Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

باز پرس کے لمحات اللہ کی باتوں کو نہ ماننے والوں کا اللہ کے سامنے حشر ہوگا اور وہاں انہیں ڈانٹ ڈپٹ ہوگی تاکہ ان کی ذلت وحقارت ہو ۔ ہر قوم میں سے ہر زمانے کے ایسے لوگوں کے گروہ الگ الگ پیش ہونگے جیسے فرمان ہے آیت ( اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ 22؀ۙ ) 37- الصافات:22 ) ظالموں کو اور ان کے جوڑوں کو جمع کرو ۔ اور جیسے فرمان ہے آیت ( وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ Ċ۝۽ ) 81- التكوير:7 ) جب کہ نفسوں کی جوڑیاں ملائی جائیں گی ۔ یہ سب ایک دوسرے کو دھکے دیں گے اور اول والے آخر والوں کو رد کریں گے ۔ پھر سب کے سب جانوروں کی طرح ہنکا کر اللہ کے سامنے لائیں جائیں گے ۔ ان کے حاضر ہوتے ہی وہ منتقم حقیقی نہایت غصہ سے ان سے باز پرس کرے گا ۔ یہ نیکیوں سے خالی ہاتھ ہونگے جیسے فرمایا آیت ( فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰى 31 ؀ۙ ) 75- القيامة:31 ) یعنی نہ انہوں نے سچائی کی تھی نہ نمازیں پڑھی تھیں بلکہ جھٹلایا تھا اور منہ موڑا تھا ۔ پس ان پر حجت ثابت ہوجائے گی اور کوئی عذر نہ کرسکیں گے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( هٰذَا يَوْمُ لَا يَنْطِقُوْنَ 35؀ۙ ) 77- المرسلات:35 ) یہ وہ دن ہے کہ بول نہ سکیں گے اور نہ کوئی معقول عذر پیش کرسکیں گے اور نہ غیر معقول معذرت کی اجازت پائیں گے ۔ پس ان کے ذمہ بات ثابت ہوجائے گی ۔ ششدرو حیران رہ جائیں گے اپنے ظلم کا بدلہ خوب پائیں گے ۔ دنیا میں ظالم تھے اب جس کے سامنے کھٹے ہونگے وہ عالم الغیب ہے کوئی بات بنائے نہ بنے گی ۔ پھر اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرماتا ہے اور اپنی بلندی شان بتاتا ہے اور اپنی عظیم الشان سلطنت دکھاتا ہے جو کھلی دلیل ہے ، ۔ اس کی اطاعت کی فرضیت پر اور اس کے حکموں کے بجالانے اور اسکے منع کردہ کاموں سے رکے رہنے کی ضروت پر ۔ اور اس کے نبیوں کو سچا ماننے کی اصلیت پر ۔ کہ اس نے رات کو پرسکون بنایا تاکہ تم اس میں آرام حاصل کرلو اور دن بھر کی تھکان دور کرلو اور دن کو روشن بنایا تاکہ تم اپنی معاش کی تلاش کرلو سفر تجارت کاروبار باآسانی کرسکو ۔ یہ تمام چیزیں ایک مومن کے لیے تو کافی سے زیادہ دلیل ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

831یا قسم قسم کردیئے جائیں گے۔ یعنی زانیوں کا ٹولہ، شرابیوں کا ٹولہ وغیرہ۔ یا یہ معنی ہیں کہ ان کو روکا جائے گا۔ یعنی ان کو ادھر ادھر اور آگے پیچھے ہونے سے روکا جائے گا اور سب کو ترتیب وار لا کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٧] اس آیت میں دآبہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کا مادہ د ب ب ہے اور دب بمعنی عام رفتار ( مشی) ہلکی یا سست رفتار سے چلنا ہے۔ اور دابہ ہر اس جاندار کو کہتے ہیں جو ہلکی چال چلتا ہو۔ خواہ وہ پیٹ کے بل چلے جیسے سانپ اور چھپکلی وغیرہ یا خواہ دو پاؤں پر چلے جیسے انسان اور بندروں کی بعض اقسام یا چار پاؤں پر چلے جیسے وحشی جانور اور چوپائے وغیرہ۔ نیز مذکر و مونث کے لئے اس کا یکساں استعمال ہوتا ہے۔ اور قرآن میں یہ لفظ دیمک کے لئے بھی آیا ہے۔ جس نے حضرت سلیمان کی وفات کے بعد ان کی لاٹھی کو چاٹ کھایا تھا اور وہ ٹوٹ گئی تھی۔ (٣٨: ١٤)- اس آیت میں جس دابہ کا ذکر ہے۔ معلوم تو یہی ہوتا ہے کہ وہ انسان کی شکل کا یا اس سے ملتا جلتا ہوگا۔ تکلہم کا لفظ اس قیاس کی تائید کرتا ہے۔ تاہم یہ ضروری بھی نہیں۔ جس طرح اس دآبہ کا خروج خرق عادت ہوگا اسی طرح اس کا لوگوں سے کلام کرنا بھی خرق عادت ہوسکتا ہے۔ بہرحال یہ یقینی بات ہے کہ اس کا خروج علامات قرب قیامت میں سے ایک علامت ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے :- ١۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تین باتیں جب ظاہر ہوجائیں تو اس وقت کسی کو ایمان لانے کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ الا یہ کہ وہ پہلے ایمان لاچکا ہو اور نیک اعمال کرتا رہا ہو۔ ایک سورج کا مغرب کا طلوع ہونا، دوسرے دجال کا نکالنا اور تیسرے دایہ ن الارض کا خروج ( مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب بیان الزعن الذی لایقبل فی الایمان)- ٢۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دابہ ن الارض نکلے گا تو اس کے پاس سلیمان کی مہر اور موسیٰ کا عصا ہوگا۔ پھر وہ ( عصائے موسیٰ سے) مومن کے منہ پر لکیر کھینچ دے گا جس سے وہ چمک اٹھے گا اور کافر کی ناک پر) سلیمان کی انگوٹھی سے ( مہر لگا دے گا۔ یہاں تک کہ سب لوگ ایک خوان پر جمع ہوں گے تو وہ یہ کہے گا کہ یہ مومن ہے اور یہ کافر ہے۔ ) یعنی مومن اور کافر ممتاز ہوجائیں گے ( ترمذی۔ ابو اب التفسیر)- ٣۔ حضرت حذیفہ بن اسید غفاری فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم پر برآمد ہوئے جبکہ ہم گفتگو میں مشعول تھے۔ آپ نے پوچھا : کیا باتیں کر رہے تھے ؟ ہم نے عرض کیا : قیامت کا ذکر کرتے تھے : آپ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی۔ جب تک تم اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو۔ پھر آپ نے یہ نشانیاں بتلائیں۔ دھواں، دجال، دایہ ن الارض۔ سورج کا مغرب سے نکلنا، نزول عیسیٰ ابن مریم، یاجوج ماجوج کا خروج۔ تین مقامات پر زمین کا خیف مشرق میں، مغرب میں، جزیرہ عرب میں اور ان نشانیوں کے بعد ایک آگ پیدا ہوگی جو لوگوں کو یمن سے نکال کر ہانکتی ہوئی ان کے محشر ( سرزمین شام) کی طرف لے جائے گی ( مسلم۔ کتاب الفتن واشراط الساعہ ن)- بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت سے پہلے صفا پہاڑی پھٹے گی اس میں سے ایک جانور نکلے گا جو لوگوں سے باتیں کرے گا کہ اب قیامت نزدیک نزدیک ہے اور سچے ایمان والوں اور چھپے منکروں کی نشان دے کر جدا کردے گا۔ دابہ ن الارض سے متعلق بہت سے رطب و بابس اقوال و دریات بعض تفاسیر میں درج ہیں۔ مگر معتبر روایات سے تقریباً اتنا ہی ثابت ہے جو اوپر درج ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ ۔۔ : ” فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ “ ” وَزَعَ یَزَعُ “ (ف) سے مضارع مجہول ہو تو معنی ہے ” روکے جائیں گے “ اور ” أَوْزَعَ یُوْزِعُ “ (افعال) سے ہو تو معنی ہے ” الگ الگ تقسیم کیے جائیں گے۔ “ یعنی ہر امت میں سے اللہ کی آیات جھٹلانے والے لوگوں کے گروہ کو جمع کیا جائے گا، پھر جو لوگ آگے ہوں گے انھیں روک لیا جائے، تاکہ پیچھے والے ان سے آکر مل جائیں۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ ان کی الگ الگ قسموں کی جماعت بندی کی جائے گی، مثلاً چوروں، ڈاکوؤں، قاتلوں اور زانیوں وغیرہ میں سے ہر ایک کا الگ جتھا بنایا جائے گا۔ اس معنی کی تائید سورة صافات کی آیت (٢٢) اور سورة تکویر کی آیت (٧) سے ہوتی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - جس دن (قبروں سے زندہ کرنے کے بعد) ہم ہر امت میں سے (یعنی امم سابقہ میں سے بھی اور اس امت میں سے بھی) ایک ایک گروہ ان لوگوں کا (حساب کے لئے) جمع کریں گے جو میری آیتوں کو جھٹلایا کرتے تھے (پھر ان کو موقف کی طرف حساب کے لئے روانہ کیا جائے گا اور چونکہ یہ کثرت سے ہوں گے اس لئے) ان کو (چلنے میں پچھلوں سے آملنے کے واسطے) روکا جائے گا (تاکہ آگے پیچھے نہ رہیں سب ساتھ ہو کر موقف حساب کی طرف چلیں۔ مراد اس سے کثرت کا بیان ہے کیونکہ بڑے مجمع میں عادة ایسا ہوتا ہے خواہ روک ٹوک ہو یا نہ ہو) یہاں تک کہ جب (چلتے چلتے موقف میں) حاضر ہوجاویں گے تو (حساب شروع ہوگا اور) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماوے گا کہ کیا تم نے میری آیتوں کو جھٹلایا تھا حالانکہ تم ان کو اپنے احاطہ علمی میں بھی نہیں لاتے (جس کے بعد غور کرنے کا موقع ملتا اور غور کر کے اس پر کچھ رائے قائم کرتے، مطلب یہ کہ سنتے ہی بلا تدبر و تفکر، ان کی تکذیب کردی اور تکذیب ہی پر اکتفا نہیں کیا) بلکہ (یاد تو کرو اس کے علاوہ) اور بھی کیا کیا کام کرتے رہے (مثلاً انبیاء کو اور اہل ایمان کو ایذائیں دیں جو تکذیب سے بھی بڑھ کر ہے۔ اسی طرح اور عقائد کفریہ اور فسق و فجور میں مبتلا رہے) اور (اب وہ وقت ہے کہ) ان پر (بوجہ قائم ہوجانے جرم کے) وعدہ (عذاب کا) پورا ہوگیا (یعنی سزا کا استحقاق ثابت ہوگیا) بوجہ اس کے کہ (دنیا میں) انہوں نے (بڑی بڑی) زیادتیاں کی تھیں (جن کا آج ظہور ثابت ہوگیا) سو (چونکہ ثبوت قوی ہے اس لئے) وہ لوگ (عذر وغیرہ کے متعلق) بات بھی نہ کرسکیں گے (اور بعض آیات میں جو ان کا عذر پیش کرنا مذکور ہے وہ ابتداء میں ہوگا پھر بعد اقامت حجت کوئی بات نہ کہہ سکیں گے اور یہ لوگ جو امکان قیامت کے منکر ہیں تو حماقت محضہ ہے کیونکہ علاوہ دلائل نقلیہ صادقہ کے اس پر دلیل عقلی بھی تو قائم ہے مثلاً ) کیا انہوں نے اس پر نظر نہیں کی کہ ہم نے رات بنائی تاکہ لوگ اس میں آرام کریں (اور یہ آرام مشابہ موت کے ہے) اور دن بنایا جس میں دیکھیں بھالیں (جو کہ موقوف ہے بیداری پر اور وہ مشابہ حیات بعدالموت کے ہے پس) بلاشبہ اس (روزانہ خواب و بیداری) میں (امکان بعث پر اور ان آیات کے حق ہونے پر جو اس پر دال ہیں) بڑی دلیلیں ہیں (کیونکہ موت کی حقیقت یہ ہے کہ روح کا تعلق جسم سے زائل ہوجائے اور حیات ثانیہ کی حقیقت یہ ہے کہ یہ تعلق پھر عود کر آئے اور نیند بھی ایک حیثیت سے زوال ہے اس تعلق کا، کیونکہ نیند میں یہ تعلق ضعیف ہوجاتا ہے اور ضعف جبھی ہوتا ہے جبکہ اس کے مراتب وجود میں کوئی مرتبہ زائل ہوجائے، اور بیداری اس زائل شدہ مرتبہ وجود کے عود کا نام ہے اس لئے دونوں میں تشابہ تام ہوگیا اور نیند کے بعد بیداری پر اللہ تعالیٰ کی قدرت روزانہ مشاہدہ میں آتی ہے تو موت کے بعد زندگی بھی اس کی نظیر ہے وہ کیوں اللہ کی قدرت سے خارج ہوگا اور یہ دلیل عقلی ہر شخص کے لئے عام ہے مگر باعتبار انتقاع کے) ان (ہی) لوگوں کے لئے (ہے) جو ایمان رکھتے ہیں (کیونکہ وہ غور و فکر کرتے ہیں، اور دوسرے تدبر نہیں کرتے اور کسی نتیجہ پر پہنچنے کے لئے نظر و فکر ضروری ہے اس لئے دوسرے اس سے منتفع نہیں ہوتے) اور (ایک واقعہ ہولناک اس حشر مذکور سے پہلے ہوگا جس کا آگے ذکر ہے اس کی ہیئت بھی یاد رکھنے کے قابل ہے) جس دن صور میں پھونک ماری جاوے گی (یہ نفخہ اولی ہے اور حشر مذکور نفخہ ثانیہ کے بعد تھا) سو جتنے آسمان اور زمین میں (فرشتے اور آدمی وغیرہ) ہیں سب گھبرا جاویں گے (اور پھر مر جاویں گے اور جو مر چکے ہیں ان کی روحیں بیہوش ہوجاویں گی) مگر جس کو خدا چاہے (وہ اس گھبراہٹ سے اور موت سے محفوظ رہے گا۔ مراد ان سے حسب حدیث مرفوع جبرئیل و میکائیل و اسرافیل و ملک الموت و حاملان عرش ہیں پھر ان سب کی بھی بدون اثر نفخہ وفات ہوجاوے گی۔ کذا فی الدر المنثور، سورة الزمر) اور (دنیا میں جیسے عادت ہے کہ جس سے گھبراہٹ اور ڈر ہوتا ہے اس سے بھاگ جاتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ سے کوئی بھاگ نہ سکے گا بلکہ) سب کے سب اسی کے سامنے دبے جھکے حاضر رہیں گے (یہاں تک کہ زندہ آدمی مردہ اور مردے بیہوش ہوجاویں گے) اور (نفخہ کی یہ تغییر و تاثیر جانداروں میں ہوگی اور آگے بےجان چیزوں میں جو تاثیر ہوگی اس کا بیان ہے وہ یہ کہ اے مخاطب) تو (اس وقت) پہاڑوں کو ایسی حالت میں دیکھ رہا ہے جس سے (ان کے ظاہری استحکام کے سبب بادی النظر میں) تجھ کو خیال ہوتا ہے کہ یہ (ہمیشہ یوں ہی رہیں گے اور کبھی اپنی جگہ سے) جنبش نہ کریں گے حالانکہ (اس وقت ان کی یہ حالت ہوگی کہ) وہ بادلوں کی طرح (متخلخل اور خفیف اور اجزاء منتشرہ ہو کر فضائے آسمانی میں) اڑے اڑے پھریں گے (کقولہ تعالیٰ وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا، فَكَانَتْ هَبَاۗءً مُّنْۢبَثًّا، اور اس پر کچھ تعجب نہ کرنا چاہئے کہ ایسی ثقیل اور سخت چیز