8 4 1یعنی تم نے میری توحید اور دعوت کے دلائل سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کہ اور اس کے بغیر ہی میری آیتوں کو جھٹلاتے رہے۔ 8 4 2جس کی وجہ سے تمہیں میری باتوں پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔
[٨٨] اس آیت میں میدان محشر کا ایک منظر پیش کیا گیا ہے۔ مجرموں کی ان کے جرائم کے لحاظ سے الگ الگ جماعتیں بنادی جائیں گی۔ جیسے مثلاً مشرکوں کی الگ جماعت ہوگی۔ کافروں کی الگ، منافقوں کی الگ، اور بعض مفسرین نے اس سے یہ مراد لی ہے کہ مکذبین کو محشر کی طرف لے چلیں گے اور وہ اتنی کثرت سے ہوں گے کہ پیچھے چلنے والوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا جائے گا۔ جیسا کہ انبوہ کثیر میں انتظام قائم رکھنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ وزع کا بنیادی معنی صرف روک دینا یا روکے رکھنا ہے۔ لہذا اس کے معنی میں دونوں طرح مطالب کی گنجائش موجود ہے۔- [٨٩] یعنی میری آیات کے انکار کے سلسلہ میں تمہارے پاس کوئی معقول وجہ یا دلیل موجود نہیں تھی۔ الا یہ کہ وہ باتیں تمہارے علم کی گرفت یا سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ پھر بجائے اس کے کہ تم غور و فکر کرکے ان کو سمجھنے کی کوشش کرتے تم نے سرے سے انکار ہی کردیا تھا۔ تمہارا معمول ہی یہ بن گیا تھا کہ بلا سوچے سمجھے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا جائے۔ اگر یہ بات نہیں تو بتلاؤ اور تم کیا کام کرتے رہے ہو ؟ کیا تم یہ ثابت کرسکتے ہو کہ تم نے تحقیق کے بعد ان آیات کو جھوٹا ہی پایا تھا۔ اور تم میں یہ قطعی علم حاصل ہوگیا تھا کہ جو کچھ ان آیات میں مذکور ہے وہ درست نہیں ہے۔
حَتّىٰٓ اِذَا جَاۗءُوْ ۔۔ : یعنی ان کے حاضر ہونے پر ان سے عقائد و اعمال دونوں کے متعلق سوال ہوگا اور یہ سوال انھیں شرمندہ اور لاجواب کرنے کے لیے ہوگا کہ کیا دنیا میں تمہارا یہی مشغلہ رہا کہ تم ہماری آیات کو پوری طرح جاننے اور سمجھنے کے بغیر ہی جھٹلاتے رہے۔ تمہارے جھٹلانے کی یہ وجہ نہیں تھی کہ تم نے پوری طرح جاننے اور سمجھنے کے بعد انھیں غلط سمجھ کر جھٹلایا ہو، یا پھر بتاؤ تم کیا کرتے رہے تھے، جیسا کہ سورة ملک میں کفار کا قول نقل کیا ہے، فرمایا : (وَقَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْٓ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْۢبِهِمْ ۚ فَسُحْقًا لِّاَصْحٰبِ السَّعِيْرِ ) [ الملک : ١٠، ١١ ] ” اور وہ کہیں گے اگر ہم سنتے ہوتے، یا سمجھتے ہوتے تو بھڑکتی ہوئی آگ والوں میں نہ ہوتے۔ پس وہ اپنے گناہ کا اقرار کریں گے، سو دوری ہے بھڑکتی ہوئی آگ والوں کے لیے۔ “ ہمارے زمانے کے بدعتی، فرقہ پرست، منکرین حدیث اور کفار سے مرعوب جدّت کے دعوے دار لوگوں کا بھی یہی حال ہے کہ جہاں کوئی آیت یا حدیث سمجھ میں نہ آئی اس پر پوری طرح غور کرنے یا کسی سے سمجھنے کے بغیر ہی اسے ردّ کردیا، یا کوئی آیت یا حدیث اپنے فرقے کے مسلک کے خلاف نظر آئی تو اسے ردّ کردیا، یا اس کی ایسی تاویل کی جو ردّ کردینے سے بھی بدتر ہے۔
حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءُوْ قَالَ اَكَذَّبْتُمْ بِاٰيٰتِيْ وَلَمْ تُحِيْطُوْا بِہَا عِلْمًا اَمَّا ذَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ٨٤- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- حيط - الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين :- أحدهما : في الأجسام - نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] ، - والثاني : في العلم - نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] - ( ح و ط ) الحائط ۔- دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور - احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔- (2) دوم احاطہ بالعلم - ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے
(٨٤) یہاں تک کہ جب سب آکر جمع ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کیا تم نے میری کتاب اور میرے رسول کو جھٹلایا تھا اور یہ تک تم نے غور نہیں کیا کہ یہ میری طرف سے ہیں اور بلا سوچے سمجھے تکذیب کردی اور اس کے علاوہ کفر وشرک کے اور بھی کام کیا کرتے تھے۔
آیت ٤٤ (حتّٰیٓ اِذَا جَآءُ وْ قَالَ اَکَذَّبْتُمْ بِاٰیٰتِیْ وَلَمْ تُحِیْطُوْا بِہَا عِلْمًا اَمَّا ذَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) ” - یعنی کیا تم لوگ واقعتا میری آیات کو سمجھ نہیں سکے تھے یا پھر سمجھنے کے بعد تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کا انکار کرتے رہے تھے ؟
سورة النمل حاشیہ نمبر : 102 یعنی تمہارے جھٹلانے کی وجہ ہرگز نہیں تھی کہ کسی علمی ذریعہ سے تحقیق کر کے تمہیں معلوم ہوگیا تھا کہ یہ آیات جھوٹی ہیں ۔ تم نے تحقیق اور غور و فکر کے بغیر بس یوں ہی ہماری آیات کو جھٹلا دیا ؟ سورة النمل حاشیہ نمبر : 103 یعنی اگر ایسا نہیں ہے تو کیا تم یہ ثابت کرسکتے ہو کہ تم نے تحقیق کے بعد ان آیات کو جھوٹا ہی پایا تھا اور تمہیں واقعی یہ علم حاصل ہوگیا تھا کہ حقیقت نفس الامری وہ نہیں ہے جو ان آیات میں بیان کی گئٰ ہے ۔