Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1 یہ ان کافروں کے قول کا جواب ہے کہ پچھلی قوموں کو دیکھو کہ کیا ان پر اللہ کا عذاب نہیں آیا ؟ جو پیغمبروں کی صداقت کی دلیل ہے۔ اسی طرح قیامت اور اس زندگی کے بارے میں بھی ہمارے رسول جو کہتے ہیں، یقینا سچ ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٤] ان دو آیات میں کافروں کا قول یہ نقل کیا گیا ہے کہ مر کر مٹی ہوجانے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کا وعدہ تو ہمارے آباء و اجداد کو بھی دیا گیا تھا پہلے لوگ بھی ایسی باتیں کرتے رہے اور آج بھی ایسی ہی باتیں ہو رہی ہیں حالانکہ جو مرگیا ان میں کوئی شخص بھی آج تک زندہ ہو کر نہیں آیا۔ یہ تو بس ایک افسانوی سی بات ہے جس میں حیقیقت کچھ نہیں۔ اور کافروں کے اس قول کا جواب یہ دیا جارہا ہے کہ زمین میں ذرا چل پھر کر تو دیکھو کہ مجرموں کا انجام کیا ہوا تھا ؟ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کے اس قول اور اس کے جواب میں کوئی ربط نہیں۔ حالانکہ اس قول اور اس کے جواب میں گہرا ربط ہے اور ایک بہت بڑی حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جو قومیں بھی اللہ کے عذاب سے تباہ ہوئیں سب کی سب قیامت اور بعث بعد الموت کی منکر تھیں۔ اور جو شخص یا جو قوم بھی آخرت کے دن اور اللہ کے حضور اپنے اعمال کی باز پرس کی منکر ہوتی ہے۔ اس کی زندگی کبھی راہ راست پر نہیں رہ سکتی۔ اور وہ دنیا میں شتر بےمہار کی طرح زندگی گزارتا ہے کہ جس کام میں اس نے اپنا فائدہ دیکھا اسی کو اپنا لیا۔ خواہ اس سے دوسروں کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو رہا ہو۔ ایسے ہی لوگ فساد فی الارض کے مرتکب ہو کر مجرمانہ زندگی بسر کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں اور ایسے مجرموں کو تباہ کردینا ہی اللہ کی سنت جاریہ ہے تاکہ باقی لوگ ایسے لوگ کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔- دوسرا سبق ان واقعات سے یہ ملتا ہے کہ تاریخ انسانی میں یہ کوئی ایک ہی واقعہ نہیں۔ بلکہ بیشمار تاریخی شواہد سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ رسولوں کا انکار اور آخرت کا انکار کرنے والے مجرموں کا انجام ان کی تباہی اور ہلاکت کی صورت میں ہوا۔ جس سے از خود ایک اور حقیقت سامنے آتی ہے جو یہ ہے کہ کوئی ایسی مقتدر ہستی موجود ہے جو مجرموں کو ایک مقررہ حد سے آگے نکلنے سے روک دیتی ہے اور انھیں تباہ کردیتی ہے۔ یہ دنیا کوئی اندھیر نگری نہیں کہ جس شخص کا جو جی چاہے کرتا پھرے اور اس پر گرفت کرنے والا کوئی نہ ہو۔ - پھر جب یہ تجربہ حاصل ہوگیا کہ مجرمین کو ان کے کئے کی سزا مل کے رہتی ہے۔ تو اسی قانون مکافات کا تقاضا یہ ہے کہ جن مجرموں کو اس دنیا میں سزا نہیں ملی یا ان کے جرم سے بہت کم سزا ملی ہے ان سے باز پرس اور ان کی سزا کے لئے ایک دوسرا عالم قائم ہو۔ جس میں تمام مجرموں کو ان کے جرائم کی پوری پوری سزا دی جائے۔ مجرموں کو عذاب سے تباہ کردینا عدل سے سب تقاضے پورے نہیں کرتا۔ اس سے تو صرف یہ ہوتا ہے کہ مجرموں کو زائد جرائم کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ ان کے جرائم کی سزا کے لئے تو یہ دنیا کی زندگی بہت ناکافی ہے۔ اسی طرح جن مظلوموں نے ان مجرموں کے مظالم برداشت کئے تھے۔ ان کی ہلاکت سے ان کو کیا ملا ؟ آخر ان لوگوں نے راہ حق میں جو مظالم و مصائب برداشت کئے ہیں۔ اس کا اجر بھی تو انھیں ملنا چاہئے۔ ان باتوں پر غور کرنے سے واضح طور ہر معلوم ہوجتا ہے کہ عدل و اصناف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے آخرت کا قیام انتہائی ضروری ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ ۔۔ : یہ کفار کے اعتراض کا جواب ہے کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو مجرموں کا انجام کیا ہوا، تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ پیغمبروں نے ان نافرمانوں سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا ہو کر رہا اور پیغمبروں کی کوئی بات جھوٹی نہیں ہوئی۔ اب جو ان پیغمبروں نے کہا ہے کہ ایک دن قیامت ضرور آئے گی اور اس میں لوگوں کو ان کے نیک اعمال کی جزا اور برے اعمال کی سزا ملے گی تو ان کی یہ بات بھی جھوٹی نہیں ہوسکتی۔- فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِيْنَ : قیامت کے منکروں کو مجرم قرار دیا گیا ہے، کیونکہ انسان کو جرم اور ظلم و زیادتی سے روکنے والی چیز صرف اور صرف آخرت کا یقین ہے۔ یہ نہ ہو تو آدمی کو مجرم بننے سے کوئی چیز باز رکھ سکتی ہی نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا دستور ہے کہ جب قیامت کے منکروں کے جرائم حد سے بڑھ جاتے ہیں تو اس کا زبردست ہاتھ انھیں تباہ و برباد کر کے دنیا کو ان کے وجود اور ان کے جرائم سے نجات دیتا ہے، مگر ان کے جرائم کا پورا بدلا تو انھیں آخرت ہی میں دیا جائے گا۔ دنیا میں اگر کوئی بچ بھی گیا تو آخرت میں بچ کر کہاں جائے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِيْنَ۝ ٦٩- سير - السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير - ( س ی ر ) السیر - ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔- نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا .- والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - عاقب - والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] ،- ( ع ق ب ) العاقب - اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔- جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة :- ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، - قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ، - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٩۔ ٧٠) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کفار مکہ سے فرما دیجیے کہ تم زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ مجرموں کا انجام کیا ہوا اور اگر یہ ایمان نہیں لاتے یا یہ کہ یہ لوگ ہلاک ہوجائیں تو ان پر غم نہ کیجیے اور جو کچھ یہ شرارتیں اور بکواس کر رہے ہیں آپ اس سے تنگ نہ ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 86 اس مختصر سے فقرے میں آخرت کی دو زبردست دلیلیں بھی ہیں اور نصیحت بھی ۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ دنیا کی جن قوموں نے بھی آخرت کو نظر انداز کیا ہے وہ مجرم بنے بغیر نہیں رہ سکی ہیں ، وہ غیر ذمہ دار بن کر رہیں ، انہوں نے ظلم و ستم ڈھائے ، وہ فسق و فجور میں غرق ہوگئیں ، اور اخلاق کی تباہی نے آخر کار ان کو برباد کرکے چھوڑا ۔ یہ تاریخ انسانی کا مسلسل تجربہ ، جس پر زمین میں ہر طرف تباہ شدہ قوموں کے آثار شہادت دے رہے ہیں ، صاف ظاہر کرتا ہے کہ آخرت کے ماننے اور نہ ماننے کا نہایت گہرا تعلق انسانی رویے کی صحت اور عدم صحت سے ہے ، اس کو مانا جائے تو رویہ درست رہتا ہے ، نہ مانا جائے تو رویہ غلط ہوجاتا ہے ، یہ اس امر کی صریح دلیل ہے کہ اس کا ماننا حقیقت کے مطابق ہے ، اسی لیے اس کے ماننے سے انسانی زندگی ٹھیک ڈگر پر چلتی ہے ، اور اس کا نہ ماننا حقیقت کے خلاف ہے ، اسی وجہ سے یہ گاڑی پٹڑی سے اتر جاتی ہے ۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ تاریخ کے اس طویل تجربے میں مجرم بن جانے والی قوموں کا مسلسل تباہ ہونا اس حقیقت پر صاف دلالت کررہا ہے کہ یہ کائنات بے شعور طاقتوں کی اندھی بہری فرمانروائی نہیں ہے بلکہ یہ ایک حکیمانہ نظام ہے جس کے اندر ایک اٹل قانون مکافات کام کر رہا ہے ۔ جس کی حکومت انسانی قوموں کے ساتھ سراسر اخلاقی بنیادوں پر معاملہ کر رہی ہے ، جس میں کسی قوم کو بدکرداریوں کی کھلی چھوٹ نہیں دی جاتی کہ ایک دفعہ عروج پا جانے کے بعد وہ ابدالآباد تک داد عیش دیتی رہے اور ظلم و ستم کے ڈنکے بجائے چلی جائے ۔ بلکہ ایک خاص حد کو پہنچ کر ایک زبردست ہاتھ آگے بڑھتا ہے اور اس کو بام عروج سے گرا کر قعر مذلت میں پھینک دیتا ہے ، اس حقیقت کو جو شخص سمجھ لے وہ کبھی اس امر میں شک نہیں کرسکتا کہ یہی قانون مکافات اس دنیوی زندگی کے بعد ایک دوسرے عالم کا تقاضا کرتا ہے جہاں افراد کا اور قوموں کا اور بحیثیت مجموعہ پوری نوع انسانی کا انصاف چکایا جائے ۔ کیونکہ محض ایک ظالم قوم کے تباہ ہوجانے سے تو انصاف کے سارے تقاضے پورے نہیں ہوگئے ، اس سے ان مظلوموں کی تو کوئی دادرسی نہیں ہوئی جن کی لاشوں پر انہوں نے اپنی عظمت کا قصر بنایا تھا ، اس سے ان ظالموں کو تو کوئی سزا نہیں ملی جو تباہی کے آنے سے پہلے مزے اڑا کر جاچکے تھے ، اس سے ان بدکاروں پر بھی کوئی مواخذہ نہیں ہوا جو پشت درپشت اپنے بعد آنے والی نسلوں کے لیے گمراہیوں اور بد اخلاقیوں کی میراث چھوڑتے چلے گئے تھے ، دنیا میں عذاب بھیج کر تو صرف ان کی آخری نسل کے مزید ظلم کا سلسلہ توڑ دیا گیا ۔ ابھی عدالت کا اصل کام تو ہوا ہی نہیں کہ ہر ظالم کو اس کے کیے کا بدلہ دیا جائے اور ہر مظلوم کے نقصان کی تلافی کی جائے ، اور ان سب لوگوں کو انعام دیا جائے جو بدی کے اس طوفان میں راستی پر قائم اور اصلاح کے لیے کوشاں رہے اور عمر بھر اس راہ میں اذیتیں سہتے رہے ۔ یہ سب لازما کسی وقت ہونا چاہءے ، کیونکہ دنیا میں قانون مکافات کی مسلسل کار فرمائی کائنات کی فرمانروا حکومت کا یہ مزاج اور طریقہ کار صاف بتا رہی ہے کہ وہ انسانی اعمال کو ان کی اخلاقی قدر کے لحاظ سے تولتی اور ان کی جزا و سزا دیتی ہے ۔ ان دو دلیلوں کے ساتھ اس آیت میں نصیحت کا پہلو یہ ہے کہ پچھلے مجرموں کا انجام دیکھ کر اس سے سبق لو اور انکار آخرت کے اسی احمقانہ عقیدے پر اصرار نہ کیے چلے جاؤ جس نے انہیں مجرم بنا کر چھوڑا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani