1 یعنی ان کا علم آخرت کے وقوع کا وقت جاننے سے عاجز ہے۔
[٧٣] یعنی کوئی انسان خواہ کتنے ہی عقل کے گھوڑے دوڑائے یہ معلوم نہیں کرسکتا کہ قیامت کب قائم ہوگی۔ نہ ہی روز آخرت کی حقیقت معلوم کرسکتا ہے۔ سوائے اس کے کہ وہ وحی الٰہی پر ایمان لے آئے۔ اس صورت میں اسے آخرت اور اس کے احوال کے متعلق تو یقین حاصل ہوجاتا ہے۔ مگر قیامت کے وقت کا علم پھر بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ اور ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ پیغمبر کی دعوت نے انھیں اس شک میں مبتلا ضرور کردیا ہے اور وہ روز آخرت سے انکار کے باوجود یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ممکن ہے کہ پیغمبر سچ ہی کہہ رہا ہو۔ اس کے باوجود ان لوگوں نے اسی بات کو ترجیح دی کہ اس معاملہ غورو فکر کرنا چھوڑ دیا جائے اور ان دلائل و شواہد سے بالکل آنکھیں بند کرلیں۔ جن میں غور و تامل کرنے سے ان کا شک رفع ہوسکتا ہے۔
بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ :” ادّٰرَكَ “ اصل میں ” تَدَارَکَ “ ہے، جو باب تفاعل سے ماضی کا صیغہ ہے۔ اس کا مادہ ” درک “ ہے، اسی سے ” ادّٰرَكَ “ بنا ہے، کسی چیز کو پالینا۔ ” تَدَارَکَ “ کا معنی ہے کسی چیز کو پکڑنے کے لیے لگا تار دوڑنا، بھاگ کر پیچھے سے پکڑنے کی کوشش کرنا۔ یہاں مراد یہ ہے کہ آخرت کو جاننے کے لیے ان کا علم لگاتار دوڑتا ہی رہا، مگر اسے حاصل نہ کرسکا، آخر تھک ہار کر رہ گیا۔ ” غَابَ “ گم ہوگیا، ” اِنْتَھٰی “ ختم ہوگیا۔ ” ادّٰرَكَ “ کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں، ان میں سے سب سے صحیح یہی قول ہے، کیونکہ طبری نے معتبر سند کے ساتھ علی بن ابو طلحہ کے واسطے سے ابن عباس (رض) کا قول نقل فرمایا ہے : ”( بل ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ ) یَقُوْلُ غَابَ عِلْمُھُمْ “ [ طبري : ٢٧٢٩٢ ] یعنی ” ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ “ کا معنی ہے آخرت کے بارے میں ان کا علم گم ہوگیا۔ - ” عَمُوْنَ “ ” عَمِيٌ“ (بروزن فَرِحٌ) کی جمع ہے، مراد دل کے اندھے ہیں۔- 3 پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اللہ کے سوا آسمان و زمین میں جو بھی ہے غیب نہیں جانتا اور وہ شعور نہیں رکھتے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔ ظاہر ہے اس میں مشرکین کے بنائے ہوئے معبودوں کے ساتھ انبیاء و صحابہ سب شامل ہیں کہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔ اس کے بعد سلسلۂ کلام عام کفار و مشرکین کی طرف پھر گیا ہے، جو قیامت کے منکر تھے، ان کے متعلق تین دفعہ لفظ ” بل “ کے ساتھ تین باتیں فرمائیں، بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم گم ہوگیا ہے، انھیں اس کے وقوع کے وقت کے متعلق کچھ علم نہیں، بلکہ انھیں قیامت کے واقع ہونے ہی میں شک ہے۔ قیامت کی فکر تو وہ کرے گا جسے اس کے حق ہونے کا یقین ہو، بلکہ یہ جان بوجھ کر اس سے اندھے بنے ہوئے ہیں، پیغمبر کی بات پر اور قیامت کے حق ہونے کے دلائل پر غور تک کرنے کے لیے تیار نہیں، کیونکہ اس سے انھیں اللہ کے سامنے پیش ہونے اور حساب دینے پر یقین کرنا پڑتا ہے، جس کے بعد وہ اپنی خواہش پرستی اور من مانی نہیں کرسکتے، اس لیے قیامت کے انکار کا بہانہ یہ بنائے رکھتے ہیں کہ بتاؤ وہ قیامت کب قائم ہوگی ؟ جیسا کہ فرمایا : (لَآ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَلَآ اُقْسِمُ بالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهٗ بَلٰى قٰدِرِيْنَ عَلٰٓي اَنْ نُّسَوِّيَ بَنَانَهٗ بَلْ يُرِيْدُ الْاِنْسَانُ لِيَفْجُرَ اَمَامَهٗ يَسْــَٔـلُ اَيَّانَ يَوْمُ الْقِيٰمَةِ ) [ القیامۃ : ١ تا ٦ ] ” نہیں، میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں اور نہیں، میں بہت ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں کیا انسان گمان کرتا ہے کہ بیشک ہم کبھی اس کی ہڈیاں اکٹھی نہیں کریں گے۔ کیوں نہیں ؟ (ہم انھیں اکٹھا کریں گے) اس حال میں کہ ہم قادر ہیں کہ اس (کی انگلیوں) کے پورے درست کر (کے بنا) دیں۔ بلکہ انسان چاہتا ہے کہ اپنے آگے (آنے والے دنوں میں بھی) نافرمانی کرتا رہے۔ وہ پوچھتا ہے اٹھ کھڑے ہونے کا دن کب ہوگا ؟ “
بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ ۣ بَلْ هُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْهَا ڹ بَلْ هُمْ مِّنْهَا عَمُوْنَ ، لفظ ادّٰرَكَ میں قرائتیں بھی مختلف ہیں اور اس کے معنی میں بھی کئی قول ہیں۔ اہل علم اس کی تفصیل تفاسیر میں دیکھ سکتے ہیں، یہاں صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ ادّٰرَكَ کے معنے بعض مفسرین نے تکامل کے کئے ہیں اور فی الاخرہ کو ادّٰرَكَ سے متعلق کر کے معنی یہ قرار دیئے ہیں کہ آخرت میں ان کا علم اس معاملہ میں مکمل ہوجائے گا کیونکہ اس وقت ہر چیز کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی مگر اس وقت علم ہونا ان کے کچھ کام نہ آئے گا کیونکہ دنیا میں وہ آخرت کی تکذیب کرتے رہے تھے اور بعض مفسرین نے لفظ ادّٰرَكَ کے معنے ضل وغاب کے لئے اور فی الاخرہ کو علمہم سے متعلق کیا کہ آخرت کے معاملہ میں ان کا علم غائب ہوگیا اس کو نہ سمجھ سکے۔
بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُہُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ ٠ۣ بَلْ ہُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْہَا ٠ۣۡ بَلْ ہُمْ مِّنْہَا عَمُوْنَ ٦٦ۧ- درك - الدَّرْكُ کالدّرج، لکن الدّرج يقال اعتبارا بالصّعود، والدّرک اعتبارا بالحدور، ولهذا قيل :- درجات الجنّة، ودَرَكَات النار، ولتصوّر الحدور في النار سمّيت هاوية، وقال تعالی: إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] ، والدّرك «3» أقصی قعر البحر .- ويقال للحبل الذي يوصل به حبل آخر ليدرک الماء دَرَكٌ ، ولما يلحق الإنسان من تبعة دَرَكٌ «1» کالدّرک في البیع «2» . قال تعالی: لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه 77] ، أي :- تبعة . وأَدْرَكَ : بلغ أقصی الشیء، وأَدْرَكَ الصّبيّ : بلغ غاية الصّبا، وذلک حين البلوغ، قال : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] ، وقوله : لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، فمنهم من حمل ذلک علی البصر الذي هو الجارحة، ومنهم من حمله علی البصیرة، وذکر أنه قد نبّه به علی ما روي عن أبي بکر رضي اللہ عنه في قوله : (يا من غاية معرفته القصور عن معرفته) إذ کان غاية معرفته تعالیٰ أن تعرف الأشياء فتعلم أنه ليس بشیء منها، ولا بمثلها بل هو موجد کلّ ما أدركته . والتَّدَارُكُ في الإغاثة والنّعمة أكثر، نحو قوله تعالی: لَوْلا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ [ القلم 49] ، وقوله : حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها جَمِيعاً [ الأعراف 38] ، أي : لحق کلّ بالآخر . وقال : بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ [ النمل 66] ، أي : تدارک، فأدغمت التاء في الدال، وتوصّل إلى السکون بألف الوصل، وعلی ذلک قوله تعالی: حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها [ الأعراف 38] ، ونحوه : اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة 38] ، واطَّيَّرْنا بِكَ [ النمل 47] ، وقرئ : بل أدرک علمهم في الآخرة وقال الحسن : معناه جهلوا أمر الآخرة وحقیقته انتهى علمهم في لحوق الآخرة فجهلوها . وقیل معناه : بل يدرک علمهم ذلک في الآخرة، أي : إذا حصلوا في الآخرة، لأنّ ما يكون ظنونا في الدّنيا، فهو في الآخرة يقين .- ( درک ) الدرک اور درج کا لفظ اوپر چڑھنے کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اور الدرک کا لفظ نیچے اترنے کے لحاظ سے اس لئے درجات الجنۃ اور درکات النار کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ پستی کے اعتبار سے دوذخ کو ھاویۃ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقہ میں ہوں گے ۔ اور سمندر کی گہرائی کی تہہ اور اس رسی کو جس کے ساتھ پانی تک پہنچنے کے لئے دوسری رسی ملائی جاتی ہے بھی درک کہا جاتا ہے اور درک بمعنی تاوان بھی آتا ہے مثلا خرید وفروخت میں بیضانہ کو درک کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه 77] پھر تم کو نہ تو ( فرعون کے ) آپکڑے نے کا خوف ہوگا اور نہ غرق ہونے کا ( ڈر ۔ ادرک ۔ کسی چیز کی غایت کو پہچنا ، پالنا جیسے ادرک الصبی لڑکا بچپن کی آخری حد کو پہنچ گیا یعنی بالغ ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] یہاں تک کہ اس کو غرق ( کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] وہ ایسا ہے کہ ( نگا ہیں اس کا اور اک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا اور اک کرسکتا ہے ۔ کو بعض نے ادارک بصری کی نفی پر حمل کیا ہے اور بعض نے ادارک کی نفی ملحاظ بصیرت مراد دلی ہے اور کہا ہے کہ اس آیت سے اس معنی پر تنبیہ کی ہے جو کہ حضرت ابوبکر کے قول اے وہ ذات جس کی غایت معرفت بھی اس کی معرفت سے کوتاہی کا نام ہے ) میں پایا جاتا ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی غایت یہ ہے کہ انسان کو تمام اشیاء کا کماحقہ علم حاصل ہونے کے بعد یہ یقین ہوجائے کہ ذات باری تعالیٰ نہ کسی کی جنس ہے اور نہ ہی کسی چیز کی مثل ہے بلکہ وہ ان تمام چیزو ن کی موجد ہی ۔ - التدارک ۔- ( پالینا ) یہ زیادہ تر نعمت اور رسی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ [ القلم 49] اگر تمہارے پروردگار کی مہر بانی ان کی یاوری نہ کرتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها جَمِيعاً [ الأعراف 38] یہاں تک کہ جب سب اس میں داخل ہوجائیں گے کے معنی یہ ہیں کہ جب سب کے سب اس میں ایک دوسرے کو آملیں گے ۔ پس اصل میں تدارکوا ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ [ النمل 66] بلکہ آخرت کے بارے میں انکا علم منتہی ہوچکا ہے ۔ میں ادراک اصل میں تدارک ہے تاء کو دال میں ادغام کرنے کے بعد ابتدائے سکون کی وجہ سے ہمزہ وصلی لایا گیا ہے جس طرح کہ آیات : ۔ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة 38] میں ہے ایک قراءت میں ہے ۔ حسن (رح) نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ امور آخرت سے سراسر فاعل ہیں مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ آخرت کو پالینے سے انکا علم بنتی ہوچکا ہے اس بنا پر وہ اس سے جاہل اور بیخبر ہیں ۔ بعض نے اس کے یہ معنی کئے کہ انہیں آخرت میں ان چیزوں کی حقیقت معلوم ہو جائیگی کیونکہ دنیا میں جو چیزوں معلوم ہو جائیگی کیونکہ دنیا میں جو چیزیں محض ظنون نظر آتی ہیں آخرت میں ان کے متعلق یقین حاصل ہوجائے گا ۔- آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث .- وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع .- وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔- شكك - الشَّكُّ : اعتدال النّقيضين عند الإنسان وتساويهما،- والشَّكُّ :- ضرب من الجهل، وهو أخصّ منه، لأنّ الجهل قد يكون عدم العلم بالنّقيضين رأسا، فكلّ شَكٍّ جهل، ولیس کلّ جهل شكّا، قال اللہ تعالی: وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود 110] - ( ش ک ک ) الشک - کے معنی دونقیضوں کے ذہن میں برابر اور مساوی ہونے کے ہیں ۔- الشک :- شک جہالت ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس سے اخص ہے کیونکہ جہل میں کبھی سرے سے نقیضیں کا علم ہی نہیں ہوتا ۔ پس ہر شک جھل ہے مگر ہر جہل شک نہیں ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود 110] وہ تو اس سے قوی شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ۔ - عمون ۔ یہ بحالت رفع عم کی جمع ہے عم عمی مصدر سے بروزن فعل صفت مشبہ کا صیغہ ہے یہ اصلی میں عمی تھا۔ چونکہ ناقص یائی میں صفت مشبہ کا یا حذف ہوجاتا ہے اس لئے یاء حذف ہوگئی عم رہ گیا۔ عمی یعمی عمی باب سمع بمعنی نابینا ہونا۔ اندھا ہونا۔ اور بطور استعارہ کور دل ہونا۔- عمی - العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] - ( ع م ی ) العمی ٰ- یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں هے،
(٦٦) بلکہ آخرت کے بارے میں تو ان کا علم کالعدم ہوگیا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ قیامت قائم نہیں ہوگی بلکہ یہ لوگ قیامت کے قائم ہونے کے بارے میں شک میں ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ یہ اس سے اندھے بنے ہوئے ہیں کہ ان کو ہدایت کا راستہ نظر ہی نہیں آتا۔
آیت ٦٦ (بَلِ ادّٰرَکَ عِلْمُہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِقف) ” - یعنی یہ لوگ آخرت کی حقیقت کو سمجھ نہیں پا رہے۔- (بَلْ ہُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْہَاقف بَلْ ہُمْ مِّنْہَا عَمُوْنَ ) ” - اگرچہ یہ لوگ زبانی طور پر آخرت کا اقرار بھی کرتے ہیں اور دوبارہ جی اٹھنے پر بظاہر ایمان بھی رکھتے ہیں ‘ لیکن عملاً وہ اس کے منکر ہیں۔ عملاً انہیں آخرت کی زندگی کو سنوارنے یا قیامت کے احتساب سے بچنے کی کوئی فکر نہیں ہے۔ اس دنیا میں اپنے کل کی فکر انسان کو ہر وقت دامن گیر رہتی ہے ‘ کہ کل کیا کھانا ہے اور باقی ضروریات کیسے پوری کرنی ہیں۔ اس لیے کہ اسے کل کے آنے پر پختہ یقین ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر اسے واقعی یقین ہو کہ مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندہ ہونا ہے اور یہ کہ آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے تو اس کے لیے وہ لازماً فکر مند بھی ہوگا اور اسے بہتر بنانے کی کوشش بھی کرے گا۔ لیکن کسی انسان کو عملاً اگر اس کی فکر نہیں ہے اور وہ اس کے لیے کوشش بھی نہیں کر رہا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسے اس کے بارے میں یقین نہیں ہے۔
سورة النمل حاشیہ نمبر : 85 الوہیت کے بارے میں ان لوگوں کی بنیادی غلطیوں پر متنبہ کرنے کے بعد اب یہ بتایا جارہا ہے کہ یہ لوگ جو ان شدید گمراہیوں میں پڑے ہوئے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ غور وفکر کرنے کے بعد یہ کسی دلیل و برہان سے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ خدائی میں درحقیقت کچھ دوسری ہستیاں اللہ تعالی کی شریک ہیں ، بلکہ اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کبھی سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر ہی نہیں کیا ہے ۔ چونکہ یہ لوگ آخرت سے بے خبر ہیں ، یا اس کی طرف سے شک میں ہیں ، یا اس سے اندھے بنے ہوئے ہیں ، اس لیے فکر عقبی سے بے نیازی نے ان کے اندر سراسر ایک غیر ذمہ دارانہ رویہ پیدا کردیا ہے ۔ یہ کائنات اور خود اپنی زندگی کے حقیقی مسائل کے بارے میں سرے سے کوئی سنجیدگی رکھتے ہی نہیں ۔ ان کو اس کی پروا ہی نہیں ہے کہ حقیقت کیا ہے اور ان کا فلسفہ حیات اس حقیقت سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں ۔ کیونکہ ان کے نزدیک آخر کار مشرک اور دہریے اور موحد اور مشکک سب کو مرکر مٹی ہوجانا ہے اور کسی چیز کا بھی کوئی نتیجہ نکلنا نہیں ہے ۔ آخر کا یہ مضمون اس سے پہلے کی آیت کے اس فقرے سے نکلا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ کھ وہ اٹھائے جائیں گے ۔ اس فقرے میں تو یہ بتایا گیا تھا کہ جن کو معبود بنایا جاتا ہے ۔ اور ان میں فرشتے ، جن ، انبیاء اور اولیاء سب شامل تھے ۔ ان میں سے کوئٰی بھی آخرت کے وقت سے واقف نہیں ہے کہ وہ کب آئے گی ۔ اس کے بعد اب عام مشرکین و کفار کے بارے میں تین باتیں ارشاد ہوئی ہیں ۔ اول یہ کہ وہ سرے سے یہی نہیں جانتے کہ آخرت کبھی ہوگی بھی یا نہیں ۔ دوسرے یہ کہ ان کی یہ بے خبری اس بنا پر نہیں ہے کہ انہیں اس کی اطلاع ہی کھی نہ دی گئی ہو ، بلکہ اس بنا پر ہے کہ جو خبر انہیں دی گئی اس پر انہوں نے یقین نہیں کیا بلکہ اس کی صحت میں شک کرنے لگے ۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے بھی غور و خوض کر کے ان دلائل کو جانچنے کی زحمت ہی نہیں اٹھائی جو آخرت کے وقوع کے بارے میں پیش کیے گئے ، بلکہ اس کی طرف سے اندھے بن کر رہنے ہی کو انہوں نے ترجیح دی ۔