدیم ترین زمانے سے انسان نے جس ہستی میں بھی خدائی کے کسی شائبے کا گمان کیا ہے اس کے متعلق یہ خیال ضرور کیا ہے کہ اس پر سب کچھ روشن ہے اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ گویا انسان کا ذہن اس حقیقت سے بالکل بدیہی طور پر آگاہ ہے کہ قسمتوں کا بنانا اور بگاڑنا ، دعاؤں کا سننا ، حاجتیں پوری کرنا اور ہر طالب امداد کی مدد کو پہنچنا صرف اسی ہستی کا کام ہوسکتا ہے جو سب کچھ جانتی ہو اور جس سے کچھ بھی پوشیدہ نہ ہو ، اسی بنا پر تو انسان جس کو بھی خدائی اختیارات کا حامل سمجھتا ہے اسے لازما عالم الغیب بھی سمجھتا ہے ، کیونکہ اس کی عقل بلا ریب شہادت دیتی ہے کہ علم اور اختیارات باہم لازم و ملزوم ہیں ۔ اب اگر یہ ھقیقت ہے کہ خالق اور مدبر اور مجیب الدعوات اور رازق خدا کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے جیسا کہ اوپر کی آیات میں ثابت کیا گیا ہے تو آپ سے آپ یہ بھی حقیقت ہے کہ عالم الغیب بھی خدا کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے ، آخر کون اپنے ہوش و حواس میں یہ تصور کرسکتا ہے کہ کسی فرشتے یا جن یا نبی یا ولی کو ، یا کسی مخلوق کو بھی یہ معلوم ہوگا کہ سمندر میں اور ہوا میں اور زمین کی تہوں میں اور سطح زمین کے اوپر کس کس قسم کے کتنے جانور کہاں کہاں ہیں؟ اور عالم بالا کے بے حدو حساب سیاروں کی ٹھیک تعداد کیا ہے؟ اور ان میں سے ہر ایک کس کس طرح کی مخلوقات موجود ہیں؟ اور ان مخلوقات کا ایک ایک فرد کہاں ہے اور کیا اس کی ضروریات ہیں؟ یہ سب کچھ اللہ کو تو لازما معلوم ہونا چاہیے ۔ کیونکہ اس نے انہیں پیدا کیا ہے ، اور اسی کو ان کے معاملات کی تدبیر اور ان کے حالات کی نگہبانی کرنی ہے اور وہی ان کے رزق کا انتظام کرنے والا ہے ، لیکن دوسرا کوئی اپنے محدود وجود میں یہ وسیع و محیط علم رکھ کیسے سکتا ہے اور اس کا کیا تعلق اس کار خلاقی و رزاقی سے کہ وہ ان چیزوں کو جانے؟ پھر یہ صفت قابل تجزیہ بھی نہیں ہے کہ کوئی بندہ مثلا صرف زمین کی حد تک اور زمین میں بھی صرف انسانوں کی حد تک عالم الغیب ہو ، یہ اسی طرح قابل تجزیہ نہیں ہے جس طرح خدا کی خلاقی و رزاقی اور قیومی و پروردگاری قابل تجزیہ نہیں ہے ۔ ابتدائے آفرینش سے آج تک جتنے انسان دنیا میں پیدا ہوئے ہیں اور قیامت تک پیدا ہوں گے ، رحم مادر میں استقرار کے وقت سے آخری ساعت حیات تک ان سب کے تمام حالات و کیفیات کو جاننا آخر کس بندے کا کام ہوسکتا ہے؟ اور وہ کیسے اور کیوں اس کو جانے گا ؟ کیا وہ اس بے حدو حساب خلقت کا خالق ہے؟ کیا اس نے ان کے باپوں کے نطفے میں ان کے جرثومے کو وجود بخشا تھا ؟ کیا اس نے ان کی ماؤں کے رحم میں ان کی صورت گری کی تھی؟ کیا اس نے ان کی زندہ ولادت کا انتظام کیا تھا ؟ کیا اس نے ان میں سے ایک ایک شخص کی قسمت بنائی تھی؟ کیا وہ ان کی موت اور حیات ان کی صحت اور مرض ، ان کی خوشحالی اور بدحالی اور ان کے عروج اور زوال کے فیصلے کرنے کا ذمہ دار ہے؟ اور آخر یہ کام کب سے اس کے ذمے ہوا ؟ اس کی اپنی ولادت سے پہلے اس کے بعد؟ اور صرف انسانوں کی حد تک یہ ذمہ داریاں محدود کیسے ہوسکتی ہیں؟ یہ کام تو لازما زمین اور آسمانوں کے عالمگیر انتظام کا ایک جز ہے ، جو ہستی ساری کائنات کی تدبیر کررہی ہے وہی تو انسانوں کی پیدائش و موت اور ان کے رزق کی تنگی و کشادگی اور ان کی قسمتوں کے بناؤ اور بگاڑ کی ذمہ دار ہوسکتی ہے ۔ اسی بنا پر یہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ عالم الغیب اللہ تعالی کے سوا کو٤ی دوسرا نہیں ہے ، اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اور جس قدر چاہے اپنی معلومات کا کوئی گوشہ کھول دے ، اور کسی غیب یا بعض غیوب کو اس پر روشن کردے ، لیکن علم غیب بحیثیت مجموعی کسی کو نصیب نہیں اور عالم الغیب ہونے کی صفت صرف اللہ رب العالمین کے لیے مخصوص ہے ۔ وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں ، انہیں کوئی نہیں جانتا اس کے سوا ( الانعام ، آیت 59 ) اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۔ اللہ ہی کے پاس ہے قیامت کا علم اور وہی بارش نازل کرنے والا ہے ، اور وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے رحم میں کیا ( پرورش پارہا ) ہے اور کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرے گا ، اور کسی متنفس کو خبر نہیں ہے کہ کس سرزمین میں اس کو موت آئے گی ۔ ( لقمان ، آیت 34 ) يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ وہ جانتا ہے جو کچھ مخلوقات کے سامنے ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے ، اور اس کے علم میں سے کسی چیز پر بھی وہ احاطہ نہیں کرسکتے الا یہ کہ وہ جس چیز کا چاہے انہیں علم دے ۔ ( البقرہ ، آیت 255 ) قرآن مجید مخلوقات کے لیے علم غیب کی اس عام اور مطلق نفی پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ خاص طور پر انبیاء علیہم السلام اور خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس امر کی صاف صاف تصریح کرتا ہے کہ وہ عالم الغیب نہیں ہیں اور ان کو غیب کا صرف اتنا علم اللہ تعالی کی طرف سے دیا گیا ہے جو رسالت کی خدمت انجام دینے کے لیے درکار تھا ۔ سورہ انعام کی آیت 50 ، الاعراف آیت 187 ، التوبہ آیت 101 ، ہود آیت 31 ، احزاب آیت 63 ، الاحقاف آیت9 ، التحریم آیت 3 ، اور الجن آیات 26 تا 28 ، اس معاملہ میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں چھوڑتیں ۔ قرآن کی یہ تمام تصریحات زیر بحث آیت کی تائید و تشریح کرتی ہیں جن کے بعد اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ اللہ تعالی کے سوا کسی کو عالم الغیب سمجھنا اور یہ سمجھنا کہ کوئی دوسرا بھی جمیع ماکان وما یکون کا علم رکھتا ہے ، قطعا ایک غٰر اسلامی عقیدہ ہے ۔ شیخین ، ترمذی ، نسائی ، امام احمد ، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے صحیح سندوں کے ساتھ حضرت عائشہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ من زعم انہ رای النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعلم ما یکون فی غد فقد اعظم علی اللہ الفریۃ واللہ یقول قل لا یعلم من فی السموت والارض الغیب الا اللہ ۔ یعنی جس نے یہ دعوی کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں کل کیا ہونے والا ہے اس نے اللہ پر سخت جھوٹ کا الزام لگایا ، کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے اے نبی تم کہہ دو کہ غیب کا علم اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین کے رہنے والوں میں سے کسی کو بھی نہیں ہے ۔ ابن المنذر حضرت عبداللہ بن عباس کے مشہور شاگرد عکرمہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اے محمد ، قیامت کب آئے گی؟ اور ہمارے علاقے میں قحط برپا ہے ، بارش کب ہوگی؟ اور میری بیوی حاملہ ہے ، وہ لڑکا جنے گی یا لڑکی؟ اور یہ تو مجھے معلوم ہے کہ میں نے آج کیا کمایا ہے ، کل میں کیا کماؤں گا ؟ اور یہ تو مجھے معلوم ہے کہ میں کہاں پیدا ہوا ہوں ، مروں گا کہاں؟ ان سوالات کے جواب میں سورہ لقمان کی وہ آیت حضور نے سنائی جو اوپر نقل کی ہے ۔ ان اللہ عندہ علم الساعۃ ۔ پھر بخاری و مسلم اور دوسری کتب حدیث کی وہ مشہور رواویت بھی اسی کی تائید کرتی ہے جس میں ذکر ہے کہ صحابہ کے مجمع میں حضرت جبریل نے انسانی شکل میں آکر حضور سے جو سوالات کیے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ قیامت کب آئے گی؟ حضور نے جواب دیا ما المسئول عنھا باعلم من السائل ۔ ( جس سے پوچھا جارہا ہے وہ خود پوچھنے والے سے زیادہ اس بارے میں کوئی علم نہیں رکھتا ) ۔ پھر فرمایا یہ ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں اور یہی مذکورہ بالا آیت حضور نے تلاوت فرمائی ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 84 یعنی دوسرے جن کے متعلق یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ عالم الغیب ہیں ، اور اسی بنا پر جن کو تم لوگوں نے خدائی میں شریک ٹھہرا لیا ہے ، ان بیچاروں کو تو خود اپنے مستقبل کی بھی خبر نہیں ، وہ نہیں جانتے کہ کب قیامت کی وہ گھڑی آئے گی جب اللہ تعالی ان کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

32: ﷲ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کو غیب کی بہت سی باتیں وحی کے ذریعے بتادیتے ہیں، اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ غیب کی خبریں حضور سرورِ دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کو عطا فرمائی گئی تھیں، لیکن مکمل علمِ غیب اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے اِس لئے اُس کے سوا کسی کو ’’عالم الغیب‘‘ نہیں کہا جاسکتا۔