قیامت کے منکر مشرک چونکہ قیامت کے آنے کے قائل ہی نہیں ۔ جرات سے اسے جلدی طلب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر سچے ہو تو بتاؤ وہ کب آئے گی ۔ جناب باری کی طرف سے بواسطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جواب مل رہاہے کہ ممکن ہے وہ بالکل ہی قریب آگئی ہو ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( عَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ قَرِيْبًا 51 ) 17- الإسراء:51 ) اور جگہ ہے یہ عذابوں کو جلدی طلب کررہے ہیں اور جہنم تو کافروں کو گھیرے ہوئے ہیں ۔ لکم کا لام ردف کے عجل کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے ہے ۔ جیسے کہ حضرت مجاہد سے مروی ہے پھر فرمایا کہ اللہ کے تو انسانوں پر بہت ہی فضل وکرم ہیں ۔ ان کی بیشمار نعمتیں ان کے پاس ہیں تاہم ان میں کے اکثر ناشکرے ہیں ۔ جس طرح تمام ظاہر امور اس پر آشکارا ہیں اسی طرح تمام باطنی امور بھی اس پر ظاہر ہیں ۔ جیسے فرمایا ( سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهٖ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۢ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ 10 ) 13- الرعد:10 ) ، اور آیت میں ہے ( يَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰي Ċ ) 20-طه:7 ) اور آیت میں ہے ( اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَھُمْ ۙ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ ۚ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ Ĉ ) 11-ھود:5 ) مطلب یہی ہے کہ ہر ظاہر وباطن کا وہ عالم ہے ۔ پھر بیان فرماتا ہے کہ ہر غائب حاضر کا اسے علم ہے وہ علام الغیوب ہے ۔ آسمان وزمین کی تمام چیزیں خواہ تم کو ان کا علم ہو یا نہ ہو اللہ کے ہاں کھلی کتاب میں لکھی ہوئی ہیں ۔ جیسے فرمان ہے کہ کیا تو نہیں جانتا کہ آسمان وزمین کی ہر ایک چیز کا اللہ عالم ہے ۔ سب کچھ کتاب میں موجود ہے اللہ پر سب کچھ آسان ہے ۔
وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ ۔۔ : کافروں کا یہ کہنا اس لیے نہیں تھا کہ وہ جاننا چاہتے تھے کہ قیامت اور اس میں ہونے والا عذاب کب واقع ہوگا، بلکہ وہ یہ بات قیامت کا مذاق اڑانے کے لیے کہتے تھے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ ہم اسے جلد از جلد لانے کا مطالبہ کریں گے، جب وہ ہمارے تقاضے کے مطابق واقع نہیں ہوگی تو ہمیں اس کا مذاق اڑانے کا اور اسے جھوٹ قرار دینے کا موقع مل جائے گا۔- لفظ ” الوعد “ کے ساتھ بھی وہ قیامت کا تمسخر اڑا رہے تھے، کیونکہ وعدہ اچھی چیز کا ہوتا ہے، بری چیز کی وعید ہوتی ہے۔ وہ مذاق اڑاتے ہوئے قیامت کو ” ھذا الوعد “ کہہ رہے ہیں، پھر ” اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ “ کہہ کر جلد از جلد عذاب لانے پر ابھار رہے ہیں، انھیں یہ معلوم نہیں کہ پیغمبروں کے سچے ہونے میں کوئی شک نہیں، مگر عذاب لانا یا نہ لانا اور جلدی لانا یا دیر سے لانا پیغمبر کا کام نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ پیغمبر کا کام صرف خبردار کرنا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ قُلْ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰهِ ۠ وَاِنَّمَآ اَنَا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ ) [ الملک : ٢٥، ٢٦ ] ” اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب (پورا) ہوگا، اگر تم سچے ہو ؟ کہہ دے یہ علم تو اللہ ہی کے پاس ہے اور میں تو بس ایک کھلا ڈرانے والا ہوں۔ “
وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى ہٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ٧١- متی - مَتَى: سؤال عن الوقت . قال تعالی: مَتى هذَا الْوَعْدُ [يونس 48] ، - ( م ت ی ) متی - ۔ یہ اسم استفہام ہے اور کسی کام کا وقت دریافت کرنے کے لئے بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ مَتى هذَا الْوَعْدُ [يونس 48] یہ وعدہ کب ( پورا ہوگا )- صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔
(٧١) اور یہ لوگ کہتے ہیں اگر تم سچے ہو تو بتاؤ کہ جس نزول عذاب کا آپ ہم سے وعدہ کرتے ہیں وہ وعدہ کب ہوگا۔
آیت ٧١ (وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ہٰذَا الْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) ” - یعنی آپ ہمیں مسلسل دھمکیاں دیے جا رہے ہیں کہ اگر ہم آپ کی اطاعت نہیں کریں گے تو ہم پر عذاب آجائے گا۔ چناچہ اگر آپ اپنے اس دعوے میں سچے ہیں تو ذرا یہ بھی بتادیں کہ وہ عذاب کب آئے گا ؟
سورة النمل حاشیہ نمبر :88 اس سے مراد وہی دھمکی ہے جو اوپر کی آیت میں پوشیدہ ہے ، ان کا مطلب یہ تھا کہ اس فقرے میں ہمارے خبر لینے جو درپردہ دھمکی دی جارہی ہے یہ آخر کب عمل میں لائی جائے گی ؟ ہم تو تمہاری بات رد بھی کرچکے ہیں اور تمہیں نیچا دکھانے کے لیے اپنی تدبیروں میں بھی ہم نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے ، اب کیوں ہماری خبر نہیں لی جاتی؟