Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٥] یعنی جو کافر آپ پر ایمان لانے کے بجائے آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے ہیں اور اسلام کے خلاف سازشوں کا جال بچھانے میں مصروف ہیں ان کی ایسی سرگرمیوں سے آپ پریشان اور غمزدہ نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کی کسی چال کو کامیاب نہ ہونے دے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ : اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے، تو آپ ان پر غمگین نہ ہوں۔ آپ کا کام سمجھانا اور بدی کے انجام سے آگاہ کرنا ہے، کسی کو مومن بنادینا نہ آپ کا کام ہے، نہ آپ کی ذمہ داری۔- وَلَا تَكُنْ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ : یعنی یہ لوگ آپ کے خلاف جو سازشیں کرتے اور چالیں چلتے ہیں، ان سے آپ تنگ دل نہ ہوں، اللہ تعالیٰ آپ کا محافظ و نگہبان ہے : (وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ) [ المائدۃ : ٦٧ ] وہی آپ کو ان لوگوں سے بچائے گا اور وہ اپنے مکر و فریب میں خود ہی گرفتار ہوں گے، آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْہِمْ وَلَا تَكُنْ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ۝ ٧٠- حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو - ضيق - الضِّيقُ : ضدّ السّعة، ويقال : الضَّيْقُ أيضا، والضَّيْقَةُ يستعمل في الفقر والبخل والغمّ ونحو ذلك . قال تعالی: وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] ، أي : عجز عنهم، وقال : وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود 12] - ( ض ی ق ) الضیق والضیق - کتے معنی تنگی کے ہیں اور یہ سعتہ کی ضد ہے اور ضیقتہ کا لفظ فقر بخل غم اور اس قسم کے دوسرے معانی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] کے معنی یہ ہیں کہ وہ انکے مقابلہ سے عاجز ہوگئے ۔ اور آیت ؛۔ وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود 12] اور اس ( خیال سے سے تمہارا دل تنگ ہو ۔- مكر - المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] - ( م ک ر ) المکر ک - ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں - یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔- اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے :

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٠ (وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَلَا تَکُنْ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَ ) ” (- مکہ کے ماحول میں چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شدید مخالفت اور دباؤ کا سامنا تھا ‘ اس لیے مکی سورتوں میں یہ مضمون بار بار دہرایا گیا ہے۔ سورة النحل کی آیت ١٢٧ میں یہ مضمون بالکل انہی الفاظ میں آیا ہے ‘ جبکہ سورة الشعراء میں اس حوالے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے یوں فرمایا گیا ہے : (لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ) ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) شاید آپ ہلاک کردیں گے اپنے آپ کو اس لیے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے “۔ بہر حال مشرکین مکہ کے مخالفانہ رویے ّ کے باعث حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بار بار تسلی دی جاتی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان تک ہمارا پیغام پہنچا کر ان پر حجت قائم کردی ہے اور یوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی پروا نہ کریں اور نہ ہی ان کے بارے میں رنجیدہ ہوں۔ یہ لوگ عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں۔ ہماری تدابیر ان کی چالوں کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ ہماری قدرت کے سامنے ان کی سازشیں کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 87 یعنی تم نے سمجھانے کا حق ادا کردیا ۔ اب اگر یہ نہیں مانتے اور اپنی حماقت پر اصرار کر کے عذاب الہی کے مستحق بننا ہی چاہتے ہیں تو تم خواہ مخواہ ان کے حال پر کڑھ کڑھ کر اپنی جان کیوں ہلکان کرو ۔ پھر یہ حقیقت و صداقت سے لڑنے اور تمہاری اصلاحی کوششوں کو نیچا دکھانے کے لیے جو گھٹیا درجے کی چالیں چل رہے ہیں ان پر کبیدہ خاطر ہونے کی تمہیں کیا ضرورت ہے ۔ تمہاری پشت پر خدا کی طاقت ہے ، یہ تمہاری بات نہ مانیں گے تو اپنا ہی کچھ بگاڑیں گے ، تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani