8 5 1یعنی ان کے پاس کوئی عذر نہیں ہوگا کہ جسے وہ پیش کرسکیں۔ یا قیامت کی ہولناکیوں کی وجہ سے بولنے کی قدرت سے ہی محروم ہونگے اور بعض کے نزدیک یہ اس وقت کی کیفیت کا بیان ہے جب ان کے من ہوں پر مہر لگا دی جائے گی۔
[٩٠] یعنی ان پر الٹ پڑے گی، ان کا قصور ثابت ہوجائے گا کہ وہ واقعی اللہ کی آیات کے ساتھ بےانصافی کا معاملہ کرتے رہے۔ لہذا انھیں اس سوال کا کوئی جواب میسر نہ آئے گا۔
وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ بِمَا ظَلَمُوْا ۔۔ : یعنی ان پر اللہ کی حجت قائم ہوگئی، اس لیے وہ بول ہی نہیں سکیں گے کہ کوئی عذر پیش کرسکیں۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ اس وقت ہوگا جب ان کے مونہوں پر مہر لگا دی جائے گی۔
وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْہِمْ بِمَا ظَلَمُوْا فَہُمْ لَا يَنْطِقُوْنَ ٨٥- وقع - الوُقُوعُ : ثبوتُ الشیءِ وسقوطُهُ. يقال : وَقَعَ الطائرُ وُقُوعاً ، والوَاقِعَةُ لا تقال إلّا في الشّدّة والمکروه، وأكثر ما جاء في القرآن من لفظ «وَقَعَ» جاء في العذاب والشّدائد نحو : إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة 1- 2] ،- ( و ق ع ) الوقوع - کے معنی کیس چیز کے ثابت ہونے اور نیچے گر نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ وقع الطیر وقوعا پر ندا نیچے گر پڑا ۔ الواقعۃ اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں سختی ہو اور قرآن پاک میں اس مادہ سے جس قدر مشتقات استعمال ہوئے ہیں وہ زیادہ تر عذاب اور شدائد کے واقع ہونے کے متعلق استعمال ہوئے ہیں چناچہ فرمایا ۔- إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة 1- 2] جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے اس کے واقع ہونے میں کچھ جھوٹ نہیں ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - نطق - [ النُّطْقُ في التّعارُف : الأصواتُ المُقَطّعة التي يُظْهِرُها اللسّانُ وتَعِيهَا الآذَانُ ] . قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَنْطِقُونَ [ الصافات 92] ولا يكاد يقال إلّا للإنسان، ولا يقال لغیره إلّا علی سبیل التَّبَع .- نحو : النَّاطِقُ والصَّامِتُ ، فيراد بالناطق ما له صوت، وبالصامت ما ليس له صوت، [ ولا يقال للحیوانات ناطق إلّا مقيَّداً ، وعلی طریق التشبيه کقول الشاعر :- 445-- عَجِبْتُ لَهَا أَنَّى يَكُونُ غِنَاؤُهَا ... فَصِيحاً وَلَمْ تَفْغَرْ لِمَنْطِقِهَا فَماً ]- «1» والمنطقيُّون يُسَمُّون القوَّةَ التي منها النّطقُ نُطْقاً ، وإِيَّاهَا عَنَوْا حيث حَدُّوا الإنسانَ ، فقالوا :- هُوَ الحيُّ الناطقُ المَائِتُ «2» ، فالنّطقُ لفظٌ مشترکٌ عندهم بين القوَّة الإنسانيَّة التي يكون بها الکلامُ ، وبین الکلامِ المُبْرَزِ بالصَّوْت، وقد يقال النَّاطِقُ لما يدلُّ علی شيء، وعلی هذا قيل لحكيم : ما الناطقُ الصامتُ ؟ فقال : الدَّلائلُ المُخْبِرَةُ والعِبَرُ الواعظةُ. وقوله تعالی: لَقَدْ عَلِمْتَ ما هؤُلاءِ يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء 65] إشارة إلى أنّهم ليسوا من جِنْس النَّاطِقِينَ ذوي العقول، وقوله : قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت 21] فقد قيل : أراد الاعتبارَ ، فمعلومٌ أنَّ الأشياءَ كلّها ليستْ تَنْطِقُ إلّا من حيثُ العِبْرَةُ ، وقوله : عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] فإنه سَمَّى أصواتَ الطَّيْر نُطْقاً اعتباراً بسلیمان الذي کان يَفْهَمُهُ ، فمن فَهِمَ من شيء معنًى فذلک الشیء بالإضافة إليه نَاطِقٌ وإن کان صامتاً ، وبالإضافة إلى من لا يَفْهَمُ عنه صامتٌ وإن کان ناطقاً. وقوله : هذا كِتابُنا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِ [ الجاثية 29] فإن الکتابَ ناطقٌ لکن نُطْقُهُ تُدْرِكُهُ العَيْنُ كما أنّ الکلام کتابٌ لکن يُدْرِكُهُ السَّمْعُ. وقوله : وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ- [ فصلت 21] فقد قيل : إن ذلك يكونُ بالصَّوْت المسموعِ ، وقیل : يكونُ بالاعتبار، واللهُ أعلمُ بما يكون في النَّشْأَةِ الآخرةِ. وقیل :- حقیقةُ النُّطْقِ اللَّفْظُ الّذي هو كَالنِّطَاقِ للمعنی في ضَمِّهِ وحصْرِهِ. وَالمِنْطَقُ والمِنْطَقَةُ : ما يُشَدُّ به الوَسَطُ وقول الشاعر :- 446-- وَأَبْرَحُ مَا أَدَامَ اللَّهُ قَوْمِي ... بِحَمْدِ اللَّهِ مُنْتَطِقاً مُجِيداً- «1» فقد قيل : مُنْتَطِقاً : جَانِباً. أي : قَائِداً فَرَساً لم يَرْكَبْهُ ، فإن لم يكن في هذا المعنی غيرُ هذا البیت فإنه يحتمل أن يكون أراد بِالمُنْتَطِقِ الذي شَدَّ النِّطَاقَ ، کقوله : مَنْ يَطُلْ ذَيْلُ أَبِيهِ يَنْتَطِقْ بِهِ «2» ، وقیل : معنی المُنْتَطِقِ المُجِيدِ : هو الذي يقول قولا فَيُجِيدُ فيه .- ( ن ط ق )- عرف میں نطق ان اصات مقطعہ کو کیا جاتا ہے جو زبان سے نکلتی ہیں اور کان انہیں سنکر محفوظ کرلیتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ ما لَكُمْ لا تَنْطِقُونَ [ الصافات 92] تمہیں کیا ہوا کہ تم بولتے نہیں ۔ یہ لفط بالذات صرف انسان کے متعلق بولا جاتا ہے دوسرے حیوانات کے لئے بالتبع استعمال ہوات ہے جیسے المال الناطق والصامت کا محاورہ ہے جس میں ناطق سے حیوان اور صامت سے سونا چاندی مراد ہے ان کے علاوہ دیگر حیوانات پر ناطق کا لفظ مقید یا بطور تشبیہ استعمال ہوتا ہے جسیا کہ شاعر نے کہا ہے ( 430 ) عجبت لھا انی یکون غناؤ ھا فصیحا ولم تفعلو لنطقھا فما مجھے تعجب ہو ا کہ وہ کتنا فصیح گانا گاتی ہے حالانکہ اس نے گویائی کے لئے منہ نہیں کھولا ۔ اہل منطق قوت گو یائی کو نطق کہتے ہیں جب وہ انسان کی تعریف کرتے ہوئے الحی الناطق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں ناطق سے ان کی یہی مراد ہونی ہے ۔ معلوم ہوا کہ نطق کا لفظ مشترک ہے جو قوت نطیقہ اور کلام ملفوظ دونوں پر بولا جاتا ہے کبھی ناطق کے معنی الدال علی الشئی کے بھی آتے ہیں اسی بنا پر ایک حکیم جب پوچھا گیا کہ الناطق الصامت کسے کہتے ہیں تو اس نے جواب دیا لادلائل المخبرۃ والعبر ولوا عظۃ اور آیت کریمہ : ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما هؤُلاءِ يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء 65] کہ تم جانتے ہو یہ بولتے نہیں ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ کہ وہ ذوی النطق اور ذوی العقول کی جنس سے نہیں ہیں اور آیت کریمہ : ۔ قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت 21] جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اس نے ہم کو بھی گویائی دی ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نطق اعتبار ی مراد ہے کیونکہ یہ بات بالکل بد یہی ہے کہ تمام چیزیں حقیقتا ناطق نہیں ہیں اور آیت کریمہ : ۔ عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ہمیں خدا کی طرف سے جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے میں پرندوں کی آواز کو محض حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لحاظ سے نطق کہا ہے ۔ کیونکہ وہ ان کی آوازوں کو سمجھتے تھے اور جو شخص کسی چیز سے کوئی معنی سمجھا ہو تو وہ چیزخواہ صامت ہی کیوں نہ ہو ۔ اس کے لحاظ سے تو ناطق کا حکم رکھتی ہے اور آیت کریمہ : هذا كِتابُنا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِ [ الجاثية 29] یہ ہماری کتاب تمہارے بارے میں سچ سچ بیان کردے گی ۔ میں کتاب کو ناطق کہا ہے لیکن اس کے نطق کا ادراک صرف آنکھ ہی کرسکتی ہے ۔ جیسا کہ کلام بھی ا یک کتاب ہے لیکن اس کا ادراک حاسہ سماعت سے ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت 21] اور وہ اپنے چمڑوں یعنی اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی وہ کہیں گے جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اسی نے ہم کو بھی گویائی دی ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نطق صوقی مراد ہے ۔ اور بعض نے نطق اعتباری مراد لیا ہے ۔ اور عالم آخرت کی اصل حقیقت تو خدا ہی جانتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ نطق درحقیقت لفظ کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ وہ معنی کو لپیٹنے اور محصور کرنے میں بمنزلہ نطاق کے ہوتا ہے ۔ المنطق والمنطقۃ کمر بند کو کہتے ہیں اور شاعر کے قول ۔ (431) وابرح ما ادام اللہ قومی بحمداللہ منتطقا مجیدا جب تک میری قوم زندہ ہے ۔ میں بحمداللہ عمدگی شاعر رہوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے منتطقا کے معنی جانبا کے ہیں یعنی میں گھوڑے کو آگے سے پکڑ کر کھینچتا رہوں گا اور اس پر سوار نہیں ہوں گا ہاں یہ اگر اس معنی میں کوئی دوسرا شعر نہ آیا تو یہاں منطق سے مراد وہ شخص بھی ہوسکتا ہے جس نے کمرپر نطاق باندھا ہوا ہو ۔ جیسا کہ مقولہ مشہو رہے ۔ ومن یطل ذیل ابیہ ینتطق بہ یعنی جس کے باپ کے فرزند زیادہ ہوں گے ۔ تو وہ ان کی وجہ سے طاقت ور اور توانا ہوجائے گا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ منتطق کے معنی عمدگو کے ہیں ۔
(٨٥) اور ان پر عذاب کا وعدہ پورا ہوجائے گا اس بنا پر کہ انہوں نے کفر وشرک کر کے بڑی بڑی زیادتیاں کی تھیں اور وہ جواب بھی نہ دے سکیں گے۔
آیت ٨٥ (وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْہِمْ بِمَا ظَلَمُوْا فَہُمْ لَا یَنْطِقُوْنَ ) ” - جب حقیقت ان پر واضح کردی جائے گی تو وہ بول نہیں سکیں گے ‘ اس لیے کہ ان کے دل تو دعوت حق کی حقانیت پر گواہی دے چکے تھے ‘ لیکن اپنی ضد ‘ ہٹ دھرمی اور تعصب کی بنا پر انہوں نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا تھا۔ قبل ازیں اسی سورت کی آیت ١٤ میں ایسے منکرین کے انکار کی کیفیت پریوں تبصرہ کیا گیا ہے : (وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ط) کہ ان کے دلوں نے آیات الہیہ کا یقین کرلیا تھا مگر وہ محض ضد ‘ ظلم اور سرکشی کی بنا پر نہیں مانے تھے۔