6 8 1یعنی اس میں حقیقت کوئی نہیں، بس ایک دوسرے سے سن کر یہ کہتے چلے آ رہے ہیں۔
لَقَدْ وُعِدْنَا هٰذَا نَحْنُ وَاٰبَاۗؤُنَا مِنْ قَبْلُ : اس بات کا یعنی قبروں سے نکالے جانے کا وعدہ ہم سے اور اس سے پہلے ہمارے باپ دادا سے بھی کیا گیا۔ یہاں ” ھٰذَا “ کا لفظ ” نَحْنُ “ سے پہلے ہے، جب کہ سورة مومنون میں ” نَحْنُ “ کا لفظ پہلے ہے، فرمایا : (لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَاٰبَاۗؤُنَا ھٰذَا ) [ المؤمنون : ٨٣ ] اس کی حکمت مفسرین نے یہ بیان فرمائی ہے کہ ہر مقام کے لحاظ سے جو لفظ زیادہ اہم ہوتا ہے وہ پہلے لایا جاتا ہے۔ دونوں مقامات کا مقابلہ کرنے سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے۔- اِنْ هٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ : یعنی پہلے ہمارے بڑوں سے بھی یہی وعدے کیے گئے تھے، وہی باتیں یہ پیغمبر نقل کر رہے ہیں، در حقیقت یہ محض فرضی قصے کہانیاں ہیں جو پہلے لوگوں نے دنیا کا نظام چلانے اور سرکشوں کو قابو میں رکھنے کے لیے گھڑیں اور نسل در نسل بیان ہوتی چلی آرہی ہیں۔ ہم نے آج تک نہ دیکھا، نہ سنا کہ کوئی شخص مرنے کے بعد زندہ ہوا ہو، اسے نیکی پر جزا یا بدی پر سزا ملی ہو۔ ہمارے زمانے میں بھی جو لوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں ان کے پاس بھی اس سے بڑی کوئی دلیل نہیں ہے، حالانکہ اس کا تعلق دیکھنے یا سننے سے نہیں، بلکہ اس کا تمام تر انحصار ایسے سچے (پیغمبر) کی خبر پر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے۔
لَقَدْ وُعِدْنَا ہٰذَا نَحْنُ وَاٰبَاۗؤُنَا مِنْ قَبْلُ ٠ۙ اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ ٦٨- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - سطر - السَّطْرُ والسَّطَرُ : الصّفّ من الکتابة، ومن الشّجر المغروس، ومن القوم الوقوف، وسَطَّرَ فلان کذا : كتب سطرا سطرا، قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] ، وقال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] ، وقال : كانَ ذلِكَ فِي الْكِتابِ مَسْطُوراً [ الإسراء 58] ، أي : مثبتا محفوظا، وجمع السّطر أَسْطُرٌ ، وسُطُورٌ ، وأَسْطَارٌ ، قال الشاعر :- 233-- إنّي وأسطار سُطِرْنَ سطرا«6» وأما قوله : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام 24] ، فقد قال المبرّد : هي جمع أُسْطُورَةٍ ، نحو : أرجوحة وأراجیح، وأثفيّة وأثافي، وأحدوثة وأحادیث . وقوله تعالی: وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] ، أي : شيء کتبوه کذبا ومینا، فيما زعموا، نحو قوله تعالی: أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان 5]- ( س ط ر ) السطر - والسطر قطار کو کہتے ہیں خواہ کسی کتاب کی ہو یا درختوں اور آدمیوں کی ۔ اور سطر فلان کذا کے معنی ایک ایک سطر کر کے لکھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] ن قلم کی اور جو ( اہل قلم ) لکھتے ہیں اس کی قسم ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] اور کتابت جو لکھی ہوئی ہے ۔ یہ حکم کتاب ( یعنی قرآن میں لکھ دیا گیا ہے ۔ یعنی غفو ذا اور ثابت ہے ۔ اور سطر کی جمع اسطر وسط ور واسطار ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ( 227 ) انی واسطار سطرن سطرا یعنی قسم ہے قرآن کی سطروں کی کہ میں اور آیت کریمہ : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام 24] پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ۔ میں مبرد نے کہا ہے کہ یہ اسطرۃ کی جمع ہے جیسے ارجوحۃ کی جمع اراجیع اور اثقیۃ کی جمع اثانی اور احد وثہ کی احادیث آتی ہے ۔ اور آیت : ۔ وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] اور جب ان ( کافروں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہے ۔ تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں یعنی انہوں نے بزعم خود یہ کہا کہ یہ جھوٹ موٹ کی لکھی ہوئی کہانیاں ہیں جیسا کہ دوسری جگہ ان کے قول کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان 5] اور کہتے ہیں کہ یہ ( پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جن کو اس نے جمع کر رکھا ہے وہ صبح وشام ان کو پڑھو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ۔
(٦٨) جس کا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ہم سے وعدہ کر رہے ہیں اس چیز کا تو ہمارے آباؤ و اجداد سے آپ کے وعدہ سے پہلے وعدہ ہوتا چلا آیا ہے یہ تو محض بےسند باتیں ہیں جو اگلے لوگوں سے روایت ہوتی چلی آئی ہیں۔