کا یہ حال کیسے ہوجاوے گا وجہ یہ کہ) یہ خدا کا کام ہوگا جس نے ہر چیز کو (مناسب انداز پر) بنا رکھا ہے (اور ابتداء میں کسی شئی میں کوئی مضبوطی نہ تھی کیونکہ خود اس شئے کی ذات ہی نہ تھی، پس مضبوطی کی صفت تو بدرجہ اولی نہ تھی سو جیسے اس نے معدوم سے موجود اور ضعیف سے قوی بنایا اسی طرح اس کا عکس بھی کرسکتا ہے کیونکہ قدرت ذاتیہ کی نسبت تمام مقدورات کے ساتھ یکساں ہے، بالخصوص جو چیزیں ایک دوسرے کی نظیر اور مشابہ ہیں ان میں تو زیادہ واضح ہے اسی طرح دوسری مخلوقات تو یہ آسمان و زمین وغیرہ میں تغیر عظیم ہونا دوسری آیات میں مذکور ہے وّحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةً ، فَيَوْمَىِٕذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَةُ ، وَانْشَقَّتِ السَّمَاۗءُ ، الخ پھر اس کے بعد نفخہ ثانیہ ہوگا جس سے ارواح ہوش میں آ کر اپنے ابدان سے متعلق ہوجاویں گی اور پورا عالم نئے سرے سے درست ہوجاوے گا اور اوپر جو حشر کا ذکر تھا وہ اسی نفخہ ثانیہ کے بعد ہوگا۔ آگے اصل مقصود یعنی قیامت میں جزاء و سزا کا بیان ہے۔ پس اول اس کی تمہید کے طور پر ارشاد ہے کہ) یہ یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے سب افعال کی پوری خبر ہے (جو جزاء و سزا کی پہلی شرط ہے اور دوسری شرائط بھی مثل قدرت و غیرہا مستقل دلائل سے ثابت ہیں، پس مجازات کا ممکن ہونا تو اس سے ظاہر ہے اور پھر حکمت مققنی ہے وقوع مجازات کو، اس سے جزاء و سزا کا واقع ہونا ثابت ہوگیا، تمہید کے بعد آگے اس کا وقوع مع اس کے قانون اور طریقہ کے بیان فرماتے ہیں کہ) جو شخص نیکی (یعنی ایمان) لاوے گا سو (وہ ایمان لانے پر جس اجر کا مستحق ہے) اس شخص کو اس (نیکی کے اجر مذکور) سے بہتر (اجر) ملے گا اور وہ لوگ بڑی گھبراہٹ سے اس روز امن میں رہیں گے (جیسا کہ سورة انبیاء میں ہے لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ ، الآیتہ) اور جو شخص بدی (یعنی کفر و شرک) لاوے گا تو وہ لوگ اوندھے منہ آگ میں ڈال دیئے جاویں گے (اور ان سے کہا جاوے گا کہ) تم کو تو انہی اعمال کی سزا دی جا رہی ہے جو تم (دنیا میں) کیا کرتے تھے (یہ عذاب بےوجہ نہیں)- معارف ومسائل - فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ ، وزع سے مشتق ہے جس کے معنے روکنے کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اگلے حصہ کو روکا جائے گا تاکہ پیچھے رہے ہوئے لوگ ساتھ ہوجاویں اور بعض حضرات نے وزع کے معنی یہاں دفع کے لئے ہیں یعنی ان کو دھکے دے کر موقف کی طرف لایا جائے گا وَلَمْ تُحِيْطُوْا بِهَا عِلْمًا، اس میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب خود ایک بڑا جرم و گناہ ہے خصوصاً جبکہ سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے کی طرف توجہ کئے بغیر ہی تکذیب کرنے لگیں تو یہ جرم دوہرا ہوجاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ غور و فکر