حیات ثانی کے منکر یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ منکرین قیامت کی سمجھ میں اب تک بھی نہیں آیا کہ مرنے اور سڑ گل جانے کے بعد مٹی اور راکھ ہوجانے کے بعد ہم دوبارہ کیسے پیدا کئے جائیں گے؟ وہ اس پر سخت متعجب ہیں ۔ کہتے ہیں مدتوں سے اگلے زمانوں سے یہ سنتے چلے آتے ہیں لیکن ہم نے تو کسی کو مرنے کے بعد جیتا ہوا دیکھا نہیں ۔ سنی سنائی باتیں ہیں انہوں نے اپنے اگلوں سے انہوں نے اپنے سے پہلے والوں سے سنیں ہم تک پہنچیں لیکن سب عقل سے دور ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو جواب بتاتا ہے کہ ان سے کہو ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھیں کہ رسولوں کو جھوٹا جاننے والوں اور قیامت کو نہ ماننے والوں کا کیسا دردرناک حسرت ناک انجام ہوا ؟ ہلاک اور تباہ ہوگئے اور نبیوں اور ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ نے بچالیا ۔ یہ نبیوں کی سچائی کی دلیل ہے ۔ پھر اپنے نبی کو تسلی دیتے ہیں کہ یہ تجھے اور میرے کلام کو جھٹلاتے ہیں لیکن تو ان پر افسوس اور رنج نہ کر ۔ ان کے پیچھے اپنی جان کو روگ نہ لگا ۔ یہ تیرے ساتھ جو روباہ بازیاں کر رہے ہیں اور جو چالیں چل رہے ہیں ہمیں خوب علم ہے تو بےفکر رہ ۔ تجھے اور تیرے دن کو ہم عروج دینے والے ہیں ۔ دنیا جہاں پر تجھے ہم بلندی دیں گے ۔
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا ۔۔ : پچھلی آیت میں بتایا گیا تھا کہ کفار آخرت سے اندھے بنے ہوئے ہیں، اس آیت میں بتایا کہ وہ اپنے اندھے پن میں کیسے بےکار اعتراض کرتے ہیں۔ یہاں بظاہر ” قَالُوْا “ کہنا ہی کافی تھا کہ ” انھوں نے کہا “ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا ) ” اور ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا “ یعنی ان کی اس بات کا سبب ان کا کفر، یعنی حق کو چھپانا اور اس کا انکار کرنا ہے۔ دوبارہ زندہ کرنے پر تعجب کے اظہار کے لیے کفار نے دو مرتبہ ہمزہ استفہامیہ استعمال کیا ہے اور دوسرے ہمزہ کے بعد مزید تعجب کے اظہار کے لیے إِنَّ اور لام تاکید کا لفظ استعمال کیا ہے کہ ” کیا جب ہم مٹی ہوجائیں گے اور ہمارے باپ دادا بھی تو کیا واقعی ہم ضرور نکالے جانے والے ہیں۔ “ ان کے ایک ایک لفظ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ان کے نزدیک قبروں میں جانے اور مٹی ہوجانے کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر قبروں سے نکالا جانا ممکن ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس کا جواب دیا ہے کہ جس نے پہلی دفعہ بنایا وہ دوبارہ کیوں نہیں بنا سکتا۔
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا ءَ اِذَا كُنَّا تُرٰبًا وَّاٰبَاۗؤُنَآ اَىِٕنَّا لَمُخْرَجُوْنَ ٦٧- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- ترب - التُّرَاب معروف، قال تعالی: أَإِذا كُنَّا تُراباً [ الرعد 5] ، وقال تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر 11] ، یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] .- ( ت ر ب )- التراب کے معنی مٹی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر 11] کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ۔ یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] کہ اے کاش کے میں مٹی ہوتا ۔ - خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔
(٦٧) یہ کفار یوں کہتے ہیں کہ ہم لوگ جب مر کر خاک ہوگئے اور اسی طرح ہمارے آباؤ اجداد بھی تو کیا پھر ہمیں زندہ کر کے قبروں سے نکالا جائے گا۔