کرنے کے باوجود حق کو نہ پاسکیں کہ ان کی نظر و فکر ہی گمراہی کی طرف لے جائے تو ان کا جرم کسی قدر ہلکا ہوجاتا ہے اگرچہ اللہ کے وجود اور توحید وغیرہ کی تکذیب پھر بھی کفر و ضلال اور دائمی عذاب سے نہیں بچائے گی کیونکہ یہ ایسے بدیہی امور ہیں جن میں نظر و فکر کی غلطی معاف نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ اُمَّۃٍ فَوْجًا مِّمَّنْ يُّكَذِّبُ بِاٰيٰتِنَا فَہُمْ يُوْزَعُوْنَ۝ ٨٣- حشر - ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔- الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] - - الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں - فوج - الفَوْجُ : الجماعة المارّة المسرعة، وجمعه أَفْوَاجٌ. قال تعالی: كُلَّما أُلْقِيَ فِيها فَوْجٌ- [ الملک 8] ، هذا فَوْجٌ مُقْتَحِمٌ مَعَكُمْ [ ص 59] ، فِي دِينِ اللَّهِ أَفْواجاً [ النصر 2] .- ( ف و ج ) الفوج کے معنی تیزی سے گزر نیوالی جماعت کے ہیں اس کی جمع افواج ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أُلْقِيَ فِيها فَوْجٌ [ الملک 8] جب اس میں ان کی کوئی جماعت ڈالی جائے گی ۔ هذا فَوْجٌ مُقْتَحِمٌ مَعَكُمْ [ ص 59] ایک فوج ( ہے تماہرے ساتھ ) داخل ہوگی ۔ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْواجاً [ النصر 2] غول کے غول خدا کے دین میں - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- وزع - يقال : وَزَعْتُهُ عن کذا : کففته عنه . قال تعالی: وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ- [ النمل 17] فقوله : يُوزَعُونَ [ النمل 17] إشارةٌ إلى أنهم مع کثرتهم وتفاوتهم لم يکونوا مهملین ومبعدین، كما يكون الجیش الکثير المتأذّى بمعرّتهم بل کانوا مسوسین ومقموعین . وقیل في قوله : يُوزَعُونَ أي : حبس أولهم علی آخرهم، وقوله : وَيَوْمَ يُحْشَرُ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ فصلت 19] فهذا وَزْعٌ علی سبیل العقوبة، کقوله : وَلَهُمْ مَقامِعُ مِنْ حَدِيدٍ [ الحج 21] وقیل : لا بدّ للسّلطان من وَزَعَةٍ وقیل : الوُزُوعُ الولوعُ بالشیء . يقال : أَوْزَعَ اللهُ فلاناً : إذا ألهمه الشّكر، وقیل : هو من أُوْزِعَ بالشیء : إذا أُولِعَ به، كأن اللہ تعالیٰ يُوزِعُهُ بشكره، ورجلٌ وَزُوعٌ ، وقوله : رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ [ النمل 19] قيل : معناه :- ألهمني وتحقیقه : أولعني ذلك، واجعلني بحیث أَزِعُ نفسي عن الکفران .- ( و ز ع ) وزعتہ عن کذا کے معنی کسی آدمی کو کسی کام سے روک دینا کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ النمل 17] اور سلیمان (علیہ السلام) کے لئے جنون اور انسانوں کے لشکر جمع کئے گئے اور وہ قسم دار کئے گئے تھے ۔ تو یوزعون میں نے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ عسا کر باوجود کثیر التعداد اور متفاوت ہونے کے غیر مرتب اور منتشر نہیں تھے جیسا کہ عام طور پر کثیر التعداد افواج کا حال ہوتا ہے بلکہ وہ نظم وضبط میں تھے کہ کبھی سر کشی اختیار نہیں کرتے تھے اور بعض نے یو زعون کے یہ معنی کئے ہیں کہ لشکر کا اگلا حصہ پچھلے کی خاطر رکا رہتا تھا ۔ اور آیت : ۔ وَيَوْمَ يُحْشَرُ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ فصلت 19] جس دن خدا کے دشمن دو زخ کی طرف چلائے جائیں گے تو ترتیب وار کر لئے جائیں گے ۔ میں یوزعون سے انہیں عقوبت کے طور پر روک لینا مراد ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَلَهُمْ مَقامِعُ مِنْ حَدِيدٍ [ الحج 21] اور ان کے مارنے ٹھوکنے ) کے لئے لوہے کے ہتھوڑے ہو نگے محاورہ ہے کہ سلطان کے لئے محافظ دستہ یا کار ندوں کا ہونا ضروری ہے ۔ جو لوگوں کو بےقانون ہونے سے روکیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ وزوع کے معنی کسی چیز پر فریضۃ ہونے کے ہیں اور محاورہ ہے : ۔ اوزع اللہ فلانا اللہ تعالیٰ نے فلاں کو شکر گزرای کا الہام کیا بعض نے کہا کہ یہ بھی اوزع باالشئی سے ماخوز ہے جس کے معنی کسی چیز کا شیدائی بننے کے ہیں تو اوزع اللہ فلانا سے مراد یہ ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی شکر گزاری کا شیدائی بنادیا اور رجل وزوع کے معنی کسی چیز پر فریضۃ ہونے والا کے ہیں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ [ النمل 19] اے پروردگار مجھے توفیق عنایت کر کہ جو احسان تونے مجھے کئے ہیں ان کا شکر کروں ۔ میں بعض نے اوزعنی کے معنی الھمنی کئے ہیں یعنی مجھے شکر گزاری کا الہام کر مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ مجھے شکر گزاری کا الہام کر مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ مجھے شکر گزاری کا اس قدر شیفۃ بنا کہ میں اپنے نفس کو تیر ی ناشکری سے روک لوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٣) اور قیامت کے دن ہم ہر امت میں سے ایک ایک گروہ ان لوگوں کا جمع کریں گے جو ہماری کتاب اور ہمارے رسول کو جھٹلایا کرتے تھے اور ان کو چلنے سے پچھلوں کے آ ملنے کے لیے روکا جائے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٣ (وَیَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ فَوْجًا مِّمَّنْ یُّکَذِّبُ بِاٰیٰتِنَا فَہُمْ یُوْزَعُوْنَ ) ” - گویا ان مجرموں کے جرائم مختلف درجوں میں ہوں گے۔ ان میں سے کوئی انکار میں بہت زیادہ سخت تھا ‘ کسی کی طبیعت میں کچھ نرمی کا پہلو تھا ‘ کوئی تکذیب کے ساتھ ساتھ استہزاء کرنے کا مجرم بھی تھا۔ چناچہ ان کے جرائم کی نوعیت اور کیفیت کے مطابق ان کی گروہ بندی کی جائے گی۔ یہ طریقہ انسانی فطرت اور طبیعت کے عین مطابق ہوگا کیونکہ سب انسان برابر نہیں۔ نہ تو اہل ایمان سب کے سب برابر ہیں اور نہ کفار و مشرکین سب ایک جیسے ہیں۔ ؂- نہ ہر زن زن است و نہ ہر مرد مرد - خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani